رمضان کیسے گذاریں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
رمضان کیسے گذاریں؟
اہلیہ مولانا محمد الیاس گھمن
اللہ رب العزت نے تما م امتوں پر روزے فرض کیے مگر امتوں نے چند لوگوں کے سوا اس میں تبدیلی کر ڈالی جو آسان لگتا رکھ لیتے ورنہ چھوڑ دیتے امت محمدیہ پر بھی ایک مہینے کے روزے فرض کیے گئے ہیں جن کی بہت فضیلت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینے میں ہی اس کی تلقین شروع کردیتے تھے کہ صحابہ ؓ سے رمضان المبارک میں کوئی کمی نہ رہے۔
رمضان المبارک مسلمانوں کے لیے بہت ہی بڑ ا انعام ہے جس کی ہمارے پاس قدر نہیں۔ امیر ہیں تو وہ رکھتے نہیں کہ روزے غریب رکھیں اور غریب کہتے ہیں ہم کیا روزے رکھیں امیر رکھیں جن کے پاس پیسے ہیں اور وہ چیزیں سحر ی افطاری کے لیے لے سکتے ہیں۔
ایک حدیث میں ہے اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے روزوں کی کتنی فضلیت ہے تو ساری امت کہے سارے سال روزے ہی ہوں۔ ایک اور حدیث میں ہے مہینے کے تین روزے رکھنے سے دل کی کھوٹ اور وساوس دور ہوتے ہیں۔ آخر روزے میں کوئی مزا ہے تو صحابہؓ رمضان میں، جہاد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بار بار افطاری کی اجازت فرمادینے کے باوجود روزہ کا اہتمام فرماتےتھے حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکماً منع فرمانا پڑا۔ اللہ تعالی ہمیں بھی بات سمجھنے کی توفیق دیں۔
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کی آخری تاریخ میں ہم لوگوں کو وعظ فرمایا کہ
تمھارے اوپر ایک ایسا مہینہ آنےوالا ہے جوبہت عظیم ہے اور بہت ہی مبارک مہینہ ہے اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سےافضل ہے اللہ نے اس کے روزوں کو فرض کیا ہے اور رات کو عبادت کرنے کو ثواب کی چیز بنایا ہے (یعنی تراویح)۔ جو شخص اس مہینے میں نیکی والا کام کرکے اللہ کا تقرب حاصل کرے وہ ایسا ہے جیسے اس نے رمضان کے علاوہ کسی مہینے میں فرض ادا کیا اورجو شخص اس مہینےمیں فرض ادا کرے وہ ایسا ہے جیسے علاوہ رمضان کے اس نے سترفرض ادا کیے۔
یہ مہینہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے اور یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غمخواری کرنے کا ہے اور اس مہینے میں لوگوں کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے اور جو شخص کسی کا روزہ افطار کروائے اس کے لیے گناہوں کے معاف ہونے اور آگ سے خلاصی کا ذریعہ ہوگا اور روزہ دار کی طرح اس کو بھی ثواب ملے گا اور اس روزہ دار کے ثواب سے کچھ کمی نہیں ہوگی۔
صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے ہر کوئی تو اس کی استطاعت نہیں رکھتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ثواب تو اللہ تعالیٰ کسی کو ایک کھجور سے افطارکرنےپر یا ایک گھونٹ پانی پلانے پر یا گھونٹ لسی پلادینے پر بھی مرحمت فرمادیتے ہیں۔
یہ ایسا مہینہ ہے اس کا پہلا عشرہ رحمت ،دوسرا عشرہ مغفرت اور آخری عشرہ آ گ سے آزادی۔ اور جو شخص ہلکا کردے اپنے خادم کو اس مہینے میں تو اللہ تعالیٰ اسکی مغفرت فرمادیتے ہیں۔
اور چار چیزوں کی اس مہینے کثرت رکھا کرو دو چیزیں اللہ کی رضاء کے لیے اور دو چیزیں ایسی ہیں کہ ان کے علاوہ آپ کا چارہ کار نہیں۔ پہلی دو چیزیں کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت اور دوسر ی چیزیں جنت کی طلب کرو اور آگ سے پناہ مانگو۔ جو شخص کسی کو پانی پلا دے حق تعالیٰ قیامت کے دن اس کو حوض سے ایسا پانی پلا ئیں گے جس کے بعد جنت میں داخل ہونے تک پیا س نہیں لگے گی۔
اس حدیث سے چند امور معلوم ہوئے:
1: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ماہ شعبان میں رمضان کے متعلق وعظ فرمانا تاکہ رمضان میں ایک سیکنڈ بھی غفلت میں نہ گزرے۔
