قیامِ امن کے داعی کی مظلومانہ شہادت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قیامِ امن کے داعی کی مظلومانہ شہادت
محمد جہان یعقوب ، کراچی
دن بہ دن تنہائی کا احساس شدیدسے شدیدترہوتاجاتاہے،علمائے کرام جن کی اس قحط الرجال کے دورمیں ضرورت ماضی سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے،ایک ایک کرکے اٹھتے جارہے ہیں،کچھ اپنی طبعی موت توکچھ لیلائے شہادت سے ہم آغوش ہو کر ہمیں داغ مفارقت دیتے جارہے ہیں۔ ابھی جامع سیاست وطریقت حضرت مولانا میاں سراج احمددین پوری کے مرقدکی مٹی بھی نہیں سوکھی ،کہ ایک اورہیراہم سے چھین لیاگیا۔ایک اورنابغہ روزگارہستی،ایک اورحق گوعالم دین،ایک اورخطیب بے بدل،ایک اوراصول پسندسیاست دان،جس کے قدم سیاست کی پرخاروادی میں بھی کسی لمحے ڈگمگائے نہیں۔سابق سینیٹراورجمعیت علمائے اسلام (ف)کے صوبائی جنرل سیکریٹری حضرت مولاناعلامہ ڈاکٹر خالد محمود سومرو سکھر جامعہ حقانیہ میں نماز فجر ادا کر رہے تھے کہ نامعلوم مسلح ملزمان نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کر دی، ڈاکٹرصاحب کو اسپتال منتقل کیا جا رہا تھا کہ وہ راستے میں ہی دم توڑ گئے۔
ڈاکٹر خالد محمود سومرو کا تعلق لاڑکانہ سے تھا اور وہ 26 سال تک جے یو آئی(ف)کے سیکرٹری جنرل رہے، 2006 میں سینیٹر منتخب ہوئے اور مختلف کمیٹیوں کے چیرمین رہے۔ ڈاکٹر خالد محمود پر پہلے بھی 5 مربتہ قاتلانہ حملہ ہو چکا تھا جب کہ کچھ عرصے قبل بھی ان پر رتو ڈیرو میں بھی ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا۔سندھ کی سیاست میں ان کا اہم کردار رہا ہے اور جے یو آئی(ف)کے سندھ میں جلسوں کے تمام تر انتظامات ڈاکٹر خالد محمود سومروہی کیا کرتے تھے۔
کاش!سفاک قاتلوں کومعلوم ہوتاڈاکٹرخالدمحمودسومروکتنے اہم انسان تھے۔وہ محض ایک عالم دین اورایک مذہبی سیاسی جماعت کے صوبائی راہ نماہی نہیں ، بلکہ انتہائی لایق،فایق،اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تھے۔ان کاانتخاب رب لم یزل نے جس عظیم کام کے لیے کررکھاتھا،ان کے تعلیمی پس منظرکودیکھ کرایساگمان بھی نہیں کیاجاسکتاتھا۔وہ تھے توایک عالم دین کے صاحب زادے اورایک دینی ومذہبی پس منظررکھنے والے خاندان کے چشم وچراغ،لیکن انہوں نے عصری تعلیم حاصل کی تھی اور لاڑکانہ سے MBBS (R.M.P) - CMC کی ڈگری حاصل کی اورلاڑکانہ ہی میں ہاؤس جاب سے اپنی عملی زندگی کاآغازکیا۔
گویاوہ چلے توتھے لوگوں کی جسمانی بیماریوں کاعلاج کرنے کے لیے ، مگرسبحان!تیری قدرت…تیرے ہاں اس ڈاکٹرکے لیے کسی اورکام کاانتخاب ہو چکا تھا کہ جسمانی معالج وفزیشن توبہت ہیں،ضرورت ہے ایک نباض امت کی ،جوسیاست کی پرخاروادی میں قدم رکھے اورقوم وملت کواندرونی وبیرونی دشمنوں کی طرف سے لگائے جانے والے روحانی امراض سے محفوظ رکھنے میں اپناکرداراداکرے۔
