ذکر بالجہر …… ایک مغالطہ کی وضاحت

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
ذکر بالجہر …… ایک مغالطہ کی وضاحت
……… محمد اشفاق ندیم
کتب حدیث میں کئی احادیث ذکر اللہ کی فضیلت پر موجود ہیں۔ جو ذکر اللہ کی دونوں اقسام ذکر بالسر[ آہستہ آواز سے]، ذکر بالجہر [ بلند آواز سے ذکر کرنے ]کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں۔کئی احادیث ذکر سری اور کئی روایات ذکر جہری کی فضیلت اور اہمیت کو الگ الگ بیان کرتی ہیں۔ اس لیے ذکر اللہ کی دونوں صورتیں جائز اور اپنے اپنے مقام پر فضائل کی حامل ہیں۔
جس طرح ذکر اللہ کی دونوں صورتوں میں تضاد نہیں اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی کوئی تضاد نہیں مگر بعض حضرات کی طرف سے سری کی فضیلت میں وارد روایات کو ذکر بالجہر کی تردید میں پیش کیا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ بات انصاف سے بعید اور محض مغالطہ ہے۔ صلحائے امت نے ہمیشہ ایسے مغالطوں کی تردید فرمائی ہے یہاں وضاحت کےلیے اکابرین امت کے چند ارشادات نقل کئے جاتے ہیں :

1

علامہ رملی رحمہ اللہ (م1081ھ) فرماتے ہیں:

2

وھناک احادیث اقتضت طلب الاسرار والجمع بینھما بان ذالک یختلف باختلاف الاشخاص والاحوال کما جمع بین الاحادیث الطالبۃ الجھر بالقراءۃ والطالبۃ لااسراربھا۔
)فتاویٰ خیریہ بہامش تنقیح الحامدیہ ج2ص281(
ترجمہ: اور یہاں ( ذکر کے مسئلہ پر جہر کے علاوہ ایسی ) احادیث بھی ہیں جو ذکر سری کی مقتضی ہیں ان دونوں قسم کی روایات میں تطبیق یہ ہے کہ یہ اشخاص اور احوال کے اختلاف کی بناپر ہیں جس طرح ان احادیث میں تطبیق کی جاتی ہے جو قرآن کریم کی جہری اور سری قرات کی مقتضی ہیں۔

3

علامہ سید احمد طحطاوی رحمہ اللہ (م1250ھ) فرماتے ہیں:

4

وجمع بین الاحادیث الواردۃ بان ذالک یخلتف بحسب الاشخاص والاحوال فمتیٰ خاف الریاء اوتاذی بہ احد وکان الاسرار افضل ومتیٰ فقد ماذکر کان الجہر افضل۔
)حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح شرح نور الایضاح ص318قدیمی کتب خانہ (
ترجمہ: ذکر سری اور جہری کے متعلق احادیث میں تطبیق یہ ہے کہ یہ اختلاف اشخاص واحوال کے اعتبار سے ہے۔ پس جب ریا ء یا کسی کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو تو سِر بہتر ہے اور جب یہ نہ ہو تو جہر بہتر ہے۔
3 علامہ محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز عابدین الدمشقی رحمہ اللہ المعروف علامہ شامی (م1252ھ) فرماتے ہیں:
جاء فی الحدیث مااقتضیٰ طلب الجہر بہ نحو،، وان ذکرنی فی ملاءِِ ذکرتہ فی ملاء خیر منہم ،، رواہ الشیخان وھناک احایث اقتضت طلب الاسرار والجمع بینہما بان ذالک یختلف باختلاف الاشخاص والاحوال کماجمع بذالک بین احادیث الجہر والاخفاء بالقراءۃ، ولایعارض ذالک حدیث ، خیر الذکر الخفی ،، لانہ حیث خیف الریاء او تاذ المصلین اوالنیام فان خلا مما ذکر ، فقال بعض اہل العلم ان الجہر افضل لانہ اکثر عملاً ولتعدی فائدتہ الی السامعین ویوقظ قلب الذاکر فیجمع ھمہ الی الفکر ویصرف سمعہ الیہ ویطرد النوم ویزید النشاط۔
)رد المحتار المعروف بہ فتاویٰ شامی ج1ص660(
ترجمہ: حدیث میں اس طرح بھی آیا ہے کہ جس سے ذکر میں جہر کا تقاضا معلوم ہوتا ہے جیسا کہ حدیث قدسی ہے اگر بندہ میرا ذکر جماعت میں کرتا ہے تو میں اس کا ذکر اس جماعت سے بہتر جماعت میں کرتا ہوں(بخاری ومسلم ) اور ذکر کے مسئلہ میں ایسی احادیث بھی ہیں جو ذکر میں آہستگی کا تقاضا کرتی ہیں اب ان دونوں قسموں کی روایتوں میں تطبیق یہ ہے کہ یہ اختلاف روایت اشخاص اور احوال کے اعتبار سے ہے اس اختلاف میں اس طرح تطبیق کی گئی ہے جس طرح قرآن مجید کی قراءت جہری اور سری دونو ں پر روایات موجود ہیں۔ یہاں پر حدیث ذکر بالسر بہتر ہے،، ذکر بالجہر کے معارض نہ ہوگی ، اس لیے کہ یہ اس وقت ہے کہ جب ریا کا اندیشہ نہ ہو اورکسی نمازی یاسونے والے کو تکلیف نہ ہو جب یہ چیزیں نہ ہوں تو اہل علم کی ایک جماعت کے نزدیک جہر بہتر ہے اس لیے کہ ذکر بالجہر عملاً بہت زیادہ ہے اس کافائدہ متعدی ہے (ذکر کرنے والے کے ساتھ سننے والوں کو بھی فائدہ ہوتا ہے ) ذاکر کے قلب کو بیدار رکھتا ہے اور اس کے خیالات کو (ایک) فکر پر جمع کر لیتا ہے اس کے کانوں کو ذکر کی طرف پھیر دیتا ہے۔ ذکر بالجہر سے نیند اور سستی دور ہوتی ہے اور ( اللہ تعالی ٰ کی محبت کی) تازگی زیادہ ہوتی ہے۔

