پھونک

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
پھونک
روشن خان 'پشاور
فجر کے بعدمیں جب اپنے بستر پر لیٹا ہوتا تو میری والدہ مجھ پر پھونکتیں اور چلی جاتیں۔ بچپن سے جب سے میں نے ہوش سنبھالا شاید ہی کوئی دن ہو کہ جس دن وہ نہ آئی ہوں۔ اب جب میں یہ سمجھتا تھا کہ میں بہت باشعور ہو چکا ہوں اور مجھے اس بارے میں والدہ سے دریافت کرنا چاہیے کہ اس پھونک میں کیا خاص ہے کہ انہوں نے اسے اپنا معمول بنا لیا۔اس پھونک کے بارے دریافت کرے کی ایک اور وجہ تھی کہ میں جانتا تھا کہ میری والدہ پڑھی لکھی نہیں۔ قرآن کی تلاوت تو بلا ناغہ کرتیں لیکن صرف بسم اللہ سے ہی۔نماز یاد تھی انکو لیکن اس کے علاوہ کچھ نہیں آتا تھا۔ میں نے ایک دن ان سے پوچھا کہ ’ماں جی !جہاں تک میں جانتا ہوں آ پکو قرآن مجید تو آتا نہیں پھراس پھونک میں کیا حکمت ہے؟‘ جواب میں والدہ نے کہا۔ ’بیٹا !مجھے پتا ہے کہ تم بڑے ہو گئے ہو۔تم میں عقل اور شعور پہلے سے زیادہ ہے۔لیکن تم کیا جانو کہ ماں کے دل میں کیا ہے اور ایک ماں اپنی اولاد کے لیے کیا سوچتی ہے؟‘ اب جب بھی والدہ سے میں نے یہ سوال پوچھا تو ایک ہی جواب ملا تو میں نے یہ سوال دہرانا ہی چھوڑ دیالیکن والدہ نے معمول کے مطابق پھونک کو جاری رکھا۔
وقت اسی طرح گزرتا چلا گیاوالدہ کا معمول جاری رہا۔میں زندگی کے ہر میدان میں کامیاب ہوتا چلا گیا۔تعلیم کے ساتھ ساتھ چھوٹی موٹی نوکری کرنے لگا اور آخر کا ر پی ایچ ڈی کر لی۔لیکن والدہ کا وہی معمول اب بھی جاری تھا۔اب میں ایک اعلی سرکاری عہدے پر فائز تھا۔ گھر کے معاشی حالات سدھرنے لگے۔اب ہر وہ آسائش میسر آنے لگی کہ جن کے کبھی صرف خواب ہی دیکھے تھے۔ وقت کے ساتھ اب والدہ کی صحت ویسی نہ رہی اور اب انکا بستر سے اٹھنا بھی محال ہو گیا۔اب اس معمول سے کبھی کبھی ناغہ ہونے لگا۔مجھے بھی شاید اس پھونک کی عادت سی ہوگئی تھی کہ جس دن ناغہ ہوتا مجھے عجیب سی بے چینی ہونے لگتی۔ والدہ روز مجھے دفتر جانے سے پہلے اپنے پاس بلا لیتیں اور مجھ پر پھونکتیں۔ ایک صبح جب میں والدہ کے پاس گیا تو میں نے آج بیماری کی شدت ان میں کچھ زیادہ ہی محسوس کی میں ان کے سرہانے بیٹھ گیااور ان سے مخاطب ہو کر کہا’ماں جی!آج مجھے آپ کی طبیعت کچھ زیادہ ہی خراب محسوس ہورہی ہے۔آج میں دفتر نہیں جاوں گا آپ کے پاس ہی رہوں گا۔‘
والدہ نے بمشکل نفی میں سر کو ہلاتے ہوئے کہا۔ ’بیٹا!نہیں ایسی کوئی بات نہیں عمر کا تقاضا ہے اس عمر میں طبیعت کا کوئی بھروسہ نہیں۔ میں ابھی دوائی لیتی ہوں ، ٹھیک ہو جاونگی۔ تم دفتر جاووہاں لوگ تمہارا انتظار کر رہے ہوں گے۔ان کے کام کرو اور انکی دعائیں حاصل کرو۔تمہاری نوکری زیادہ اہم ہے۔۔میری فکر مت کرو!‘ والدہ کے اس اصرار پر میں ان کے سر ہانے سے اٹھا اور ابھی دو قدم ہی اٹھائے تھے پھر واپس مڑا اور والدہ سے پھر مخاطب ہوا۔ ’ماں جی! آج مجھے بتا ہی دیجیے کہ اس پھونک کہ پیچھے کیا حکمت ہے؟ ‘ والدہ نے پھر وہی جواب دہرایا جو میں شروعات سے سنتا آرہا تھا۔لیکن اس بار ان کا لہجہ کچھ عجیب تھا جو میں سمجھنے سے قاصر تھا۔اور اس بار انکی آنکھوں میں چھپی مدھم سی نمی کو محسوس کیاجس نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا۔
میں دفتر کے لیے روانہ ہوا لیکن تمام راستے اس لہجے اور انداز بیان کو ہی سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔دفتر پہنچنے پر بھی میری سوچ کا محور وہی تھا۔ اسی دن ہی مجھے والدہ کے انتقال کی خبر ملی۔اس دن سے آج تک میں اسی سوال کے جواب کی تلاش میں ہوں لیکن آج تک میں اس کا جواب نہیں ڈھونڈ پایا۔کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ اتنا پڑھنے لکھنے کے باوجود بھی میں ماں کے ذہن کو نہیں سمجھ پایا۔ یا وہ قدر ہی تھی جو میں نہ کر پایا جو اب ان کے جانے کے بعد محسوس ہورہی ہے۔واقعی ماں کا دل کوئی نہیں جان پایا! آج میرے پاس کیا کچھ نہیں ہے؟ کسی چیز کی کمی نہیں۔ ہاں کمی ہے تو.... ایک چیز کی !اور وہ ہے.... اس ’پھونک‘ کی....