تم تو خود کو ہی روتے ہو

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تم تو خود کو ہی روتے ہو!
مولانا عابد جمشید
گھر میں ایک عجیب چیخ و پکار تھی، رونے کی آوازیں باہر گلی میں چلنے والوں کے قدم روک لیتی تھیں۔ گھر کاسربراہ اور سرپرست بس چند گھڑیوں کا مہمان تھا۔گھر کی خواتین، بچے اور بوڑھے سب اس کی جدائی کے خیال سےملول ہوکر رورہے تھے۔ محلے کی عورتیں بھی ان کے غم میں شریک ہونے کے لیے گھر میں آموجود ہوئی تھیں۔اور صرف گھر پر ہی موقوف نہیں، باہر محلے بھر کے مردوں کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔ لیکن ان کے چہرے پر ایک سکون تھا، ان کے ہونٹ ہل رہے تھے اور اللہ تعالی کے ذکر میں مشغول تھے۔
ان کا نام عبد الرحیم تھا، بالکل اپنے نام کی طرح شفقت و محبت کا پیکر۔ اسلام کے ابتدائی اور بابرکت ادوار میں علم کے مرکز کوفہ میں ان کی رہائش تھی۔تجارت پیشہ آدمی تھے لیکن علم دین حاصل کرنے اور اسے آگے پہنچانے کے راستے میں انہوں نے کبھی بھی اپنی تجارت کو حائل نہیں ہونے دیا تھا۔تجارت اور علم دین کے اپنے مشاغل کے باوجود انہوں نے ہمیشہ گھر کے تمام افراد کے حقوق کاپورا پورا خیال رکھا تھا۔ ماں باپ، بیٹے بیٹیاں، بیوی، کبھی بھی کسی کو کوئی کمی محسوس نہ ہونے دی تھی۔ اب ان کا آخری وقت تھا تو سب گھروالوں کے آنسو کیسے تھم جاتے؟
چیخ و پکار اور رونے کا شور زیادہ بڑھا تو انہوں نے اپنی آنکھیں کھولیں، اور نحیف سی آواز میں کچھ بولے۔ کسی کو ان کی آواز تو سنائی نہ دی البتہ ہونٹ ہلتے دیکھ کر ان کے بیٹے نے کان ان کے منہ کے قریب کیا۔ وہ کہہ رہے تھے ”مجھے ذرا اٹھا کر بٹھاؤ اور سب خاموش ہوکر میری بات سنو۔“ بیٹے نے سہارا دے کر انہیں بٹھا دیا۔ سب نے اپنی آہوں اور سسکیوں پر قابو پایا اور ان کے آخری الفاظ سننے کے لیے ہمہ تن گوش ہوگئے۔
انہوں نے اپنے دائیں طرف بیٹھی اپنی والدہ کی طرف رخ کیا اور پوچھنے لگے: ”امی جان آپ کیوں رو رہی ہیں؟“ ان کی والدہ روتے ہوئے بولیں: ”بیٹا! تم میرے بڑھاپے کا سہارا تھے، میرے اکلوتے بیٹے تھےا ب تم یہ دنیا چھوڑ کر جارہے ہو تو میرا سہارا کون بنے گا؟ تمہاری جدائی میں کیسے برداشت کرسکوں گی؟“
یہ سن کر انہوں نے دور کھڑے اپنے والد صاحب کی طرف اشارہ کیا، وہ قریب آئے تو ان سے بھی یہی سوال کیا۔ وہ آنسو بہاتے ہوئے بولے:
”بیٹا تم میری طاقت تھے، تمہاری جدائی سے میری کمر ٹوٹ رہی ہے۔ تمہارے جانے کے بعد تو میں اس دنیا میں اکیلا رہ جاؤں گا۔ میرے اس بڑھاپے اور کمزوری کی حالت میں مجھے تمہاری زیادہ ضرورت تھی تو تم مجھے چھوڑ کر جارہے ہو۔“
اس کے بعد انہوں نے اشارے سے اپنی بیوی کو قریب بلایا اور اس سے پوچھا: ”تم کیوں رو رہی ہو؟“ بیوی سسکیاں لیتے ہوئے بولی:
”آپ کی جدائی کے خیال سے رو رہی ہوں اور یہ سوچ کر دل پھٹ رہا ہے کہ آپ کے بعد میرا کون کفیل ہوگا؟ میں اپنی ضروریات کے لیے اب کس کی محتاج ہوں گی؟“
ان کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور پھر اپنی بیٹیوں کی طرف دیکھ کر ان سے پوچھنے لگے:
”میری بیٹیو! تم کس بات پر رورہی ہو؟ بیٹیوں نے روتے ہوئے جواب دیا ”والد گرامی آپ کے بغیر زندگی کا خیال سوہان روح ہے۔ آپ کے بعد ہم کس سے امیدیں لگائیں گی؟ کون ہماری آئندہ زندگی میں ہمارا خیال رکھے گا؟ اسی بات کے سبب ہمارے آنسو نہیں رک رہے۔“
انہوں نے بیٹیوں کی بات سن کر بھی ہلکا سا تبسم کیا اور بیٹوں کی طرف رخ کرکے ان سے پوچھنے لگے: ” میرے بیٹو ! تم کیوں رو رہے ہو؟ “
بیٹوں نے جواب دیا : ”ابا جان! آپ کے چلے جانے کے بعد ہم پر یتمی کا داغ لگ جائے گا، اور معاشرے میں رائج یتیموں والی ذلت ہم پرمسلط ہوجائے گی۔ ہم آپ کے بعد کس سے ضد کیا کریں گے؟ کون ہماری خواہشات پوری کیا کرے گا؟“
سب سے آخر میں انہوں نے اپنے غلام کو بلایا اور اس بھی یہی سوال کیا کہ تمہیں کیا چیز رلا رہی ہے؟ غلام نے روتے ہوئے جواب دیا ”آقا! آپ نے کبھی میرے اوپر ظلم و زیادتی نہیں کی۔ مجھے ہمیشہ اپنی اولاد کی طرح رکھا۔ اب آپ کے جانے کے بعد نہیں معلوم کہ میرا کیا بنے گا۔ نجانے میں کس کے ہاتھ فروخت کیا جاؤں گا اور وہ میرے ساتھ نجانے کیسا سلوک روا رکھے گا۔ “
غلام کی بات مکمل ہوئی تو انہوں نے ایک نظر سب گھر والوں پر ڈالی اور پھر بے ساختہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ سب گھر والوں نے تعجب سے ان کی طرف دیکھا کہ انہیں اچانک کیا ہوگیا؟ پھر ان سے پوچھنے لگے : ”آپ کیوں رو رہے ہیں؟ “
انہوں نے جواب دیا : ”مجھے یہ چیز رلا رہی ہے کہ تم میں سے ہر ایک اپنے لیے ہی رو رہا ہے، میرے لیے کوئی ایک بھی رونے والا نہیں۔ کیا تم میں سے کوئی ایک بھی ایسا ہے جو میرے اتنے لمبے سفر اور اتنے کم زادراہ پر رو رہا ہو؟ کیا تم میں سے کوئی میرے مٹی میں مل جانے پر بھی رو رہا ہے؟ کیا تم میں سے کوئی اس بات پر بھی رو رہا ہے کہ میرا حساب کیسے لیا جائے گا؟ میں اپنے رب کے سامنے کھڑا کیا جاؤں گا تو میرا کیا حال ہوگا، کیا اس بات پر بھی کوئی رو رہا ہے؟ تم سب تو خود کو ہی رو رہے ہو، مجھے تو کوئی ایک بھی نہیں رو رہا، میں نے سوچا میں خود ہی اپنے آپ کو رو لوں۔“
یہ کہا اور بلند آواز سے کلمہ طیبہ پڑھ کر جان جان آفرین کے سپرد کردی۔
قارئین کرام! کبھی ہم نے بھی سوچا کہ ہم پر کون کون روئے گا یا ہمیں خود ہی اپنے لمبے سفر کی فکر کرنا ہوگی؟ اپنے آپ پر خود ہی رونا ہوگا؟