چراغ خانہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
چراغ خانہ
ام لبینہ سرگودھا
گیارہ سالہ ارم شاہزیب کو چپ کرواتے ہلکان ہوئی جارہی تھی اور شاہزیب تھا کہ منہ میں زبان نہیں ڈال رہا تھا۔ گھر کی حالت دیکھ کر لگتا تھا جیسے اچانک فوتگی کی خبر سنکر اہل خانہ بھاگم بھاک چلے گئے اور مہینوں بعد آکر گھر کھولا تو گھر دھول گرد غبار سے اٹا ہوا تھا، گندے بستر، بکھری چیزیں اور برتنوں سے بھرا سنک گھر والی کی توجہ سے محروم تھا۔
ماجد رات کو جب گھر واپس آیا تو اپنی یتیم بھانجی ارم کو جو سارا دن شازیہ کی غیر موجودگی میں شاہزیب کو گود میں لادے رہتی اور ماں کی عدم توجہ کی وجہ سے دبلے پتلے چڑچڑے شاہزیب کو دیکھ کر آپے سے باہر ہوگیا۔آج اس نے یہ فیصلہ کرنے میں ذرا تامل سے کام نہ لیا کہ وہ شازیہ کو اسکی ضد کے باوجو د سبق سکھا کر رہے گا کیونکہ پونے دو سال ہوگئے تھے اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے لیکن وہ سمجھتی تھی کہ ماجد کو تو ویسے ہی برداشت نہیں ہوتا کہ میں اس سے زیادہ کماتی ہوں اور میرا حلقہ احباب اس سے زیادہ وسیع ہے او رپھر میرے پڑھنے کا کیا فائدہ ؟اگر میں بھی جاہل عورتوں کی طرح برتن مانجھتے اور پوچے لگاتے زندگی بِتادوں۔ ہر گز نہیں! یہ تو اپنی پڑھائی کو ضائع کرنے والی بات ہے۔
ادھر ماجد پچھتا رہا تھا کہ کونسی بری گھڑی تھی جب اس نے نوکری کرنے والی لڑکی سے شادی کی حامی بھری تھی اور نوکری بھی نجی ٹرانسپورٹ کمپنی میںہوسٹس کی، اس سے تو اچھا تھا وہ کسی سیدھی سادی دیہاتی لڑکی سے شادی کر لیتا جو اس کی ماں کی طرح گھر کو صاف ستھرا رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی خدمت کرتی اور محبتیں نچھاور کرتے نہ تھکتی۔ کیونکہ اس نے اپنے ابا جان کے ایسے ہی عیش دیکھے تھے اوروہ اس خیال میں تھا کہ ایک ان پڑھ عورت ایسی ہوسکتی ہے تو پڑھی لکھی تو اس بدر جہا بہتر ہوگی لیکن یہاں تو گنگا ہی الٹی بہہ رہی تھی۔
ماجد بازار سے دودھ اور کھانا لے کر آیا تو ارم اور شاہزیب اس کے آنے تک بھو کے ہی سو چکے تھے۔ ارم شاہزیب کو تھپکتے تھپکتے بیڈ پر بیٹھی بیٹھی نیند سے بے بس ہوکر ایک طرف کو کمبل پر لڑھکی ہوئی تھی اور شاہزیب آدھا اس کی گود میں تھا اور اس کے پاﺅں بیڈ سے نیچے لٹک رہے تھے۔ ماجد نے دونوں کو اٹھا کر سیدھا کیا اور ان پر کمبل اوڑھا کے کچن میں آکر دودھ ابالنے لگا۔ ادھرماجد اپنی پریشانیوں کے بھنور میں تھا ادھر دودھ ابل ابل کر پتیلی خالی ہوچکی تھی۔
اسے رہ رہ کر آج شازیہ پر غصہ آرہا تھا ساڑھے گیارہ کے قریب وقت تھا جب شازیہ نے بیل بجائی تو ماجد دروازہ کھولنے گیا،”ہیلو! کیسے ہیں آپ؟“ شازیہ نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا اور پر س صوفے پر پھینک کر واش روم میں چلی گئی۔ ہاتھ منہ دھوکر نکلی ہی تھی کہ اس کا موبائل بج اٹھاتو وہ اپنی کولیگ، جو آج چھٹی پر تھی، اس سے باتوں میں مصروف ہوگئی گپ شپ کے بعد جب اس نے ماجد کوسوچوں میں گم دیکھا تو بولی ”کیا بات ہے آج پریشان ہیں کوئی خاص بات ہوئی ہے؟“
”نہیں نہ کوئی خاص بات ہے اور نہ کوئی نئی بات، ہے بھی عام اور ہے اور پرانی، لیکن آج دو ٹوک بات ،صرف دولفظوں، میں اس سے زیادہ کچھ نہیں میں سنوں گا میں آج کسی فیصلے پرپہنچنا چاہتا ہوں، بس! میری برداشت جواب دے گئی ہے۔ “
”ماجد ہوا کیا ہے کیوں ا س طرح ہو رہے ہو؟ تمہیں اس با ت کا احساس نہیں ہے کہ میں سارا دن کی تھکی ہاری ہوئی آتی ہوں،بس ہوسٹس کی نوکری میں لوگوں کے سامنے مصنوعی مسکراہٹیں بکھیرتے اور سر!میڈم! کہتے ہوئے اور سرونگ کرتے کرتے بس ہو جاتی ہے اور گھر آﺅ تو جناب کہتے ہیں ان کی چاکری کروںمسکراتی ان کے آگے پیچھے پھروں اور پکوان بنا بنا کر پیش کروں اور بچے کو لوریاں سناﺅں، ناں بابا ناں! اتنی ہمت میرے اندرنہیںہے۔ “
”بس کرو شازیہ بس بہت ہوگئی ،الٹا چور کوتوال کوڈانٹے قصور وار خود ہو اورچڑھائی مجھ پرکررہی ہوبتاﺅبچے سنبھالنا ماں کی ذمہ داری نہیں تو اور کس کی ہے؟ گھرکی دیکھ بھال تمہاری نہیںتو اور کس کی ذمہ داری ہے؟ خاوند کی خدمت تو ایک طرف تم تو ایک بار مسکرا کر دیکھنے کی روادار نہیں ہو کہ تم سارادن لوگوں کو مسکرا ہٹیں نچھاور کر کے تھک جاتی ہو بتاﺅ تمہاری تعلیم تمہیں یہ سبق تو ہرگز نہیں دیتی ناں کہ تم اپنے فرائض کو گول کردو اور جو تمہارا ذاتی شوق ہے اسے اپنے اوپر حاوی کر لو۔
عورت تو گھر کو جنت بنا دیتی ہے۔ تم نے اسے ایک کباڑخانہ اور صرف ایک سرائے سمجھا ہو اہے اور شوہر کو تم صرف اس حد تک حیثیت دیتی ہو کہ تم فلاں کی منکوحہ ہو۔ دیکھواوراچھی طرح سے غور کرو کیا تم درست کر رہی ہو؟
ماجد یہ کہہ رہا تھا اور شازیہ کا سر ندامت سے جھکا جارہا تھا، گود میں رکھے ہاتھوں پر آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گر رہے تھے اور وہ سوچ رہی تھی کہ واقعی! حقیقی تعلیم عورت کو چراغ خانہ بناتی ہے نہ کہ شمع محفل۔