حقیقی تصوف اور صوفیاءکی پہچان

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
حقیقی تصوف اور صوفیاءکی پہچان
………مولانا عنایت اللہ عینی ﷾
دنیا کی ابتداءکا فلسفہ قرآن میں موجود ہے کہ یہ اچھے لوگوں سے شروع ہوئی ہے اور اس کی انتہا و بربادی کی وجوہات فرامین سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم میں دیکھی جا سکتی ہیں وہ یہ کہ برائی اور برے لوگ جب ہر طرف پھیل جائیں گے حتی لا یقال فی الارض اللہ اللہ یعنی جب کوئی ایک بھی اللہ اللہ کہنے والا نہیں ہوگا تو اس وقت اس عالم گل و آب کی بساط لپیٹ دی جائےگی اور صورِ اسرافیل سے ذی روح کے قلوب پھٹ جائیں گے ،خداوند قدوس کا ازلی وعدہ واقعیت کا روپ دھار لے گا۔ قیامت آ جائے گی۔ اس لیے چند روزہ زندگی سے دھوکہ مت کھائیے اور اس کی بے ثباتی اور بے وفائی کو ذہن میں رکھتے ہوئے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان الکیس من دان نفسہ و عمل لما بعد الموت کہ حقیقت میں سمجھدار کہلانے کا وہ شخص مستحق ہے جس نے مرنے کے بعد والی زندگی کے لیے اعمال صالحہ سے تیاری کی۔
آج ہم جس دنیا میں ہیں اس میں مجموعی طور پر دوقسم کے لوگ ہیں۔ اچھے اور برے۔ جس طرح اچھے لوگوں کی اچھائی ان کی اپنی ہوتی ہے اس کی وجہ سے کسی برے انسان کی برائی کو اچھائی نہیں کہا جاتا، ٹھیک اسی طرح برے لوگوں کی برائی بھی ان کی اپنی ہوتی ہے جس سے کسی اچھے انسان کی اچھائی کو برائی کا نام نہیں دیا جاسکتا۔
مثلاً بعض مسلمانوں کی بری عادات اور ان کے بگڑ جانے سے کوئی شخص اسلام کا انکار نہیں کرے گا بلکہ وہ دین اسلام کو سمجھنے کے لیے اس کے تعلیمات قرآن و سنت کو ان کے ماہرین مجتہدین فقہاء کرام کے علوم کی روشنی میں مطالعہ کرے گا نہ کہ دین اسلام سے دور نا واقف مسلمانوں کی وجہ سے وہ اسلام سے متنفر ہوجائے، جو یقینا ًہلاکت کے سواکچھ نہیں ہے۔
اسی طرح دین اسلام کی روح تزکیہ واحسان کا حاصل علم تصوف کا بعض جاہل و جعلی پیروں کی وجہ سے انکار نہیں کیا جائے گا جس طرح علماء ظاہر میں اچھے علماء اور برے موجود ہیں اسی طرح علماء باطن صوفیاء کرام میں بھی اچھے صوفیاء اور برے دونوں ہوتے ہیں۔
جب تک اس علم کی حقیقت کو جان نہ لیا جائے اور اس کے تقاضوں کے مطابق اس پر عمل نہ کیا جائے توانسان گمراہیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ ہاں اگر اس علم کو اخلاص کے ساتھ کسی جامع طریقت و شریعت ، مرشد و مربی سے سیکھ کر عمل کیا جائے تو اللہ تعالیٰ ولایت کے ایسے درجات نصیب فرماتے ہیں جس کے سامنے دنیا و ما فیہا کی کوئی حیثیت نہیں۔ چنانچہ اس علم کو سیکھنے کے لیے مرشد کی تجویز کردہ کتب کا مطالعہ کیا جائے۔ بطور فائدہ چندمعتبر اور مستند کتب کے نام یہاں درج کیے جاتے ہیں:

الرسالۃ القشیریۃ……از امام ابو القاسم القشیری الشافعی رحمہ اللہ

کشف المحجوب ……از امام علی الہجویری الحنفی رحمہ اللہ

اللمع فی التصوف ……از امام ابو النصر السراج الطوسی رحمہ اللہ

احیاء العلوم و کیمیائے سعادت ……ازامام محمد الغزالی الشافعی رحمہ اللہ

عوارف المعارف ……ازامام شہاب الدین السہروردی الشافعی رحمہ اللہ

مکتوبات……… از امام مجدد الف ثانی الحنفی رحمہ اللہ

امداد السلوک ………از امام الربانی رشید احمد گنگوہی حنفی رحمہ اللہ

اکمال الشیم ………ازعلامہ عبداللہ گنگوہی حنفی رحمہ اللہ

مسائل السلوک ……ازحکیم الامت اشرف علی تھانوی الحنفی رحمہ اللہ

التشرف …….. ازحکیم الامت اشرف علی تھانوی الحنفی رحمہ اللہ

التکشف ……… ازحکیم الامت اشرف علی تھانوی الحنفی رحمہ اللہ

اصول التصوف ……ازحکیم الامت اشرف علی تھانوی الحنفی رحمہ اللہ

تسہیل قصد السبیل…ازحکیم الامت اشرف علی تھانوی الحنفی رحمہ اللہ

آثار الاحسان ………ازعلامہ خالد محمود حفظہ اللہ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
اس لیے کہ مندرجہ بالا کتب میں مشائخ تصوف نے اگر ایک طرف تصوف کے اثبات پر لطیف عبارات، عمدہ ابحاث اور مضبوط دلائل قائم کیے ہیں، تو دوسری طرف اپنے زمانے کے لحاظ سے وقتا فوقتا تصوف کے جھوٹے ،جاہل اور جعلی مدعیوں کا پر زور مذمت اور تردید بھی کی ہے ، مثلاً شیخ المشائخ حضرت یحیی بن معاذ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اجتنب صحبۃ العلماء الغافلین والصوفیاء الجاہلین یعنی غافل علماء اور جاہل صوفیاء کی صحبت سے بچو۔
امام الصوفیہ رحمہ اللہ کی اس عبارت کی تشریح میں حضرت شیخ علی ہجویری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
”غافل علماء وہ ہیں جنہوں نے دنیا کو دل کا قبلہ بنالیا ہے اور شریعت کے آسان امور کو اختیار کر کے ظالم بادشاہوں کی پرستش کو اپنا وطیرہ اور ان کے درباروں کو اپنے لیے طواف گاہ بنالیا ہے۔ لوگوں کی نگاہ التفات حاصل کرنے کو اپنا محراب بناکر غرور اور اپنی دانائی پر فریفتہ ہوئے اور اپنے کلام کی باریکیوں میں محو ہوگئے، دین کے ائمہ کرام اور اساتذہ کے معاملہ میں لعن طعن کی زبان درازی کر کے دین کے بزرگوں کی گستاخیاں کرتے ہیں۔
کلام کی زیادتی اور مبالغہ آمیزی میں اس حدتک پہنچ گئے ہیں کہ اگر دونوں جہانوں کی خوبیاں ترازو کے پلڑے میں رکھ دی جائیں تو ان کی نگاہ میں ان کی بھی کوئی قدر وقیمت نہ ہوگی، کیونکہ انہوں نے کینہ اور حسد کو ہی اپنا مذہب بنالیا ہے غرضیکہ در حقیقت یہ لوگ علم سے خالی ہیں کیونکہ علم تو ایک ایسی صفت ہے کہ جس کو حاصل کرنے والا ہر قسم کی جہالت کی باتوں سے پاک وصاف ہوجاتا ہے۔
