ماہ ِمحرم کے فضائل و احکامات

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ماہ ِمحرم کے فضائل و احکامات
…………متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
ماہ محرم اپنی فضیلت وعظمت ، حرمت و برکت اور مقام و مرتبہ کے لحاظ سے انفرادی خصوصیت کا حامل ہے۔ اسی وجہ سے شریعت محمدیہ علیٰ صا حبہا الصلوٰة والسلام کے ابتدائی دور میں اس کے اعزازو اکرام میں قتال کو ممنوع قرار دیا گیا۔ ارشاد ربا نی ہے :
قُل قِتَال فِیہِ کَبِیر۔
(البقرہ :217 )
ترجمہ:کہہ دیجئے اس میں قتال کرنا بہت بڑا گنا ہ ہے۔
اسے حر مت والے مہینوں میں سے بھی شمار کیا گیا ہے۔ارشاد با ری ہے :
انّ عدّۃ الشّھور عنداللہ اثنا عشر شھراً فی کتٰب اللہ یوم خلق السموٰت والارض منھآ اربعۃٌحرم
(التوبہ :36)
تر جمہ: مہینوں کی گنتی اللہ تعا لیٰ کے نزدیک12 مہینے ہے..ان میں سے چا ر مہینے ادب کے ہیں۔
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما یا:
” اِنَّ الزَّمَانَ قَدِ ا ستَدَارَ کَھَیاَتِہِ یَومَ خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوَاتِ وَالَارضَ اَلسَّنَةُ اِثنَا عَشَرَ شَھراً مِنھَا اَربَعَةحُرُم ثَلَاث مُتَوَالِیاَت ذُوالقَعدَةِ وَ ذُوالحَجَّةِ وَ المُحَرَّمُ وَ رَجَبُ مُضَرَ الَّذِی بَینَ جُمَا دٰی وَ شَعبَانَ۔
( صحیح بخا ری :ج 2:ص: 672:باب قولہ ان عدة الشہورالخ )
تر جمہ : زمانے کی رفتا ر وہی ہے جس دن اللہ تعا لیٰ نے آسمان اور زمین کو پیدا فر ما یا تھا۔ ایک سال با رہ مہینو ں کا ہو تا ہے ان میں سے چا ر مہینے حرمت والے ہیں جن میں سے تین مہینے مسلسل ہیں یعنی ذوالقعدہ ، ذوالحجہ، محرم اور ایک مہینہ رجب کا ہے جو جمادی الثا نی اور شعبا ن کے در میان آتا ہے۔
محرم کے رو زوں کی فضیلت:
یوں تو اس ماہ میں کی جا نے والے ہر عبادت قابل قدر اور با عث اجر ہے مگر احا دیث مبارکہ میں محرم کے روزوں کی خصوصی ترغیب دی گئی ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرما تے ہیں:
” وَاَفضَلُ الصِّیَامِ بَعدَ شَھرِ رَمَضَانَ صِیَامُ شَھرِاللّٰہِ المُحَرَّمِ۔
( مسلم :ج :1: ص: 368 :با ب فضل صوم المحرم )
تر جمہ: رمضا ن کے رو زو ں کے بعد سب سے بہتر ین رو زے اللہ کے مہینہ ”محرم“ کے رو زے ہیں۔
حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہما سے روا یت ہے :
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَن صَامَ یَوماً مِنَ المُحَرَّمِ فَلَہُ بِکُلِّ یَومٍ ثَلاَثُونَ یَوماً۔
( غنیۃ الطا لبین للشیخ جیلانیؒ: ص:314: مجلس فی فضائل یو م عا شوراء)
ترجمہ : جو محرم کے ایک دن کا روزہ رکھے اس کو ایک مہینے کے روزوں کا ثواب ملے گا۔
پھر اس ماہ کے تمام ایام میں سے اللہ رب العزت نے ” یوم عاشوراء“کو ایک ممتاز مقام عطا ءفرما یا ہے۔ یہ دن بہت سے فضائل کا حامل اور نیکیوں کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ ارشاد نبوی ہے:
” وَ صِیَامُ یَومِ عَاشُورَائَ احتَسَبَ عَلَی اللّٰہِ اَن یُّکَفِّرَ اَلسَّنَةَ الَّتِی قَبلَہ۔ “