2: اللہ نے اس کا روزہ فرض کیا اور اس کے قیام تراویح کو سنت قرار دیا۔ اس کامطلب ہے تراویح کا ارشاد بھی حق تعالیٰ شانہ کی طرف سے ہے اور روزوں کی فرضیت کا انکار صرف روادفض کرتے ہیں۔
حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے کتب فقہ سے نقل کیا ہے کہ شہر کے لوگ اگر تراویح چھوڑ دیں تو اس کے چھوڑنے پر امام ان سے مقاتلہ کرے۔
آج کل لوگوں کا خیال ہوتا ہے جلدی پہلے عشرے میں قرآن سن لیں پھر چھٹی۔ حالانکہ یہ دو الگ سنتیں ہیں ، قرآن پڑھنا الگ سنت ہے اور پورے رمضان میں تراویح پڑھنا الگ سنت ہے۔ تراویح تو درکنار لوگ فرض نماز بھی چھوڑ دیتے ہیں سحری کی اور سو گئےتو فجر قضاء، ظہر خریداری میں قضاء اور مغرب افطاری میں قضاء۔ حالانکہ ہمارے اکابر پہلے سے بھی زیادہ رمضان میں عبادت کرے تھے۔
حضرت خلیل احمد باوجود ضعف کے مغرب کے بعد سوا پارہ سنانا اس کے بعد آدھا گھنٹہ کھانے اور خریداری کے کاموں کے لیے۔ مدینہ پاک میں تین گھنٹہ عشاءمیں اور تراویح سے فراغت ہوتی اس کے بعد تین گھنٹے آرام پھر تہجد میں تلاوت فرماتے پھر سحری کرتے اور فجر کی نماز تک تلاوت وغیرہ کرتے۔ فجر پڑھ کر مراقبہ میں۔ عشاء کے بعد ایک گھنٹہ آرام اس کے بعد ایک بجے تک بذل المجہود شرح سنن ابی داؤد لکھتے اور ڈاک وغیرہ کے جواب تحریر فرماتے اس کے بعد ظہر تک آرام۔ ظہر سے عصر تک تلاوت اور عصر کے بعد مغرب تک تسبیحات اور حاضرین سے بات چیت فرماتے۔
حضرت شیخ الہند ؒ تراویح کے بعد صبح کی نماز تک نوافل میں مشغول رہتے تھے اور متفرق حفاظ کرام سے تلاوت سنتے تھے بزرگوں کے یہ معمولات اس وجہ سے لکھے اور ذکر نہیں کیے جاتے کہ سرسری نگاہ سے ان کو پڑھ لیا جائے بلکہ حتی الا ستطاعت ان کی اتباع کی جائے۔
اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ صبر کا مہینہ ہے اگر روزے سے کوئی دقت ہوتو صبر سے اس کو برداشت کرے مثلاً سحری کوآنکھ نہیں کھلی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ سارا دن واویلا مچائے کہ بھوک یا پیاس لگی ہے بلکہ صبر کرے ہمارے اکابر ایسے تھے کہ تین تین دن بھوکا روزہ رکھتے اگر ان کی زندگی پر ہماری نظر رہے تو شاید ہمیں یہ باتیں مشکل نہ لگیں۔
اور روزے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ گھر کے کام چھوڑ کے بیٹھ جائیں۔ امی نے کام کہا آپ کو پسند نہیں تو کہہ دیا کہ میرا روزہ ہے ،شوہر نےکام کہا جواب آیا روزہ ہے، جان نہیں جسم میں۔ اگر ہم روزوں میں ان باتوں کا خیال نہیں رکھیں گے تو روزوں کا فائدہ نہیں۔ شوہر تو مجازی خدا ہوتا ہے اور ماں باپ کو خدانے قرآن میں اف کہنے کی بھی اجازت نہیں دی تو رمضان کو اپنے لیے زحمت نہ بنا لیں۔
حدیث شریف میں ہے جبرائیل امین نے فرمایا ہلاکت ہو اس شخص پر جو رمضان کا مہینہ پائے اور اپنی مغفرت نہ کرواسکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا آمین۔ تو سوچئے ہماری ہلاکت میں کوئی شک رہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین فرمایا؟
تو بہنو رمضان میں ماں باپ کا خیال رکھو ،شوہر کے حقوق ادا کرو رمضان میں تو نیک کام کرنے کا دگنا چوگنا ثواب ہے۔ اولاد کو روزے رکھواؤ اگر اب عادت بنی تو بڑے ہو کر رکھ سکیں گے۔ ان کو نماز کی تلقین کرو۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ غمخواری کا مہینہ ہے۔ غرباء کو روزہ افطار کرواؤ رمضان میں بندہ بھوکا رہتا ہے تو دوسرے کی بھوک پیاس کا احساس ہوتا ہے۔ اگر ہم نے اتنے کھانے پکانے ہیں تو اس میں غریبوں کا بھی خیال رکھیں۔ ہمارے ہاں آج کل ایک عجیب رسم چلی ہے افطار پارٹی کی۔
ساتھ پڑوس کا بندہ بھوکا ہے گلی محلہ والے بھوکے ہیں اور ہم ان کی دعوت کرتے ہیں جن کے پاس پہلے سے اتنا کچھ ہے کہ افطاری کے بعد پھینک دیتے ہیں۔ ہمارے اسلاف خود بھوکے رہتے تھے اور دوسروں کو کھلادیتے تھے۔ خدا ہمیں بھی ان جیسا دل عطاء فرمائے ایثار غم خواری دل گردے والے لوگوں کا کام ہے۔ ہزاروں واقعات سے کتابیں بھری پڑی ہیں بس پڑھ کر عمل کرنے والے تھوڑے ہیں۔
