اللہ کے محبوب بنئے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اللہ کے محبوب بنئے
پیرحافظ محمد ذوالفقار نقشبندی
نوجوانوں کے جذبات واحساسات:۔
بچوں کی تربیت کے عنوان سے بات چیٹ ہوررہی تھی، جب بچے نوجوان ہوجاتے ہیں تو یہ زندگی کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہوجاتے ہیں ان کی اپنی سوچیں ہوتی ہیں احساسات ہوتے ہیں اپنے جذبات ہوتے ہیں جس طرح ان کو کھانا پینا، سونا اس کی ضرورت محسوس ہو تی ہے اس طرح ان کو اپنی جنسی ضروریات کو پورا کرنے کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے شریعت وسنت نے اس کابہترین حل یہ بتایاکہ جب بھی بچی کے جوڑ کا خاوند مل جائے فورا اس کی شادی کردی جائے ہمارے مشائخ اس بارے میں اتنی حتیاط کرتے تھے کہ جیسے ہی انہیں پتا چلتا کہ بچی گھر میں جوان ہوگئی تو ایک سے دوسرا مہینہ اپنے گھر میں نہیں آنے دیتے اس کی رخصتی کرکے فریضہ اداکردیتے تھے۔
اس لیے کہ کتابوں میں لکھاہے جوان ہونے کے بعد بیٹی اگر شادی نہ ہوئی تو وہ جو گناہ کاکام بھی کرے گی وہ ماں باپ کے نامہ اعمال میں بھی جائے گاور آج تو حالت ایسی ہے کہ جہیز کی تیاریوں میں اور ادھر ادھر کی تیاریوں میں اتنی دیر لگا دیتے ہیں کہ ایک بیٹی کی شادی کررہے ہوتے ہیں اور اس سے نیچے کی تین بیٹیاں بھی جوان ہورہی ہوتی ہیں، اب ایسی صورت میں کہ جب بچے جوان ہوگئے اور اس کو دس پندرہ سال پھر ماں باپ کے گھر رہنا پڑا تو اس دوران تو پھر وہی گناہ سے بچے گی جو یاتوغبیہ ہوگی یا پھر اللہ کی ولیہ ہوگی،غبیہ کہتے ہیں کہ جس کا دماغ کام نہ کرتا ہو، پاگل سی ہو اور ولیہ کہتے ہیں جس کے سینے کو اللہ نے ولایت کے نور سے روشن کردیا ہو، ان دونوں کے درمیان میں جو کئی ہے اس کا گناہ سے بچنا بہت مشکل ہے، اس لیے کہ شیطان گناہ کی طرف لاتاہے اور انسان کا اپنا نفس گناہ کی طرف کھینچتا ہے۔
عفت وعصمت کی حفاظت پر اجر:۔
کچھ لوگ ہوتے ہیں جو انسان کی شکل میں شیطان کی نمائندے ہوتے ہیں، وہ اپنے کلاس فیلوز ہوں اپنے قریب کے رشتے دار ہوں یا اجنبی غیرمحرم ہوں وہ بھی گناہ کی طرف دعوت دیتے ہیں، پھر ریڈیو،ٹی وی گاناموسیقی ویڈیواور انٹرنیٹ کے اوپر چیٹنگ اس نے جلتی پر تیل کاکام کردیا ایسی صورت میں جب اس نوجوان بچی کو ہر ط رف گناہوں کی کشش کھینچتی ہے تو پھر اس کی سوچوں میں فرق آنا شروع ہوجاتاہے حیا ایک قدرتی اور فطری چیز ہے جو اللہ نے عورت میں رکھی ہے اس کے لیے حیا اور پاکدامنی کی زندگی گزارنا مشکل ہوتاہے اس کو اپنے اندر ایک جنگ کرنی پڑتی ہے اب خوش نصیب بچیاں اس جنگ کو سمجھتی ہیں کہ ہم جہاد کرہی ہیں مرد دسمن کے سامنے میدان جنگ میں جاکر جہاد کرتے ہیں اور بچیاں اپنے گھروں میں رہ کر اپنے نفس کے ساتھ جہاد کررہی ہوتی ہیں ان کو ادھر ادھر سے گناہ کی دعوتیں ملتی ہیں مگر وہ اپنے نفس کے ساتھ جہاد کررہی ہوتی ہیں ان کو ادھر ادھر سے گناہ کی دعوتیں ملتی ہیں مگر وہ سمجھتی ہیں ہم نے اپنے ناموس کی حفاظت کرلی اللہ کی نظر میں ہم فتح یاب ہوں گی، جس طرح مجاہداگر جنگ میں فتح پائے تو غازی بنتاہے، اسی طرح اگر بچی اپنی عزت وناموس کی حفاظت کی حفاظت کرگئی تو وہ اللہ کی