نبی اکرم ﷺ بحیثیتِ تاجر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
نبی اکرم ﷺ بحیثیتِ تاجر
……مفتی محمد راشد ڈسکوی﷾
کائنات میں بسنے والے ہر ہر فرد کی کامل رہبری کے لیے اللہ رب العزت کی طرف سے جس معزز ومکرم ہستی کو مبعوث کرنا متعین ہوتا ، تو لازم تھا کہ اس امرِ عظیم کی تکمیل کے ایسی کامل واکمل ہستی کا انتخاب کیا جاتا، جس کی ذات وصفات میں ہر راہنمائی لینے والے کے لیے ہمہ جہت اور ہمت وقت سامان موجود ہوتا، چنانچہ! اس کے لیے سردار الانبیاء، رحمۃ اللعالمین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو مبعوث کیا گیا، سب سے آخر میں بھیج کر، قیامت تک کے لیے آنجناب کے سر پر تمام جہانوں کی سرداری ونبوت کا تاج رکھ کر اعلان کر دیا گیاکہ اے دنیا بھر میں بسنے والے انسانوں اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر اور پُرسکون بنانا چاہتے ہو تو تمہارے لیے رسول اللہ ﷺکی مبارک ہستی میں بہترین نمونہ موجود ہے، ان سے راہنمائی حاصل کرو اور دنیا وآخرت کی ابدی خوشیوں اور نعمتوں کو اپنا مقدر بناؤ۔
گویا کہ اس اعلان میں دنیا میں بسنے والے ہر ہر انسان کو دعوت ِعام دی گئی ہے کہ جہاں ہو، جس شعبے میں ہو، جس قسم کی راہنمائی چاہتے ہو، جس وقت چاہتے ہو، تمہیں مایوسی نہ ہو گی، تمہیں تمہاری مطلوبہ چیز سے متعلق مکمل راہنمائی ملے گی، شرط یہ ہے کہ تم میں طلبِ صادق ہونی چاہیے، چنانچہ! تاجر ہو یا کاشتکار،شریک ہو یا مضارب، مزدور ہو یا کوئی بھی محنت کش، ماں ہو یا باپ، بیٹا ہو یا بیٹی، میاں ہو یا بیوی، مسافر ہو یا مقیم، صحت مند ہو یا مریض، شہری ہو یا دیہاتی، پڑھا لکھا ہو یا اَن پڑھ؛ اگر وہ چاہے کہ میرے لیے میرے شعبے میں راہنمائی ملے، تو اس کے لیے جنابِ رسول اللہ ﷺ کی مبارک ہستی میں نمونہ موجود ہے، مذکورہ آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے سامنے جنابِ رسول اللہ ﷺ کو لا کھڑا کیا ہے کہ میرے اس محبوب کو دیکھو، تمہیں ہر چیز ملے گی، اپنے سے متعلق روشنی حاصل کرو اور اس پر عمل پیرا ہو کر اللہ کے محبوب بن جاؤ، تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کی تشریح میں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
کہ یہ آیت کریمہ نبی اکرم ﷺ کے اقوال، افعال اور احوال کی اتباع کرنے میں بہت بڑی بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ علماءامت نے امتِ محمدیہ علی صاحبہا الف الف صلوات کی آسانی اور سہولت کی خاطر جنابِ رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے ہر ہر پہلو کو پوری طرح واضح کرنے کے لیے خوب سے خوب محنت کی، بے شمار کتب تصنیف کیں، تا کہ کوئی بھی شخص اپنے شعبے سے متعلق جنابِ رسول اللہ ﷺ کی مبارک زندگی کو دیکھنا چاہے تو اسے بغیر دقّت کے آپ علیہ الصلاة والسلام کی تعلیمات معلوم ہو سکیں، جنابِ رسول اللہ ﷺ کی اتباع کرنا نبی اکرم ﷺ کا ہم پر حق بھی ہے، اور محبت کا تقاضا بھی، اور یہ بات بھی پوری طرح واضح رہنی چاہیے کہ یہ حق اور تقاضا صرف ماہِ ربیع الاول کے پہلے بارہ دن یاپورے مہینے کے لیے ہی نہیں، بلکہ پوری زندگی اور زندگی کے ہر ہر لمحے کے لیے ہے۔
ان سطور سے مقصود نبی اکرم ﷺ کی پوری حیاتِ طیبہ کو سمیٹنا نہیں ہے، بلکہ صرف آپ علیہ الصلاة والسلام کی سیرتِ طیبہ سے تجارت کے پہلو کو واضح کرنا مقصود ہے،آپ علیہ الصلاة والسلام نے تجارت کا پیشہ اپنایا اور رزق حلال سے اپنی زندگی کا رشتہ استوار رکھا، نبوت کے اس پہلو کو سمجھنے کے لیے اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی حیات ِ مبارکہ کے دو حصے ہیں، ایک: نبوت ملنے سے قبل کا اوردوسرا: نبوت ملنے کے بعد کا، اول الذکر کا دورانیہ چالیس سال ہے اور ثانی الذکر کادورانیہ تئیس سال، اس دوسرے حصے کے پھر دو حصے ہیں، ایک: مکی دور ، اور دوسرا: مدنی دور
