غازی میاں محمد شہید

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
غازی میاں محمد شہید
فیاض الرحمٰن گنجیال
میاں محمد5 1 9 1 ءمیں تلہ گنگ میں پیدا ہوئے والد ماجد کا نام صوبے دار غلام محمد تھا جو اعوان برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ 5 سال کی عمر میں میاں محمد پرائمری سکول میں داخل ہوئے پرائمری کے بعد ہائی سکول میں داخل ہوئے لیکن ساتویں جماعت تک پڑھنے کے بعد ان کاجی تعلیم سے اچاٹ ہوگیا۔دس سال کی عمر میں دڑائیونگ سیکھنے کا شوق پیدا ہوا توایک ٹرانسپورٹ کمپنی میں ملازم ہوگئے اور تلہ گنگ سے میانوالی جانے والی بس چلانے لگے لیکن بہت جلد اس سے بھی جی بھر گیا۔1 3 9 1 ءمیں گاﺅں واپس آگئے3 3 9 1 ءمیں انڈین نیوی میں بھرتی ہوگئے اور اسی دوران ان کی شادی ہوگئی۔ انڈین نیوی میں ابھی بمشکل ڈیڑھ سال گزرا تھا کہ کھیل کے دوران ساتھی سے بدکلامی کی وجہ سے ہاکی سے اسے پیٹ ڈالا، ا ٓرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلا اور ملازمت سے برطرف کردئیے گئے۔
2 جنوری 5 2 9 1 ءکو بلوچ رجمنٹ میں بطور سپاہی بھرتی ہوئے ابتدائی ٹرینگ کراچی سے حاصل کرنے کے بعد اسی سال اکتوبر میں مدراس چھاﺅنی بھیج دئیے گئے۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں قدرت نے ان سے ایک غیر معمولی کام لینا تھا اور اس کے لیے وہ مختلف مقامات پر پھرتے پھراتے بالآخر یہاں پہنچے تھے۔ 6 1 مئی 7 3 9 1 ءکی شب کا ابھی آغاز ہواتھا مدراس چھاﺅنی کے فوجی ڈیوٹی سے فارغ ہوکر مختلف گروپوں میں بیٹھے خوش گپیوں میں مشغول تھے انہی میں سے ایک طرف چند مسلمان نعت شریف سننے میں محو تھے، اتفاق سے نعت سنانے والا ایک ہندو تھا جو بڑی خوش الہانی اور عقیدت مندی سے نعت سنا رہا تھا۔ قریب ایک ہندو ڈوگرے سپاہی نے جب ایک ہندو کواتنی عقیدت سے نعت سناتے دیکھا تومارے تعصب کے جل کر کبا ب ہوگیا۔
اس نے باآواز بلند آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے نعت پڑھنے والے کو کہا”محمدکو........کرو کسی اور کاذکر کرو،تو کیسا ہندوہے؟ تو ہندو دھرم کا مجرم ہے تیرا بار معاف نہیںکیا جاسکتا۔“ مسلمان سپاہیوں نے ہندو ڈوگرے کی یہ بدزبانی سنی تو خون کے گھونٹ پی کر رہ گئے لیکن میاں محمد، آقا ﷺ کی گستاخی سن کر تڑپ اٹھے اور ڈوگرے سپاہی سے کہا” تیرے مذہب کو یہ سعادت حاصل ہوئی ہے کہ حضور ﷺ کے نام مبارک سے اطمینان قلبی حاصل کرے اس لیے وہ آپ ﷺ کی نعت پڑھ رہا ہے تجھے اپنے خبیث باطن کی وجہ سے یہ بات پسند نہیں ہے تو یہاں سے چلا جا خبردار آئندہ ایسی بکواس نہ کرنا۔“ یہ سن کر ڈوگرا سپاہی بولا” میں تو بار بار ایسے ہی کہوں گا تم سے جو ہوتا ہے کرلو۔“ یہ بے ہودہ جواب سن کر میاں محمد کا خون کھول اٹھا ایک ہندو ڈوگرے نے انکی حمیت ایمانی کو للکارا تھا۔
