حجیتِ حدیث

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
حجیتِ حدیث
……… مولانا عبد الرحمٰن سندھی
امت مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ قرآن کریم کے بعد دین کا دوسرا اہم ماخذ” حدیث“ ہے لیکن جب مسلمانوں پر مغربی اقوام کا سیاسی و نظریاتی تسلط بڑھا تو کم علم مسلمانوں کا ایسا طبقہ وجود میں آیا جو مغربی افکار سے بے حد مرعوب ہوا اور قرآن کریم کے اجمال کو سامنے رکھ کر اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے اپنی مرضی کے مطابق اس کی تشریح شروع کردی چونکہ حدیث اس باطل نظریہ کے سامنے سد سکندری تھی اس لیے انہوں نے سرے سے حدیث ہی کا انکارکیا اور اصل اسلامی تہذیب و تمدن کے عادلانہ نظام کو توڑ کر اپنے خود ساختہ اسلام پیش کیا۔منکرین حدیث خواہ کسی گروہ سے متعلق ہوں ان کی مہر تقریر وتحریر ان تین نظریات میں سے کسی ایک کی ترجمانی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔
1: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فریضہ صرف قرآن پہنچانا تھا لہٰذا تابعداری صرف قرآن کی واجب ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع من حیث الرسول نہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر واجب تھی نہ ہم پر واجب ہے نیز قران کریم کو سمجھنے کے لیے حدیث کی چنداں ضرورت نہیں۔
2: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے تو حجت تھے لیکن صحابہ کے بعد والوں کے لیے حجت نہیں۔
3: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پوری امت مسلمہ کے لیے حجت ہیں لیکن موجودہ احادیث ہمارے پاس قابل اعتماد ذرائع سے نہیں پہنچیں اس لیے ہمارے لیے حجت نہیں۔
قارئین کرام !آپ کے سامنے عقلی اور نقلی دلائل کی روشنی میں ان متضاد نظریات کو واضح کرتے ہیں :
پہلے نظریے کی تردید:
ارشاد باری تعالی ٰہے:
1: یاایھا الذین آمنوا اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول۔
) سورۃ النساء 59 (
ترجمہ: اے ایمان والو ! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی بھی اطاعت کرو۔
اس آیت کریمہ میں اللہ کی اطاعت ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو بھی واجب قرار دیا گیا ہے اور یہ بات یاد رہے کہ یہاں اطاعت بحیثیت ”رسول“ ہونے کے ہے نہ کہ بحیثیت” حاکم “ہونے کے۔ کیونکہ اسی آیت مبارکہ میں آگے عام مسلمان حاکم کے لیے اولی الامر منکم کے الگ الفاظ وارد ہیں۔
اطاعت بوجہ رسالت …ایک علمی ضابطہ :
اسی طرح یہاں اطیعوا الرسول کا جملہ استعمال کیا گیا ہے اور یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ اب کسی اسم مشتق پر کوئی حکم لگایا جائے تو مادہ اشتقاق اس حکم کی علت اور مدار ہوتا ہے جیسے اکرم العالم عالم کی عزت کرو، اکرام کی علت علم ہے ، اسی طرح اطیعوا الرسول میں اطاعت کی علت رسالت ہےنہ کہ حاکمیت۔
2: وماکان لبشر ان یکلمہ اللہ الا وحیا او من ورائی حجاب او یرسل رسولاً
)سورۃ الشوری 51(
ترجمہ: اور کسی انسان میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اللہ اس سے (رو برو) بات کرے سوائے اس کے کہ وہ وحی کے ذریعے ہو یا کسی پردے کے پیچھے سے یا پھر وہ کوئی پیغام لانے والا فرشتہ بھیج دے۔
اس آیت کریمہ میں رسولوں کو پیغام بھیجنے کا طریقہ بیان فرماتے ہوئے یرسل رسولا فرشتے کے بھیجنے کے علاوہ وحیا سے ایک الگ وحی کی قسم بیان کی گئی ہے اور وہ یہی وحی غیر متلو ہے جس کو ”حدیث“ کہا جاتا ہے۔
3: ما جعلنا القبلۃ التی کنت علیہا الا لنعلم من یتبع الرسول ممن ینقلب علی عقبیہ۔
) سورۃ البقرہ 143(
ترجمہ: جس قبلہ پر تم نے پہلے تھے اسے ہم نے کسی اور وجہ سے نہیں بلکہ صرف یہ دیکھنے کے لیے مقرر کیا تھا کہ کون رسول کا حکم مانتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے
اس آیت کریمہ میں القبلۃ سے مراد بیت المقدس ہے اور اللہ رب العزت نے جعلنا کے لفظ سے اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کےحکم کی نسبت اپنی طرف کی ہے حالانکہ پورے قرآن کریم میں کہیں بھی بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کا حکم موجود نہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ حدیث [ وحی غیر متلو] کے ذریعے ہی تھا اور اللہ رب العزت نے اسے اپنی طرف نسبت فرماکر یہ واضح فرمادیا کہ وحی متلو [ قرآن ] کی طرح وحی غیر متلو [ حدیث] بھی واجب العمل ہے اسی طرح اور بھی بہت ساری آیات ہیں جس سے منکرین حدیث کے اس نظریہ کی تردید ہوتی ہیں مزید برآں نقلی دلائل کے ساتھ ساتھ عقلی دلائل سے بھی [منکرین حدیث کے اس ] نظریہ کی تردید کی جا سکتی ہے۔