سواس فزیشن نے سیاست کی وادی پرخارمیں قدم رکھا،ساتھ ہی سندھ یونیورسٹی جام شوروسے اسلامک کلچرمیں ماسٹرڈگری بھی حاصل کی،اس کے ساتھ ساتھ آپ نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباداورجامعہ ازہرمصرسے کورسزبھی کررکھے تھے۔سیاست کے میدان میں آپ نے اپنی خدادصلاحیتوں کابھرپوراستعمال کیااوراس کے لیے جمعیت علمائے اسلام کاپلیٹ فارم چنا،جس کے ناظم عمومی برائے صوبہ سندھ کے طورپرآپ نے 26سال تک خدمات انجام دیں۔یہ آپ کی خدمات کااعتراف ہی تھاکہ اتنے طویل عرصے تک اس منصب کے لیے آپ ہی کاانتخاب کیاجاتارہا۔اس کے علاوہ آپ کی حیثیت وقت کی نبض پرہاتھ رکھنے والے بیدارمغزراہ نماکی تھی۔آپ کاشمار ان گنے چنے سیاست دانوں میں ہوتاتھا،جن کی رائے کوخصوصی اہمیت دی جاتی تھی۔آپ 2006ء سے 2012ء تک سینیٹ آف پاکستان کے رکن اورمختلف اسٹینڈنگ کمیٹیوں میں بھی شامل رہے۔
ان کی پہچان صرف ایک سیاست دان کی نہیں تھی،بل کہ وہ ایک اسلامی اسکالرکے طورپرپہچانے جاتے تھے اوردنیابھرمیں آپ کولیکچردینے کے لیے مدعوکیاجاتاتھا۔آپ نے ہرفورم پراسلام کے آفاقی پیغام کوہرمرض کی دواکے طورپرپیش کیا،اس کااندازہ اقوام متحدہ کے زیراہتمام انسانی حقوق کے حوالے سے -اور نومبر کو جنیوا (سوئزرلینڈ)میں منعقدہ بین الاقوامی سیمینار میں سینیٹر ڈاکٹر خالد محمود سومرو کی تقریر کے ان کلمات سے بہ خوبی ہوسکتاہے،ملاحظہ فرمائیے!
''اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے اور ہمارا ملک پاکستان دہشت گردوں کے نشانے پر ہے، ہم عرصہ سے دہشت گردوں کا شکار بنے ہوئے ہیں، پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ سے بہت سارے نقصانات ہوئے ہیں۔ ہم دہشت گردی کی بھر پور مذمت کرتے ہیں جہاں پر بھی کوئی دہشت گردی ہوئی ہے ہم نے اس کی مذمت کی ہے ،لیکن یہ ضروری ہے کہ دہشت گردی کی تعریف مقرر کرنی چاہئے کہ دہشت گردی کیا ہے؟ کیونکہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آپ کس کو دہشت گرد کہہ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں بھی یہ وضاحت موجود ہے کہ اگر کوئی ملک کسی دوسرے ملک پرجبری قبضہ کرنے کی کوشش کرے تو اس علاقہ کے لوگوں کو اپنی دھرتی اور اپنے ملک کے تحفظ کا حق حاصل ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ جب تک دہشت گردی کے بنیادی اسباب ختم نہیں ہوں گے، تب تک دہشت گردی سے جان نہیں چھوٹے گی۔میرے خیال کے مطابق طاقت کا ناجائز استعمال، کسی بھی ملک پر ناجائز قبضہ، لوگوں کو زبردستی اپنا غلام بنانے کی کوشش ،سیاسی اور سماجی نا انصافی، دہشت گردی کے بنیادی اسباب ہیں ان چیزوں کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ میرے خیال کے مطابق دہشت گردی کے عمل کو کسی بھی مذہب یا قوم کے ساتھ منسلک کرنا درست نہیں ہے۔اسلام لفظ کے معنی ہیں: سلامتی۔ اور ایمان لفظ کے معنی ہیں: امن یہی سبب ہے کہ ہم مسلمان امن اور سلامتی کی بات کرتے ہیں کیونکہ ہمارا دین ہمیں امن اور سلامتی کا درس دیتا ہے ہم چاہتے ہیں کہ دنیا بھر کے لوگوں کو امن اور سلامتی نصیب ہو اور تمام لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق ملیں اللہ تعالی نے قرآن پاک میں اور تمام آسمانی کتابوں میں حقوق انسانی کا تذکرہ فرمایا ہے اور اللہ تعالی کے تمام نبیوں نے بھی انسانی حقوق کے تحفظ کی بات کی ہے۔ اللہ تعالی کے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر جو خطبہ ارشاد فرمایا تھا وہ خطبہ انسانی حقوق کے سلسلہ میں ایک اہم پیغام تھاہم سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالی کے آخری پیغمبر کایہ خطبہ حقوقِ انسانی کا پہلا بین الاقوامی چارٹر تھا
