خیالی روشنی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
خیالی روشنی
…………مولانا عبداللہ معتصؔم
آپ کسی جنرل سٹور پر چلے جاتے ہیں۔ وہاں پر آپ پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ خریداری میں مصروف ہیں، ایسے میں کسی صنفِ نازک کی آواز آپ کی توجہ اور سوچ و فکر کادائرہ اپنی جانب مبذول کراتی ہے،کسی کمپنی کی مصنوعات کا تعارف،خوبیاں اورفوائد و ثمرات کو اس انداز سے آپ کے سامنے پیش کرتی ہےکہ لمحہ بھر کے لئےآپ ذہنی اور قلبی تذبذب سے دوچار ہو جاتے ہیں۔
آپ اپنی گاڑی میں جارہے ہیں، سرخ بتی روشن ہو گئی، دیگر گاڑیوں کی طرح سے آپ بھی اپنی گاڑی روک دیتے ہیں۔چوک میں نصب سائن بورڈ،اس پر بنتِ حوا کی بھڑکیلے لباس میں کھنچی گئی تصویریں، آپ کی نگاہوں کو آلودہ کر رہی ہیں ، ان کا لباس، ہیئت اور رنگ ڈھنگ آپ کے ڈگمگاتے ہوئے ایمان کے لیے سوالیہ نشان بن جاتے ہیں۔
یہ رونا اور دکھڑا کسی خاص مقام اور جگہ کا نہیں،شامتِ اعمال کہ یہ مشاہداتی تصویریں آپ کو ہر گلی، چوک چوراہےاور قدم قدم پہ کھڑی دیکھنے کو ملتی ہیں۔جاہلیت قدیمہ اورجا ہلیت جدیدہ دونوں میں عورت کی تذلیل،بےوقعتی اور عدم توقیر کے حوالے سےکوئی فرق وامتیازنہیں۔حوا کی بیٹی ماضی میں یونانیوں کے ہاں برائی کا منبع،دورجہالت میں عربوں کے ہاں بے وقعت متاع اور اہل کلیسا اورکنیسہ کے ہاں ذلت و رسوائی کی علامت جانی جاتی تھی۔ اس کے بر خلاف اسلام نے عورت کومعاشرے میں ایک با عزت کردار دیا، ماں کی صورت میں تقدس و توقیر،بہن کی صورت میں شفقت واحترام اور بیوی کی صورت میں پیار و محبت جیسی لازوال نعمتوں سے نوازااور اس کے مکمل حقوق سکھلائے اور ان کو ادا کرنے کا سبق دیا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات صنفِ نازک کو مقدس آبگینوں کے مانند بتلاتی اور اس کی حفاظت کا حکم دیتی ہیں۔
موجودہ دور میں مغرب زدہ این جی اوز نے حقوق نسواں کے نام پر ایک طوفان بد تمیزی بپا کیا ہوا ہے،خواتین کو اسلام اور اسلامی احکام سے برگشتہ خاطر کرنے کے لیے یہ دجالی ہرکارے کیا حربے، کیا طریقے اپنا رہے ہیں،ایک واجبی سی نظر اس حقیقت پہ ڈالتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔
1: ذرائع ابلاغ کے ذریعے مخلوط محفلوں کی کہانیاں، خبریں اور رپورتاژ منظر ِعام پر لائی جارہی ہیں، الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے چلنے والے پروگرامز،ٹاک شوز اورڈراموں فلموں میں خاندانی منصوبہ بندی اور جنسی آزادی کو خاص طور پر اجاگر اور نمایاں کیا جاتا ہے۔
2: باقاعدہ اور منظم طریقے سےعورتوں کی جنسی آزادی کے نام سے عدالتوں میں من پسند شادی کرنے کے مقدمات داخل ہیں تاکہ بین الاقوامی سطح پر جنسیت کی زیادہ سے زیادہ پذیرائی ہو۔
3: جنسی بے راہ روی کو فروغ دینے کے لیے مخلوط تعلیمی نظام کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہیں، جس کا نقد ثمرہ ہمیں یہ مل رہا ہےکہ ہماری نوجوان نسل ذہنی طور پر مادر پدر آزاد معاشرے کو قبول کرچکی ہےبلکہ انسانیت سے گری ہوئی اس تہذیب کو اپنا آئیڈیل سمجھ بیٹھی ہے۔