( صحیح مسلم :ج :1: ص:367:باب استحباب صیام ثلاثہ ایام )
ترجمہ : جو شخص عاشورا کے دن کا روزہ رکھتا ہے تو اللہ تبارک و تعا لیٰ اس کے گزشتہ سال کے( صغیرہ) گناہ معاف فرما دیتے ہیں۔
ایک روایت میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ فر ما ن ہے:
” مَا رَاَیتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم یَتَحَرّیٰ صِیَامَ یَومٍ فَضَّلَہ عَلٰی غَیرِہ اِلَّا ھٰذَ االیَومَ یَومَ عَاشُورَائَ وَھٰذَاالشَّھرَ یَعنِی شَھرَ رَمَضَانَ“
( صحیح بخا ری ج1 ص268)
ترجمہ : حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے مہینہ اور دس محرم کے دن روزہ رکھنے کا اہتمام فرما یا کرتے تھے۔
نوٹ: اہل ایمان کو یہود کی مخا لفت کا حکم دیا گیا ہے اور اس دسویں محرم کا روزہ چونکہ یہود بھی رکھتے ہیں اس لئے اب ہما رے لئے حکم یہ ہے کہ دسویں تاریخ کے ساتھ نویں یا گیارہویں تاریخ کا رو زہ بھی رکھیں تا کہ سنت بھی ادا ہو جائے اور مخا لفتِ یہود کا پہلو بھی نکل آ ئے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے:
قَا لَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم صُومُوا یَومَ عَاشُورَائَ وَ خَالِفُوا فِیہِ الیَھُودَ وَصُومُوا قَبلَہ یَوماً اَو بَعدَہ یَوماً۔
( مسند احمدج1 ص 241)
ترجمہ : تم عاشورہ کا روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو اور اس سے ایک دن پہلے یا بعد کا روزہ بھی رکھو۔
عاشورا کے دن اہل وعیا ل پرو سعت سے خر چ کر نا :
دسویں محرم کے دن اپنی استطا عت کے مطا بق حلال آ مدنی سے اپنے اہل و عیال پر کھا نے پینے میں وسعت کر نا، بر کت رزق کا ذریعہ اور فقرو فاقہ سے نجات کا سبب ہے۔حضرت جا بر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا:
مَن وَسَّعَ عَلٰی نَفسِہ وَ اَھلِہ یَومَ عَا شُورَائَ وَسَّعَ اللّٰہُ عَلَیہِ سَائِرَ سَنَتِہ“۔
( الاستذکار لا بن عبد البر المالکی ج :3 ص: 321کتا ب الصیام )
ترجمہ : جو آ دمی اپنے آپ پر اور اپنے گھر والوں پر عاشوراءکے دن ( کھا نے پینے میں) وسعت کرے گا اللہ تعا لیٰ اس پر پورے سال وسعت فرما ئیں گے۔
اس مبا رک عمل کی تا ثیر یہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعا لیٰ سا رے سال رزق میں وسعت کر دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے جلیل القدر صحا بی حضرت جا بر رضی اللہ عنہ ، مشہور محدث یحیٰ بن سعید رحمہ اللہ اور معروف امام و فقیہ سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا تو اس کو درست اور اسی طرح پایا۔
(ایضاً)
لیکن یہ بات واضح رہے کہ مذ کورہ امور جس درجے میں ثابت ہیں ان کو اسی درجے میں رکھ کر مانا اور عمل کیا جائے افراط و تفریط سے از حد اجتناب کیا جائے۔
ماہ محر م کی بدعات ورسوما ت :
ماہ محرم بر کا ت کا حامل مہینہ ہے لیکن بعض لو گ اس کی برکا ت سے فا ئدہ حاصل کر نے کی بجا ئے بدعات ورسوما ت میں پڑ کر اس کی حقیقی فضیلت سے محرو م ہو جا تے ہیں۔ذیل میں چند بدعات ورسومات کی نشاندہی کی جا تی ہے تا کہ ان سے بچ کر صحیح اعمال اختیار کیے جا ئیں۔
