رمضان کے روزے اور زکوۃ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
رمضان کے روزے اور زکوۃ
مولانا عاشق الہی بلند شہری
رمضان کے روزے:
رمضان کے روزے ہر بالغ مسلمان مرد وعورت پرفرض ہیں ، اسلام کے پانچوں ارکان جس پر اسلام کی بنیاد ہے اس میں رمضان شریف کے روز ے رکھنا بھی ہے۔ بہت سے مرد وعورت بیڑی وسگریٹ یا پان کھانے کی عادت ہونے کی وجہ سے بھوک وپیاس سے توبچتے ہیں مگرقبراورحشر کی سختیوں اوردوزخ کی بھوک پیاس اوردوسر ے عذابوں سے بچنے کی فکر نہیں کرتے، خدا کی نافرمانی کرنے کہ وجہ سے مرنے کے بعد جوعذاب ہوں گے ان کے سامنے چند گھنٹہ کی بھوک وپیاس سے پان، بیڑی اور سگریٹ کی طلب کودباکرجوذراسی تکلیف ہوتی ہے اس کی کیا حقیقت ہے؟
حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” قرآن شریف اورروز ے بندے کے لیے(خداوندکریم سے)سفارش کریں گے(کہ پروردگارتواس بخش دے اوراس پررحم فرما) روزہ کہے گا اے رب میں نے اس کودن میں کھانے سے اور نفس کی خواہشوں سے روک دیا تھا،لہذا میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما اورقرآن کہے گا:” اے رب!اس نے مجھے رات کو نماز میں کھڑے ہوکر پڑھا اورمیں نے اس کورات سونے سے روک دیا۔ لہذااس کے حق میں آپ میری سفارش قبول فرمائیے۔“ الحاصل دونوں کی سفارش قبول کرلی جائے گی۔ روزہ دارکااللہ کے نزدیک بڑا مرتبہ ہے حضرت رسول مقبول نے فرمایا: ” روزہ دارکے منہ کی بُو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ عمدہ ہے۔“ اوریہ بھی ارشاد فرمایا:”روزہ دار کے لیے دوخوشیاں ہیں، ایک خوشی اس وقت حاصل ہوتی ہے جب کہ افطارکرتاہے، دوسری خوشی اس وقت حاصل ہوگی جب کہ وہ اپنے پروردگارسے ملاقات کرے گا۔“ لہذا تم پابندی کے ساتھ رمضان شریف کے روز ے رکھاکرو اور رمضان کے روزہ کو ہرگز نہ چھوڑو سخت بیماری یالمبی مسافرت کی وجہ سے روزہ چھوٹ جائے توجلدی اس کی قضا رکھ لو، ہرچیز کاموسم اورسیزن ہوتاہے موقعہ موقعہ سے ہر چیز کی قیمت بڑھتی رہتی ہے، رمضان شریف کے روزوں کی اتنی بڑی عظمت اورقیمت ہے کہ اس کے بار ے میں حضرت رسول مقبول نے فرمایا:”جس نے بغیر کسی شرعی اجازت یا بغیر کسی ایسے مرض کے جس میں بعد میں رکھنے کی نیت سے روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے رمضان کا ایک روزہ چھوڑدیا،اگر ساری عمر اس کے بدلہ روزہ رکھے، تب بھی اس کا بدلہ نہیں ہوسکتا(اگرچہ قضا رکھنے سے حکم کی تعمیل ہوجائے گی، مگر مرتبہ کے اعتبار سے وہ بات کہاں جو رمضان کا روزہ رکھ کر حاصل ہوتی ہے)
رمضان شریف کا مہینہ بہت مبارک ہے، حدیث شریف میں آیا ہے کہ اس مہینہ میں ایک فرض کا ثواب ستر فرضوں کے ثواب کے برابر ملتا ہے اور نفل کا م کا ثواب فرض کے ثواب کے برابرملتا ہے۔