اور جاہل صوفی وہ ہیں جو نہ تو کسی مرشد کی صحبت میں رہے نہ کسی بزرگ سے آداب سیکھے اور نہ زمانہ کی مصیبتوں میں مبتلا ہوئے، بس اپنی کور باطنی کے باعث صوفیاء کرام کا لباس زیب تن کر کے اپنے آپ کو لوگوں میں ڈال دیا ہے۔ لہٰذا حق و باطل کے درمیان تمیز کرنے کی راہیں ان پر مخفی رہتی ہیں، یہ گروہ اپنے دعوائے تصرف میں جھوٹے اور اپنے طریق میں ناپسندیدہ ہیں۔
)کشف المحجوب ص34از شیخ علی ہجویری (
یہی مرد قلندر شیخ ہجویری رحمہ اللہ اصلی و جعلی صوفی میں فرق کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں:
صوفی شیخ و مرشد وہ ہے جو اپنی ذات سے فانی اور حق کے ساتھ باقی ہو، نفس طبیعت کے قبضہ و اقتداء سے آزاد ہو اور حق کے ساتھ مکمل طور پرملا ہوا ہو اور مستصوف جعلی و جھوٹا صوفی وہ ہے جو دنیا کے مال و متاع و عزت حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو صوفیاء کرام کی مثل کرتا ہو، اور اس کا تصوف سے کوئی رابطہ و تعلق نہیں ہوتا محض اسباب دنیا کی پرستش میں ذکر وعبادت، روحانیت اور باطنی تقاضوں سے غافل و بیگانہ رہتا ہے۔
)کشف المحجوب ص59 از شیخ ہجویری رحمہ اللہ (
اسی طرح صحیح تصوف اور غلط تصوف میں فرق کرتے ہوئے جامعہ ازہر مصر کے شیخ علامہ مخلوف مالکی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں:
پاکیزہ و شرعی تصوف:
یہ وہ اسلامی تصوف ہے جو انسانوں کے لیے ایک علمی و عملی تربیت ہے ، امراض قلوب کا علاج ہے جو اچھے عادات کو اور بھی مزین اور برے عادات کو ختم کرتا ہے، شہواتِ نفسانیہ کا قلع قمع کرتا ہے،نیک کاموں کی تربیت دیتا ہے، اعمال انسانی کے لیے سنجیدہ محاسبہ ہے،دلوں کو غفلت و روحانی خطرات کے اندیشوں سے محفوظ رکھتا ہے،سیر الی اللہ میں سالک کے راہ میں رکاوٹیں دور کرتا ہے۔
تصوف اللہ کی ذات پر کامل یقین اور اس کی معرفت کا حصول ہے، اللہ کی بزرگی اور وحدانیت کو بیان کرتا ہے، عبادات و طاعات پر استقامت اور توجہ الی اللہ اس کی طرف سبقت اور غیر اللہ سےاعراض دلاتا ہے، بے شک یہ ایک علم وحکمت ہے ہدایت اور دین کی وضاحت ہے، تہذیب و تربیت ہے، علاج و حفاظت ہے ،پرہیز گاری واستقامت ہے، صبر ومجاہدہ ہے، دنیا کے فتنوں سے فرار ہے۔
پسں تصوف جیسا کہ آپ نے دیکھا پڑھا شریعت کا خلاصہ اور اس کی روح ہے چنانچہ حضرت شیخ بغدادی ر حمہ اللہ فرماتے ہیں: ہمارا یہ علم اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے ساتھ مقید ہے۔ یہ وہ تصوف ہے جو ملاوٹ سے پاک ہے، اس میں نہ تو ٹیڑھا پن ہے ،نہ کجی ہے، نہ جھول ہے ،نہ بدعت ،یہ تصوف علماء ربانین وصوفیاء و عارفین (جو اللہ تعالی کے حدود شرعی پر قائم ہیں) والا ہے یہی وہ تصوف صادق ہے جس نے اپنی تدوین سے قبل و بعد دنیا کے مشرق و مغرب کو اپنی ضیاء پاشیوں سے منور کردیا۔
جھوٹی و بدعی تصوف:
اس کے منسوب لوگ جھوٹے اور بدعتی صوفی ہیں۔ جن کی تعلیمات؛ اسلام سے ہٹ کر ہیں، جن میں حلول ،اتحاد اور جھوٹ و بدعات ہیں۔ ایسے لوگ صوفیاء کرام کےلباس میں بدعتی اور گناہ گار ہیں، بہت سے جلیل القدر علماء امت نے ایسے لوگوں کے تصوف کو باطل قرار دیا ہے، جن میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ حنبلی رحمہ اللہ اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ بھی شامل ہیں۔
اہل حق اور انصاف پسند حضرات ایسے جھوٹے اور غلط عقائد والے لوگوں کی پیری مریدی کو صحیح اسلامی تصوف پر فٹ نہیں کرتے اور نہ ہی ان کی وجہ سے اچھے صوفیاء کرام کی برائی بیان کرتے ہیں، بلکہ ہر کسی فریق کو اچھائی اور برائی میں ان کو اپنا حق دیتے ہیں بغیر کسی تعصب اورفرقہ واریت کے۔
)تقریظ بر تعلیق ص24تا28 الشیخ ابی غدہ علی رسالہ المسترشدین للامام حارث المحاسبی (
حضرت علامہ مخلوف رحمہ اللہ کی بحث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ برے اور جعلی و جھوٹے پیروں کی وجہ سے اچھے اور صحیح العقیدہ بزرگوں کا انکار نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی ان بزرگوں کی وجہ سے ان جعلی لوگوں کی تعریف کی جائے گی کیونکہ ان پر اساطین امت نے رد کیا ہے جن میں ایک نامی گرامی شخصیت علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی شامل ہیں۔
وہ اگر ایک طرف جھوٹے و جعلی صوفیوں کی مذمت کرتے ہیں تو دوسری طرف صحیح و اصلی صوفیاء کرام کی تعریف میں رطب اللسان نظر آتے ہیں جن پر حضرت کی کئی کتب مثلاً: رسائل ابن تیمیہ، فتاویٰ ابن تیمیہ اور الفرق بین اولیاء الرحمان واولیاء الشیطٰن شاہد ہیں۔
چنانچہ آپ لکھتے ہیں:
وقد انتسب الیہم طوائف من اہل البدع والزندقۃ ولکن عند المحققین من اہل التصوف لیسوا منہم۔ یعنی جعلی، جھوٹے اور زندیق بدعتی لوگ اپنے آپ کو صوفیاء کرام میں شمار کرتے ہیں لیکن محقق صوفیاء کے نزدیک وہ ان میں سے نہیں ہیں۔
) فتاویٰ ابن تیمیہ الحنبلی 11/11،10 کتاب التصوف (
آگے مزید لکھتے ہیں:
وصارت الصوفیۃ ثلاثۃ اصناف: صوفیہ الحقائق و صوفیۃ الارزاق، وصوفیۃ الرسم۔۔
صوفیوں میں تین طرح کے لوگ ہیں پھر ان میں اصلی و محققین صوفیاء کی تعریف و توصیف کر کے باقی دو قسموں پر رد کرتے ہیں۔
) فتاوی ابن تیمیہ11/11 کتاب التصوف (
حقیقیت یہی ہے کہ آپ خود بھی محقق صوفی تھے اور سلسلہ قادریہ مبارکہ سے منسلک تھے بلکہ آپ کے صوفی اور قادری ہونے پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں مثلا :
1: موقف الامام ابن تیمیہ من التصوف والصوفیہ از ڈاکٹر احمد بن محمد البنانی
2: Ibn e Taymia Sufi of the Qadria Order.by: prof maqdasi
3: موقف الائمۃ الحرکۃ السلفیۃ من التصوف والصوفیہ از شیخ عبدالحفیظ مکی
4: آثار الاحسان از علامہ خالد محمود پی ایچ ڈی لندن
نوٹ : آپ کی کتابوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا کہ آپ حضرت سید الطائفہ سیدنا شیخ جنید بغدادی رحمہ اللہ اور سیدنا غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ سے بہت متاثر تھے۔