ظہیر الدین محمد بابر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط نمبر17
ظہیر الدین محمد بابر
امان اللہ کاظم
جیساکہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ ظہیر الدین بابر ابھی سمر قند پہنچ بھی نہ پایا تھا کہ اسے ایک اور طالع آزما "سلطان احمد تنبل" فرغانہ کی طرف پیش قدمی کرنے کی خبر موصول ہوئی اسے یہ بھی معلوم ہواکہ وہ قلعہ آخشی کے حکمران اس کے چھوٹے بھائی جہانگیر مرزا کو ورغلا کر فرغانہ پر قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ یہ خبر بابر کے لیے اگرچہ سوہان روح تھی مگر اب وہ اپنے قدم سمر قند کی طرف بڑھاچکا تھا یہاں سے پیچھے ہٹنا بھی اس لیے ممکن نہیں رہا تھا کیونکہ نانی اماں کا مشورہ بھی یہی تھا اس نے فرغانہ سے روانگی پر بابر سے کہا تھا کہ
"فرغانہ کو بچانے کے ساتھ ساتھ سمر قند پر بھی اپنا تسلط قائم کرنے کی فکر کرو تم اپنی ساری کوششیں اور قوتیں صرف دفاع پر صرف نہ کرو، یہ بات عقل مند حکمران کو زیبا نہیں ہے تمہارے جدِامجد امیر تیمور صاحبقراں لرزندہ جہاں جس نے کہ دنیا کے ایک بہت بڑے حصے پر اپنی سلطانی قائم کر رکھی اس نے بھی سمر قند ہی کو اپنا مستقر بنا رکھا تھا اس کے بعد تیموریوں کا دارالخلافہ بھی سمرقندرہاہے میں سمجھتی ہوں کہ سمر قند کا تیرے زیر نگیں آنا نہایت ہی ضرور ی ہے تیرے لیے جتنا فرغانہ کا دفاع اہم ہے اتنا ہی تیرے لیے سمر قند کو فتح کرنا ضروری ہے۔ "
اب جبکہ سمر قند کے محاصرے کے دوران یکے بعد دیگرے اس کے حریف اپنا اپنا محاصرہ اٹھا کہ نودوگیارہ ہوچکے تھے بابر کی اب صرف سمر قند کے سلطان بائسنغر کے ساتھ ٹھن گئی تھی جوکہ اس کا چچازاد بھی تھا۔ دریں اثناء جبکہ بابر اپنے خیمے میں محواستراحت تھا کہ دو گھڑ سوار اپنے گھوڑوں کو سرپٹ دوڑاتے ہوئے بابر کی فوج میں گھستے چلے آئے۔ وہ دونوں زخمی حالت میں تھے، قریب پہنچتے ہی ان میں سے ایک تو گھوڑے سے گرا اور دم توڑ گیا جبکہ دوسرا شدید زخمی تھا اور نیم بے ہوشی کے عالم میں تھا گھوڑا کی لگام بھی اس کے ہاتھوں سے چھوٹ گئی تھی مگر وفادار جانور کے جبلی احساس نے اسے یہاں تک پہنچا دیا تھا۔
نیم بے ہوش گھڑ سوار کو بابر کے فوجیوں نے ہوش میں لانے کے سارے جتن کرڈالے اس کو فی الفور مرہم پٹی کردی گئی بر وقت طبی امداد مل جانے کی وجہ سے نیم بے ہوش شخص ہوش میں آتا چلا گیا۔ کچھ وقت کے بعد جب وہ پوری طرح ہوش میں آگیا تواسے سلطان بابر کی بارگاہ میں پیش کر دیا گیا۔
جونہی وہ شخص نوعمر سلطان کے حضور پیش ہوا تو اس نے اسے پہچان لیا یہ وہی شخص تھا جو عرصہ پہلے اس کے والدسلطان عمر شیخ مرزا کا ملازم تھا بابر کے کئی فوجی افسروں سے بھی اسے پہچان لیا تھا بابر خوب جانتا تھاکہ
"یہ شخص بڑا صاحب علم وفضل تھا اپنی مرنجان مرنج طبع کے باعث سلطان عمر شیخ مرزا کے ناک کا بال بنا رہتا تھا باز کا بہترین شکاری تھا کہربا سے طرح طرح کے کرشمے دکھانے میں مہارت تامہ رکھتا تھا عمر شیخ بذات خود اس کے علم و فضل اور فہم وذکاء کے باعث اس کی عزت کرتا تھا اسے ہر وقت انعام واکرام سے نوازاکرتا تھا۔ جانے اس کے دل سے سمائی کہ وہ ایک دن فرغانہ سے یکایک غائب ہوگیا اور پھر اس کا کوئی پتہ نہ چلا۔"
آج وہ شخص بابر کو اس حال میں ملا کہ وہ بری طرح گھائل تھا اس کا شانہ تیز دھاری برچھی کے وار سے شدید زخمی ہوگیا تھا نجانے اس پر کیا افتاد پڑی تھی یہ بھی معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کہاں سے آیا تھا اور کس طرف جانے کا قصد کیے ہوئے تھا۔
بہرحال بابر کے شاہی جراحوں نے اس کا پوری تندی سے علاج کیا،چند ہی دنوں بعد جب اسے کچھ افاقہ ہوا تو پھر بابر کا شکریہ ادا کئے بغیر پہلے کی طرح چپ چاپ فرار ہوگیا ، بابر کا ماتھا ضرور ٹھنکا مگر پھر وہ اپنے کام میں منہمک ہوگیا۔
اب بابر کا براہ راست مقابلہ اپنے چچازاد سمر قند کے سلطان بائسنغر سے تھا۔ بابر کی فوج میں روزافزوں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا، آس پاس کے جنگجو قبائل کے لوگ جوق در جوق بابر کی فوج میں شامل ہوتے چلے جا رہے تھے۔ مگر حیرت انگیز بات یہ تھی کہ سینکڑوں کی تعداد میں بھگوڑے مغل بھی جو کہ شیبانی خان کی ہمراہی میں یہاں تک آئے تھے اور اب وہ نوعمر سلطان کی طرف کھنچے چلے آرہے تھے۔
روز بروزشہر سمرقند کی محصورآبادی مسائل کا شکار ہوتی چلی جارہی تھی بابر نے سمر قند کی طرف آنے والے سارے راستے بند کر دیے تھے اس طرح محصور لوگوں کے لیے غذائی سامان کی کمی ہوتی چلی گئی گھوڑوں اور دیگر جانوروں کے لیے چارہ بھی میسر نہیں آرہا تھا۔اس طرح انسان اور جانور بھوکوں ہونے لگے۔
بابر نے اپنی فوج کی ضرورت آس پاس کے تاجروں کے ذریعے پوری کررہا تھا تاجر لوگ اپنے اونٹوں خچروں پر سامان ضروریہ لاد لئے آئے تھے اور نہایت آزادی اور بے باکی سے فوجیوں کے ہاتھوں فروخت کرکے منہ مانگے دام بٹور لے جاتے تھے گویا ان کی چاندی ہورہی تھی چونکہ بابر کے فوجیوں کو گھومنے پھرنے کی کھلی آزادی تھی اس لیے وہ دور دور بستیوں تک نکل جاتے تھے ان میں سے کچھ خصوصا ًمغل فوجی تھوڑی بہت لوٹ مار بھی کر لیتے تھے۔
کچھ مغل فوجیوں میں اغلام بازی جیسی عادت قبیح بھی پائی تھی وہ لوگ شہر سے دور بستیوں میں گھس جاتے اور وہاں سے نوعمر لڑکے اٹھا کرلے آتے بعض مرتبہ ان کا آپس میں ان لڑکوں کی وجہ سے جھگڑا بھی ہوجاتا ان ساری قباحتوں کے پیچھے صرف ایک ہی وجہ کارفرماتھی وہ نوآمدہ مغل فوجی چودہ سالہ سلطان سے بالکل نہیں ڈرتے تھے۔
بابر کو جب معلوم ہوا تو اسے تشویش لاحق ہوگئی وہ جانتا تھا کہ اگر وہ عادت قبیح اس کے فوجیوں میں بھی پھیل گئی تو اس کا انجام بہت برا ہوگا۔ سوچتے سوچتے اس کا دماغ مائوف ہوجاتا مگر اسے اس کا کوئی علاج نظر نہ آتا اس نے اپنے مشیران خاص قاسم بیگ سلاخ اور شیرم طغائی کو طلب کیا اور پھر یہ چاروں سر جوڑ کر بیٹھ گئے تاکہ اس مسئلے کا کوئی قابل عمل حل ڈھونڈ سکیں وہ کافی غور وخوص کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ قاسم بیگ اس عادت قبیح میں ملوث لوگوں کو بے دریغ قتل کر دے تاکہ دوسروں کو بھی سبق ملے۔
لہذا اس فیصلے پر فی الفور عمل ہوا اور قاسم بیگ نے ان مغلوں کو بے دریغ تہ تیغ کر دیا جو اغلام بازی جیسی عادت قبیح میں ملوث تھے۔
بابر کی فوج میں موجود باقی مغل فوجیوں نے اس قتل عمد کا بہت ہی برا منایا انہوں نے تہیہ کر لیا کہ قاسم بیگ کو قتل کر کے انہیں اپنے بھائی بندوں کے خون کا حساب ہوچکا ہوگا۔
بابر نے ان لوگوں کی بھی خوب سرزنش کی جنہوں نے آس پاس کی بستیوں میں لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ابھی بابر ان پریشانیوں سے عہدہ براء بھی نہیں ہوا تھا کہ اسے ایک اور تشویش ناک خبر موصول ہوئی وہ یہ کہ
سلطان احمد تنبل آخشی پہنچ گیا تھا وہ شہزادہ جہانگیر مرزا کو اپنے زیر اثر کرکے اس سے اپنی مرضی کے فیصلے کروا رہا تھا یہی وجہ تھی کہ جہانگیر مرزا نے بابر کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا تھا اور اب آخشی پر سلطان احمد تنبل نے اپنی گرفت مضبوط کرلی تھی۔ اس نمک حرام کی حریص نگاہیں اب فرغانہ اور اس کے آس پاس کے شہروں پر لگی ہوئی تھیں۔ وہ دن دور نہیں تھا کہ جب وہ جہانگیر مرزا کی آڑ میں اند جان میں داخل ہوکر اپنی فتح مندی کا جشن منائے گا۔
آخشی اور اند جان کی تشویش ناک خبروں نے بابر کو وحشت ناک کردیا۔ اس نے مصمم ارادہ کرلیا تھا کہ وہ جلد از جلد اند جان پہنچ جائے اور سلطان احمد تنبل اور جہانگیر مرزا کو اس کی غداری کا سبق سکھائے۔مگر دوسری طرف اسے اپنی نانی اماں کا سمر قند کو فتح کرنے کا مشورہ یاد آجاتا بہت سوچ وبچار کے بعد اس نے یہ فیصلہ کیاکہ اسے سمر قند کا محاصرہ نہیں اٹھانا چاہیے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ان حالات میں اگر وہ واپس گیا تو ایک طر ف وہ سمر قند کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھو دے گا اور دوسری طرف سے اسے اپنے بھائی سے جنگ بھی لڑنا پڑے گی اس طرح دونوں طرف سے اس کے اپنے لوگ مارے جائیں گے پس اس نے فیصلہ کیاکہ وہ سمر قند کا محاصرہ اس وقت تک جاری رکھے گا جب تک وہ اسے فتح نہیں کر لیتا۔
سر دیوں کی آمد آمد تھی بحر منجمد شمالی سے یخ بستہ ہوائیں چلنا شروع ہوچکی تھیں اب تک اس کی فوج نےسمر قند کے ارد گرد و اقع باغوں میں کھلے آسمان تلے بسیرا کر رکھا تھا مگر اب ان کا ان کھلی جگہوں پر قیام ناممکن ہوگیا تھا بنا بریں بابر نے اپنے فوجیوں کو حکم دیا کہ گردوپیش میں موجود شکستہ عمارتوں اورقلعوں کو قابل استعمال بنا کر اپنے قیام وطعام کر انتظام کریں۔
حکم ملتے ہی متعدد فوجیوں نے آناً فاناً اپنے قیام وطعام کا انتظام کرنا شروع کر دیا۔ اس طرح بابر کی فوج پیش منظر سے پس منظر میں چلی گئی۔
ابھی موسم سرما اپنے پورے جوبن پر نہیں آیا تھا کہ اچانک درباریوں اور شہر کے امیروں پرمشتمل ایک وفدسمر قند سے بابر کی بارگاہ میں بازیاب ہوا اور بابر کواپنی اطاعت کا عندیہ دیا۔ اطاعت گزاری کے ثبوت کے طور پر انہوں نے سمر قند کے دروازے بابر پر کھول دیے اور دست بستہ عرض کی کہ
" سلطان اعظم سمر قند آپ کا ورثہ ہے آپ کے جد امجدامیر تیمور کا مرکز امارت ہے اس شہر پر آپ کا پورا پورا حق ہے حضور چلیے اور مسند شاہی سنبھالیے۔
سلطان بائسنغر نجانے کہاں منہ چھپا کر بھاگ گئے اب آپ ہی آقا ومولی ہیں ،ہم ہمیشہ آپ کے اطاعت گزار ہیں۔"
بابر کو سمر قند کے درباریوں اور امیروں کی اس گفتگو سے نہایت ہی طمانیت حاصل ہوئی اس کے ذہن پر سوار تمام پریشانیاں اور تشویش ناکیاں آہستہ آہستہ اترتی چلی گئیں وہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا۔ آج نانی اماں سے کیا ہوا اس کا ایک وعدہ پورا ہوگیا تھا یعنی سمر قند اس کے زیر تسلط آ گیا تھا۔