نبوت سے قبل کی معاشی کیفیت:
نبی اکرم ﷺ کا نبوت سے پہلے والا دور مالی اور معاشی اعتبار سے بہت زیادہ خوش الحال دور نہیں تھا، لیکن اس کے برعکس یہ کہنا بھی درست نہیں کہ آپ ﷺ بہت ہی زیادہ مفلوک الحال زندگی بسر کر رہے تھے، البتہ یہ ضرور تھا کہ آنجناب بچپن سے ہی محنت ومشقت کر کے اپنی مدد آپ ضروریات زندگی پورا کرنے کا ذہن رکھتے تھے۔
والد کی طرف سے ملنے والی میراث:
جب آپ ﷺ کی پیدائش ہوئی تو آپ کے سرسے والد کا سایہ اٹھ چکا تھا، ان کی طرف سے بطورِ میراث بھی کوئی جائیداد آپ کی طرف منتقل نہیں ہوئی تھی، جیسا کہ کتب ِ سیرت میں اس کی تفصیل میں صرف یہ منقول ہے کہ آپ ﷺ کو میراث میں صرف پانچ اونٹ، چند بکریاں اور ایک باندی ملی، جس کا نام ”ام ایمن“ تھا، (اس باندی کو بھی جنابِ رسول اللہ ﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے وقت یعنی: پچیس سال کی عمر میں آزاد کر دیا تھا) اس کے علاوہ مزید کوئی چیز میراث میں نہ ملی تھی۔
میراث میں ملنے والی اشیاءاس قابل نہ تھیں کہ آپ کی کفالت کے لیے کافی ہو جاتی، یہی وجہ تھی کہ دیہاتی علاقوں سے آکر جو عورتیں بچوں کو پرورش اور تربیت کے لیے لے جایا کرتی تھیں، آپ علیہ الصلاة والسلام کی طرف ان میں سے کسی کا بھی رجحان آپ کی طرف نہیں ہوا کہ یہ تو یتیم اور غریب بچہ ہے،اس کی پرورش کرنے پر ہمیں اس کی والدہ کی طرف سے کچھ خاص معاوضہ نہ مل سکے گا، اور حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے جو آپ علیہ الصلاة والسلام کا انتخاب کیا تھا وہ بھی ابتداءنہیں کیا تھا، بلکہ جب ان کے لیے کوئی اور بچہ نہ بچا ، تو پھر ان کو خیال آیا چلو خالی ہاتھ واپس جانے کی بجائے اس یتیم بچے کو ہی لے جانا چاہیے، مال تو نہیں ، لیکن اللہ تو راضی ہو گا
دادا اور چچا کی کفالت میں:
ان ابتدائی دو سالوں میں آپ ﷺ کی کفالت آپ کے دادا عبد المطلب کرتے رہے، دو سال کے بعد آپ کے دادا بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئے، دادا کے انتقال کے بعد آپ کے چچا ابو طالب نے آپ کی کفالت اپنے ذمہ لے لی، ابو طالب آپ کے حقیقی چچا تھے، جو بہت ہی ذوق وشوق اور محبت سے آپ کی پرورش کرتے رہے اور آپ کی ضروریات پوری کرنے کی اپنی مقدور بھر سعی کرتے رہے، چنانچہ ! آپ کے چچا جب تجارت کی غرض سے دوسرے شہروں میں جاتے تو اپنے بھتیجے کو بھی ہمراہ لے جاتے۔
بکریاں چرانا:
مکہ مکرمہ میں حصول معاش کے لیے عام طور پر گلہ بانی اور تجارت عام تھی، چنانچہ آپ ﷺ نے اپنی حیاتِ مبارکہ کی ابتداءمیں ہی اپنی معاش کے بارے میں از خود فکر کی، ابتداءً اہلِ مکہ کی بکریاں اجرت پر چراتے تھے، بعد میں تجارت کا پیشہ بھی اختیار کیا، اور یہ کوئی عیب کی بات نہیں تھی، بلکہ یہ تو آپ ﷺ کی عظمت اور تواضع کی کھلی دلیل ہے، اس لیے کہ بکریاں چرانے والے شخص میں جفاکشی، تحمل وبردباری اور نرم دلی پیدا ہو جاتی ہے، اس لیے کہ بکریاں چرانا معمولی کام نہیں ہے، بلکہ بہت ہی زیادہ ہوشیاری اور بیدار مغزی والا کام ہے، اس لیے کہ بکریاں بہت کمزور مخلوق ہوتی ہیں، تیزی اور پھرتی میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہوتا، انہیں قابو میں رکھنے کے لیے بھی خوب پھرتی کی ضرورت ہوتی ہے، دوسری بات یہ ہے کہ اس جانور پر قابو سے باہر ہونے کی صورت میں غصہ اتارنا بھی ممکن نہیں ہوتا، یعنی: غصہ کی وجہ سے مار بھی نہیں سکتے، کیونکہ بوجہ ان کے چھوٹا، دبلا پتلا اور کمزور ہونے کے ان کی ہڈیاں وغیرہ ٹوٹنے کا اندیشہ ہوتا ہے، اس بناءپر بکریاں چرانے والے میں خوب تحمل وغیرہ پیدا ہو جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاءکرام علیہم السلام نے بکریاں چرائی ہیں، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ نے جو بھی نبی بھیجا، اس نے بکریاں ضرور چرائیں، صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! کیا آپ نے بھی ؟ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ ہاں میں بھی مکہ والوں کی بکریاں قراریط پر چراتا تھا۔