اس مبارک مہینہ میں شیطان باندھ دیے جاتے ہیں، رحمت کے درواز ے کھول دیے جاتے ہیں، اوراس میں خصوصیت کے ساتھ فرض نماز کی پابندی کرتے ہوئے نفل نماز اورتلاوت قرآن شریف زیادہ سے زیادہ کرواور رات کوتراویح پڑھو۔ لاالہ الااللہ زیادہ پڑھنا، استغفار بہت زیادہ کرنا، جنت کا سوال اوردوزخ کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگنا ان باتوں کا خیال رکھو اور عمل کرو، بہت سے عورتیں سمجھتی ہیں کہ تراویح کی نماز صرف مردوں کے لیے ہے، عورتوں کے لیے نہیں، یہ بالکل غلط ہے۔ مرد عورت سب کو پڑھنا ضروری ہے، اس مبارک مہینہ میں سخاو ت بہت کرو، محتاجو ں کو خوب دو، بھوکوں کو کھانا کھلاﺅ، نوکروں کاکام ہلکاکردو اورروزہ داروں کا روزہ افطارکرایاکرو۔
اس مہینہ میں شب قدر بھی ہوتی ہے اس رات میں عبادت کرنا ہزار مہینوں کی عبادت سے بہترہے، رمضان کے آخری دس دنوں میں 21،23،25،27،29 ان تاریخوں سے پہلے جوراتیں ہیں ان میں بھی رات بھر خوب عبادت کرو، ان میں سے کوئی نہ کوئی شب قدرہوتی ہے اورآخرت کا نفع زیادہ کمانے کے لیے اعتکاف کرنا بھی بڑے ثواب کاکام ہے۔
رمضان شریف کی بیسویں تاریخ کوسورج چھپنے سے پہلے اعتکاف میں بیٹھ جاوے اورعید کا چاند نظر آجاو ے تو اعتکاف کی جگہ سے نکل آوے۔ حضرت رسول مقبول نے فرمایا:”اعتکاف کرنے والا گناہوں سے محفوظ رہتاہے اور اس کے لیے ان نیکیوں کے کرنے کا ثواب بھی ملتاہے جو بے اعتکاف والے چل پھرکرکرتے ہیں۔
مسئلہ: مردوں کو ایسی مسجد میں اعتکاف کرنا درست ہے جس میں پانچوں وقت جماعت سے نماز ہوتی ہواورعورت اپنے گھر کی مسجد میں یعنی اس جگہ اعتکاف کرے جو گھر میں نماز پڑھنے کے لیے مقررکررکھی ہے، اگر کوئی جگہ مقرر نہ ہوتو گھر کے کسی کونہ کو مسجد مقرر کرکے اعتکاف کےلیے بیٹھ جاوے، یہ بڑے ثواب کا کام ہے اورعورتوں کے لیے بہت سہل(آسان ) ہے کہ اپنی اعتکاف کی جگہ بیٹھی تلاوت کرتی رہیں اوروہیں بیٹھے ہوئے لڑکیوں اورنوکرانیوں کو گھر کاکام کاج بھی بتاتی رہیں، اس قدر آسانی ہونے پر بھی عورتیں اتنی بڑی نیکی سے محروم رہتی ہیں۔
مسئلہ: اعتکاف کی جگہ سے پیشاب پاخانہ کے لیے نکلنا درست ہے، کھانے پینے کی چیزیں اسی جگہ منگا کرکھالیو ے اورہروقت اسی جگہ رہے اسی جگہ سوئے اورنفلوں میں، تلاوت میں اور تسبیحوں میں لگی رہے۔
مسئلہ: یہ جو مشہور ہے کہ اعتکاف میں کسی سے بات کرنا درست نہیں، یہ غلط ہے بلکہ اسی جگہ بیٹھے بات کرنا، گھر کاکام کاج بتانا بھی درست ہے۔(ہاں البتہ فضول دنیاوی باتیں کرنا درست نہیں )
مسئلہ: اعتکاف میں اگر ہر مہینہ والی عورتوں کی مجبوری شروع ہوجاو ے تو اعتکاف چھوڑ دے ا ور بعد میں خاص اسی دن کے اعتکاف کی قضا کرلیوے جس روز سے یہ مجبوری شروع ہوئی۔
مسئلہ: قضا اعتکاف کے لیے روزہ رکھنا بھی ضروری ہے۔ نفلی روزوں کا بڑا ثواب ہے، عید کے دن کا روزہ اوربقر عید کی دسیوں گیارھویں، بارھویں، تیرھیوں تاریخ کے روزے رکھنا حرام ہیں ان کے علاوہ سال بھر میں جتنے چاہے نفلی روز ے رکھے اورخوب ثواب کماوے، مگر یہ مسئلہ یاد رکھو کہ اگر شوہر گھر پر ہو تو اس کی اجازت کے بغیرنفلی روزہ رکھنا درست نہیں ہے۔ بہت سی عورتیں اس مسئلہ کا خیال نہیں کرتیں۔