تعزیہ:
تعزیہ کرنا نا جا ئز ہے قر آ ن مجید میں ہے
” اَتَعبُدُونَ مَا تَنحِتُونَ “۔
(الصافات :95)
ترجمہ:کیا تم ایسی چیزوں کی عبا دت کرتے ہو جس کو خود ہی تم نے تراشا اور بنایا ہے۔
ظا ہر ہے کہ تعزیہ انسان اپنے ہا تھ سے تراش کر بنا تا ہے پھر منت مانی جا تی ہے اور اس سے مرادیں ما نی جا تی ہیں، اس کے سا منے اولاد کی ، صحت کی دعائیں کی جاتی ہیں ،اس کو سجدہ کیا جا تا ہےاور اس کی زیا رت کو زیا رت حضرت حسین رضی اللہ عنہ سمجھا جا تا ہے یہ سب با تیں رو ح ایمان او رتعلیم اسلام کے اعتبار سے نا جا ئز ہیں۔
مجالس:
ذکر شہادت کے لیے ایسی مجالس منعقد کر ناجن میں ما تم، نوحہ کر نا اور دیگر خرافات ہوں ، روا فض کی مشا بہت کر نے کی وجہ سے ناجائز ہے کیو نکہ حد یث شریف میں آتا ہے:
”مَن تَشَبَّہَ بِقَومٍ فَھُوَ مِنہُم“
(سنن ابی دا ود:ج:2:ص:203)
ترجمہ: جس نے جس قوم کی مشا بہت اختیار کی وہ اس قوم میں سے ہے۔
علامہ ابن حجر الہیثمی المکی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”وَاِیَّاہ ثُمَّ اِیَّاہ اَن یَّشغَلَہ بِبِدَعِ الرَّافِضَةِ مِنَ النَّدبِ وَالنِّیَا حَةِ وَالحُز نِ اِذ لَیسَ ذٰلِکَ مِن اَخلَا قِ المُومِنِینَ وَاِلَّا لَکَانَ یَو مُ وَفَا تِہ صلی اللہ علیہ وسلم اَولیٰ بِذٰلِکَ وَاَحریٰ“
(الصواعق المحرقہ:ج:2 :ص:534)
تر جمہ : خبر دا ر (اس محرم کا ) روافض کی بد عتو ں میں مبتلا ءنہ ہو نا جیسے مرثیہ خوا نی ، آہ بکا ہ ، اور رنج والم وغیرہ کیو ں کہ یہ مسلمانو ں کی شایان شا ن نہیں اگر ایسا کر نا جا ئز ہوتا تو ا س کا زیا دہ مستحق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یو م وفات ہو سکتا تھا۔
محرم کو غم کا مہینہ سمجھنا:
بعض لوگ اس مہینہ کو رنج والم کا مہینہ سمجھتے ہیں اور اس میں شا دی بیا ہ اور خوشی کے کا مو ں سے پر ہیز کرتے ہو ئے مختلف قسم کے سوگ منا تے ہیں جیسا کہ کالا لبا س پہننا، عورتو ں کا زیب زینت اور بنا ؤ سنگھار چھوڑ دینا ، نو حہ، ما تم کر نا وغیرہ۔ ان لوگوں کا یہ خیا ل غلط ہے کیو ں کہ احا دیث مبا رکہ میں اس کے بہت سارے فضائل وارد ہو ئے ہیں۔ لہٰذا اس مہینہ کو غم کا مہینہ سمجھنا درست نہیں ہے۔
محرم کے مہینہ میں شادی بیاہ نہ کر نا :
بعض لوگوں میں یہ با ت مشہور ہو گئی ہے کہ محرم کے مہینہ خصوصاً محرم کے شروع کے دس دنوں میں شادی بےاہ اور خوشی کی تقریبات وغیرہ کرنا حرام ہے اور اس مہینہ میں خوشی کی تقریبات کر نے میں خیر وبر کت نہیں ہو تی اور وہ کا م منحوس ہو جاتا ہے اس میں بعض پڑ ھے لکھے لوگ بھی مبتلا ءہیں۔ یہ سوچ غلط ہے کیو نکہ شریعت میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔شریعت میں محرم یا کسی دوسرے مہینہ میں نکا ح سے منع نہیں کیا گیا اور اس مہینہ میں زیادہ عبادت کر نے کا حکم دیا گیا ہے اور نکاح بھی ایک عبا دت ہے کیو ں کہ نکا ح سے اللہ کا قر ب اور تقویٰ نصیب ہو تا ہے۔ حد یث میں ہے:
” اِذَا تَزَوَّجَ العَبدُ فَقَد کَمُلَ نِصفُ الدِّینِ فَلیَتَّقِ اللّٰہَ فِی النِّصفِ البَا قِی“
(شعب الایمان للبیہقی:ج4:ص:383:رقم الحد یث:5100)
تر جمہ : جب آدمی شادی کر تا ہے تو اس کا آدھا دین مکمل ہو جا تا ہے تو اس کو چا ہیے با قی آ دھے کے معا ملے میں اللہ تعا لیٰ سے ڈرے۔
لہٰذا اس ما ہ میں نکاح کر نا ممنوع نہیں ہے۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے نا م پر سبیل لگا نا:
بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کو لوگ محرم کے دس دنو ں میں بڑی پا بندی کے ساتھ کر تے ہیں مثلاً حضرت حسین کے نا م پر سبیل لگا نا اور کھانا پکا کر کھلانا اس کو ثوا ب کا کام سمجھا جا تا ہے لیکن اس میں کئی خرا بیا ں ہیں۔ محرم کے مہینے کو خاص طور پر پہلے عشرہ میں سبیلیں لگا نا پا نی شربت وغیرہ کوخاص کر نا یہ دین میں زیا دتی ہے لوگ اس میں ایک غلط عقیدہ یہ بھی رکھتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کر بلا میں بھوکے پیا سے شہید ہو ئے تھے یہ کھا نا اور شربت ان کی پیا س کو بجھا ئے گا۔ یاد رکھیں اس کی کو ئی حقیقت نہیں ہے۔
دس محرم کو کا روبا ر اور روزی میں تنگی کا تصور :
یہ کہا جا تا ہے کہ دس محرم کو کا رو بار کر نے کی وجہ سے پورے سال رو زی میں تنگی رہتی ہے۔ لہٰذا محرم کے دس دنو ں میں کا رو با ر نہیں کر نا چا ہیے۔ یہ عقیدہ بناوٹی اور باطل ہے کیو ں کہ شریعت میں ایسی کو ئی مما نعت نہیں ہے۔ جہا لت کی وجہ سے لو گ ان دنوں میں کا رو با ر چھوڑ کر ماتم اور نو حہ کی مجلس میں شرکت کرتے ہیں، حالا نکہ یہی عمل رو زی میں تنگی کا سبب ہے۔
نوحہ :
غم اور مصیبت میں آنسو بہہ جا ئیں اس پرشریعت میں کو ئی منع نہیں لیکن نوحہ کر نا اور ماتم کر نا اور میت کے اوصا ف کو بیان کر کے رو نا گنا ہ ہے۔ کیونکہ نو حہ کرنے ، چیخنے ، چلا نے ، کپڑے پھا ڑنے اور منہ پر طمانچے ما رنے وغیرہ جیسے کا م شریعت میں منع ہیں آج کل محرم میں ماتم اور نو حہ کیا جاتا ہے یہ صبر کے بھی خلا ف ہے قرآن کریم نے خود صبر کی تلقین کی ہے:
” وَاصبِر وَمَا صَبرُکَ اِلَّا بِا للّٰہِ “
(نحل :127)
تر جمہ: آپ صبر کر یں آپ کا صبر کر نا اللہ کے لیے ہے۔
ایک جگہ ارشاد ہے:
”یٰاَ یُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوا استَعِینُوا بِا لصَّبرِ وَالصَّلوٰةِ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّا بِرِ ینَ “
(بقرہ :153)
تر جمہ: اے ایمان والو! نماز او ر صبر کے ذریعے اپنے رب سے مدد طلب کرو ، اس لئے کہ اللہ صبر کر نے والوں کے سا تھ ہے۔
محرم میں قبرستا ن جا نے کی پا بندی کرنا:
بہت سے علاقوں میں یہ رسم موجودہے کہ لوگ دس محرم کو قبر ستا ن جا تے ہیں ، قبرو ں کی لپا ئی کر تے ہیں ، اس پر بتیا ں جلا تے ہیں اور پھو ل دا ل دا نے وغیرہ ڈالتے ہیں۔ان کاموں کو خاص طور پر محرم کے دنوں میں کر نا اور ان دنو ں میں مقصود سمجھنا بدعت ہے کیو ں کہ شریعت نے ان کا موں کے لئے کو ئی خاص دن مقرر نہیں کیا اور نہ ہی ان دنو ں میں اس کی کو ئی فضیلت بےا ن کی ہے۔ لہٰذا اس سے بچنا چا ہیے۔