حسام الحرمین کااجمالی جائزہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
باب اول
حسام الحرمین کااجمالی جائزہ
برادران اہل السنۃ و الجماعت! اہل اسلام کی دشمنی ازل ہی سے اہل باطل نے اپنے ذمے لے رکھی ہے اور وہ اس کو اپنا جینا مرنا سمجھتے ہیں۔ لیکن وہ اسلام اور اہل اسلام کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے۔
تندیٔ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب!

یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لیے

 

 
القصہ باطل نئی نئی تدبیروں اور جالوں سے اہل اسلام کے خلاف سازش کرنے میں مگن ہے۔ مگر اسے معلوم ہونا چاہیے کہ حق والوں کو رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے قیامت تک بقا ملے گی۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا
لا یزال طائفۃ من امتی ظاہرین علی الحق لایضرہم من خالفہم اور ایک جگہ ہےیقاتل علیہ عصابۃ من المسلمین او کما قال
ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی اور ان کے مخالفین ان کونقصان نہ پہنچا سکیں گے اور ایک روایت میں ان کی نشانی بیان کر دی کہ وہ جماعت حق پر قتال و جہاد کرتی رہے گی۔
میں بڑی سوچ بچار سے ملت رضویہ کے افراد سے کہوں گا اس وقت حق پر قتال کرتی ہوئی تمہاری جماعت تو درکنار ایک آدمی بھی نظر نہیں آتا جبکہ دوسری طرف بحمد اللہ کئی جماعتیں جہاد میں مصروف ہیں جو کفر کے طاغوت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس سے مقابلہ میں مصروف ہیں۔
بہرحال حسام الحرمین کے چاہنے اور ماننے والوں کے رد میں علماء و مشائخ و اکابرین نے کئی کتب لکھی ہیں۔
1۔ المہند علی المفند
2۔ الشہاب الثاقب علی المستسرق الکاذب
3۔ حسام الحرمین اور عقائد علماء دیوبند
4۔ فیصلہ کن مناظرہ
5۔ انکشاف حق یہ ایک بریلوی عالم نے لکھی ہے اور احمد رضا کی تردید میں کمال کر دیا ہے
6۔ عبارات اکابر وغیرہ
ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے اکابر اربعہ،شیوخ اربعہ حجۃ الاسلام بانی دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی، قطب الارشاد فقیہ النفس مولانا رشید احمد گنگوہی، خلیل الملۃ والدین فخر المحدثین حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری مدفون بجنت البقیع مدینہ منورہ اور حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہم اللہ کے نام لے کر اس بدنام زمانہ کتاب حسام الحرمین میں کافر کہا گیا حالانکہ یہ سب کے سب اولیاء و علماء زمانہ تھے۔ ان کی ولایت و عظمت کی تحفظ کی بات کرنا سعادت ہے کیونکہ بفرمان سید کونین رحمت کون و مکان صلی اللہ علیہ وسلم
’من عادی لی ولیا فقد اذنتہٗ بالحرب
حدیث قدسی ہے کہ خدا فرماتا ہے:جو میرے ولی سے دشمنی کرے میرا اس سے اعلان جنگ ہے۔
اس لیے ان شیوخ اربعہ کا دفاع کرنا اولیاء اللہ کا دفاع ہے۔ جو عین سنت خدا ہے اور ان سے دشمنی کرنا شقاوت و بدبختی اور کار شیطان ہےاللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔
اس پر ایک مثال پیش کر کے میں بات آگے لے چلتا ہوں کہ
اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان جنگ کیسے ہوتا ہے اسے ملاحظہ فرمائیے:
مولوی احمد رضا صاحب نے اپنی کتاب حسام الحرمین میں ان اکابر اربعہ کے متعلق لکھا ہے کہ
یہ طائفے سب کے سب کافر و مرتد ہیں۔ باجماع امت اسلام سے خارج ہیں اور بے شک بزازیہ اور درر، غرر اور فتاویٰ خیریہ و مجمع الانھر اور دُرّمختار و غیرہا معتمد کتابوں میں ایسے کافروں کے حق میں فرمایا کہ جوان کے کفر و عذاب میں شک کرے خود کافر ہے۔