نظر میں غازیہ ہوگی تو مردوں کا جہاد میدان جنگ میں، عورت کا جہاد چوبیس گھنٹے اپنے گھر میں رہتے ہوئے اپنے نفس کے ساتھ، مرد کا جہاد کھلا ہوتاہے سب کے سامنے ہوتاہے نوجوان بچی کا جہاد چھپا ہواہوتاہے وہ کسی کو بتا بھی نہیں سکتی، کسی کو اپنے دل کے راز کھول بھی نہیں سکتی کہ کاہں کہاں سے شیطان اس پہ حملے کرتاہے، نفس اس کو کہاں کہاں جال میں پھنسانے کی کوشش کرتاہے بس وہ اپنے رب کے سامنے فریاد کرسکتے ہے اور اپنے آپ کے ساتھ جہاد کرسکتی ہے تاکہ وہ اس میں کامیاب ہوجائے۔
بہنوں کے پلے باندھنے کی بات:۔
یہ بات ذہن میں رکھنا عورت کی ہر غلطی معاف ہوجایا کرتی ہے لیکن کردار کی غلطی کبھی معاف ہواکرتی، اس لیے عورت کی تربیت میں اگر کوئی اور کمی رہ گئی کہ زبان دراز ہے غصے کی تیز ہے ضدی ہے، کام چورہے، غافلہ ہے سست ہے اس قسم کی اس کی تمام کمزوریاں برداشت آسانی سے کرلی جاتی ہیں، لیکن اس کے کردار کی کمزوریاں برداشت کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا، اس لیے جوان بچیوں کے لیے اپنی عزت وناموس کی حفاظت کرنا یہ سب سے بڑا کام ہے اللہ رب العزت نے جہاں قرآن مید میں چوری کا تذکرہ کیاوہاں فرمایا
والسارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیھما۔
[سورۃ المائدہ]
چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت ان دوں کے ہاتھوں کو کاٹ دیا جائے تو مرد کا تذکرہ پہلے اور عورت کا تذکرہ بعد میں لیکن جہاں زنا کا تذکرہ آیاوہاں اللہ تعالیٰ نے عورت کا تذکرہ پہلے کیا
الزانیۃ والزانی فاجلدواکل واحد منھما مائۃ جلدۃ
[سورۃ النور]
زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والا مرد اور مفسرین نے لکھا کہ جب تک عورت خود ڈھیل نہ دے خود موقع مہیانہ کرے مرد کوشش کے باوجود اس کی عزت وناموس پہ ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ پھر چوری کرنا مردانگی کے زیادہ خلاف تھا اس لیے وہان پرمرد کا تذکرہ پہلے کیا، زنا کرنا حیا کے خلاف ہے اور حیا عورت میں زیادہ ہوتی ہے اس لیے عورت کا تذکرہ پہلے کیا۔
عزت وناموس کے روشن چراغ کی حفاظت کیسے؟
لہذا جوان بچی کے لیے دنیا میں سب سے بڑا کام اپنی عزت کی حفاظت کرنا، اس کو یوں محسوس ہوناچایے کہ ہر غیر آدمی مری طرف لالچ کی نظر رکھتاہے اور میں نے اپنے آپ کو خود بچاناہے جس طرح چراغ جل رہاہوتو ہواکے جھونکو سے اسے خود بچایا جاتاہے نہیں بچائیں گے تو کوئی تھپیٹراآئے گا چراغ گل کرجائے گا اسی طرح بچی سمجھے کہ میری عزت وناموس کا چراغ جل رہاہے، آندھیوں سے ہوائوں سے اسے میں نے بچاناہے اگر میں نے غفلت کی تو کوئی تھپیڑالگے گا اور میری عزت کا چراغ گل ہوجائے گا، یہ عورت کا دنیا کے اندر رہتے ہوئے سب سے بڑا کام ہوتاہے کہ وہ اپنی عزت وناموس کی حفاظت کرے۔
نابینا کی زریں نصیحت:۔
