دینی امور میں احتیاط

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
دینی امور میں احتیاط
………مولانا محمد طارق خلیل ﷾
آج کے اس مادیت اور وسائل و زر کی فراوانی اور سہولت پسندی کے دور میں ہر شخص دینی امور میں رائے دینے کی کوشش کررہا ہے اور دینی امور کی انجام دہی کو اپنی تن آسانی کے مطابق کررہا ہے ،اس بات کا لازمی نتیجہ یہی ہوگا کہ ایک شخص جو دینی مسائل کے ابجد سے بھی واقف نہیں وہ اپنی مرضی سے دینی امور پر عمل پیرا ہورہا ہےااور احتیاط کے دامن کو اپنے ہاتھ سے چھوڑ دے تو یہ شخص اپنے لیے آخرت کے اعتبار سے خسارہ کے علاوہ کچھ نہیں کررہا اور اپنی تئیں اپنے عمل کو بڑا خوش کن محسوس کررہا ہوتا ہے۔
دور حاضر میں بڑھتی ہوئی ترقی کی وجہ سے نئی نئی اشیاء معرض وجود میں آرہی ہیں جب بھی کوئی فیکٹری کسی نئی مصنوعات کو بناتی ہے تو اس چیز کے استعمال کے حوالے سے جتنی احتیاطی تدابیر ہوتی ہیں اس کی بھی وضاحت کردیتی ہے اس چیز کو خرید نے والا اس کو استعمال کرتے وقت ان احتیاطات کو ضرور پیش نظر رکھتا ہے، ڈاکٹر کے بتائے ہوئے احتیاطی تدبیروں کا بھی ہر شخص خیال رکھتا ہے تو کیا وجہ ہے صرف دین ہی ایک ایسی چیز رہ گئی ہے جس پر عمل کرتے ہوئے تمام احتیاطات کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہےاپنی طرف سے اصولوں اور ضابطوں کوگھڑ کے دین کی اصل شکل و صورت کو مسخ کردیا جاتا ہے۔
ہم ذرا ان ہستیوں کی زندگیوں کی طرف بھی نظر کرلیں جن کے ایمان کو اللہ جل شانہ نے ایمان کے لیے معیار قرار دیا ہے، اور وہ حضرات جو ان کے نقش قدم پر چلتے اپنی زندگیوں میں دین کی اصل صورت کو واضح کر کے دنیا سے چلے گئیں۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا احتیاط:
آپ کا ایک غلام تھا جو غلہ کے طور پر اپنی آمدنی میں سے آپ کی خدمت میں پیش کیا کرتا تھا ایک مرتبہ وہ کچھ کھانا لایا اور آپ نے اس میں سے ایک لقمہ تناول فرمالیا، غلام نے عرض کیا آپ روزانہ دریافت فرمایا کرتے تھے کہ کس ذریعہ سے کمایا ؟ آج دریافت نہیں فرمایا فرمایا بھوک کی شدت کی وجہ سے دریافت کرنے کی نوبت نہیں آئی، اب بتاؤ عرض کیا کہ زمانہ جاہلیت میں ایک قوم پر گزرا اور ان پر منتر پڑھا، انہوں نے مجھ سے وعدہ کر رکھا تھا، آج میرا گزر ادھر کو ہوا تو ان کے یہاں شادی ہورہی تھی انہوں نے مجھے یہ دیا تھا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسی وقت حلق میں ہاتھ ڈال کر قے کرنے کی کوشش کی مگر ایک لقمہ وہ بھی بھوک کی شدت کی حالت میں کھایا گیا نہ نکلا کسی نے عرض کیا کہ پانی سے قے ہوسکتی ہے ایک بہت بڑا پیالہ پانی کا منگوایا اور پانی پی پی کر قے فرماتے رہے یہاں تک کہ وہ لقمہ نکالا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا احتیاط:
اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ایک مرتبہ دودھ نوش فرمایا، اور پھر شبہ ہونے پر سارا قے فرمادیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے جنہوں نے براہ راست اسے استفادہ کیا تھا ان کے بعد آنے والے حضرات تابعین رحمہم اللہ وتبع تابعین نے بھی اپنی زندگیوں کے ہر دور میں دین پر پورے طور پر عمل کر کے دیکھا۔
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ:
امام صاحب رحمہ اللہ کی تجارت بہت وسیع تھی، لاکھوں کا لین دین تھا، اکثر بڑے بڑے سوداگروں سے معاملہ رہتا تھا، ایسے بڑے کارخانہ کے ساتھ دیانت اور احتیاط کا اس قدر خیال رکھتے تھے کہ ناجائز طور پر ایک پائی بھی ان کے خزانہ میں نہیں داخل ہوسکتا تھا، اس احتیاط میں کبھی کبھی نقصان اٹھانا پڑتا تھا، مگر ان کو کچھ پرواہ نہیں ہوتی تھی ایک دفعہ حفص بن عبدالرحمان کے پاس خز کے تھان بھیجے اور کہلا بھیجا کہ فلاں فلاں تھان میں عیب ہے خریدار کو بتادینا، حفص کو اس ہدایت کا خیال نہ رہا تھان بیچ ڈالے اور خریداروں کو عیب کی اطلاع نہ دی امام صاحب کو معلوم ہوا تو نہایت افسوس کیا، تھانوں کی قیمت جو تیس ہزار درہم تھی سب خیرات کردی۔
حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کا واقعہ:
حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کے متعلق تذکرۃ الرشید میں لکھا ہے کہ اپنے معاملے میں آپ کا تقوی اور احتیاط اس قدر تھا کہ مسئلہ مختلف فیہا میں قول راجح پر جو احتیاط کے زیادہ قریب ہوتا اس کو اختیار فرمایا کرتے تھے باوجود ضرورت کے احتیاط کو ہر گز نہیں چھوڑ تے تھے، آپ کی احتاط کی ادنیٰ مثال یہ ہے کہ آپ اپنے امراض میں کیسا ہی شید مرض کیوں نہ ہوا کبھی بیٹھ کر نماز نہیں پڑھی مرض الموت میں جب تک اس قدر حالت رہی کہ دو آدمیوں کے سہارے سے کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکتے تھے اس وقت تک اسی طرح پڑھی کہ دو آدمیوں نے بمشکل اٹھایا اور دونوں جانبوں سے کمر میں ہاتھ ڈال کر لے کر کھڑے ہوگئے اور قیام و رکوع و سجود انہیں کے سہارے سے نماز ادا کی، خدام نے عرض کیا کہ حضرت بیٹھ کر نماز ادا کر لیجیے مگر نہ کچھ جواب دیا نہ قبول فرمایا، آخر جب کمزوری اس قدر پہنچ گئی کہ دوسرے کے سہارے بھی کھڑے ہونے کی قدرت نہ رہی تو اس وقت چند وقت کی نمازیں آپ نے بیٹھ کر پڑھیں گویا بتلا دیا کہ اتباع شرع اس کو کہتے ہیں تقوی اس کا نام ہے اختیار احوط اسی طرح ہوتا ہے۔