”قراریط“ سے کیا مراد ہے؟ اس میں اختلاف ہے ، بعض کا قول یہ ہے کہ یہ درہم یا دینار کے ایک ٹکڑے کا نام ہے، اس صورت میں مطلب یہ بنے گا کہ کچھ قراریط کے عوض بکریاں چرائیں، اور بعض کا قول ہے کہ یہ مکہ مکرمہ کے ایک محلہ ”جیاد“کا نام ہے، اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ مقام قراریط میں بکریاں چرائیں، علامہ ابن ملقن رحمہ اللہ نے اسی قول کو ترجیح دی ہے کہ یہ ایک جگہ کا نام ہے۔
اسی طرح ایک بار نبی اکرم ﷺ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ جنگل تشریف لے گئے، صحابہ بیریاں توڑ توڑ کر کھانے لگے، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو خوب سیاہ ہوں وہ کھاؤ، وہ زیادہ مزے کی ہوتی ہیں، یہ میرا اس زمانے کاتجربہ ہے، جب میں بچپن میں یہاں بکریاں چرایا کرتا تھا۔
ملک ِ شام کی طرف پہلا سفر:
نبی اکرم ﷺ نے شام کی طرف دو سفر کیے، پہلا: اپنے چچا کے ہمراہ، لیکن اس سفر میں آپ ﷺ بطورِ تاجر شریک نہ تھے،بلکہ محض تجارتی تجربات حاصل کرنے کے لیےتشریف لے گئے ، اسی سفر میں بحیرا راہب والا مشہور قصہ پیش آیا، جس کے کہنے پر آپ کے چچا نے آپ ﷺ کو حفاظت کی خاطر مکہ واپس بھیج دیا۔
ملکِ شام کی طرف دوسرا سفر:
اور دوسرا سفر: آپ ﷺ نے بطور تاجر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا سامان لے کر اجرت پر کیا۔قصہ کچھ اس طرح پیش آیا کہ جب آپ ﷺ پچیس برس کے ہوگئے تو آپ کے چچا ابو طالب نے کہا کہ اے بھتیجے! میں ایسا شخص ہوں کہ میرے پاس مال نہیں ہے، زمانہ کی سختیاں ہم پر بڑھتی جا رہی ہیں، تمہاری قوم کا شام کی طرف سفر کرنے کا وقت قریب ہے، خدیجہ بنت خویلد اپنا تجارتی سامان دوسروں کو دے کر بھیجا کرتی ہے، تم بھی اجرت پر اس کا سامان لے جاؤ، اس سے تمہیں معقول معاوضہ مل جائے گا، یہ گفتگو حضرت خدیجہ کو معلوم ہوئی تو اس نے خود آپ ﷺ کو پیغام بھیج کے بلوایا کہ جتنا معاوضہ اوروں کو دیتی ہوں، آپ کو اس سے دوگنا دوں گی، اس پر ابو طالب نے آپ ﷺ کو کہا کہ یہ وہ رزق ہے جو اللہ نے تمہاری جانب کھینچ کے بھیجا ہے، اس کے بعد آپ ﷺ قافلے کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے، آپ کے ہمراہ حضرت خدیجہ کا غلام ”میسرہ “بھی تھا، جب قافلہ شام کے شہر بصریٰ میں پہنچا تو وہاں نسطورا راہب نے آپ ﷺ میں نبوت کی علامات پہچان کر آپ کے نبی آخر الزمان ہونے کی پیشن گوئی کی۔
دوسرا اہم واقعہ یہ پیش آیا کہ جب آپ ﷺ نے تجارتی سامان فروخت کر لیا تو ایک شخص سے کچھ بات چیت بڑھ گئی، اس نے کہا کہ لات وعزیٰ کی قسم اٹھاؤ، تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا: میں نے کبھی ان دونوں کی قسم نہیں کھائی، میں تو ان کے پاس سے گذرتے ہوئے ان سے منہ موڑ لیا کرتا تھا۔اس شخص نے یہ بات سن کر کہا، حق بات تو وہی ہے، جو تم نے کہی، پھر اس شخص نے میسرہ سے مخاطب ہو کر کہا: خدا کی قسم یہ تو وہی نبی ہے، جس کی صفات ہمارے علماءکتابوں میں لکھی ہوئی پاتے ہیں۔
