صر ف بیس پنس

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
صر ف بیس پنس
اہلیہ مولانا کلیم اللہ، لیہ
یہ ایک سچا واقعہ ہے جو میں نے ایک امام صاحب کے انٹرویو میں خود سنا۔ بہت سال پہلے کی بات ہےکہ ایک امام مسجد صاحب پاکستان سے امامت کے منصب پر فائز ہو کر برطانیہ کے شہر لندن پہنچے۔ ذاتی گاڑی پاس نہ تھی، مسجد اور گھر کے درمیان چند کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔ اس طرح روزانہ گھر سے مسجد جانے کیلیئے بس پر سوار ہو کر جانا ان کا معمول بن گیا۔
لندن پہنچنے کے ہفتوں بعد، لگے بندھے وقت اور ایک ہی روٹ پر بسوں میں سفر کرتے ہوئےاکثر ایسا ہوتا تھا کہ بس بھی وہی ہوتی تھی اور بس کا ٹکٹ کلکٹر بھی وہی ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ یہ امام صاحب بس پر سوار ہوئے، ٹکٹ کلکٹر کو کرایہ دیا اور باقی کے پیسے لیکر ایک نشست پر جا کر بیٹھ گئے۔
ٹکٹ کلکٹر کے دیے ہوئے باقی کے پیسے جیب میں ڈالنے سے قبل دیکھے تو پتہ چلا کہ بیس پنس زیادہ آگئے ہیں۔ امام صاحب سوچ میں پڑ گئے، پھر اپنے آپ سے کہا کہ یہ بیس پنس وہ اترتے ہوئے ٹکٹ کلکٹر کو واپس کر دیں گے کیونکہ یہ ان کا حق نہیں بنتے۔ پھر ایک سوچ یہ بھی آئی کہ بھول جاؤ ان تھوڑے سے پیسوں کو، اتنے تھوڑے سے پیسوں کی کون پرواہ کرتا ہے!
ٹرانسپورٹ کمپنی ان بسوں کی کمائی سے لاکھوں پاؤنڈ کماتی بھی تو ہے، ان تھوڑے سے پیسوں سے ان کی کمائی میں کیا فرق پڑ جائے گا؟ اور میں ان پیسوں کو اللہ کی طرف سے انعام سمجھ کر جیب میں ڈالتا ہوں اور چپ ہی رہتا ہوں۔
انہی سوچوں میں گھرے ہوئے امام صاحب کی بس امام صاحب کے مطلوبہ سٹاپ پر رکی تو انہوں نے اترنے سے پہلے ٹکٹ کلکٹر کو بیس پنس واپس کرتے ہوئے کہا:
”یہ لیجئے بیس پنس، لگتا ہے آپ نے غلطی سے مجھے زیادہ دے دیے ہیں۔“
ٹکٹ کلکٹر نے بیس پنس واپس لیتے ہوئے مسکرا کر امام صاحب سے پوچھا:
”کیا آپ اس علاقے کی مسجد کے نئے امام ہیں؟“
امام صاحب نے فرمایا: ”جی ہاں، میں گذشتہ تین ماہ سے یہاں امامت اور خطابت کے فرائض سرانجام دے رہا ہوں۔“
ٹکٹ کلکٹر کے لہجے میں اب سنجیدگی آگئی، وہ بولا:
” میں بہت عرصہ سے آپ کی مسجد میں آ کر اسلام کے بارے میں معلومات لینا چاہ رہا تھا۔ یہ بیس پنس میں نے جان بوجھ کر آپ کو زیادہ دیے تھے تاکہ اس معمولی رقم کے بارے میں مسلمانوں کے ایک پیشوا کا رویہ پرکھ سکوں۔ آپ کا بہت شکریہ، آپ نے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں میری سوچ کو ایک نیا رخ دے دیا ہے۔“
اس مکالمے کے بعد امام صاحب جیسے ہی بس سے نیچے اترے، انہیں ایسے لگا جیسے ان کی ٹانگوں سے جان نکل گئی ہے، گرنے سے بچنے کیلیے ایک کھمبے کا سہارا لیا، آسمان کی طرف منہ اٹھا کر روتے ہوئے دعا کی:
” یا اللہ مجھے معاف کر دینا، میں ابھی اسلام کو بیس پنس میں بیچنے لگا تھا… اور… اس کے بعد… ہو سکتا ہے کہ… یہ ٹکٹ کلکٹر… ہمیشہ کے لیے… اسلام… اور مسلمانوں… سے دور ہوجاتا۔ “
جی ہاں! میری بہنو! ہوسکتا ہے کہ ہم کبھی بھی اپنے افعال پر لوگوں کے ردعمل کی پرواہ نہ کرتے ہوں، مگر یاد رکھئے کہ بعض اوقات لوگ صرف قرآن کریم پڑھ کر اسلام کے بارے میں جانتے ہیں۔ لیکن بہت سے غیر مسلم ہم مسلمانوں کو دیکھ کر اسلام کا تصور باندھتے ہیں۔
اس طرح تو ہم سب کو دوسروں کی لیئے ایک اچھی مثال ہونا چاہئے، اور ہمیشہ اپنے معاملات میں سچے اور کھرے بھی۔ صرف اتنا ہی ذہن میں رکھ کر، کہیں کوئی ہمارے رویوں کے تعاقب میں تو نہیں؟ اور ہمارے شخصی تصرف کو سب مسلمانوں کی مثال نہ سمجھ بیٹھے یا پھر اسلام کی تصویر ہمارے تصرفات اور رویوں کے مطابق ذہن میں نہ بٹھا لے۔
اللہ تعالی ہم سب کو عملی زندگی میں اچھا اور قابل تقلید مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائیں۔ اور ہمارے اقوال و اعمال کو اسلام کی سچی تصویر پیش کرنے والا آئینہ بنا دیں۔
آمین ثم آمین