محبت کی چٹکی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
محبت کی چٹکی
مولانا عابد جمشید رانا
”سنو ! کھیت سے چند خربوزے توڑ کر لاؤ۔ “لابان نے بے تکلفی سے باغ کی مخملیں گھاس پر بیٹھے ہوئے اپنے غلام کو حکم دیا۔ وہ کہنے کو غلام تھالیکن حقیقت میں اس کا آقا اس کے اچھے اخلاق اور نیک سیرتی کی بنا پر اس کو اپنی سگی اولاد سے زیادہ محبت دیتا تھا۔ لالچ، طمع، حسد اور کینہ یہ سب امراض اسے چھو کر بھی نہ گذرے تھے۔ ظاہر میں وہ غلام اتنا حسین و جمیل بھی نہ تھا لیکن اس کے اندر کی خوبصورتی اور دل کی صفائی شکل وصورت پر غور کرنے کا موقع ہی نہ دیتی تھی۔ اس بنا پر لابان اس کی رائے کو ہمیشہ اولیت دیا کرتا تھا اور اس کی کوشش ہوتی تھی کہ یہ غلام اکثر اس کی خدمت میں رہے۔ دوسرے غلاموں کو اس کا یہ مقام ایک آنکھ نہ بھاتا تھا اور وہ ہر وقت اسے نیچا دکھانے کے منصوبے بناتے رہتے تھے۔
باغ میں انواع وا قسام کے پھلوں کے درخت تھے ان میں سے بعض نایاب قسم کے تھے اور لابان کو ان کی تجارت سے خوب آمدنی ہوتی تھی۔ اس کے غلام پھل اتارتے اور منڈیوں تک پہنچانے کے لیے ان کی صفائی اور دیگر امور سر انجام دیتے۔ اس عمل کے دوران وہ آنکھ بچا کر خوب پھل کھالیتے۔ لابان کو ساری خبر تھی لیکن وہ چشم پوشی سے کام لیا کرتا تھا۔ چند ہفتے قبل کا وہ سارا قصہ گویا اب بھی لابان کی آنکھوں کے سامنے تھا غلاموں کا پورا گروہ اس کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا ”حضور !آپ کے چہیتے غلام نے چوری چھپے اتنے زیادہ پھل کھا لیے ہیں کہ آج اتنے پھل نہیں بچے جنہیں منڈی بھیجاجا سکے۔“لابان فوراً معاملے کی تہہ تک پہنچ گیا ”سب لوگ سامنے والے میدان میں جمع ہوجائیں اور پانی کا ایک بڑا پتیلا گرم کرکے وہاں پہنچادیا جائے۔“ اس نے حکم دیا۔ سارے غلام بہت خوش ہوئے کہ آج اس لاڈلے کی خیر نہیں لیکن یہ کیا؟ لابان نے سب غلاموں کو حکم دیا کہ یہ گرم پانی پیو سب کو چار چار کٹورے پانی پینے کے بعد حکم ملا کہ اس میدان میں دوڑنا شروع کر دو۔ لابان کا چہیتا غلام بھی سب کے ہمراہ دوڑ رہا تھا۔ کچھ ہی دیر گذری تھی کہ سب نے قے شروع کر دی سوائے اس ایک کے سب کی قے میں پھلوں کے ٹکڑے تھے سب غلاموں کی نگاہیں مارے شرمندگی کے جھکی ہوئی تھیں اور لابان محبت بھری نظروں سے اپنے لاڈلے غلام کو دیکھ رہاتھا۔
”آقا خربوزے حاضر ہیں“ لابان چونک گیا وہ اپنے خیالوں میں اتنا گم تھا کہ اسے غلام کے آنے کی خبر بھی نہ ہوئی۔”اچھا اچھا ٹھیک ہے، ادھر لاؤ!“ لابان نے چھری پکڑی اور ایک خربوزہ اٹھا لیا۔”سامنے بیٹھ جاؤ! آج میں تمہیں اپنے ہاتھوں سے خربوزہ کاٹ کر کھلاتا ہوں۔“جی بہت بہتر! وہ بڑے ادب سے دوزانو ہو کر بیٹھ گیا۔ لابان نے خربوزے کی ایک قاش کاٹی غلام نے تھوڑا آگے ہوکر اس کے ہاتھ سے لی اور مزے سے کھانے لگا ایک کے بعد ایک آقا کاٹتا رہا اور غلام کھاتا رہا۔ اس کے انداز سے لگ رہا تھاکہ خربوزہ بہت ہی شیریں اور مزے کا ہے اور پھر آخری قاش۔۔۔کیوں نہ اسے میں کھا لو لابان کے جی میں آیا۔۔ آخ۔۔تھو۔۔۔.! اتنا کڑوا خربوزہ۔۔!اس سے کڑوی چیز کبھی اس کے حلق سے نہ اتری تھی اس نے قاش کو اٹھا پھینکا اور پانی کا کٹورا منہ سے لگا لیا۔ پانی پی کر وہ تعجب سے غلام کی طرف دیکھنے لگا۔۔ اتنا کڑوا ہے یہ اور تم بڑے مزے سے کھا رہے تھے۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیسے؟آقا جس ہاتھ سے بے شمار نعمتیں حاصل ہوئیں آج اگرایک خلاف مزاج بات پر ناک بھوں چڑھا لیتا تو انصاف نہ تھا غلام اور احسان ناشناس ناممکن ہے۔ آقا !ناممکن۔لقمان کے منہ سے الفاظ نہیں موتی جھڑ رہے تھے۔ لابان سوچ رہا تھا کہ یہ اس غلام کا حال ہے اور ایک ہم ہیں جو ہر وقت اس خالق کی نعمتوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اگر کبھی اس کی طرف سے کوئی آزمائش آن پڑے تو کتنی بے صبری سے شکوہ کرنے لگتے ہیں کاش ہمیں یہ احساس پیدا ہوجائے کہ یہ اس رحیم وکریم مالک کی طرف سے محبت بھری چٹکی ہے تو تکلیف میں بھی لطف آنے لگے گا پھر بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا۔
الحمد للہ علی کل حال