تیسرا واقعہ یہ پیش آیا کہ میسرہ نے دیکھا کہ جب تیز گرمی ہوتی تودو فرشتے نبی اکرم ﷺ پر سایہ کر رہے ہوتے تھے، یہ سب کچھ دیکھ کر میسرہ تو آپ ﷺ سے بہت ہی زیادہ متاثر تھا، واپسی میں ظہر کے وقت جب واپس پہنچے تو حضرت خدیجہ نے اپنے بالاخانے میں بیٹھے بیٹھے دیکھا کہ نبی اکرم ﷺ اونٹ پر بیٹھے اس طرح تشریف لا رہے تھے کہ دو فرشتوں نے آپ پر سایہ کیا ہوا تھا، حضرت خدیجہ اور ان کے ساتھ بیٹھیں ہوئی عورتوں نے یہ منظر دیکھ کر بہت تعجب کیا، اور پھر جب میسرہ کی زبانی سفر کے عجائب، نفع کثیر اور نسطورا راہب اور اس جھگڑا کرنے والے شخص کے باتیں سنیں تو بہت زیادہ متاثر ہوئیں، حضرت خدیجہ بہت زیادہ دور اندیش، مستقل مزاج، شریف، با عزت اور بہت مال دار عورت تھیں، انہوں نے آپ ﷺ کو نکاح کا پیغام بھیج کر نکاح کر لیا، اس وقت نبی اکرم ﷺ کی عمر مبارک پچیس سال اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیس سال تھی۔
یمن کی طرف دو سفر:
جو تجارتی اسفار نبی اکرم ﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکی وجہ سے کیے، ان میں دو سفر یمن کی طرف بھی تھے، امام حاکم رحمہ اللہ نے المستدرک میں نقل کیا ہےکہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم ﷺ کو جرش (یمن کے ایک مقام)کی طرف دو بار تجارت کے لیے اونٹنیوں کے عوض بھیجا۔
بحرین کی طرف سفر:
نبوت سے قبل آپ ﷺ کے بحرین کی طرف سفر کرنے کا بھی اشارہ ملتا ہے، وہ اس طرح کہ جس طرح آپ ﷺ کی خدمت میں عرب کے تمام دور دراز مقامات سے وفود حاضر خدمت ہوتے رہے، انہی وفود میں بحرین سے وفدِ عبد القیس بھی آیا، تو آپ ﷺ نے اہلِ وفد سے بحرین کے ایک ایک مقام کا نام لے کر وہاں کے احوال دریافت فرمائے، تو لوگوں نے تعجب سے پوچھا، کہ اے اللہ کے رسول! آپ تو ہمارے ملک کے احوال ہم سے بھی زیادہ جانتے ہیں، تو آپ ﷺ نے جواب میں ارشاد فرمایا: کہ ہاں میں تمہارے ملک میں خوب گھوما ہوں۔
تجارتی اسفار میں آپ ﷺ کے خصائل حمیدہ:
نبی اکرم ﷺ اپنی عمر مبارک کے پچیسویں سال تک تجارتی اسفار میں اپنے اخلاقِ کریمانہ، حسن معاملہ، راست بازی، صدق ودیانت کے وجہ سے اتنے زیادہ مشہور ہو چکے تھے کہ خلقِ خدا میں آپ ”صادق وامین “کے لقب سے مشہور ہو گئے تھے، لوگ کھلے اعتماد کے ساتھ آپ کے پاس بے دھڑک اپنی امانتیں رکھواتے تھے، انہی خصائل کی بنا پر حضرت خدیجہ بن خویلد رضی اللہ عنہا کی رغبت نبی اکرم ﷺ کی طرف ہوئی تھی اور پیغام ِ نکاح بھیج دیا تھا۔
لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرنا:
تجارتی معاملات کی کامیابی کے لیے معاملات کی صفائی اور لڑائی جھگڑے سے پرہیز اہم ترین کردار ادا کرتا ہے، اور یہ صفات نبی اکرم ﷺ میں بدرجہ اتم موجود تھیں، چنانچہ حضرت قیس فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ زمانہ جاہلیت میں میرے شریک ہوتے تھے، اور آپ ﷺ شرکاءمیں سے بہترین شریک تھے، نہ لڑائی کرتے تھے اور نہ ہی جھگڑا کرتے تھے۔
بحث وتکرار سے اجتناب:
مسلمان تاجر کی صفات میں سے ایک صفت معاملات کے وقت شور شرابا اور آپس کی بے جا بحث وتکرار سے بچنا بھی ہے، اور آپ ﷺ کے اس وصف عظیم کی گواہی زمانہ نبوت سے پہلے بھی دی جاتی تھی، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن سائب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا تو آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم آپ ﷺ کے سامنے میری تعریف اور میرا تذکرہ کرنے لگے، تو آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں تمہاری نسبت ان سے زائد واقف ہوں، میں نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یا رسول اللہ! آپ سچ فرماتے ہیں، آپ زمانہ جاہلیت میں میرے شریک ہوتے تھے، اور آپ کتنے بہترین شریک ہوتے تھے کہ نہ شور شرابا (بحث وتکرار) کرتے تھے اور نہ جھگڑا کرتے تھے۔
ایفائے وعدہ :
