دورہ تحقیق المسائل

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 

">دورہ تحقیق المسائل

جویریہ، فتح جنگ
ہمارادورہ تحقیق المسائل آخری مراحل میں ہے، یہ دورہ چک نمبر 87 جنوبی لاہور روڈ سرگودھا پر واقع مرکز اہل السنت والجماعت کے اندر ہورہا ہے۔ ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اتنی دور آکر اللہ پاک ہم کو علم حاصل کرے کی توفیق عطاء فرمائیں گے لیکن اللہ کی ذات کے لیے تو کچھ بھی مشکل نہیں۔ ہمارے اس کورس کے لیے آنے کچھ وجوہات ہیں در حقیقت اللہ کا بہت بڑا کرم کہ دین کے دفاع کی نیت سے ہم علم حاصل کرنے آئے ہیں۔
اصل میں ہمارے دل میں جو مسلک کے دفاع کا جذبہ جو بیدار ہوا تو اس کا قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک سال پہلے ہمارے علاقے فتح جنگ میں الھدیٰ انٹر نیشنل والوں کا بہت زور تھا۔ ہمارے علاقے میں باقاعد ہ ان کا مدرسہ ہے اور وہ مختصر سے عرصہ میں لڑکیوں کے ذہن خراب کرکے دین دشمنی پر لگادیتے ہیں۔ ان کی ترتیب یہ ہوتی ہے کہ رمضان المبارک کے اندر ہر ہر محلہ میں جاکر درس قرآن دیتی ہیں ظاہراً تو قرآن و حدیث کی بات کرتے ہیں لیکن وہ امت کو گمراہ اور اکابر اور حضرات ائمہ سے ان کا ذہن خراب کرتے ہیں۔
ہمارے محلہ میں بھی وہ آیا کرتیں اس وقت نہ تو میں نے دورہ حدیث کیا تھا اور اس کے علاوہ بھی کچھ نہیں معلوم تھا کہ کیسے بات کی جاتی ہے۔ اپنے بھائی کے کہنے پر ہم جاتے کہ دیکھیں ان کا طرز کیا ہے مسائل ودلائل کیا ہیں۔ بعض مسائل پر ہماری ان سے بحث بھی ہوئی۔ ان کے نزدیک قضاء عمری کا کوئی تصور نہیں۔ اس پر کئی دن بحث چلی ، میری بڑی بہن ان سے بات کرتی تھی۔ ہم نے بخاری شریف سے حدیث بھی دکھائی۔
آخر انہوں یہ کہ کر جان چھڑائی کہ ہم اختلافی مسائل میں نہیں پڑتے۔ ہم نے ان کو کچھ سوالات بھی دیے اور کہا کہ حدیث سے ان کا ثبوت دکھاؤ لیکن وہ جواب نہ دے سکیں۔ ان کا درس قرآن بھی اختتام پر تھا اس وقت ہم نے ارادہ کیا کہ ان شاء اللہ ہم نے اس چیز کو سیکھنا ہے اور اپنے مسلک کا دفاع کر نا ہے۔ اللہ پاک سے درخواست اورالتجا کی۔ آگے ہمارا دورہ حدیث کا سال تھا اور ہمارے وہم وگمان میں نہ تھا ایسے اساتذہ ہمیں نصیب ہو سکتے ہیں جن کے اندر مسلک کے دفاع کا درد ہے سب ہی اپنی جگہ قابل تھے۔
ہمارے ایک استاد جو ہمارے مدرسہ جامعہ ام حبیبہ ؓ کے قریب رہتے تھے انہوں نے ہمیں صحیح مسلم شریف پڑھائی اور بڑے شرف کی بات ہے کہ وہ استاد محترم مولانا محمد عبداللہ صاحب مرکز اہل السنت والجماعت 87چک سرگودھا سے پڑھ کر گئے تھے۔ وہاں انہوں نے علاقہ میں کئی جگہ پر صراط مستقیم کورس جو لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے ہے اور متکلم اسلام حضرت استاذ محترم مولانا الیاس گھمن صاحب دامت برکاتہم نے اس کو ترتیب دیا ہے، اس کو رس کا کئی جگہوں پر انعقاد کروایا ہے۔
یہ کورس ہمارے مدرسہ جامعہ ام حبیبہ ؓ میں بھی آج سے دو سال پہلے شروع ہوا۔ استاذمحترم جب بھی کوئی حدیث مبارکہ موجودہ دور کے اختلافی مسائل کے متعلق آئی تو درس کی عام ترجیہات سے ہٹ کر بہت مفصل پڑھایاکرتے مثلاً مسئلہ عصمت انبیاء، عقیدہ حیات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام وغیرہ۔