ہر پیر اورجمعرات کو روزہ رکھنا بہت ثواب ہے، حضرت رسول مقبول نے فرمایا:”ان دو دنوں میں اعمال اللہ کے سامنے پیش ہوتے ہیں لہذا میں اس کو پسند کرتاہوں کہ میرا عمل اس حال میں پیش ہوکہ میرا روزہ ہو۔ اور رمضان شریف کے روزے رکھ کر عید کے مہینے میں چھ روزے رکھ لینے سے پورے سال کے روزے رکھنے کا ثواب ملتاہے۔حدیث شریف میں یہ بھی ہے کہ بقر عید کی اول تاریخ سے 9تاریخ تک روز ے رکھنے کا ثواب ملتاہے۔
حدیث شریف میں یہ بھی ہے کہ بقر عید کی اول تاریخ سے9تاریخ تک روزے رکھنے سے ہر روزہ کا ثواب ایک سال کے روزوں کے برابر ہے اوربقرعید کی خاص نویں تاریخ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” میں اللہ تعالیٰ سے پختہ امید رکھتا ہوں کہ اس کی وجہ سے ایک سال پہلے کے گناہ معاف فرمادیں گے۔ اس سے چھوٹے گناہ مراد ہیں اور وہی زیادہ ہوتے ہیں، ذراسی بھوک وپیاس برداشت کرنے پر اتنا انعام! اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی رحمت ہے۔
شب برات کے متعلق حدیث شریف میں آیا ہے کہ شب برات کے مہینہ کی پندرھویں رات ہو تو نوافل نماز ادا کرواورصبح کوروزہ رکھو، چاند کی ہر تیرھیوں، چودھیوں اور پندرھویں تاریخ کو روزہ رکھنے کی بڑی فضیلت آئی ہے ہم نے نفل روزوں کی فضیلتیں لکھ دی ہیں جس سے جتنا ہوسکے اور جتنی ہمت کرسکے عمل کرے۔
تنبیہ: ہر مہینہ کی عورتوں والی مجبوری کی وجہ سے جو رمضان شریف کے روزے چھوٹ جاتے ہیں ان کی جلد سے جلد قضا رکھ لو، بہت سی عورتیں اس میں سُستی کرتی ہیں، پھر کئی سال کے ملا کر بہت سے روزے جمع ہوجاتے ہیں تو قضا رکھنے کی ہمت نہیں پڑتی اورموت آگھیرتی ہے، گنہگارمرتی ہے۔
تنبیہ: فرض روزہ ہو یا نفل روزہ، ہرصورت میں روزہ کی عزت کرو۔یعنی روزہ رکھ کرغیبت، جھوٹ، چغلی، گالی دینے اور نامحرم کو دیکھنے سے پرہیزکرواورہرگناہ سے بچو، یوں توہرگناہ ہر حال میں بُرااوربربادکرنے والاہے، مگر روزے کی حالت میں گناہ کرنے سے روزہ کی برکت، رونق اور اس کافائدہ ختم ہوجاتاہے اورثواب بھی گھٹ جاتا ہے حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” بہت سے روز ے دار ایسے ہوتے ہیں جن کو بھوک اورپیاس کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ وہ روزہ کا فائدہ اورثواب، غیبت، جھوٹ، چغلی اورگناہوں میں پڑکرضائع کردیتے ہیں اوریہ بھی فرمایاکہ جو شخص روزہ رکھ کرجھوٹی باتوں اورخراب کاموں کونہ چھوڑے تواللہ کو اس کی کچھ ضرورت نہیں کہ وہ شخص اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔
مسئلہ: روزے میں مسواک کرنا، سرمہ اورتیل لگانا درست ہے۔