حسام الحرمین مع تمہید ایمان ص 20
اب آئیے دیکھیے کہ فاضل بریلوی اعلیٰ حضرت صاحب اس فتوے میں خود کیسے پھنستے ہیں۔ انوار مظہریہ جس میں پروفیسر ڈاکٹر مسعود صاحب کی تقریظ بھی ہے۔اس میں لکھا ہے کہ
1۔ مولوی اشرف علی تھانوی کی حفظ الایمان کی گستاخانہ عبارت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا نے جب اپنے دوست مولانا عبدالباری فرنگی محلی کو دکھائی تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے تو اس میں کفر نظر نہیں آتا اعلیٰ حضرت نے ایک مثال دی پھر بھی انہوں نے نہ مانا اعلیٰ حضرت خاموش ہو گئے اور دوستی ومحبت کو برقرار رکھا۔
انوار مظہریہ ص 292
2۔ پروفیسر ڈاکٹر مسعود صاحب خود لکھتے ہیں:
مولانا عبدالباری فرنگی محلی کو باوجود اس کے انہوں نے ایک دیوبندی عالم کی تکفیر سے انکار کیا تو آپ نے ان کی تکفیرنہیں فرمائی۔
فتاویٰ مظہریہ ص 499
اب مولانا عبدالباری فرنگی محلی پر حسام الحرمین کی رو سے فتویٰ کفر آنا چاہیے تھا کہ انہوں نے حکیم الامت اشرف الملۃ والدین رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر نہ کرکے حسام الحرمین کے فتوے سے انکار کیا اور حسام الحرمین کے فتوے سے انکار کرنے کی وجہ سے حسام الحرمین والا فتویٰ ان پر بھی لگنا چاہیے تھا مگر فاصل بریلوی نے وہ فتویٰ جو حسام الحرمین میں لکھا تھا کہ جو ان کے کفر و عذاب میں شک کرے تو وہ خود بھی کافر ہے۔
حسام الحرمین ص 20
یہ فتویٰ مولانا عبدالباری پر نہیں لگایا بلکہ ان کے ساتھ دوستی محبت کوبرقرارر کھااور یہ اصول بھی بریلویوں کے گھر سے مدنظر رہے کہ جو کافر کو کافر نہ کہے وہ خود کافر ہے۔
1۔ دعوت اسلامی کی مجلس تحقیقات شریعہ کی تحقیق یہ ہے کہ قرآن عظیم نے کافر کو کافر کہا اور کافر کہنے کا حکم دیا۔
نصاب شریعت ص 469 مصدقہ امیر دعوت اسلامی الیاس عطار قادری
2۔ بریلوی علامہ فیض احمد اویسی بہاولپوری لکھتے ہیں
’’ہاں وہ واقعی کسی غلط عقیدہ پر جم گیا ہے تو پھر اسے کافر کہنا ضروری ہے نہ کہے گا توخود کافر ہو گا۔
مسلمان کو کافر نہ کہو ص 4
3۔ فاضل بریلوی لکھتے ہیں اہل قبلہ وہ ہے کہ تمام ضروریات دین پر ایمان رکھتا ہو ان میں سے ایک بات کا بھی منکر ہو تو قطعاً یقینا اجماعاً کافر مرتد ہے ایسا کہ جو اسے کافر نہ کہے خود کافر ہے۔
حسام الحرمین مع تمہید ایمان ص 177
4۔ کافر کو کافر کہنا ضروریات دین سے ہے۔
پیر کرم شاہ کا تنقیدی جائزہ ص 214
القصہ معلوم ہو گیا کہ جو کافر کو کافر نہ کہے وہ خود کافر ہے۔
تو فاضل بریلوی اس کفر کی دلدل میں خود پھنس گیا اور حسام الحرمین کا منکر بھی خود ہی ہے۔ دنیائے رضا خانیت میں کسے جرأت ہے کہ وہ فاضل بریلوی کو اس کفر کی دلدل سے نکال سکے۔ یہ اللہ کی طرف سے اعلان جنگ ہے کہ فاضل بریلوی اپنے فتوی کے مطابق ایمان سے خالی ہوگئے۔
فاضل بریلوی نے یہ خدا کی دشمنی مول لی۔ حالانکہ ان اولیاء سے عداوت نہیں ہونی چاہیے تھی مگر ادھر انگریز کے دیے ہوئے پیسے کا کمال تھا کہ خدا اور رسول سے دشمنی تک مول لے لی گئی۔ العیاذ باللہ تعالیٰ
فاضل بریلوی لکھتے ہیں:کتب فتاویٰ میں جتنے الفاظ پر حکم کفر کا جزم کیا ہے ان سے مراد وہ صورت ہے کہ قائل نے ان سے پہلوئے کفر مراد لیا ہو ورنہ ہرگز کفر نہیں۔
حسام الحرمین مع تمہید ایمان ص 128،127