پھر ہم نے مزید پختہ ارادہ کرلیا کہ ان شاء اللہ ضرور ہم نے اس چیز پر محنت کر نی ہے اور اپنے علاقے میں اس کوعام کرنا ہے تو اس کے لیے انسان کے پاس علم کا ہونا بھی ضروی ہے۔ میں جب متکلم اسلام حضرت استاذ محترم مولانا الیاس گھمن صاحب دامت برکاتہم کے متعلق سنا کرتی اور رسالہ بنات اہل السنت وقافلہ حق میں پڑھتی تو دل میں بہت تمنا آتی کہ اللہ پاک ہم کو ان کی شاگردی نصیب فرمائیں۔
جہاں تک ہمارے علم میں ہے کہ موجودہ فتنوں کے دور میں جس کے قدر دین کے دفاع کا کام حضرت استاد محترم نے شروع کیا وہ اور کہیں پر نہیں۔ دین پر ہونے والے ہر طرح اور ہر طرف سے ہونے والے اعتراضات کا جواب دیا، خواہ وہ اعتراض فضائل اعمال پر ہوں یا مولانا طارق جمیل صاحب پر، عقیدہ حیات انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام یا تقلید ائمہ اور خصوصاً مذہب حنفی و اکابر دیوبند کی عظمت پر ہوں۔
ہمارے استاذ محترم مولانا محمد عبداللہ صاحب فرمایا کرتے کہ غیر مقلدین کے جتنے فرقے ہیں ان سے سب سے زیادہ نقصان مذہب حنفی کو ہو رہا ہے۔ ان کے مقابلہ میں سب سے زیادہ مسلک حنفی کا دفاع اور ترویج کی کوشش حضرت متکلم اسلام فرمارہے ہیں۔ ان چیزوں کو دیکھ کر یہ دعا کرتےکہ یا اللہ حضرت کی شاگردی نصیب فرما اور جو کام وہ کررہے ہیں ہمیں بھی اس کے لیے قبول فرما لے۔ بظاہر کچھ امید نہ تھی اور اتنا دور کا سفر!
یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ان کے ہاں لڑکیوں کے مدرسہ میں کیا ترتیب ہے صرف دل کی تمنا تھی۔ رسالہ بنات اہل السنت میں دورہ تحقیق المسائل کا اشتہار پڑھا لیکن بظاہر کچھ وسیلہ نہ تھا۔ میرے بھائی قاری عبدالواحد صاحب ان کو بھی ان سے بڑی عقیدت و محبت ہے، ان کی یہ تمنا تھی کہ ہم ان کے پاس یہ دورہ کرلیں۔ حضرت متکلم اسلام راولپنڈی میں بیان وغیرہ کے سلسلہ میں گئے تھےوہاں بھی اس کا تذکرہ ہوا۔ با لآخر ہمارے بھائی نے با ت کر دی اور پھر مجھے خوش خبری سنائی کہ میں نے بات کرلی ہے اور 22 جون کو تم نے جانا ہے۔
21 جون کو ہمارے وفاق المدارس کے امتحان ختم ہوئے اور پھر میں ادھر آگئی اور تحدیث بالنعمۃ کے طور کہتی ہوں کے اس مدرسہ مرکز اصلاح النساء میں کورس کے لیے آنے والی سب سے پہلی طالبہ میں تھی، اگرچہ اسباق سب کے ساتھ شروع ہوئے۔ مجھے اس پر فخر ہے جہاں میں نے درس نظامی پڑھا ہے جامعہ امّ حبیبہ وہاں پر بھی سب سے پہلے درجہ کتب میں جانےوالی میں تھی اور ہماری جماعت پہلی جماعت تھی جو وہاں سے فارغ ہوئی۔ اللہ ہمارےاساتذہ کو ڈھیروں برکتیں عطاءفرمائے۔
اس مرکز میں اللہ تعالی نے اتنا احسان کیا کہ متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ کےعلاوہ بھی کئی بڑے علماء کی شاگردی نصیب ہوئی۔ اور ان اساتذہ کرام سے نسبت ہمارے لیے باعث افتخار ہے۔