اقوام متحدہ کافورم ہویامؤتمرعالم اسلامی کااسٹیج،متحدہ مجلس عمل کاپلیٹ فارم ہویاملی یک جہتی کونسل کا ،وفاق المدارس العربیہ کاکوئی جلسہ ہوہویاجمعیت علمائے اسلام کاپروگرام،سیاسی ہوںیاغیرسیاسی اجتماعات…غرض ہرجگہ انھوں نے اسلام کے پیغام امن کاپرچارکیا،اسلام کودہشت گردی سے زبردستی جوڑنے کی کوششوں کی مذمت کی،اسلام کااصل چہرہ سامنے رکھااورملک بھرمیں قیام امن کے لیے جہاں کہیں کوئی کوشش ہوئی اس کی پرزورتاییدکی۔انہوں نے غلط کوببانگ دہل غلط کہااوراس میں کسی کی ملامت کی ذرہ برابرپروانہ کی انہوں نے جماعتی پالیسی کوہمیشہ مقدم رکھا،لیکن جماعتی پالیسی بھی کبھی ان کے پاؤں کی بیڑی نہ بن سکی۔وہ ان لوگوں میں سے تھے ،جوزمانے کے ساتھ بدلانہیں کرتے ،بل کہ زمانے کوبدلنے کاہنرجانتے ہیں ،سوانہوں نے بھی دستورمے خانہ بدل ڈالاتھا۔جب انہوں نے جنیواکنونشن میں دخترپاکستان ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی کھل کروکالت کی اورامریکاکوانسانی حقوق پامال کرنے کاسب سے بڑامجرم گردانا،توانہیں''ہاتھ ہلکارکھنے''کی فہمایش کی گئی تھی،جسے وہ خاطرمیں نہیں لائے تھے،کہ وہ قلندرتھے اورقلندرکی یہ صداہواکرتی ہے۔
ٹھوکر سے میرا پاؤں تو زخمی ہوا مگر
 
راستے میں جو حائل تھا وہ

کہسار ہٹ گیا

علامہ ڈاکٹرخالدمحمودسومرواعلیٰ عصری تعلیم کے حامل ہونے کی وجہ سے مغرب پرست لابیوں کی نفسیات اوران کے طریق واردات سے ہی واقف نہیں تھے،بل کہ وارث انبیاء ہونے کی وجہ سے ان کاتوڑبھی جانتے تھے۔سیاست وثقافت اوروقوم وزبان کی آڑمیں مستقبل میں باطل جوکھیل کھیلنے والاہوتاتھا،وہ اس کی پیشگی اطلاع ہی نہیں رکھتے تھے،بل کہ امت کوخبردارکرکے اس کے توڑمیں مصروف ہوجایاکرتے تھے۔یہی ان کی وہ ادائے باغیانہ تھی جودورحاضرکے طاغوت کوکھٹکتی تھی۔یہی وہ ان کابانکپن تھا،جوعالم کفرکوایک آنکھ نہ بھاتاتھا۔یہی وہ ان کی صدائے حریت تھی جسے دبانے کے لیے ایک عرصے سے سندھ کی قوم پرست اوروطن پرست جماعتیں کوشاں تھیں۔انہیں قلق تھااس بات کا،کہ یہ شخص ہمارے لوگوں کودینی غیرت وحمیت کی جس لڑی میں پروتاجارہاہے ،اگریہ سلسلہ یوں ہی جاری رہاتوہمیں اپنے پروگراموں کی چاکنگ اورکازکی لابنگ کرنے کے لیے لوگ اسی طرح مستعارلینے پڑیں گے،جس طرح روشنیوں کے شہرمیں ایک جماعت کاوطیرہ رہاہے یاجس طرح دھرنابرانڈسیاست دانوں نے کیا۔سندھی نوجوانوں پران کے گہرے اثرات تھے۔ان کی خطابت اورمترنم تقریریں مجمعے پروہ اثرڈالتی تھیں ،کہ جوانہیں ایک بارسن لیتا،انہی کے گن گانے لگتاتھا۔