انہوں نے بڑی مشکل سے اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے کہا”آئندہ اپنی ناپاک زبان سے حضور ﷺ کی شان میں گستاخی کاجملہ کہنے کی جرات نہ کرنا ورنہ یہ بدتمیزی بہت جلد تجھے ذلت ناک موت سے دو چار کردے گی۔“ وہ اپنی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ کرچکے تھے انہوں نے عشاءکی نماز اد اکی پھر سجدے میں گڑ گڑا کر دعا کی” اے اللہ! میں نے تہیہ کر لیا ہے کہ تیرے محبوب کی گستاخی کرنے والے کاکام تمام کر دوں گامجھے حوصلہ عطا فرما اور ثابت قدم رکھ مجھے بھی اپنے محبوب کے عاشقوں میں شامل کرکے میری قربانی منظور فرمالے۔“ نماز سے فراغت کے بعد میاںمحمد گارڈ روم گئے اپنی رائفل نکالی میگزین لوڈ کیا اور باہر نکلتے ہی چرن داس کو للکار کرکہا” کم بخت! اب بتا نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے پر باز پرس کا حق رکھتا ہوں یانہیں؟ “وہ ڈیوٹی دے رہا تھا اس سے پہلے کہ وہ پوزیشن سنبھالتا، ناموس رسالت کے شیدائی کی گولی اس کو ڈھیر کر چکی تھی۔
رائفل کی دس گولیاں اس کے جسم سے پار کرنے کے بعد میاں محمد نے سنگین کی نوک سے اس کے منہ پر پے درپے وار کئے سنگین سے وار کرتے ہوئے آپ کہتے” اس ناپاک منہ سے تو نے میرے رسولﷺ کی شان میں گستاخی کی؟“ چرن داس کو واصل جہنم کرنے کے بعد میاں محمد نے کمانڈنگ افسر سے کہا” کسی مسلمان افسر کوبھجواﺅ تاکہ میں رائفل پھینک کر خود کو گرفتاری کے لیے پیش کردوں۔“ چنانچہ آپ کے علاقے کے ایک مسلمان جمعہ دار عباس خان کو بھیجا گیا گرفتاری کے بعد غازی کو پوری پلٹن کے سامنے بلا کر انگریز کمانڈنگ افسر نے پوچھا” تم نے ایسا کیوں کیا؟“ غازی نے جواب دیا”چرن داس نے حضور ﷺ کی شان مین گستاخی اوربد کلامی کی میں نے اسے روکا وہ باز نہ آیا میںنے اسے ہلاک کردیا۔اب آپ کا جیسے جی چاہے قانونی تقاضے پورے کریں۔“
اس پر خود کمانڈنگ افسر نے تاکید کی کہ میاں ذرا سوچ کر بات کروہوش میں آﺅ تمہارے ابتدائی بیان قلم بند ہو رہے ہیں ان میں رد وبدل نہ ہوسکے گی۔ غازی نے فرمایا” میں ہوش میں ہوں میںنے جو کچھ کیا سوچ سمجھ کر کیا، میرا ایک ایک حرف صداقت پر مبنی ہے۔“ 4 1 اگست کو غازی صاحب کا کورٹ مارشل شروع ہوا، پانچ دن کاروائی ہوئی کل اٹھارہ گواہوں کے بیانات قلم بند ہوئے، تین ڈاکٹروں کی شہادتیں ریکارڈ پر آئیں۔ جرح کے دوران ان کے وکیل نے یہ موقف اختیار کیاکہ غازی نے جو کچھ کیا ہماری رائے میں وقوعہ کے وقت وہ اپنے جذبات کو قابو میں نہیں رکھ سکاتھا۔ لیکن غازی اپنے ابتدائی بیان پرڈٹے رہے” میںنے جو کچھ کیا خوب سوچ سمجھ کر کیا اور یہی میر افرض تھا، چرن داس نے آپ ﷺکی شان میں گستاخی کی سو میں نے اس کو ہلاک کردیا۔“