وعدوں کی پاسداری تجّار کی بہت بڑی خوبی شمار ہوتی ہے، آنحضرت ﷺ کے اندر یہ وصف کیسا تھا؟ اس بارے میں ”حضرت عبد اللہ بن ابی حمسآءرجی اللہ عنہ“ سے روایت ہے کہ میں نے نبوت ملنے سے قبل آپ سے خرید وفروخت کا ایک معاملہ کیا، خریدی گئی شئے کی قیمت میں سے کچھ رقم میرے ذمہ باقی رہ گئی، تو میں نے آپ ﷺ سے وعدہ کیا کہ میں کل اسی جگہ آ کر آپ کو بقیہ رقم ادا کر دوں گا، پھر میں بھول گیا، اور مجھے تین روز بعد یاد آیا، میں اس جگہ گیا، تو دیکھا کہ جناب رسول اللہ ﷺ اسی جگہ تشریف فرما ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: اے نوجوان! تم نے مجھے اذیت پہنچائی، میں تین دن سے اسی جگہ پر تمہارا منتظر ہوں۔
نبوت کے بعد معاشی صورت حال:
جناب ِ رسول اللہ ﷺ نے نبوت مل جانے کے بعد حصول معاش کے لیے کچھ کیا یا نہیں؟ اس بارے میں بالاتفاق قول فیصل یہ ہے کہ بعثت کے بعد آپ ﷺ نے اپنی محنت اور توجہ صرف اور صرف احیائے دینِ متین کی طرف مبذول کر دی تھی، بعثت کے بعد آپ ﷺ سے کسی بھی قسم کی معاشی مشغولیت کا ثبوت نہیں ملتاہے، البتہ ! دین کے دیگر شعبوں کی طرف راہنمائی کی طرح اس شعبے کی بھی بہت واضح اور تفصیلی انداز میں راہنمائی کی، اس میدان سے کامیابی کے ساتھ گذر جانے والوں کو جہاں بہت بڑی بڑی بشارتیں سنائیں تو وہاں اس میدان کے چور، ڈاکوؤں اور خائنوں کو وعیدیں سنا سنا کر انہیں لوٹ آنے کی طرف بھی متوجہ کیا، نبی اکرم ﷺ کے فرمودات کا جائزہ لیا جائے تو عبادت کے احکام اور معاملات کے احکام میں ایک اور تین کی نسبت نظر آئے گی، یعنی : عبادات سے متعلق احکام ایک ربع اور معاملات سے متعلق احکام تین ربع ملیں گے، چنانچہ! کتبِ فقہ میں اہم ترین کتاب” ہدایہ “کو دیکھ لیا جائے کہ اس کی چار ضخیم جلدوں میں سے صرف ایک جلد عبادات کے بارے میں ہے اور تین جلدیں معاملات کے بارے میں ہیں، اسی سے شعبہ معاملات کی اہمیت کا اندازہ کر لیا جائے۔
ایک غلط ذہن کی اصلاح:
موجودہ دور میں ایک دین دار طبقہ کم عقلی اور بے دینی کی وجہ سے یہ ذہن رکھتاہے کہ محنت کرنے اور کمانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اللہ تعالیٰ تو رزق دینے میں ہماری محنت کے محتاج نہیں ہیں، وہ ایسے بھی دینے پر قادر ہیں، لہٰذا ہمیں کچھ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، ہم تو اعمال کے ذریعے اللہ سے لیں گے، اسباب کے ذریعے نہیں۔تو اس بارے میں اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ ایک ہے اسباب کا اختیار کرنا اور انہیں استعمال کرنا، اور ایک ہے ان اسباب کو دل میں اتارنا، اور ان پر یقین رکھنا؛ پہلی چیز کو اپنانا محمود اور مطلوب ہے اور دوسری چیز کو اپنانا مذموم ہے، ہماری محنت کا رُخ یہ ہونا چاہیے کہ ہم ان اسباب کی محبت اور یقین دل سے نکالیںاور اس کے برعکس یقین اللہ تعالیٰ پر رکھیں، کہ ہماری ہر طرح کی ضروریات پوری کرنے والی ذات؛ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، وہ چاہے تو اسباب کے ذریعے ہماری حاجات وضروریات پوری کر دے اور چاہے تو ان اسباب کے بغیر محض اپنی قدرت سے ہماری ضروریات وحاجات پوری کر دے، وہ اس پر پوری طرح قادر اور خود مختار ہے۔ البتہ ! ہم اس دارالاسباب میں اسباب اختیار کرنے کے پابند ہیں، تاکہ بوقتِ حاجت وضرورت ہماری نگاہ وتوجہ غیر اللہ کی طرف نہ اٹھ جائے۔