ان کاقاتل کون ہوسکتاہے؟افراد،شخصیات،اندارونی یابیرونی سازش کار…اس سے قطع نظریہ بات طے ہے کہ ان کوبہ حالت نمازشہیدکرنے والاکوئی مسلمان نہیں ہوسکتا،زمانے کے انحطاط سے انکارنہیں،تاہم ایسی حرکت کوئی مسلمان نہیں کرسکتااورجوکوئی ایسی حرکت کرے وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔قاتل اوراس کے سرپرست خوش نہ ہوں،کہ ہم نے ایک راہ کاروڑاہٹادیاہے،لہٰذااس پاک دھرتی کی پشت پروہ اپنے بیرونی آقاؤں کے مغربی تہذیب کورایج کرنے کے منصوبے پرآزادی سے عمل پیراہوسکیں گے،نہیں اورہرگزنہیں ،کہ اہل حق کی تاریخ ہی قربانیوں سے عبارت ہے،شہیدکاخون ہی توہے جس سے اس دین کی آبیاری ہوئی ہے تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے اوربوڑھاآسمان بھی اس حقیقت پرشاہدعدل،کہ شہیداپنی جان تو دے دیتاہے،مگراس کی قربانی سے اس کے مشن وموقف میں کم زوری واضمحلال نہیں آیاکرتا۔
وہ قیام امن کے پرجوش مناداورپرزورداعی تھے۔انہوں نے کراچی آپریشن کی کھل کرحمایت کی تھی۔وہ ان دنوں جعلی پولیس مقابلوں کے حوالے سے بڑے متفکرتھے،کہ جب قانون کے رکھوالے ہی قانون کامذاق اڑائے جانے کاسبب بنیں گے اورمحافظ ہی قاتل ٹھہریں گے ،توکسی وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں!! انہوں نے اس حوالے سے اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں بھی کی تھیں اورکوئی بڑااسٹینڈلینے جا رہے تھے۔
سندھ میں امن و امان کی ابتر صورت حال کے اس ماحول میں صوبائی حکومت بالکل بے بس ہے۔ زندگی کے کسی شعبے میں اس کی کارکردگی نظر نہیں آتی۔ حکومت کی ناکامی کے لئے ثبوت و شواہد یا کسی کی تصدیق و تردید کی ضرورت نہیں ہے۔ سالہا سال سے پولیس اور مجرموں کے درمیان آنکھ مچولی جاری ہے، تو صوبائی حکومت کو اپنی شدید ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے مستعفی ہو جانا چاہئے۔
حکومت شہریوں کی جان او مال و املاک کا تحفظ نہ کر سکے، جو اس کا بنیادی فریضہ ہے تو اسے حکمرانی کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ یہ واقعہ سندھ میں بدامنی کے واقعات میں روز بروز اضافے کا واضح ثبوت ہے۔ سندھ حکومت امن کے قیام اور عوام کے تحفظ کی ذمہ داری میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹرمولاناخالدمحمودسومروکی شہادت حال ہی میں تشکیل پانے والے علمائے دیوبندکے اتحادکے لیے ٹیسٹ کیس ہےہماری دینی قیادت، اکابر علما کرام ،دانشورانِ قوم اور بااثر حضرات کو سوچنا چاہیے کہ اگر بات کسی ایک فرد یا ادارے کی ہوتی تو ہماری بے توجہی اور لاتعلقی کی شاید کوئی تاویل یا توجیہ ہوسکتی تھی، لیکن یہ سب مکتبہ فکر، تمام طبقات اور سارے مسلکی حلقوں کا معاملہ ہے۔ اس لئے کہ حاملین دین پر حملہ خود دین پر حملہ ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ان حادثات وواقعات کے سدباب اور روک تھام کے لئے مشاورت سے کوئی واضح لائحہ عمل مرتب کیا جائے ،تاکہ آئندہ ایسے حادثات کا اعادہ نہ ہو۔ اگر اب بھی ہم نے وقت کھودیا اور اس طرح اپنے اکابر کے خون میں لت پت لاشے اٹھاتے رہے تو دنیائے اسلام اپنے ان علمی سپوتوں اور قوم کی پیشوائی وراہ نمائی کرنے والی عظیم شخصیات سے محروم ہوجائے گی،جوملک وملت کوخودکشی کی راہوں پرڈالنے کے مترادف ہوگا۔