یعنی قائل کی مراد کو دیکھا جائے گا مگر فاضل بریلوی نے اکابر اہل السنۃ کے کلام میں ان کی رائے معلوم ہی نہیں کہ ورنہ خود کفر کے گھاٹ نہ اُترتے۔مفتی شریف الحق امجدی لکھتے ہیں: مصنف اپنی مراد کو بخوبی جانتا ہے۔
دیوبندیوں سے لاجواب سوالات جوابات ص 79
مفتی فیض احمد گولڑوی مفتی آستانہ عالیہ گولڑہ شریف لکھتے ہیں: الفاظ کے معانی متکلم اور دیگر قرائن کے لحاظ سے متعین کرنا بعض جگہ ضروری ہو جاتا ہے۔
تحقیق الحق
علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی لکھتے ہیں:
بزرگوں کے کلام کا ان کی مراد کے خلاف مطلب نکال کر مراد لینا سراسر جہالت ہے اس کا کوئی اچھا نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا۔
آئینہ اہل سنت ص80
مگر فاضل بریلوی تو اس طرف آئیں ہی کیوں یہاں تو امت مسلمہ کو ٹکڑے کرنا ہے اور اس کے لیے جان بوجھ کر زبردستی ان عبارات اسلامیہ کو غیر اسلامی بنایا گیا جن کی بڑی عمدہ عمدہ تاویلیں ان کے گھر کے لوگ تسلیم کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیں۔
حفظ الایمان کی عبارت پر گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر مسعود صاحب لکھتے ہیں:
مولانا خلیل احمد نے اپنے جو اب میں ایک اچھا نکتہ نکالا ہے انہوں نے تحریر فرمایا ہے مولانا اشرف علی کی اس تحریر سے یہ مراد نہیں کہ وہ علم مصطفی کو جانوروں اور درندوں وغیرہ کے مساوی سمجھتے تھے بلکہ وہ تویہ کہنا چاہتے تھے کہ ایسا علم جس میں پاگل دیوانے بچے اور جانور و درندے شریک ہوں اس سے آپ کی ذات ارفع و اعلیٰ ہے۔
فاضل بریلوی علماء حجاز کی نظرمیں ص 198،197
تو بریلوی علماء و دانشور لوگ تسلیم کرتے ہیں ان عبارات کا اچھا معنی بنتا ہے۔ تو پھر فاضل بریلوی نے کیوں تکفیر کی وجہ صرف یہ ہے کہ امت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا اور فساد کو برپا کرنا تھا جو ان کے ذمے انگریز کی طرف سے نوکری لگی تھی۔ وہ اس کو کرنے میں مگن ہیں۔ جیساکہ قاری احمدپیلی بھیتی صاحب لکھتے ہیں: مولانا احمد رضا خان پچاس سال مسلسل اسی جدوجہد میں منہمک رہے۔ یہاں تک کہ مستقل دو مکتبہ فکر قائم ہو گئے بریلوی اور دیوبندی۔
سوانح حیات اعلیٰ حضرت بریلوی ص8
اس فکر میں فاضل بریلوی اندھا دھند چلے ہیں یہ نہیں دیکھا کہ اس زد میں کون آ رہا ہے اور کون نہیں اور کیا یہ فکر اسلامی ہے یا نہیں۔ ان کے اپنے گھر کے افراد اس تکفیر پر جو اکابر اہل السنۃ دیوبند کی انہوں نے کی ہے، جرح کر رہے ہیں۔
1۔ قاضی عبدالنبی کوکب لکھتے ہیں:
مخالف نقطہ نظر کی طرف سے بھی زیادہ سے ز یادہ بات مولانا کے خلاف یہ کہی جا سکتی ہے کہ انہوں نے علماء دیوبند سے اظہار اختلافات کے لیے نہایت سخت اور تلخ لہجہ اختیار کیا تھا انہوں نے مدرسہ دیوبند کے جید اساطین علم کی بعض عبارات کو کفریہ قرار دیا اور اس فتویٰ میں انہوں نے اس شرعی احتیاط و مراعات کوملحوظ نہ رکھا جو ایسے نازک موقع پر ملحوظ رکھنی ناگزیر ہوتی ہے۔
مقالات یوم رضا ص 21
2۔ مولوی محمد توفیق برکاتی مصباحی لکھتے ہیں:
جتنے بھی اختلاف ہیں وہ بہت معمولی ہیں البتہ علماء دیوبند کی تکفیر کے بارے میں انہوں نے تشدد برتا ہے یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ اس میں مخلص نظر آتے ہیں تاہم ان کے نتیجے سے متفق نہیں کہ ان عبارات کی کوئی قابل قبول تاویل نہیں اگرچہ وہ عبارات قابل اعتراض ہیں مگر ان کی نیت پر شبہ اور تکفیر پر اصرار زیادتی ہے۔
خیابان رضا ص 217
اگرچہ یہ حوالہ برکاتی صاحب نے کسی اور کا نقل کیا ہے مگر تردید نہیں کی تو سارا وزن برکاتی صاحب کے کندھے پر آ پڑا۔
