سورۃالفاتحہ ہربیماری کی شفاء

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 

">سورۃالفاتحہ ہربیماری کی شفاء

مولانامحمدطارق نعمان گڑنگی
سورۃ فاتحہ کے مختلف نام ہیں ،فاتحہ کہتے ہیں شروع کرنے کوچونکہ قرآن کریم میں سب سے پہلے یہی سورۃ لکھی ہے اس لیے اسے سورۃ فاتحہ کہتے ہیں اوراس لیے بھی کہ نماز میں قراء ت بھی اسی سے شروع ہوتی ہے۔ اس سورۃ کانام ام الکتاب بھی ہے ، سورۃ الحمداورسورۃ الصلوٰۃ بھی کہتے ہیں۔اس سورۃ کانام سورۃ الشفاء بھی ہے۔
اسی لیے حضرت عبد الملک ابن عمیربطریق ارسال روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایاسورۃ فاتحہ ہر بیماری کے لیے شفاء ہے
(دارمی، بیہقی(
اس سورۃ کانام سورۃ الرقیہ بھی ہے۔ اس سورۃ کا نام سورۃ واقیہ بھی ہے اورکافیہ بھی ہے اس سورۃ کانام ام القرآن اورسورۃ الکنز بھی ہے۔
نبی پاک ﷺ کاارشاد ہے کہ ’’مجھے گنج العرش (عرش کاخزانہ)سے چار چیزیں عطاکی گئی ہیں اس خزانہ سے ان چار چیزوں کے علاوہ اور کوئی چیزدوسرے کونہیں دی گئی ہے اور وہ چار چیزیں یہ ہیں:1۔ام الکتاب (سورۃ فاتحہ)2۔آیۃ الکرسی3۔سورۃ بقرہ کی آخری آیتیں 4۔سورۃ کوثر
کتابوں میں یہ بھی ملتاہے کہ ابلیس بھی چار مرتبہ رویاتھا اور اپنے آنسو بہائے تھے ایک اس وقت جب اس پہ رب کی لعنت ہوئی۔دوسرااس وقت جب آدم ؑ کی توبہ قبول ہوئی۔تیسرااس وقت جب حضوراکرم ﷺ کونبی ورسول بنایا گیا۔ چوتھا اس وقت جب یہ سورۃ یعنی سورۃ فاتحہ نازل ہوئی یہ سورۃ ابلیس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جب تم میں سے کوئی(سورۃ فاتحہ کے آخر میں )آمین کہتاہے تواسی وقت فرشتے آسمان پہ آمین کہتے ہیں ، اگر اس شخص کی آمین فرشتوں کی آمین کے ساتھ مل جائے تواس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں
(بخاری(
اللہ پاک کتناغفورالرحیم ہے کہ وہ اپنے بندے کی بخشش کے بہانے ڈھونڈتا ہے اب بندہ آمین اس وقت کہے گاجب نماز پڑھے گاکیوںکہ نماز میں ہی سورۃ فاتحہ کے بعد مومن بندہ پانچ وقت آمین کہتاہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے :’’(ایک دن) جب کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی کریم ﷺ کے پاس بیٹھے ہو ئے تھے تو انہوں نے (یعنی جبرائیل نے)اوپر اوپر کی طرف دروازہ کھلنے کی سی آواز سنی چنانچہ انہوں نے اپنا سر اوپر اٹھا یا اور کہا کہ یہ آسمان کا دروازہ کھولا گیا ہے آج سے پہلے یہ کبھی نہیں کھولا گیا تھا اوراس سے ایک فرشتہ اترا ہے، حضرت جبرئیل نے فرمایا کہ یہ فرشتہ جو زمین پر اترا ہے آج سے پہلے کبھی نہیں اترا ، اس فرشتے نے آپ ﷺ کو سلام عرض کیااور کہا آپﷺ کو دو نوروں کی بشارت ہو جو آپﷺکو عطا کئے گئے،آپﷺ سے پہلے یہ کسی نبی کو نہیں دئیے گئے(ایک)سورۃ فاتحہ اور (دوسرا ) سورۃ بقرہ کی آخری آیات،آپﷺ ان میں سے جس ایک حرف کی بھی تلاوت کریں گے (مضمون کی مناسبت سے)وہ چیز آپ ﷺ کو عطا کر دی جا ئے گی۔‘‘