اس بات میں تو کوئی شک وشبہ ہے ہی نہیں کہ اللہ رب العزت ہماری محنتوں کے ،محتاج نہیں ہیں، لیکن کیا شریعت کا مزاج اور منشا بھی یہ ہی ہے؟! کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہیں، بالخصوص جب، اس ترکِ اسباب کا نتیجہ یہ نکلتا ہو کہ بیوی، بچوں اور والدین کے حقوق تلف ہوتے ہیں اور یہ غیروں کے اموال کی طرف حرص وہوس کے ساتھ دیکھتا رہتا ہے، تو یاد رکھیں کہ اس طرح کے لوگوں کو شریعت اس طرزِ عمل کی تعلیم نہیں دیتی، بلکہ سیرتِ نبوی اور سیرتِ صحابہ تو حلال طریقے سے کسب ِ معاش کی تعلیم دیتی ہے، ایسے بے شمار واقعات ہیں جن سے یہ سبق ملتا ہے کہ اپنا کر کے کھاؤ، دوسرے کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاؤ، یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ تونگری کی وجہ سے آج کے دور میں ہمارا دین وایمان محفوظ رہے گا، ورنہ اندیشہ ہے کہ اختیاری فقر وفاقہ کہیں کفر وشرک کے قریب ہی نہ لے جائے۔ہاں اولیاءاللہ اور یقین و توکل کے اعلیٰ درجہ پر فائض لوگوں کا معاملہ اور ہے۔
حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ کی ذریں نصائح:
حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ گذشتہ زمانہ میں مال کو بُراسمجھا جاتا تھا، لیکن جہاں تک آج کے زمانہ کا تعلق ہے تو اب مال ودولت مسلمانوں کی ڈھال ہے، حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ نے یہ بھی فرمایاکہ اگر یہ درہم ودینار اور روپیہ پیسہ نہ ہوتا تو یہ سلاطین وامراءہمیں دست وپاہ بنا کر ذلیل وپامال کر ڈالتے، نیز! انہوں نے فرمایا: کسی شخص کے پاس اگر تھوڑا بہت بھی مال ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ اس کی اصلاح کرے کیوں کہ ہمارا یہ زمانہ ایسا ہے کہ اس میں اگر کوئی محتاج ومفلس ہو گا تو اپنے دین کو اپنے ہاتھ سے گنوانے والا سب سے پہلا شخص وہی ہو گا۔
توضیحات شرح مشکاة میں لکھا ہے: ”فیما مضٰی یکرہ“، یعنی پچھلے زمانہ میں مال ودولت کو ناپسند کیا جاتا تھا، مومن اورمتقی حضرات مال کو مکروہ سمجھتے تھے، کیوں کہ عام ماحول زہد وتقویٰ کا تھا، لوگ غریب و فقیر کو ذلیل وفقیر نہیں سمجھتے تھے، مالی کمزوری کی وجہ سے اس کے ایمان کو تباہ نہیں کرتے تھے، نیز بادشاہ اور حکمران بھی اچھے ہوتے تھے، جو غریب کو سنبھالا دیتے تھے، اس لیے لوگ مال ودولت اکٹھا نہیں کرتے تھے اور اکٹھا کرنے کو معیوب سمجھتے تھے، مگر اب معاملہ اس کے برعکس ہے کہ غریب وفقیر آدمی کو معاشرہ میں ذلیل وحقیر سمجھتے ہیں، اور پیسے کی بنیاد پر اس کے ایمان کو خریدا جاتا ہے، نیز! حکمران بھی خیر خواہ نہیں رہے، تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ غریب آدمی مالداروںاور حکمرانوں کا دستِ نگر اور دست وپاہ بن جائے گا، اور ان کے ہاتھ صاف کرنے اور میل کچیل صاف کرنے کے لیے تولیہ اور رومال بن جائے گا۔
پھر مزید لکھا ہے: جس شخص کے پاس اس مال میں سے کچھ بھی ہو وہ اس کی اصلاح کرے، مطلب یہ کہ تھوڑا پیسہ بھی ہو تو اس کو کسی کاروبار میں لگا دے یہ اس کی ترقی وبڑھوتری ہے، یا پھر اصلاح کا مطلب یہ ہے کہ اس کو قناعت کے ساتھ خرچ کرے ، اسراف نہ کرے۔
کمائی کے ذرائع:
کسب معاش کے بہت سے ذرائع ہیں، ان میں سے کون سا افضل ہے ؟! اس کی تعیین میں سلف صالحین کا اختلاف ہے۔
حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
میرے نزدیک کمائی کے ذرائع تین ہیں: تجارت، زراعت اور اجارہ۔ اورہر ایک کے فضائل میں بہت کثرت سے احادیث ہیں، بعض حضرات نے صنعت و حرفت کو بھی اس میں شامل کیا ہے، جیسا کہ اوپر گذرا۔ میرے نزدیک وہ ذرائع آمدنی میں نہیں، اسبابِ آمدنی میں ہے اور آمدنی کے اسباب بہت سے ہیں: ہبہ ہے، میراث ہے، صدقہ ہے، وغیرہ وغیرہ۔ جنہوں نے اس کو کمائی کے اسباب میں شمار کیا ، میرے نزدیک صحیح نہیں، اس لیے کہ نرا صنعت وحرفت کمائی نہیں ہے، کیوں کہ اگر ایک شخص کو جوتے بنانے آتے ہیں یا جوتے بنانے کا پیشہ کرتا ہے، وہ جوتے بنا بنا کر کوٹھی بھر لے ، اس سے کیا آمدنی ہو گی؟