مرکز اصلاح النساء میں ماشاء اللہ بہت اچھا نظام تھا۔ کورس کے لیےآنے والی طالبات کا ہر طرح خیال رکھاجاتا اور غلطیوں سے چشم پوشی کی جاتی شاید اس لیے بھی کہ صرف چند دن کی مہمان ہیں۔ حضرت کی زوجہ محترمہ اور بیٹی مرکز اصلاح النساء کے انتظامات سنبھال رہی تھیں، اللہ پاک ان کی محنت میں برکت عطاء فرمائے۔
حضرت استاذ محترم متکلم اسلام نے آخری دو دن طالبات میں بیان فرمایا جن کا خلاصہ عرض ہے:
ہمارے مدارس سے فارغ ہونے والی طالبات کی ایک بہت بڑی کمزوری ہے کہ مسلک کے دفاع کی جوسب سے بڑی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے اس کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔ حالانکہ جس طرح یہ کام مردوں کے ذمہ ہے خواتین کے ذمہ بھی ہے۔
اللہ پاک نے سورۃ العصر میں زمانے کی قسم کھا کر فرمایا کہ انسان خسارے میں ہے اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو خسارے میں نہیں۔ ایسا بننے کے لیے سب سے پہلی جو بات فرمائی اٰمنوا کہ عقائد ان کے قرآن وسنت سےثابت شدہ ہوں۔
اور دوسری بات جو ارشادفرمائی وعملوا الصّٰلحٰت ان کا عمل سنت کے مطابق ہو اور سنتیں بعض ایسی ہیں جو مرد وعورت دونوں کے لیے ایک ہی ہیں اور بعض وہ ہیں جو مردوں کے لیے مختلف عورتوں کے لیے مختلف ہیں۔ مثلاً مردوں کے لیے ڈاڑھی رکھنے کا حکم ہے اور عورت کو سر کے بال۔ تو جس طرح مرد کے لیے ڈاڑھی کٹوانا ناجائز ،حرا م ہے اسی طرح عورت کے لیے سر کے بال کٹوانا ناجا ئز ہے۔
تیسری بات جو ارشاد فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ اپنے عقائد واعمال کی درستگی کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی صحیح عقیدہ اور سنت کی دعوت دیں یہ حکم بھی مرد وعورت کے لیے ہے۔ مرد تو بحمداللہ اپنی ذمہ داری کو ادا کررہے ہیں لیکن خواتین میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔
غیر مقلدین کا دسواں فرقہ (الھدیٰ انٹر نیشنل ) صرف خواتین میں گمراہی پھیلانے کے لیے ہے اور اسکی ذمہ دار بھی ایک گمراہ ترین عورت فرحت ہاشمی ہے۔ ان کے پاس دلائل کمزور ہیں لیکن وہ لوگوں کے ساتھ بات کرسکتی ہیں، انہیں گمراہ کرسکتی ہیں۔ لیکن ہماری طالبات، اگرچہ اللہ نے ہم کو اپنے فضل سے مسلک اھل السنت والجماعت میں سے فقہ حنفی اور اکابر علماء دیوبند سے وابستگی نصیب فرمائی ہے، ہمارے پاس دلائل بھی ہیں اور مضبوط بھی ہیں لیکن کسی کے سامنے بیان کرنے کا ڈھنگ نہیں آتا۔
حضرت استاذ محترم متکلم اسلام فرماتے ہیں کہ اسکی دو بنیادی وجوہ ہیں ایک تو یہ کہ عقائد سکھائے نہیں جاتے اور دوسرا یہ کہ مواقع فراہم نہیں کیے جاتے، اگر سب کچھ پڑھ بھی لیں تو کسی کے سامنے بیان نہیں کرسکتیں۔ ہمارے تجربہ اور سوچ کے مطابق یہ سب سے بڑی کمزوری ہے۔
اہل مدراس کو چاہیے کہ اس چیز پرخصوصی توجہ دیں۔ عورت اگر خود براہ راست کام نہ کر سکے تو مردوں کی معاون بنے اور ان کے راستے میں رکاوٹ نہ بنے۔ اگر مرد کو گھر کی طرف سے پریشانی ہوگی تو وہ باہر کا کام نہ کرسکے گا۔ گھر کا ماحول اور اپنا مزاج ایسا رکھنا چاہیے کہ اس کی باہر کی پریشانیاں گھر میں آ کر دور ہوں۔ اس کی سب سے بہترین مثال ام المومنین سیّدہ خدیجۃ الکبرٰی رضی اللہ تعالی عنہا ہیں۔ )اور موجودہ دور میں ہمارے سامنے سب سے بڑی مثال حضرت استاذ محترم ہیں۔ تین بیویوں کے ہوتے ہوئے بھی کس طرح مسلک کا دفاع کررہے ہیں۔(