اس بات سے انکار نہیں کہ بعض حالات و واقعات میں طلب معاش کے لیے عورت کا چاردیواری سے باہر آنا مجبوری ہوتی ہے لیکن اس کے لیے حدود شرع کو پامال کرنااور احکام الہی کا سر عام عملی استہزاء کرنا کہاں کی دانشمندی ہے؟اسلام دین فطرت ہے۔اس کی روشن، واضح اور غیر مبہم تعلیمات ہر خاص و عام،مرد وعورت کے لیے قابل عمل تھیں،ہیں اور رہیں گی۔کمی اورفتور انسان کی اپنی ذات اور عقل میں ہوتی ہیں اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان خواتین اپنی عفت وعصمت کا پاس رکھیں اور پردے کی اہمیت اور ضرورت کو اسلام کی آفاقی تعلیمات کی روشنی میں سمجھنے کی مکمل کوشش کریں۔
ایک صاحبِ ایمان ، باحیا خاتون کالبااس اسلامی نقطہ نگاہ میں کیا اہمیت رکھتا ہے؟آئیےاس سوال کا جواب قرآن و سنت کی روشنی میں ڈھونڈتے ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:اللہ تعالیٰ ان عورتوں پر رحم فرمائے جنہوں نے اسلام کے ابتدائی دور میں (مکہ سے مدینہ )ہجرت کی،جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت (ترجمہ:مومنات عورتیں بُکل مارے اپنی چھاتیوں پر )نازل فرمائی تو انہوں نے اپنی موٹی چادروں کو کاٹ کر دوپٹے بنا لیے۔مفسرین نے لکھا ہے کی ایام جا ہلیت میں عورتیں سر پر دوپٹہ ڈال کر باقی حصہ کمر پر ڈال دیا کرتی تھیں اس کے بر عکس مسلما ن عورتوں کو یہ حکم ہوا کہ سر سمیت سینہ اور گلے پر بھی دوپٹہ ڈالیں۔یہ سن کر صحابیات نے موٹی چادریں کاٹ کر دوپٹے بنالیے کیونکہ باریک کپڑے سے سر اور بدن کا پردہ نہ ہو سکتا تھا۔
ایک دوسری حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : جہنم کے دو گروہ ایسے ہیں جن کو میں نے نہیں دیکھا۔پہلا طبقہ وہ لوگ جن کے پاس گائے کی دم کی طرح کوڑے ہوں گے،جن سے وہ لوگوں کو نا حق ماریں گے۔ دوسرا طبقہ وہ عورتیں ہیں جو بظاہر کپڑے پہنے ہوئی ہوں گی لیکن پھر بھی ننگی ہو ں گی،مردوں کو اپنے طرف مائل کرنے والی ہوں گی اور خود بھی ان کی جانب میلان رکھنے والی ہوں گی، ان کے سر بڑے بڑ ےاونٹوں کے کوہانوں کی طرح ہوں گے(سر پر بالوں کا جوڑا بنانے کی وجہ سے)وہ جنت میں داخل نہ ہوسکیں گی اور نہ وہاں کی خوشبو پا سکیں گی حالانکہ اس کی خوشبو اتنے اتنے فاصلے سے آتی ہوگی۔
(صحیح مسلم، رقم الحدیث: 2128)
کتنی سخت وعید ہے ان عورتوں کے لیے جو اسلامی احکام و معاشرت سے منہ موڑ کر جدت پسندی اور باطل رسوم و رواج میں لتھڑی ہوئی خواہشات کی زندگی گزار رہی ہیں۔کیا آج کی عورت دوبارہ یونان اورعرب جاہلیت دور کی ذلیل زندگی پر آمادہ نظر نہیں آرہی؟ کیا دختران ِ ملت؛ مغرب کے دام تزویر کا شکار نہیں لگ رہی؟ کیا ہماری یہ بہنیں اس مغرب کی تہذیب میں ڈوب کر ابھرنا چاہتی ہیں جہاں سورج بھی جا کر ڈوب جاتا ہے؟
یاد رکھیں !جب تک اسلام کی تعلیمات کو نہیں اپنایا جائے گا ، جب تک پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے روشن فرمودات اور اہل بیت نبی کے طرز زندگی کو اپنے آپ پر ، اپنے گھر بار اور ماحول و معاشرے پر لاگو نہیں کیا جاتا اس وقت تک یونہی بے حیائی پھیلتی رہے گی۔ اس وقت تک عورت کی عزت تار تار ہوتی رہے گی۔اس لیے ہمیں غیر مسلموں کا کلچر اپنانے کی بجائے اسوہ رسول پر عمل کرنا ہوگا۔
معاشرے کی اس حالت زار، اور خیالی روشنی کے حامل روشن خیالوں کے افکار پر حفیظ جالندھری کے یہ اشعار تبصرے کا روپ دھار گئے ہیں :
اب مسلمانوں میں بھی نکلے ہیں کچھ روشن خیال
جن کی نظروں میں حجابِ صنف نازک ہے وبال
چاہتے ہیں بیٹیوں ، بہنوں کو عریاں دیکھنا

محفلیں آباد لیکن گھر کو ویراں دیکھنا