ابو جہم فرماتے ہیں جنگ یرموک میں اپنے چچا زاد کو تلاش کر رہا تھا اوراس خیال سے پانی بھی لے لیا کہ اس کو پلاؤں گا اور منہ دھلاؤں گا وہ اتفاق سے ایک جگہ زخمی مل گئے۔ انہوں نے اشارے سے پانی مانگا پانی لے کر گیا تو دوسرے زخمی نے آہ بھری۔ چچا زاد نے کہا کہ اس کو پلاؤ۔
وہ پانی لے کر اس کے پاس گئے تو ایک اور زخمی کراہا۔ اس نے تیسرے کے پاس بھیج دیا۔ تیسرے کے پاس گیا تو شہید ہوچکا تھا دوسرے کے پاس آیا تو وہ بھی شہید چچا زاد کے پاس آیا تو وہ بھی جان آفریں کے سپردکر چکا تھا۔ سبحان اللہ کیا ایثار تھا! یہ تھے ہمارے اسلاف خود تو پیاس سے جان دے دی مگر دوسرے بھائی سے پہلے پانی نہیں پیا۔ خدا تعالیٰ ہمیں بھی ایثار والا جذبہ عطاء فرمائیں۔ آمین
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ غلام پر نرمی والا برتاؤ کرو کیونکہ وہ بھی روزہ دار ہے اگر کام زیادہ ہے تو ایک اور نوکر رکھ لو۔ اور پھر ارشاد فرمایا چار چیزوں کا اہتمام کرو ایک کلمہ طیبہ اگر ایک پلڑے میں تمام زمین آسمان دوسرے پلڑے میں کلمہ رکھ دیا جائے تو کلمہ والا پلڑا جھک جائے گا اس لیے کلمہ طیبہ کا بہت اہتمام کریں کہ اتنی فضلیت والا کلمہ ہے۔ ایک اور حدیث میں ارشاد ہے اگر کوئی شخص اخلاص سے کلمہ طیبہ کہے تو آسمان کے دروازے اس کے لیے کھول دئیے جاتے ہیں اور عرش تک پہنچنے میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں رہتی بشرط کہنے والا کبائر گناہوں سے بچے دوسرا استغفار جو شخص کثرت سے استغفار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر تنگی میں آسانی والا راستہ نکال دیتے ہیں اور ہر غم سے خلاصی نصیب فرماتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا رمضان کے بارے میں میری امت کو پانچ چیزیں عطاء ہوئیں جو اور امتوں کو نہیں ملیں۔
1: کہ ان کی منہ کی بدبو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
2: ان کےلیے دریا کی مچھلیاں تک دعا کرتی ہیں اور افطار کے وقت تک کرتی رہتی ہیں۔
3: جنت ان کے لیے آراستہ کی جاتی ہے اور اللہ فرماتے ہیں قریب ہے کہ میرے نیک بندے اپنے اوپر سے دنیا کی مشقتیں پھینک کر میری طرف آئیں۔
4: سرکش شیطان قید کر دئیے جاتے ہیں وہ رمضان میں ان برائیوں کی طرف نہیں پہنچ سکتے جن کی طرف غیر رمضان میں پہنچ سکتے ہیں۔
5: رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کے لیے مغفرت کی جاتی ہے۔
صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یہ شب مغفرت شب قدر ہے ؟ فرمایا نہیں بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو کام ختم ہونے کو وقت مزدوری دے دی جاتی ہے۔
اعتکاف
ایک اور فضلیت والی چیز اعتکاف ہے اعتکاف کہتے ہیں مسجد میں اعتکاف کی نیت کر کے ٹھہرنے کو۔
حنفیہ کے نزدیک اس کی تین قسمیں ہیں:
ایک واجب جو منت اور نذر کرنے کی وجہ سے ہو جیسے یہ کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو اتنے دنوں کا اعتکاف کروں گا یا بغیر کسی کام پر موقوف کرنے کے یوں ہی کہہ دے میں نے اتنے دنوں کا اعتکاف اپنے اوپر لازم کرلیا ، یہ واجب ہوتا ہے۔
دوسری قسم سنت ہے جو رمضان المبارک کے اخیر عشرہ کا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ ان ایام کے اعتکاف فرمانے کی تھی۔
تیسرا اعتکاف نفل ہے جس کے لیے نہ کوئی وقت ہے نہ ایام کی مقدار جتنے دن کا جی چاہے کر لے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ معتکف گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے لیے نیکیاں اتنی ہی لکھی جاتی ہیں جتنی کہ کرنے والے کے لیے۔ اعتکاف کرنے کی بھی نیت کریں اللہ رمضان کی فضیلت حاصل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