(مسلم(
اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن مجید ہے جو اللہ تعالیٰ نے سا ری کائنات کے رہبر،تمام نبیوں کے سردار شافع روز محشر،ساقی کو ثر ،خاتم النبین حضرت محمد ﷺ پر نازل فرمایا،قرآن اپنے الفاظ اور معانی دونوں پہلوؤں سے اللہ تعا لیٰ کا کلام ہے ،قرآن پاک ایک ایسی کتاب ہے جو پوری دنیا میں سب سے زیا دہ پڑھی جاتی ہے۔ اس کی ہر سورۃ اور ہر آیت ،ہر لفظ،ہر حرف پر معنیٰ اور با برکت ہے۔ اس حدیث میں سورۃ فاتحہ اور بقرہ کو دو نور سے تعبیر کیا گیا۔ ان کو ”نور“ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ سورۃ اور آیتیں قیامت کے روز روشنی کی شکل میں ہوں گی جو اپنے پڑھنے والوں کے آگے چلیں گی۔
حدیث میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر آیتوں کوجو کوئی اخلاص کے ساتھ پڑھے گااللہ تعالیٰ اسے وہ ہدایت وسعادت عطافرمائے گاجن پر یہ آیات مشتمل ہیں ،۔سورۃ فاتحہ سورۃ بقرہ کی آخری آیتوں میں دو قسم کے کلمات ہیں ایک قسم تو وہ ہے جو دعا پر مشتمل ہے دوسری قسم وہ ہے جو فقط حمدوثناء پر مشتمل ہے ،لہٰذاجب وہ آیت یا آیت کا ٹکڑا پڑھا جائے گا جو دعا ہے جیسا کہ سورۃ فاتحہ آخری آدھے حصے میں اور سورۃ بقرہ کی آخری آیت میں ہے تو وہ قبول ہو جا تی ہے اور بندے کا سوال پورا کر دیا جا تا ہے اور پڑھنے والے کو وہ چیز ضرور عطاء کی جائے گی جس کا اس میں ذکر ہے۔
اسی طرح جب وہ آیت یا آیت کا ٹکڑاپڑھا جائے گاجو حمد وثناء پر مشتمل ہے تو اس کو وہی ثواب دیا جائے گا جیسا کہ سورۃ فاتحہ کی شروع کی آیات میں ہے یا اللہ اس کے رسول اس کے فرشتوں اور اس کی کتا بوں پر ایمان وتصدیق ہے جو کہ سورۃ بقرہ کی آخری دو آیتوں میں سے پہلی آیات میں ہے تو اس کی قبولیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی حمد وثناء اور اس ایمان وتصدیق کا اجر عطافرماتا ہے۔سورۃ فاتحہ میں سات آیتیں ہیں ساڑھے تین آیتیں اللہ تعالیٰ کے لئے اور ساڑھے تین آیتیں بندے کیلئے ،سورۃ فاتحہ کی دعا سب سے زیا دہ نفع بخش اور عمدہ قرار پائی ہے کیونکہ اگر اللہ تعا لیٰ بندے کو اس سیدھے راستہ کی طرف ہدایت دے دے اور اس کو اپنی بندگی پر اور گناہوں کے چھوڑنے پر مدد کر دے تو دنیا و آخرت میں اس کو کوئی برائی چھو نہیں سکتی۔
حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سیدالمبلغین، رحمۃ اللعالمینﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے میں نے قراء ت کو اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان دو حصو ں میں تقسیم کر دیا ہے اور میرے بندے کے لئے وہی ہے جو وہ مانگے۔ ایک روایت میں ہے کہ ’’اس میں سے آدھی قرات میرے لیے ہے اورآدھی میرے بندے کے لیے۔ ‘‘جب بندہ الحمدللہ رب العالمین کہتاہے تواللہ پاک فرماتا ہیں میرے بندے نے میری ثناء بیان کی۔ جب بندہ الرحمن الرحیم کہتاہے تواللہ پاک فرماتاہے کہ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی۔ جب بندہ ایاک نعبدوایاک نستعین کہتاہے تواللہ پاک فرماتاہے یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اورمیرے بندے کے لیے وہی ہے۔