اللہ سے ہر وقت عافیت مانگیں اور مشکلات آجائیں تو پھر چونکہ یہ دین کا دفاع صحانہ ؓ کی سنت ہے تو مصائب کو صحابہ ؓ کی سنت سمجھ کر برداشت کریں۔
اہل السنت والجماعت کا موقف یہ ہے کہ جن کاموں کو کرنے کا حکم ہے ان کو کیا جائے اور جن کو نہ کرنے کا حکم ہے ان سے رکا جائے۔ قرآن کریم کی آیت فاعلم انہ لا الہ ٰ الا اللہ میں معبودان باطلہ کی نفی، ان کے انکار کا حکم اور اللہ تعالیٰ کو ماننے کا حکم ہے۔
تو صرف یہ نظریہ کہ جن کاموں کے کرنے کا حکم ہے وہ کیے جائیں یہ نظریہ بھی غلط ہے اور جن کاموں سے منع کیا گیا ان سے نہ روکا جائے یہ بھی غلط ہے۔ جو کام کرنے کے ہیں جو ان کو نہ کرے اسے ملحد کہتے ہیں اور جو رکنے کی چیزیں ہیں جو ان سے نہ رکے وہ بدعتی ہے۔ تو اہل السنت والجماعت کا موقف نہ الحاد والا ہے نہ بدعت والا بلکہ عین قرآن وسنت کے مطابق راہ اعتدال والا ہے۔ مثلاً سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے متعلق حاظر وناظر ہونے کا عقیدہ سمجھ لیجئے کہ اللہ کی ذات کو حاظر ناظر ماننے کا حکم ہے تو ایک فرقہ وہ ہے جو اللہ کو حاضر ناضر نہیں مانتا اور ایک وہ ہے جو اللہ جل شانہ کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حاظر ناظر مانتا ہے۔ تو ہمارا اہل السنت والجماعت کا موقف ہے یہ کہ ہم اللہ تعالیٰ کو حاظر بھی مانتے ہیں اور ناظر بھی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ حاضر مانتے ہیں نہ ناظر۔
وجہ اس کی یہ ہے کہ خدا کی ذات جسم سے پاک ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات جسم والی ہے تو جو جسم سے پاک ہے تو وہ ہرجگہ موجود ہوسکتا ہے۔ قرآن کریم کی کئی آیات مبارکہ سے ثابت ہے مثلاً ایک سب سے بڑی دلیل
ما یکون من نجوٰی ثلٰثۃ الا ھو رابعہم ولاخمسۃ الا ھو سادسھم دوسری دلیل للہ المشرق والمغرب فاینما تولو فثم وجہ اللہ تیسری دلیل اذا سألک عبادی عنی فانی قریب معلوم ہو کہ خدا کی ذات ہرجگہ موجود ہے۔
لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بدر میں، کبھی احد میں ،کبھی مکہ، کبھی مدینہ، ادھر ہیں تو ادھر نہیں ،ادھر ہیں تو ادھر نہیں۔ جو حاظر اور ناظر ہوتا ہے وہ آتا اور جاتا نہیں اور جو آتا اور جاتا ہے وہ حاظر بھی نہیں اور ناظر بھی نہیں۔ اسی طرح دیگر کئی مثالیں ہیں جس نے سمجھنا ہو وہ سمجھ جاتا ہے اور جس نے سمجھنا ہی نہ ہو تو وہ ہزار دلائل سے بھی نہیں سمجھتا۔ تو ہم کو اپنے مسلک اور اپنے اکابر سے کٹنا نہیں چاہیے اور جو کٹ گئے وہ ٹوٹی ہوئی پتنگ کی طرح ہیں، جس کی گود میں چاہے گر جائے۔ اس کام کے لیے اولیاء اللہ کی صحبت بھی ضروری ہے اور کسی نہ کسی بزرگ سے اصلاحی تعلق بھی ہونا چاہیے۔ حضرت نے بیعت سے متعلق کچھ نصیحتیں بھی فرمائیں اور فرمایا کہ اصلاحی تعلق کے لیے دو چیزوں کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے۔