اس لیے ایک نابینا کے بارے میں ایک واقعہ اس عاجز نے پہلے بھی سنایا۔ کہ رات کا وقت تھا اسے پانی لانے کی ضرورت پڑی کہیں دور سے اس نے پانی کا گھڑ اپنے سر رپر رکھا اور لاتے ہوئے اس نے ایک ہاتھ میں چراغ جلا کر پکڑا ہوا اب دیکھے والے بڑے حیران کہنے لگے آپ تو نابینا ہوآپ کو اس روشنی سے فائدہ تو کوئی نہیں، آپ تو اپنے اندازے کے مطابق راستوں کے اوپر چلتے ہوتو آپ کو تو روشنی کی ضرورت ہی نہیں، اس نے کہا بالکل ٹھیک ہے مجھے روشنی کی ضرورت نہیں لیکن رات کو اندھیرا آنکھوں والے جب اندھیرے میں چلتے ہیں تو ان کو صحیح پتہ نہیں چلتا میں نے چراغ جلاکر اس لیے پکڑلیا کہ کہیں کوئی آنکھوں والامجھ سے نہ ٹکرائے اور اس کی وجہ سے میرا گھرانہ ٹوٹ جائے، تو اندھا کتنا سمجھ دار تھا کہ اس نے چراغ اس لیے پکڑاتھاکہ دوسرے لوگ راستے کو دیکھیں اور مجھ سے مٹ ٹکرائیں اس لیے کہ اگر ٹکرائیں گے تو نقصان تو میرا ہوگا۔جو ان عورت کو بھی یہی سوچ رکھنی چاہیے اگر میں بے پردہ باہر نکلی اگر کسی غیرمحرم نے دیکھ لیا اور اس کی نظر میں فتور آگیا اگر میں نے کسی کے ساتھ تنہائی میں باتیں کیں، اگر میں نے کسی کے ساتھ ٹیلی فون پر باتیں کرنا شروع کردیں اور ذرا سا بھی کسی کو موقع دیا تو عزت تومیری خراب ہوگی، دنیاکی بھی بد نامی اور اللہ کے ہاں کی بھی ناراضگی اور میں اس جہاد میں پھرناکام ہوجائوں گی اور اپنے رب کو کیامنہ دکھائوں گی اس لیے اس کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔
عورت کا گھر میں رہتے ہوئے سب سے بڑا کام:۔
ازواج مطہرات کے بارے میں آیا کہ اس بارے میں اتنا احتیاط کرتی تھیں کہ جب کبھی صحن کے اندر فارغ بیٹھیں ہوتیں کوئی تسبیح وغیرہ کررہی ہوتیں تو کھلے صحن کی طرف چہرہ نہیں کرتی تھیں بلکہ دیوار کی طرف چہرہ کرکے بیٹھتی تھیں کہ ممکن ہے غلطی سے بھی کسی کی نظر پڑنے کا امکان نہ ہو، اب سوچیئے کہ اپنے گھر میں بیٹھی ہوئی عورت صحن کی طرف چہرہ کرکے اس لیے نہیں بیٹھتی کہ ممکن ہے کہ دروازہ کھلے یاکوئی اور ایسی صورت بن جائے غلطی سے بھی کسی کی نظر نہ پڑے توہ وہ بیٹھی بھی تھیں دیوار کی طرف اپنا چہر ہکرکے بیٹھتی تھیں تاکہ کسی کی نظر پڑنے کا سوال ہی پیدا نہ ہو تو معلوم ہواکہ یہ عورت کی ذمہ داری ہوتی ہے فرض منصبی ہوتاہے اس کا دنیا میں رہتے ہوئے سب سے بٹرا کام یہ ہوتاہے کہ وہ اپنی عزت وناموس کی حفاظت کرے اگر اس کی عزت لٹ گئی اس کا سب کچھ لٹ گیا، اس کا کچھ نہ بچا اس لیے عورت کو اس معاملے میں ضرورت سے زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔
ایک مسلمہ حقیقت کی طرف توجہ:۔
ایک اصول ذہن میں رکھ لیں افسوس کے ساتھ مجھے کہنا پڑ رہاہے کہ مرد ہمیشہ (Opportunist) ہوتے ہیں، یہ طے شدہ بات ہے، آزمائی ہوئی بات آپ کو اسے آزمانے کی ضرورت نہیں، اصول بنالیں کہ مرد ہمیشہ موقع پرست ہوتے ہیں عورت کے معاملے میں مرد اٹھارہ سال کا جوان ہویا اسی سال کا بوڑھا ہو سب کی حالت ایک جیسی ہوتی ہے جب بے پردہ عورت نکلتی ہے ایک ہی وقت میں اس کو جوان بیٹا بھی لالچ کی نظر سے دیکھ رہا ہوتاہے اور اس کا سفید بالوں والا باپ بھی اس لڑکی کو لالچ کی نظر سے دیکھ رہا ہوتاہے، عورت مرد کی ایک کمزوری ہے اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ مجھے اپنی امت کے مردوں پر سب سے زیادہ جس چیز کا خطرہ ہے وہ عورت کا فتنہ ہے اس لیے یہ عورت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے آپ کو بچائے، شریعت نے مروں کو بھی کہاکہ وہ اپنی نگاہوں کا لحاظ کریں خیال رکھیں، عورت کوبھی کہاکہ وہ بھی اپنی نگاہوں کا خیال رکھیں، آج کل کی جوان بچیاں سمجھتی ہیں کہ نظروں کو نیچے کرنا تو مرد کا کام ہے وہ کیوں ہماری طرف دیکھتے ہیں اور اس چیز کو بھول جاتی ہے کہ ان میں بھی نفس ہے اور ان کے ساتھ بھی شیطان ہے ان کی نظر بھی اگر غیرمرد پرپڑے گی تو ان کے بھی فتنے میں پڑھنے کا خطرہ ہے، قرآن مجید میں گواہی دے دی۔
اطھر لقلوبکم وقلوبھن
[سورۃ الاحزاب]
کہ پردے میں رہو بیبیو یہ ان مردوں کے دلوں کے لیے بھی پاکیزگی کے لیے اچھا ہے اورتمہارے دلوں کی پاکیزگی کیلیے بھی اچھا ہے تو دلوں کے بھید جاننے والے اللہ نے فیصلہ فرمادیا کہ جب بھی انسان نظر کی کوتاہی کرتاہے تو مرد کے اندر بھی اس سے گناہ آتاہے اور عورت کے دل میں بھی گناہ کے خیالات آتے ہیں، لہذا کسی کو رابعہ بصری بننے کی ضرورنہیں، قرآن مجید کی تعلیمات کو قبول کرنے کی ضرورت ہے اور اس بات کو مان لینا چاہیے کہ عورت کے لیے بھی اپنی نظر کی حفاظت کرنا ضروری مرد کے لیے بھی اپنی نظر کی حفاظت کرنا ضروری تاہم مرد کو بھی منع کیا گیا عورت کو بھی منع کیاگیا تو جوان بچی کے لیے دنیا کا سب سے بڑا اہم کام اور فرض اس کا اپنی عزت وعصمت کی حفاظت ہے۔
اثر انگیزمثال:۔
مثال سنیے فرض کرو کہ آپ کے پاس دس ہزار ڈالر ہیں اور آپ حج کے لیے سفر کررہی ہیں تو کیاخیال ہے آپ اپنے اس پیسے کو عام کسی شاپر کے اندرڈال کر سفر کرتی پھریں گی؟ نہیں !آپ اسے Lockمیں رکھیں گی، چھپا کر رکھیں گی کہ آپ اگر حرم شریف جائیں اور پیچے کوئی آپ کے کمرے میں بھی آجائے صفائی کرنے والا تو وہ بھی آپ کی اس رقم کو نہ دیکھ سکے، تو جب آپ کو اپنی رقم کے رکھنے کا اتنا خیال ہے کہ اسے Locked Keyمیں رکھنے کے باوجودبھی ایسی جگہ چھپا کے رکھتی ہیں کہ ڈھونڈنے والابھی نہ ڈھونڈ پائے تو عزت وعصمت تو اس سے بھی بہت زیادہ قیمتی ہے آپ اپنے آپ کو بھی اس طرح مردوں سے چھپا کرکھیں۔ کہ اگر کسی کی نیت میں فتور بھی ہوتو اس کا ہاتھ آپ تک پہنچ نہ پائے اس لیے شریعت نے ہمیں حیا اور پاکدامنی کی تعلیم دی، اس قدر پاکدامنی کی تعلیم دی کہ شرعیت نے حکم دیاکہ عورت اگر کنگھی کرے اور اس کے کچھ بال ٹوٹ جائیں تو ان ٹوٹے ہوئے بالوں کو بھی عام جگہوں پہ نہ ڈالے ممکن ہے کسی غیرمرد کی نظر پڑجائے اور یہی بال اس کے لیے عورت کی طرف میلان کا سبب بن جائیں تو جو شریعت عورت کے جسم سے ٹوٹے ہوئے بالوں کی بھی بے پردگی کو پسند نہیں کرتی وہ زندہ عورت کی بے پردگی کیسے پسند کرے گی؟ اس شریعت نے یہ حکم دیاکہ عورت اگر فوت ہوجائے تو اس کا جنازہ جب قبر میں اتارا جانے لگے تو فقط قریب کے لوگ اتاریں۔ غیرمحرم مرد بھی اس کو ہاتھ لگانے سے پرہیز کرے، تو پھر زندگی میں جیتے جاگتے شریعت کیسے پسند کرے گی کہ یہ عورت اپنے آپ کو کسی غیرکے حوالے کرے اس لے یہ ایک بہت اہم عنوان ہے اور آج کل چونکہ عریانی عام ہے۔ فحاشی عام ہے اور ہم ایک ایسے ماحول میں رہتے ہیں کہ جہاں پر مسلمان بھی ہیں، غیرمسلم بھی ہیں اور غیرمسلموں کے نزدیک چونکہ کسی کو کوئی اہمیت ہی نہیں، اس لیے وہ آدھے ننگے جسموں کے ساتھ چلتے پھرتے ہیں، تو مسلمان بچیاں بھی دھوکے میں آجاتی ہیں۔