مسئلہ: اگر رات کوغسل فرض ہوجائے اورصبح ہونے سے پہلے غسل نہ کرسکو تواسی حالت میں روزہ کی نیت کرلو، صبح ہونے پر یا سورج نکلنے پرغسل کر لینا چاہیے۔
مسئلہ: اگرکسی پرغسل فرض ہواور اس نے روزہ کی نیت کر لی اورروزہ رکھ لیا اوردن بھر غسل نہ کی اورنہ نماز پڑھی تب بھی روزہ ہوجائے گا۔ روزہ چھوڑنے کا گناہ نہ ہوگا البتہ نماز چھوڑنے کا گناہ ہوگا۔
زکوٰة:
زکوة اسلام کا تیسرا رکن ہے جس پر زکوٰة فرض ہوئی اور اس نے زکوة ادا نہ کی تو اس کو بڑا عذاب ہوگا۔ حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا، پھراس نے زکوٰةادا نہ کی تو قیامت کے روز اس کا مال زہر یلا گنجا سانپ بنا دیا جائے گا جس کی آنکھوں پردو سیاہ نقطے ہوں گے وہ سانپ اس کے گلے میں طوق کی طرح لپٹ جائے گا، پھر اس کے دونوں جبڑے پکڑ کر نوچے گا، پھر یوں کہے گا کہ” میں تیرامال ہوں ، میں تیرا خزانہ ہوں۔ “یہ مضمون قرآن مجید کی ایک آیت میں بھی آیاہے، اس مضمون کو ارشاد فرماکرحضرت رسول کریم نے وہی آیت تلاوت فرمائی۔
حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ” جس کے پاس سونا چاندی ہو(اور)اس میں سے وہ اس کا حق ادانہ کرے تو جب قیامت کا دن ہوگا تو اس کو(عذاب دینے کے لیے ) آگ کی تختیاں بنائی جاویں گی پھر ان کو دوزخ کی آگ میں گرم کرکے اس کی کروٹیں، پیشانی اور پیٹھ(یعنی کمر)کوداغ دیا جاوے گا اور جب ٹھنڈی ہوجاویں گی پھر آگ میں تپا کر داغ دیا جائے گا اس دن میں جو پچاس ہزار برس کا ہوگا(یعنی قیامت کا دن)یہاں تک بندوں کے درمیان فیصلہ ہو(اس کویہی عذاب ہوتا رہے گا)پس وہ(حساب وکتاب کے نتیجہ میں )اپنا راستہ جنت کی طرف یا دوزخ کی طرف دیکھ لے گا۔
خدا کی پناہ! بھلا ایسے سخت عذاب کی کس کو سہار ہے۔ تھوڑے سے لالچ اورفنا ہونے والے مال کی محبت میں اتنی بڑی مصیبت بھگتنے کے لیے اپنی جان کوتیار کرنا بڑی بے وقوفی اور نادانی کی بات ہے، خدا کا دیا ہومال خدا کی راہ میں خدا ہی کاحکم ہوتے ہوئے خرچ نہ کرنا، سخت گناہ اور بے غیرتی ہے۔ اگر تم پر زکوٰة فرض ہے تو زکوٰةادا کرو اوراپنے عزیزوں رشتہ داروں کو بھی زکوٰة دینے کے لیے آمادہ کرواپنے عزیزوں کی یہی خیرخواہی ہے کہ ان کو آخرت کے عذاب سے بچایا جائے بہت سی عورتوں کے پاس زیور ہوتا ہے مگر اس کی زکوٰة ادا نہیں کرتی ہیں شاید آخرت کے عذاب میں اپنی جان جھونکنے کو اچھا کام سمجھتی ہوں گی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں جگہ جگہ زکوة اداکرنے کا حکم فرمایاہے عالموں نے بتایاہے کہ قرآن شریف میں 33 جگہ نماز کے ساتھ زکوة کی ادائیگی کاتذکرہ ہے اورجہاں جہاں صرف زکوٰة کا ذکرہے وہ اس کے علاوہ میں پارہ آلٓمٓ میں اللہ تعالی نے فرمایا:”نماز قائم کرو اور زکوة اداکرواور جوکچھ اپنی جانوں کے لیے کوئی بھلائی پہلے سے بھیج دو گے اسے اللہ کے پاس پا لوگے اورحضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”بلا شبہ اللہ تعالی نے زکوة اسی لیے فرض کی ہے کہ باقی مال کو پاکیزہ بنادے۔“ ایک حدیث میں ہے کہ” بلاشبہ تمہارے اسلام کی تکمیل اس میں ہے کہ مالوں کی زکوة اداکرو۔“