حضرت سعید ابن معلیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا کہ نبی کریم ﷺ نے مجھے بلایا ،اس وقت میں نے کوئی جواب نہیں دیا، پھر(نماز سے فارغ ہو کر ) جب میں آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوا تو عرض کیا کہ ’’ یا ر سو ل اللہ (اس وقت ) میں نماز پڑھ رہا تھا ( اس لئے میں نے آپ ﷺ کا جواب نہیں دیا تھا ) آپ ﷺ نے فر ما یا کہ( کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ اللہ اور رسول کا جواب دو جب کہ رسول اللہ تمہیں بلائیں اور ان کے حکم کی اطاعت کرو ؟‘‘
پھر اس کے بعد آپ ﷺ نے فر مایا ’’قبل اس کے کہ ہم اس مسجد سے نکلیں کیا میں تمہیں قرآن کی ایک بہت بڑی (یعنی افضل) سورت نہ سکھلاؤں؟ ‘‘ پھر آپ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور جب ہم مسجد سے نکلنے کو ہوئے تو میں نے عرض کیا کہ ’’یا رسول اللہ !آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ کیا میں تمہیں قرآن کی ایک بہت بڑی سورت نہ سکھلاؤں ؟‘‘ آپ نے فر مایا ’’وہ سورۃ الحمد للہ رب العالمین ہے وہ سات آیتیں ہیں جو نماز میں بار بار پڑھی جاتی ہیں اور وہ قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے۔سورۃ فاتحہ کو’’ایک بہت بڑی سو رت ‘‘اس لئے فر ما یا کہ وہ اللہ رب العزت کے نز دیک بڑی قدرت رکھتی ہے اور الفاظ کے اختصار کے باوجود اس کے فوا ئد اور معانی بہت زیا دہ ہیں۔ اسی لئے کہا جا تا ہے کہ سورۃ فاتحہ کا صرف ایک جزء کے تحت دین ودنیا کے تمام مقا صدآجاتے ہیں بلکہ بعض عارفین نے تو یہ کہا ہے کہ جو کچھ سابق آسمانی کتا بوں میں ہے وہ سب قرآن مجید میں ہے اور جو کچھ قرآن مجید میں ہے وہ سب سورۃ فاتحہ میں ہے جو کچھ سورۃ فاتحہ میں ہے وہ سب بسم اللہ میں ہے۔
"وہ سات آیتیں ہیں"جن سے در اصل قرآن مجید کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے کہ ولقد آتیناک سبعا من المثا نی والقرآن العظیم( یعنی اے محمد ﷺ ) ہم نے آپ ﷺ) کووہ سات آیتیں عطاء کی ہیں جو نماز میں بار بار پڑ ھی جاتی ہیں(یا یہ کہ ان سات آیتوں کی ثنا کی گئی ہے ساتھ فصاحت اور اعجاز کے، اور ان سات آیتوں سے مراد سورۃ فاتحہ ہے)اور دیا ہے ہم نے آپ کو قرآن عظیم یہاں ’’قرآن عظیم ‘‘سے بھی ’’سورۃ فاتحہ ‘‘ مراد ہے،کیوں کہ سورۃ فاتحہ باعتبار معانی و فوائد کے قرآن کا ’’جزو اعظم ہے اس لئے مبالغۃ‘‘ فرمایا کہ یہ قرآن عظیم ہے۔