یا تو اس کو بیچے گا یا (پھر یہ جوتے) کسی کا نوکر ہو کر اس کا (مال)بنائے۔یہ دونوں طریقے تجارت یا اجارہ میں آ گئے، اور اس سے بھی زیادہ قبیح ”جہاد“ کو کمائی کے اسباب میں شمار کرنا ہے، اس لیے کہ جہاد میں اگر کمائی کی نیت ہو گئی تو جہاد ہی باطل ہے.... میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ میرے نزدیک تجارت افضل ہے، وہ بحیثیت پیشہ کے ہے، اس لیے کہ تجارت میں آدمی اپنے اوقات کا مالک ہوتا ہے، تعلیم وتعلم، تبلیغ، افتاءوغیرہ کی خدمت بھی کر سکتا ہے، لہٰذا اگر اجارہ دینی کاموں کے لیے ہوتو وہ تجارت سے بھی افضل ہے، اس لیے کہ وہ واقعی دین کا کام ہے، مگر شرط یہ ہے کہ وہی دین کا کام مقصود ہو اور تنخواہ بدرجہ مجبوری ہے۔ میرے اکابرِ دیوبند کا زیادہ معاملہ اسی کا رہا، اور اس کا مدار اِس پر ہے کہ کام کو اصل سمجھے اور تنخواہ کو اللہ کا عطیّہ،اس لیے اگر کسی جگہ پر کوئی دینی کام کر رہا ہو، تدریس، افتاءوغیرہ اور اس سے زیادہ کسی دوسرے مدرسہ میں تنخواہ ملے، تو پہلی جگہ کو محض کثرتِ تنخواہ کی وجہ سے نہ چھوڑے۔میں نے جملہ اکابر کا یہ معمول بہت اہتمام سے ہمیشہ دیکھا، جس کو آپ بیتی میں لکھوا چکا ہوں کہ انہوں نے اپنی تنخواہوں کو ہمیشہ اپنی حیثیت سے زیادہ سمجھا .. درحقیقت میرے اکابر کے بہت سے واقعات اس کی تائید میں ہیں کہ تنخواہ اصل یا معتد بہ چیز نہیں سمجھتے تھے۔ جیسا میں نے اوپر لکھا؛ اور تنخواہ محض عطیہ الٰہی سمجھتے تھے، جو ہم لوگوں میں بالکل مفقود ہے، یہی وہ چیز ہے جس کی بنا پر میں اجارہ تعلیم کو سب انواع سے افضل لکھا ہے.....اس ملازمت کے بعد تجارت افضل ہے۔ اس لیے کہ تاجر اپنے اوقات کا حاکم ہوتا ہے، وہ تجارت کے ساتھ دوسرے دینی کام تعلیم، تدریس، تبلیغ وغیرہ بھی کر سکتا ہے، اس کے علاوہ تجارت کی فضیلت میں مختلف آیات واحادیث ہیں، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ان اللہ اشتریٰ من المومنین انفسھم واموالھم بان لھم الجنة۔ )التوبۃ: ۱۱۱)
خدا نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں، (اور اس کے)عوض میں اُن کے لیے بہشت (تیار) کی ہے۔
اور بھی بہت سی آیات تجارت کی فضیلت میں ہیں، ان کے علاوہ احادیث میں ہے:
”التاجر الصدوق الامین مع النبیین والصدیقین والشھدآء“
(سنن الترمذی، کتاب البیوع)
سچا، امانت دار تاجر(قیامت میں) انبیاء، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہو گا۔
بہترین کمائی اُن تاجروں کی ہے، جو جھوٹ نہیں بولتے، امانت میں خیانت نہیں کرتے، وعدہ خلافی نہیں کرتے اور خریدتے وقت چیز کی مذمت نہیں کرتے (تاکہ بیچنے والا قیمت کم کر کے دے دے) اور جب (خود) بیچتے ہیں، تو (بہت زیادہ) تعریف نہیں کرتے (تا کہ زیادہ ملے) اور اگر ان کے ذمہ کسی کا کچھ نکلتا ہو تو ٹال مٹول نہیں کرتے اور اگر خود ان کا کسی کے ذمہ نکلتا ہوتو وصول کرنے میں تنگ نہیں کرتے۔
قال رسول اللہﷺ: ”التاجر الصدوق تحت ظل العرش یوم القیامۃ “
(اتحاف الخیرة المھرة بزوائد المسانید العشرة، کتاب الفتن)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کرم ﷺ نے فرمایا کہ سچ بولنے والا تاجر قیامت میں عرش کے سایہ میں ہو گا۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: کہ جب تاجر میں چار باتیں آ جائیں تو اس کی کمائی پاک ہو جاتی ہے، جب خریدے تو اس چیز کی مذمت نہ کرے اور بیچے تو (اپنی چیز کی بہت زیادہ) تعریف نہ کرے۔ اور بیچنے میں گڑ بڑ نہ کرے اور خرید و فروخت میں قسم نہ کھائے۔