زکوة سے مال کا شردورہوجاتاہے:
حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جوشخص مال کی زکوة اداکرد ے تو اس کا مال شر سے دور ہو جاتا ہے شر سے مراد برائی اورخرابی ہے،مال سے فائدے بھی ہیں اورنقصان بھی کافی پہنچ جاتاہے۔ حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”زکوة دینے سے مال کی خرابی دور ہو جاتی ہے،یعنی اگر پابندی کے ساتھ خوب حساب کرکے پوری طرح زکوة اداکی جائے تو وہ مال نہ توآخرت کے عذاب کا سبب بنے گا نہ دنیا میں برباد ہوگا، نہ اس کی وجہ سے اورکوئی مصیبت آئے گی، حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ اپنے مالوں کو زکوة ادا کرنے کے ذریعہ محفوظ بناﺅ اوربیماروں کا علاج یہ کرو کہ صدقہ دو، دعاکرو۔
زکوة ادا نہ کرنے سے قحط آتا ہے
حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” جو لوگ زکوة روک لیتے ہیں اللہ ان پر قحط کی مصیبت ڈال دیتے ہیں۔ “ دوسری حدیث میں ہے کہ”جولوگ زکوة روک لیتے ہیں، ان کی سزا میں بارش روک لی جاتی ہے، اگرچوپائے(بھینس بیل وغیرہ)نہ ہوں تو ذرا بارش نہ ہو۔“
زکوة روک لینے سے مال تلف ہوجاتاہے
حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” جو مال بھی کسی خشکی یا کسی دریا میں تلف ہوجاتا ہے پس وہ زکوة روکنے ہی سے ضائع ہوتا ہے۔ “یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جس مال کے ساتھ زکوة کا مال مل جاتاہے، وہ اس مال کوحلال کیے بغیر نہیں رہتا یعنی جس مال میں زکوة واجب ہوئی اور اس کی زکوة نہ نکالی گئی اور زکوة کا روپیہ بھی اس مال میں ملارہا جس پر زکوة فرض ہوئی ہے تویہ زکوة والا روپیہ اس مال کو تلف کردے گا یعنی ایک نہ ایک دن وہ مال ضائع ہوجائے گا۔
زکوة کس پر فرض ہے؟
زکوة فرض ہونے کے لیے بہت بڑا مال دار ہونا ضروری نہیں۔ جوعورت یامرد ساڑھے باون تولے چاندی یا ساڑھے سات تولے سونا یا ان میں سے کسی ایک کی قیمت کے روپیہ یاسوداگری کے مال کا مالک ہو، وہ شریعت میں مالدارہے اور اس پر زکوة فرض ہے۔
مسئلہ: زکوة فرض ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ اس مال پر سال گزر جائے جس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا یا ان میں کسی ایک کی قیمت کا روپیہ یا سوداگری کامال ایک سال رہے تو اس پر زکوة فرض ہے۔ اگر سال پورا ہونے سے پہلے جاتا رہا تو زکوة فرض نہ ہوگی۔
مسئلہ: سال کے اندراندراگرمال گھٹ جائے اورسال ختم ہونے سے پہلے ہی اتنا مال پھر آجائے کہ اگر اس کو باقی مال میں جوڑ دیں تو اس حد کو پہنچ جاوے جس پر زکوة فرض ہوئی ہے، تب بھی زکوة فرض ہو جاوے گی، غرض یہ کہ بیچ سال میں مال کے کم ہوجانے سے زکوة معاف نہیں ہوتی۔