عقلی دلیل:
مشرکین عرب کی یہ خواہش تھی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن کریم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے بھیجنے کے بجائے براہ راست ہم پر اتارا جائے
حتی تنزل علینا کتابا نقرؤہ۔
)سورۃ بنی اسرائیل 93(
ہم ایمان نہیں لائیں گے جب تک تم ہم پر ایسی کتاب نازل کردو جسے ہم پڑھ سکیں۔ لیکن اللہ نے یہ طریقہ اختیار نہیں فرمایا بلکہ رسول کے واسطے قرآن کو بھیجا اس لیےکہ تنہا کتاب بغیرایسے معلم کے جو اس کے معانی کو متعین کردے اور خود اس کا نمونہ بن کر آئے کسی قوم کی اصلاح کے لیے کافی نہیں ہوسکتی۔ یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس معلم کے قول و فعل کو واجب الاتباع نہ سمجھا جائے۔
دوسرےنظریے کی تردید:
اس نظریہ کے مطابق احادیث صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے حجت تھیں لیکن صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد والوں کے لیے حجت نہیں یہ نظریہ باطل ہے :معاذ اللہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت صرف صحابہ کے زمانے تک مخصوص تھی اس سے ختم نبوت کا بھی انکار لازم آتا ہے۔ حالانکہ قرآن کریم میں بہت سارے مقامات پر اس کی تردید ہوتی ہے۔
1: قل یا الھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا۔
) سورۃ الاعراف158(
ترجمہ: اے رسول! ان سے کہو کہ اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔
2: وما ارسلنٰک الا کافۃ للناس بشیرا ونذیرا۔
) سورۃ سبا 28(
ترجمہ: اے پیغمبر !ہم نے آپ کو سارے ہی انسانوں کے لیے ایسا رسول بنا کر بھیجا ہے جو خوش خبری بھی سنائے اور خبردار بھی کرے۔
3: تبارک الذی نزل الفرقان علی عبدہ لیکون للعالمین نذیرا۔
)سورۃ الفرقان1(
ترجمہ: بڑی شان ہے اس ذات کی جس نے اپنے بندے پر حق و باطل کا فیصلہ کر دینے والی کتاب نازل کی تاکہ وہ دنیا جہاں کے لوگوں کو خبردار کردے۔
عقلی دلیل:
جب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے تعلیم رسول کی ضرورت ہے تو پھر یہ کتنی عجیب بات ہے کہ صحابہ کو تو تعلیم کی ضرورت ہو اور بعد والوں کو نہ ہو۔ حالانکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نزول قرآن کا خود مشاہدہ کیا تھا اسباب نزول سے پوری طرح واقف تھے اور بعد والے ان چیزوں سے محروم ہیں اور یہ بات بھی واضح ہوچکی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بحیثیت رسول واجب تھی نہ کہ بحیثیت حاکم تو بعد والوں کے لیے تو اور بھی زیادہ طور پر واجب ہونی چاہیے۔
تیسرے نظریے کی تردید:
یہ نظریہ کہ احادیث حجت ہیں لیکن ہم تک قابل اعتماد ذرائع سے نہیں پہنچیں لہٰذا ہمارے لیے حجت نہیں بھی، یہ نظریہ بھی باطل ہے۔
کیونکہ قرآن بھی انہی واسطوں سے پہنچا ہے جن واسطوں سے حدیث پہنچی ہے اب اگر یہ واسطے ناقابل اعتماد ہیں تو پھر قرآن سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں گے قرآن کی حفاظت کا ذمہ ہونے کی وجہ قرآن کو حجت مانا ہے۔
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون۔
) سورۃ الحجر9(
ترجمہ: حقیقت یہ ہے کہ یہ ذکر ]قرآن[ ہم نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
تو پھرعلماء اصولیین کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن؛ الفاظ اور معانی دونوں کا نام ہے اس لیے اس آیت میں الفاظِ قرآن اور معانی قرآن دونوں کی حفاظت کا ذمہ بیان کیا گیا ہے اور معانی قرآن کی تعلیم ”حدیث“ میں ہوتی ہے۔ لہٰذا جس طرح قرآن حجت ہے اسی طرح حدیث بھی حجت ہے۔
قارئین کرام! ہم نے مختصر چند دلائل آپ کے سامنے ذکر کردیے ہیں جن سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جس طرح قرآن حجت ہے اسی طرح حدیث بھی حجت ہے کیونکہ قرآن اجمال ہے حدیث اس کی تفصیل ہے جب تفصیلات کو ماننے سے انکار کر دیا جائے تو اجمال کیسے سمجھ آسکتا ہے۔ اس پرفتن دور میں فرقہ واریت کی بنیاد ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے روگردانی کرنا ہے۔ آج کے دور میں ہدایت کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی عقائد اور اساسیات کو تسلیم کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ منکرین حدیث کو سمجھ عطا فرمائے اور ان کے شرور سے پوری امت کو محفوظ فرمائے۔