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کہ خرید وفروخت کرنے والے کو (بیع توڑنے کا) حق ہے، جب تک وہ اپنی جگہ سے نہ ہٹیں۔ اگر بائع ومشتری سچ بولیں اور مال اور قیمت کے عیب اور کھرے کھوٹے ہونے کوبیان کر دیں تو ان کی بیع میں برکت ہوتی ہے اور اگر عیب کو چھپا لیں اور جھوٹے اوصاف بتائیں تو شاید کچھ نفع تو کما لیں (لیکن) بیع کی برکت ختم کر دیتے ہیں۔
رزق کے نو حصے تجارت میں ہیں اور ایک حصہ جانوروں کی پرورش میں ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں تمہیں تاجروں کے ساتھ خیر کے برتاؤ کی وصیت کرتا ہوں
تجارت کے بعد میرے نزدیک زراعت افضل ہے، زراعت کے متعلق حدیث میں آیا ہے ، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم ﷺ کا ارشاد نقل کیا ”کوئی مسلمان جو درخت لگائے یا زراعت کرے، پھر اس میں سے کوئی انسان یا پرندہ یا کوئی جانور کھا لے تو یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔“اور مسلم کی روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ اس میں سے کچھ چوری ہو جائے تو وہ بھی اس کے لیے صدقہ شمار ہوتا ہے۔
ضرورت کے اعتبار سے بھی زراعت اہم ہے، کیوں کہ اگر زراعت نہ کی جائے تو کھائیں گے کہاں سے؟.... باقی اپنی زمین دوسرے کو دینا، مزارعت کہلاتا ہے، زراعت اور چیز ہے اور مزارعت اور چیز ہے۔ حاصل یہ ہے کہ قواعدِ شرعیہ کی رعایت ہر چیز میں ضروری ہے، جیسا کہ اس بارے میں اوجز المسالک: باب کراءالارض میں بہت لمبی بحث کی گئی ہے۔ اور شرعی حدود کی رعایت ان ہی تینوں میں نہیں بلکہ دین کے ہر معاملہ میں ضروری ہے.... ان سب کے بعد نہایت ضروری اور اہم امر یہ ہے کہ کسب کے بلکہ ہر عمل میں شریعتِ مطہرہ کی رعایت ضروری ہے۔
چنانچہ امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:”بیع اور شراءکے ذریعہ مال حاصل کرنے کے مسائل سیکھنا ہر مسلمان پر واجب ہے، جو اس مشغلہ میں لگا ہوا ہو، کیوں کہ طلبِ علم کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے اور اس سے ان تمام مشاغل کا علم طلب کرنا مراد ہو گا، مشغلہ رکھنے والوں کو جن مسائل کی حاجت ہو۔ اور کسب کرنے والاکسب کے مسائل جاننے کا محتاج ہے اور جب اس سلسلہ کے احکام جان لے تو معاملات کو فاسد کرنے والی چیزوں سے واقف ہو جائے گا، لہٰذا ان سے بچے گا، اور ایسے شاذ ونادر مسائل جو باعث اشکال ہوں ان کے ہوتے ہوئے معاملہ کرنے میں سوال کر کے علم حاصل کرنے تک توقف کرے گا، کیوں کہ جب کوئی شخص معاملات کو فاسد کرنے والے امور کو اجمالی طور پر نہ جانے تو اسے یہ معلوم نہیں ہو سکتاکہ میں کس کے بارے میں توقف کروں اور سوال کر کے اس کو جانوں۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں پیشگی علم حاصل نہیں کرتا، اس وقت تک کام کرتا رہوں گا جب تک کوئی واقعہ پیش نہ آجائے، جب کوئی واقعہ پیش آئے گا تو معلوم کر لوں گا، تو اس شخص کو جواب دیا جائے گا کہ جب تک تو اِجمالی طور پر معاملات کو فاسد کرنے والی چیزوں کو نہ جانے گا تجھے کیسے پتہ چلے گاکہ مجھے فلاں موقع پر معلوم کرنا چاہیے۔ جسے اجمالی علم بھی نہ ہو وہ برابر تصرفات کرتارہے گا اور ان کو صحیح سمجھتا رہے گا۔ لہٰذا علم تجارت سے اوّلا اس قدر جاننا ضروری ہے کہ جس سے جائز وناجائز میں تمیز ہو اور یہ پتہ چل سکے کہ کون سا معاملہ وضاحت کے ساتھ جائز ہے اور صحیح ہے، اور کس میں اشکال ہے۔“
ہم حدودِ شرعیہ کے اندر رہتے ہوئے کسبِ معاش کریں، اور حصول معاش سے قبل اس کا علم شرعی ضرور بالضرور حاصل کر لیں، مبادا یہ کہ یہ کمائی کل بروزِ قیامت ہمارے لیے وبال بن جائے اور ہماری آخرت برباد ہو جائے۔یہی وجہ تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے بازار میں وہی شخص خرید وفروخت کیا کرے، جس نے اپنے اس کاروبار سے متعلق علم حاصل کر لیا ہو۔