1: شیخ سے استفادہ کرنا آسان ہو۔
2: شیخ سے مزاج ملتاہو یعنی اپنے ذوق کا ہو۔ بعض لوگ یوں کہا کرتے ہیں یار کیا کریں گناہ کرتے ہیں اصلاح چاہتے ہیں لیکن وہ پیر کہاں ! پیر ومرشد تو حضرت تھانوی وگنگوہی تھے اور حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ تھے کہ بانی دارالعلوم دیوبند قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒ جن کے مرید تھے۔ ارے خداکے بندے! قرآن میں فرمایا یاایھاالذین اٰمنوا اتقواللہ وکونوا مع الصادقین کہ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ رہا کرو۔
اللہ تعالیٰ کسی کو ایسے کام کا حکم نہیں فرماتے جس کو وہ نہ کر سکتا ہو۔ تو سچے لوگ ہر دور میں موجود ہیں تبھی تو ان کی صحبت میں رہنے کا حکم ہے۔ اور سچے بھی ایسے جو اللہ سے ڈرنے میں سچے ہوں تب ہی تو اللہ نے مع الصادقین کہا مع المتقین نہیں کہا یعنی وہ جو خلوت اور جلوت میں ایک جیسے ہوں۔ ایسے لوگ تلاش سے ملا کرتے ہیں یعنی خانقاہوں میں رہنے والے۔ ہمارےشیخ مرشد استاذ محترم حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب حفظہ اللہ تعالی جہاں مسلکی دفاع کے میدان میں صف اول میں ہیں اس کے ساتھ ساتھ عارف باللہ حضرت الشاہ حکیم محمد اختر دامت برکاتہم کے خلیفہ مجاز بھی ہیں۔ حضرت بیعت بھی کرتے ہیں اور بیعت کرنے والے حضرات سے فرمایا کرتے ہیں کہ بس ہماری تین شرائط ہیں گناہوں سے بچو ، مسلک کا کام کرو،اکابر علماء دیوبند پر اعتماد کرو۔
دورہ تحقیق المسائل کے اختتام سے ایک دن پہلے جمعرات کی رات کو حضرت نےطلباءوطالبات کو بیعت کیا اور یہ سعادت ہم کو بھی نصیب ہوئی۔ آخری مراحل کا ذکر کرکے مضمو ن کو ختم کرتے ہیں۔
اچھا ایک بات رہ گئی ہے پہلی جمعرات کی رات کو مرکز اہل السنۃ کو خالی کروایا گیا اور ساری طالبات کو جو تقریباً پچیس ہوں گی، مرکز کی زیارت کروائی گئی۔ ماشاءاللہ بہت خوبصورت مرکز تھا ،لائبریری ،کتب خانہ ،مسجد ،دفتر ،مہمان خانہ اور طلباء کرام کی رہائش گاہ۔ مرکز کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مرکز والے نظم و ضبط کے بہت پابند ہیں۔
صبح کو اختتامی دعا تھی اور اسناد تقسیم ہونا تھیں، بڑے بڑے علماء تشریف لائے ان کی آمد کو ہم اپنے لیےسعادت سمجھتے ہیں۔ باری باری سب کے بیانات تھے ،نظم ونعت کا سلسلہ بھی تھا ،سب سے پہلے نعت وغیرہ کے بعد حضرت مولانا عبداللہ وڑائچ صاحب کا خطاب عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر تھا۔ دوسرا خطاب حضرت ڈاکٹر عبد المقیم صاحب کاتھا، ان کے خطاب سے پہلے حضرت متکلم اسلام فرمانے لگے کہ یہ ایسے حضرات ہیں جنہوں نے ہر مشکل وقت میں ہمارے سر پر دست شفقت رکھا۔ فرمایا کہ ایک وقت تھا جب میں جیل میں تھا اور مرکز میں صراط مستقیم کورس ہورہا تھا انہوں نے آ کر اس کی سرپرستی فرمائی۔
ان کے بعد امیر اتحاد اہل السنۃ شیخ الحدیث مولانا منیر احمد منور دامت برکاتہم کا خطاب ہوا۔ حضرت نے اتحاد اہل السنت والجماعت کے مقصد، فقہ اور فقہاء پر اتفاق اورفقہ کی اہمیت کو بتلایا اور غیر مقلدین کو پکڑنے کا طریقہ بڑی وضاحت سے بیان فرمایا کہ حدیث و سنت کی تعریف بھی قرآن وحدیث سے مانگو۔ اور دیگر وہ مسائل جو قرآن وسنت میں نہیں یا ہیں مگر مجمل ہیں یا ان کا آپس میں تعارض ہے مثلاً ایک مسئلہ پر دو طرح کی احادیث ہوں ایک منع کی ایک اجازت کی تو کس پر عمل ہو گا؟ کسی حدیث کے بارے میں اگر وہ کہتے ہیں کہ ضعیف ہے یا صحیح ہے تو قرآن وسنت سے دلیل مانگو۔ یا وہ آیات یا احادیث جن میں ایک لفظ کے عربی کلام میں کئی معنی ہوں تو کون سے معنی پر عمل کرنا ہے؟ یہ بھی قرآ ن وحدیث سے دکھاؤ۔ الغرض اس طرح کرنے سے غیر مقلد ہر جگہ سے بھاگے گا یا کم از کم اس کی زبان کو تالا لگ جائے گا۔
اس کے بعد آخر ی خطاب حضرت استاذ محترم متکلم اسلام کے پیر ومرشد عارف باللہ الشیخ حکیم محمد اختر دامت برکاتہم کے صاحبزادے جامعہ اشرف المدارس کراچی کے مہتمم خانقاہ اشرفیہ کے ناظم اعلیٰ حضرت مولانا حکیم محمد مظہر صاحب دامت برکاتہم کا تھا۔ ان کے بیان سے پہلے بھی حضرت استاذ جی نے فرمایا کہ ان لوگوں ہے ہمیشہ مشکل وقت میں ہمارے سرپر دست شفقت رکھا کہ جب بیرون ملک میرے خلاف پرو پیگنڈہ ہوا کہ تمام خانقاہوں سے مجھے نکا ل دیا گیا ہے تو حضرت خود کراچی سے ہمارے ہاں تشریف لائے اور بیان فریا۔ وجہ یہ بتائی کہ تمہارے خلاف ہونے والے پروپیگنڈہ کے توڑ کے لیے آیا ہوں کہ خانقاہیں تمہارے ساتھ ہیں۔ حضرت حکیم محمد مظہر صاحب نے صحیح بخاری کی سب سے پہلے حدیث مبارکہ جو سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انماالاعمال بالنیات تلاوت کی۔ پھر حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے مناقب بیان فرمائے اور فرمایا کہ عمر وہ لفظ ہے کہ سترہ حروف جارہ بھی مل کر اس کو زیر نہیں دے سکتے اس لیے کہ غیر منصرف ہے اس پر زیر آتی ہی نہیں، ہمیشہ غالب رہتا ہے مغلوب نہیں ہوتا۔ مزید فرمایا اللہ نے ہم کو ایمان دیا اور دوسرا وصف تقوی بھی آجائےتو ہم بھی غیر منصرف بن سکتے ہیں۔ مزید یہ بھی کہ ان کے اسلام لانے پر کیا کیا خوشیاں مسلمانوں کو ملیں اور ان کی خلافت سے کتنے فوائد ہوئے ان پر بھی دلنشین انداز میں بیان فرمایا۔ اور حدیث مبارکہ پر بھی بحث فرمائی کہ سارے دین کی اساس نیت پر ہے۔ آخر میں حضرت کی دعا تھی، حضرت بڑے پرسوز انداز میں خداکو پکار رہے تھے۔
پھر اکابرین کے مبارک ہاتھوں سے تقریباً ساڑھے تین سوکے قریب طلبہ میں اسناد تقسیم ہوئیں۔ طالبات کو حضرت کی زوجہ محترمہ نے اسنادتقسیم کیں۔ پھر اس کے بعد کھانے کا انتظام تھا اور طلبہ وطالبات اپنے گلشن سے رخصت ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قبول فرمائے مرکز اہل السنت والجماعت ومرکز اصلاح النساء کو ترقی عطاء فر مائے۔مرکز والوں کے خلوص میں اضافہ فرمائے۔ اس کا فیض پوری دنیا میں پھیلے اور یہ پوری دنیا کا مرکز ہو۔اللہ پاک ہم کو حضرت استاذ جی محترم کی مستقل شاگردی نصیب فرمائےاور ہم سے اپنے مسلک کے دفاع کا کام آخری دم تک لے۔ آمین یا رب العلمین