مسئلہ: سونے چاندی کے زیور اوربرتن اورسُچّا گوٹہ ٹھپہ کپڑوں میں لگا ہواہو، چاہے علیحدہ رکھا ہوا ہو اورچاہے یہ چیزیں استعمال ہوتی ہوں چاہے یوں ہی رکھی ہوں، غرض یہ کہ سونے چاندی کی ہر چیز میں زکوة فرض ہے۔
مسئلہ: سونا چاندی میں اگر ملاوٹ ہومثلاً رانگ یاپیتل ملا ہواہو تو اس کا یہ حکم ہے کہ اگر چاندی سونا زیادہ ہو تو زکوة واجب ہونے کے بارے میں ان سب کاوہی حکم ہے جوسونے چاندی کا حکم ہے یعنی اگر اتنے وزن کے ہوں جواوپر بیان ہواتوسال گزرجانے پرزکوة فرض ہوگی اوراگرملاوٹ والی چیز رانگ پیتل زیادہ ہے تو اس کاحکم تانبے کاہے جوابھی بیان ہوگا۔
مسئلہ: کسی کے پاس نہ توساڑھے باون تولہ چاندی ہے اورنہ ساڑھے سات تولہ سونا ہے بلکہ تھوڑا سونا اورتھوڑی چاندی ہوتواگردونوں کی قیمت ملا کرباون تولہ چاندی یاساڑھے سات تولے سونے کے برابرہوجائے تو زکوة فرض ہوجائے گی۔
مسئلہ: کسی کے پاس سو تولہ چاندی رکھی تھی پھر سال گزرنے سے پہلے چارتولہ سونا اورآگیا تو اس چاندی کے ساتھ ملا کر زکوة کا حساب کیا جاو ے گا اور جب سو تولہ چاندی کا سال پوراہونے پر اس کی زکوة دی جائے گی اسی کے ساتھ اس سونے کی زکوة بھی دینا ہوگی جب سے یہ سونا آیا ہے اس کے بعد سے اس سونے پرسال گزرجانے کا انتظارنہ کیاجاو ے گا۔
مسئلہ: کسی کے پاس کچھ سونا ہے اور کچھ چاندی ہے یا کچھ سوداگری کامال ہے توسب کو ملا کر دیکھو اگر اس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونے کے برابر ہوجاو ے اس پر زکوة فرض ہے اگر اس قیمت سے کم ہوتواس پر زکوة فرض نہیں۔
مسئلہ: کسی کے پاس دو سو روپے ہیں اورایک سوروپے اس پر قرض ہیں تو ایک سو روپے کی زکوة دینا فرض ہے۔
مسئلہ: سونا چاندی اور نقد روپے کے علاوہ جتنی چیزیں ہیں مثلا لوہا،تانبا، پیتل، گلٹ، رانگ اور ان چیزوں کے بنے ہوئے برتن وغیرہ اور کپڑے اور جوتے اور اس کے علاوہ جو کچھ اسباب ہو اس کا حکم یہ ہے اگر وہ بیچنے کا سوداگری کا مال ہوگا تواتنا ہوکہ اس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی یاساڑھے سات تولہ سونے کے برابر ہو توجب سال گزر جائے تواس میں زکوة فرض ہے اوراتنا نہ ہو تو اس میں زکوة فرض نہیں۔ اور اگر وہ مال سوداگری کا نہ ہو تو اس میں زکوة فرض نہیں، چاہے جتنا ہو۔
مسئلہ: جس مال پر زکوة فرض ہوسال پوراہونے پر اس میں سے پور ے مال کا چالیسواں حصہ یاچالیسویں کی نقد قیمت اداکر ے مثلاً اسی(80) روپے کی مالیت ہوتودوروپے دیوے اور سو (100)روپے ہوتوڈھائی روپے دیوے اورہزار(1000) روپے کی مالیت ہوتو25روپے دیوے۔
مسئلہ: زکوة کی رقم سے مسجد بنوانا،مردہ کے کفن دفن میں لگانا درست نہیں۔ زکوة اداہونے کی شرط یہ ہے کہ جس کو زکوة دینا درست ہواس کو زکوة کی رقم کا مالک بنادیوے۔