کورٹ مارشل کے دوران ان کے وکیل نے کہا کہ وہ یہ کہیں کہ میں نے گولی اپنی جان بچانے کے لیے چلائی کیونکہ چرن داس بھی مجھ پر حملہ کرنا چاہتا تھا لیکن غازی صاحب نے سختی کے ساتھ اس تجویز کو مسترد کردیا اور فرمایا” میری ایک جان تو کیا اگر میری ہزاروں جانیں بھی ہوتیں تو آقا ئے نامدار کی شان میںقربان کردیتا۔“ 3 2 ستمبر7 3 9 1 ءکو پلٹن نے غازی کو سزائے موت کا حکم سنایا جس کا جواب غازی نے مسکرا کر دیا۔ 5 1 اکتوبر 7 3 9 1 ءکو وائسرائے ہند کے پاس اپیل کی گئی جو مستردکردی گئی۔ اپیل مسترد ہونے کے بعد فوجی حکام نے 2 1 اپریل1 3 9 1 ءکو سزا پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔ جن لوگوں نے آخری وقت میں آپ کی زیارت کی ان کا کہنا ہے کہ چہرے پر سرور و تازگی اور آنکھوں میں چمک کہیں زیادہ ہوگئی تھی۔ والدین سے آخری ملاقات میں ہنس ہنس کر باتیں کرتے رہے۔ اس موقع پر آپ کی والدہ اپنے3 2 سالہ جواں سال بیٹے کا دیوانہ وار کبھی سر چومتی کبھی چہرہ۔ والد محترم نے بہ ہزار مشکل اپنے آپ کو سنبھالے رکھا۔
1 1 -اپریل کی رات انہیں مدراس سول جیل لے جایاگیا،رات بھر آپ عبادت میں مشغول رہے تہجد کے بعد غسل کیا سفید لباس زیب تن فرمایا پھر آپ کو تختہ دار کی طرف لے جایا گیا تختہ دار پر کھڑے ہوتے ہی نعرہ تکبیر بلند کیاپھر مدینہ کی طرف رخ کرکے فرمایا” سرکار! میں حاضر ہوں“ اور پھانسی کا پھنداآپ کے گلے میں ڈال دیاگیا اور تختہ دار کھینچ دیا گیا۔ دیکھنے والوں نے دیکھاکہ آپ کے چہرے پر برستاہوانور اور فزوں ہوگیا فضاءکی عطر خیزی کچھ اور بڑھ گئی، یہ ۰1 صفر المظفر 7 5 3 1 ھ بمطابق2 1 اپریل1 3 9 1 ءکی صبح تھی وقت پانچ بج کرپینتالیس منٹ۔
شہادت کے وقت اس عاشقِ رسول کا چہرہ ہشاش بشاش تھا وہ تختہ دار پر نہ تڑپے نہ گردن لٹکی۔ ڈاکٹر کی تصدیق کے بعد جسد خاکی کو ورثاءکے حوالہ کر دیا گیا۔ شہادت کے وقت کھلتی ہوئی سفید رنگت والے اس خوبصورت نوجوان غازی میاںمحمد شہید کی عمر صرف 3 2 سال تھی۔ انہیں مدراس سینٹرل ریلوے اسٹیشن سے تین میل دور ایک بڑے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔
ایک مسلمان کتنا ہی کمزور ایمان والا کیوں نہ ہو آپ ﷺ کی شان میں گستاخی کو ہر گز برداشت نہیںکرسکتا۔میری بہنو ! تمہیں چاہئے کہ تم اپنے بچوں کی ایسی تربیت کرو کہ وہ بچپن ہی سے غازی عامر چیمہ شہیدؒ اور غازی میاں محمد شہیدؒ بننے کی ٹھان لیں۔ اللہ تعالی ہمیں ناموس رسالت کا تحفظ کرنے کی توفیق نصیب فرمائیں۔
نہ جب تک کٹ مروں خواجہ یثرب کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا