اکل حلال

User Rating: 1 / 5

Star ActiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اس ماہ کا سبق
اکل حلال
مولانا عاشق الہی بلند شہری رحمہ اللہ
حلال روزی کا دھیان رکھنا بہت ہی زیادہ ضروری بات ہے کیونکہ حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ وہ گوشت جنت میں داخل نہ ہوگا جو حرام سے بڑھا ہوگا، پھر فرمایاکہ جو گوشت حرام سے بڑھا ہو دوزخ ہی اس کے لیے زیادہ مناسب ہے۔
حرام کھانے کی وجہ سے دعا قبول نہیں ہوتی:۔
حضرت ر سول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کا ذکرفرمایاجو لمبے سفر میں ہو، برا حال ہونے کی وجہ سے اس کے بال بکھرے ہوئے ہوں اور بدن پر غبار لگا ہوا ہو اورآسمان کی طرف ہاتھ اٹھاکر یارب یارب کہتا ہو اور اس کا کھانا حرام ہو اور اس کالباس حرام ہو اور اس کو غذا حرام ملی ہوتو ان سب چیزوں کی وجہ سے اس کی دعا کیسے قبول ہو۔
جب تک آدمی سفر میں رہتا ہے اس کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے لیکن مسافر بدحال کی دعا اس لیے قبول نہ ہوگی کہ اس کاکھانا پینا اور ہنسنا حرام ہوگا آج بہت روروکردعائیں کی جاتی ہیں مگر قبول نہیں ہوتیں اورکیونکر قبول ہوں جب کہ حرام سے بچنے کاخیال ہی نہیں رہا۔
نماز قبول نہ ہونا:۔
حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس نے دس درہم کا کپڑا خریدا ہے تقریبا دو روپے آٹھ آنے ہوتے ہیں اور ان میں ایک درہم( یعنی چارآنے) حرام کے تھے تو جب تک وہ کپڑا اس سے بدن پر رہے گا اللہ اس کی نماز قبول نہ فرمائیں گے۔غورکرو،جب کپڑے میں دسواں حصہ حرام کاہونے سے نماز قبول نہیں ہوتی اور جس کے کپڑے اور خوراک حرام سے ہو اس کی نماز کیسے قبول ہوسکتی ہے؟
صدقہ قبول نہ ہونا:۔
حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ کوئی بندہ حرام مال کما کر اس میں سے صدقہ کرے گا تو وہ صدقہ قبول نہ ہوگا اوراس میں سے خرچ کرے گا تو برکت نہ وہو گی اور اس کو اپنے پیچھے چھوڑ جائے گا وہ مال اس کے لیے دوزخ کاسامان ہوگا۔
ایک بزرگ نے فرمایا کہ جو شخص نیک کام میں مال خرچ کرے اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص پیشاب سے کپڑا پاک کرے بہت سے لوگ حرام کما کر لاتے ہیں اور نفس کو سمجھانے سے تھوڑا اس میں سے کسی فقیر کو دے کر یہ خیال کرلیتے ہیں کہ اب سارا مال پاک ہوگیا۔ یہ بالکل غلط ہے اور شیطان کا دھوکہ ہے۔ صدقہ خود تو قبول ہی نہیں ہوا باقی مال کیسے پاک کرے گا۔
لہذا تم حلال مال کا دھیان کرو تمہارے گھر میں اگر باپ یا بھائی یا شوہر حرام کما کر لائیں جیسے رشوت کامال لاویں ، یاسود لیتے ہوں یاسینما میں یا شراب کے محکمہ میں یاانشورنس کمپنی کے ملازم ہوں ، یا انہوں نے مکان دوکان کی سلامی (پگڑی) لی ہو، یا اور کسی گناہ کے ذریعہ سے روپیہ کمایاہوتو اس میں سے کھائو نہ پہنو اور ان سے کہ حلال کماکرلائو، حرام کو چھوڑ دو، ہم کو فاقہ سے مرنا اور موٹا اور پرانا کپڑا اور سوت کا لباس پہننا اور زیور سے ہاتھ کان وغیرہ خالی رکھنا منظور ہے، مگر حرام کھاکر اورپہن کر اور استعمال کرکے دوزخ میں جانا منظور نہیں ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آج کل حلال ملتاہی نہیں پھر حرام سے کیسے بچیں حالانکہ یہ بالکل غلط ہے جو بندے سے حلال کمانا چاہتے ہیں ان کو حلال ہی ملتاہے ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ حلال تھوڑا ہوتاہے اور اس میں مزے اڑانے اور فضول خرچ کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی وہ آدمی بڑے مبارک ہیں جو دوزخ سے بچنے کے لیے دنیا کی لذتوں کو چھوڑ دیتے ہیں اور تھوڑے پرصبرکرتے ہیں ۔
تفصیل کے لیے ہماری کتاب’’ کسب حلال وادائے حقوق ‘‘کامطالعہ کرو۔