مسئلہ: ماں، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی اوربیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی اور ان سب کوزکوة کی رقم دینے سے زکوة نہیں ہو گی جس سے صاحبِ زکوة پیدا ہو۔ یاجواس سے پیداہوئے ہوں ان سب کو دینے سے زکوة ادانہیں ہوتی۔
مسئلہ: سیدوں کو زکوة کا پیسہ دینا درست نہیں اگرچہ غریب ہوں اوران کو لینا بھی حلال نہیں۔
مسئلہ: بھائی، بہن، بھتیجی، بھانجی، چچا، پھوپی، خالہ، ماموں کوزکوة دینا درست ہے اگرزکوة کے مستحق ہوں بلکہ ان کو زکوة دینے سے دوہراثواب ملتاہے۔
مسئلہ: جس کے پاس اتنا مال یاضرورت سے زیادہ اتنا سامان ہوجوساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کا ہوسکتاہے تو اس کو زکوة دینا درست نہیں اورجس کی مالی حیثیت اس سے کم ہو اس کو زکوة دے سکتے ہیں، بہت سی عورتیں بیوہ ہوتی ہیں مگر ان کے پاس اتنا زیور ہوتاہے جس پر شریعت میں زکوة فرض ہے، ان کو زکوة دینے سے زکوة ادانہ ہوگی۔
مسئلہ: زکوة کی نیت کیے بغیرروپیہ دے دیا تو زکوة ادا نہ ہو گی وہ نفلی صدقہ ہوا، ایسا ہوجاوے توپھر سے زکوة دیوے۔
ضروری تنبیہ: زکوة کاحساب قمری مہینوں کے اعتبار سے ہوتا ہے، یعنی مال ہونے پر جب چاند کے حساب سے بارہ ماہ گزر جاویں تو زکوة فرض ہوجاتی ہے، بہت سے لوگ انگریزی مہینوں سے زکوة کا حساب رکھتے ہیں ، اس میں دس دن کی دیر تو ہر سال ہوہی جاتی ہے اوراس کے علاوہ چھتیس سال میں ایک سال کی زکوة کم ہوجائے گی جو اپنے ذمہ فرض رہے گی۔
ہدایت: ان مسئلوں کو کسی عالم دین یا مفتی صاحب سے خوب سمجھ لینا چاہیے۔
نفلی صدقہ: زکوة اداکرنا فرض ہے اوراس کا اداکرنا سخت ضروری ہے، زکوة کے علاوہ دین کے طالب علموں، یتیموں، مسکینوں، بیواﺅں، مسافروں ، محتاجوں اوراپاہجوں پر خرچ کرنے کا بہت بڑا ثواب ہے، ثواب کوئی معمولی چیز نہیں، جب آخرت میں ثواب دیا جائے گا، اس وقت اس کی قیمت کا اندازہ ہوگا۔
جس قدر بھی ہوسکے اپنی ضرورتوں کو روک کر اللہ کی رضا کے لیے مال خرچ کرکے اپنی آخرت سدھارواوراس مال کو مرنے کے بعد کم آنے کے لیے پہلے سے بھیج دو، ایک مرتبہ حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں نے ایک بکری ذبح کی آپنے اس کے گوشت کے بارے میں دریافت فرمایا کہ گوشت کیاہوا؟ آپ کی بیوی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا (وہ تو سب صدقہ کر دیا گیا)بس اس کادست باقی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” باقی وہی ہے جواللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے دیاگیا۔“لہذااصل بات یہ ہوئی کہ اس کے(اس)دست کے علاوہ سب باقی ہے(اور جو ابھی ہمارے قبضہ میں ہے وہ تو فنا ہونے والا ہے)
جب کسی محتاج اورضرورت مند کودیکھو تو جوکچھ تھوڑا یا بہت میسر ہو، فوراًخرچ کردو، حضرت رسول مقبول نے فرمایا:”دوزخ سے بچو! چاہے کھجور کا ایک ٹکڑا ہی خیرات کردو۔“حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک سائل آیا تو انہوں نے اس کو صرف انگور کاایک دانہ دے دیا۔(موطا امام مالک) ایک مرتبہ ان کے پاس ایک عورت آئی جس کے ساتھ دو لڑکیاں تھیں اس نے سوال کیا حضرت عائشہ کے پاس ایک کھجور کے علاوہ کچھ نہ تھا، انہوں نے اس کو وہی دے دیا اس عورت نے اس کے دوٹکڑے کرکے اپنی بچیوں کو دے دیے۔
حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” صدقہ پروردگارکے غصہ کوبجھاتا ہے اور بری موت کو دفع کرتا ہے اور بری موت سے مراد وہ ہے جو ایمان کے ساتھ نہ ہو یا اچانک آجاو ے جس کی وجہ سے وصیت وغیرہ نہ کرسکے یاموت کی گھبراہٹ میں برے کلمات زبان سے نکل جائیں۔ یہ بھی ارشادفرمایا:”بلا آنے سے پہلے صدقہ کرنے میں جلدی کرو، کیونکہ بلا صدقہ کو پھاند کر نہیں آسکتی۔
ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ” اے انسان! تودوسروں پر خرچ کرمیں تجھ پر خرچ کروں گا۔“ یہ بھی حدیث شریف میں ہے کہ حضرت رسول مقبول نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بہن حضرت اسماءرضی اللہ عنہا سے فرمایاکہ خرچ کراورگِن کرمت رکھ، ورنہ اللہ تعالیٰ بھی گِن کردیں گے(یعنی بے حساب بہت سانہیں ملے گا)اور بندکرکے مت رکھ ورنہ اللہ بھی دادوہش بند کردیں گے،جس قدر ممکن ہوسکے خرچ کر، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ میں ایک مرتبہ حضرت رسول مقبول کے ساتھ عید کے موقع پر تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز پڑھائی
اس کے بعد خطبہ دیا،پھر عورتوں کے پاس جاکر وعظ فرمایا اوران کو نصیحت فرمائی اورصدقہ کرنے کاحکم دیا، عورتوں پر ایسا اثر ہواکہ اپنے ہاتھوں سے کانوں اورگلوں سے زیور اتاراتارکردے دیے اس وقت حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ساتھ تھے وہ جمع کرتے رہے اس کے بعد حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ اپنے گھر تشریف لے گئے اور اس صدقہ کے مال کو ضرورت مندوں پرخرچ فرمایا۔خیرات کرنے میں ایسے موقع کاخاص دھیان رکھو جس کاثواب مرنے کے بعد بھی جاری رہے جسے صدقہ جاریہ کہتے ہیں۔
حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ بلاشبہ مومن کواس کے عمل سے اورنیکیوں سے مرنے کے بعد جوملتاہے وہ علم ہے جس کاوہ عالم ہوااوراسے وہ پھیلا گیا، نیک اولاد چھوڑگیا یا قرآن شریف اس کے ترکہ سے کسی کو مل گیایا مسجد یا مسافر خانہ تعمیر کرگیا یا نہر جاری کرگیا اپنے مال سے(اورکوئی)ایسا صدقہ اپنی زندگی میں کرگیا جومرنے کے بعد اسے پہنچتا رہے۔مثلاً کوئی دینی مدرسہ بنادیا یاکسی مدرسہ کو قرآن شریف یا دینی کتابیں وقف کردیں، وغیرہ وغیرہ۔
صدقے سے مال بڑھتاہے کم نہیں ہوتا، جو ہوسکے زندگی میں کرگزرو!دم نکلتے ہی سب دوسروں کا ہو جائے گا موت کے وقت یہ کہنا کہ فلاں کو اتنا دواورفلاں کو اتنا دو اس میں بھی ثواب ہے، مگر خاص فضیلت نہیں ہے کیونکہ اب تو تمہارا رہا ہی نہیں دوچار منٹ میں دوسروں کاخود ہی ہوجائے گا۔