5

مسند الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ (م1176ھ) فرماتے ہیں:

6

والمراد بھذا الجہر ھو غیر المفرط فلا منافاۃ بینہ وبین مانہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حیث قال: اربعوا علی انفسکم فانکم لا تدعون اصماً ولا غائباً (الحدیث)

7

) قول جمیل مع ترجمہ شفاء العلیل ص 50(
ترجمہ: اس جہر ( جو اوراد قادریہ میں تعلیم کیا گیا ہے) سے مراد جہر غیر مفرط ہے۔(جس میں چیخنا چلانا نہ ہو) اس ذکر بالجہر اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس جہر سے منع فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے : اپنے آپ کو آرام پہنچاؤ بیشک تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں سنا رہے۔ اس میں کوئی منافات اور تضاد نہیں ہے۔
5 مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ (م1396ھ) روایات ذکر بالجہر اور ذکر بالسر میں تطبیق کرتے ہوئے فرماتے ہیں: روایا ت ذکر بالجہر کے متعلق بظاہر متعارض ہیں اور یہی سبب بنا علماء ومشائخ کے اختلاف کا اور اہل تحقیق نے روایات مختلفہ کی تطبیق اس طرح فرمائی ہے کہ اگر ریا کا اندیشہ ہو ہو یا سونے والوں کے آرام میں خلل یا نمازیوں کی تشویش کا سبب ہو تو ذکر جہری ممنوع ہے اور روایا ت منع ایسے ہی مواقع پر محمول ہیں اور جس میں ذکر جہری کو بدعت کہا ہے وہ بھی مطلق نہیں بلکہ خاص قسم کے التزامات کے ساتھ ہو تو وہ بدعت ہے۔ مطلق ذکر بالجہر کو بدعت کہنے کا کوئی معنی نہیں جب کہ روایات صحیحہ میں اس کا جواز و استحسان ثابت ہے۔ جیسے حدیث”وان ذکرنی فی ملاء ذکرتہ فی ملاء خیر منہم“ (الحدیث) اور جب ذکر بالجہر ان عوامل ، ریاء، تشویش مصلین ، اور نائمین وغیرہ سے خالی ہو تو وہ جائز ہے اور نصوصِ جواز اسی صورت پر محمول ہیں۔
) فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ج2ص249(
مذکورہ تفصیل سے واضح ہو گیا کہ جس روایت میں ذکر بالجہر کا تذکرہ ہے اس کی بنیاد پر ذکر خفی اور جس روایات میں ذکر خفی کا تذکرہ ہے اس کی بنیاد پر ذکر جہری کو ناجائز یا منع نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ دونوں صورتین اپنے اپنے حالات اور مواقع پر محمول ہیں اسی طرح ایسے موقع پر کسی ایک جانب کو لے دوسری جانب کو بالکل برا کہنا جیسا کہ ذکر خفی کی روایات کی بنیاد پر ذکر کا بالجہر کو بدعت ، مکروہ اور ناجائز وغیرہ کہنا درست نہیں۔ کتب حدیث وفقہ میں بے شمار مواقع پر متعارض احادیث اور آثار میں اختلافِ احوال و اشخاص کو بنیاد بنا کر تطبیق دی جاتی ہے۔ جیسا کہ بطور نظیر کے علامہ رملی رحمہ اللہ اور علامہ شامی رحمہ اللہ نے قرات قرآن مجید کے مسئلہ کو پیش فرمایا ہے ، اسی طرح تطبیق کی یہ صورت یہاں بھی ممکن ہے۔ اس لیے اسے اختیار کرنے کی بجائے ایک ثابت شدہ عمل کا انکار تو انکارِ حدیث کی بنیاد ہے۔ العیاذ باللہ من ذالک