کیونکہ ان کے رئیس التحریر ارشد القادری لکھتے ہیں
اور دوسری بات یہ بھی کہ نہ بھی کوئی عبارت کسی کی اپنی ہو لیکن اگر وہ اس کے مضمون سے متفق ہو تو مضمون کی ساری ذمہ داری اس پر بھی عائد ہوتی ہے۔
زیر و زبر ص 306
چونکہ برکاتی صاحب نے اس کی تردید نہیں کی جو تائید کی دلیل ہے تویہ حوالہ برکاتی صاحب کا ہی شمار ہو گا۔
3۔ خواجہ قمر الدین صاحب کے استاد حضرت معین الدین اجمیری لکھتے ہیں:
فضیلت نمبر 2 تکفیر:
خلقت آپ کی اس فضیلت سے بے حد نالاں ہے وہ کہتی کہ دُنیا میں شاید کسی نے اس قدر کافروں کومسلمان نہیں کیا ہو گا۔ جس قدر اعلیٰ حضرت نے مسلمانون کو کافر بنایا۔
تجلیات انوارالمعین ص 37
یعنی فاضل بریلوی مکفر المسلمین ہے۔
4۔ مفتی سیدشجاعت علی قادری لکھتے ہیں:
حقیقت یہ کہ مولانا کے علمی ذخائر میں تلاش کرناکچھ مشکل نہیں کہ آپ نے کس کس سے اختلاف کیا ہے بلکہ اصل دقت طلب کام یہ ہے کہ وہ کون سا فقیہ ہے۔ جس سے مولانا نے بالکل اختلافات نہ کیا ہو اگرایساکوئی شخص نکل آیا تو یہ ایک بڑی تحقیق ہو گی۔
حقائق شرح مسلم ص 170
مفتی نور اللہ نعیمی لکھتے ہیں:
اعلیٰ حضرت نے فتاویٰ رضویہ شریف میں اکابر مشائخ عظام پر بکثرت تطفلات کا ذکرفرمایا حتیٰ کہ پہلے ہی جلد میں 19 صد سے بھی زیادہ ذکر کیے ہیں۔
حقائق شرح مسلم ص 172
جس نے اُمت میں کسی کو معاف نہ کیا اور ہر ایک سے اختلاف کیا ہو اور ہر ایک کا رد کیا ہو تو اکابر دیوبند کو کیسے معاف کرے جو امام اعظم کو معاف نہ کرے بلکہ ان سے اختلاف کرے۔وہ اکابر دیوبند کو معاف کیسے کرے گا؟
بریلوی علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں:
راقم ذیل ایک مثال پیش کر رہا ہے جس میں امام احمد رضا نے اکابر صحابہ کرام اور ائمہ مجتہدین امام اعظم ابوحنیفہ امام مالک اور امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہم اجمعین کے موقف سے اختلاف فرمایا ہے۔
حقائق شرح مسلم ص 172،173
جو اکابر صحابہ کرام ائمہ و ائمہ مجتہدین کی اہمیت نہ سمجھے وہ اکابر دیوبند کی کیا شان کا خیال کرے گا۔ جس فاضل بریلوی نے صحابی ٔ رسول عبدالرحمان قاری کو کافر شیطان، خنزیر تک کہہ دیا۔
ملفوظات اعلیٰ حضرت ص 197،198
حضرت عبدالرحمٰن قاری کے متعلق شیوخ حدیث کی آرا مختلف ہیں۔
ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ
یقال لہ رؤیۃ
تقریب ص 306
یعنی کہاجاتا ہے کہ وہ صحابی ہیں۔
ابن حجر عسقلانی کے علاوہ مورخ واقدی نے بھی انہیں صحابی کہا ہے اور صحابہ میں شمار کیا ہے۔
دیکھیے الاکمال فی اسماء الرجال ص 609
اور بعض نے ان کو تابعی بھی لکھا ہے۔تو جو صحابی یا تابعی کی تکفیر سے باز نہ آئے اسے اکابر دیوبند کی تکفیر سے کون روک سکتا ہے۔
جو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے لیے لکھے:

تنگ و چست ان کا لباس اور وہ جوبن کا

ابھار
مسکی جاتی ہے قبا سر سے کمر تک لے کر
یہ پھٹا پڑتا ہے جو بن مرے دل کی صورت

کہ ہوئے جاتے ہیں جامہ سے بروں سینہ و

بر
خوف ہے کشتی ابرو نہ بنے طوفانی

کہ چلا آتا ہے حسن اہلہ کی صورت بڑھ کر

 
حدائق بخشش سوم ص 37
جو اماں جان کو معاف نہ کرے وہ اکابر دیوبند کو کیوں کر معاف کرے گا۔ بعض بریلوی کہہ دیتے ہیں کہ یہ کتاب فاضل بریلوی کی نہیں۔ تو سنیئے!آپ کے گھر کے جید افراد تو یہ مانتے ہیں مثلاً
1۔ آپ کا نعتیہ دیوان حدائق بخشش تین حصوں میں شائع ہو چکا ہے۔
انوار رضا ص 566
2۔ آپ کے کلام کے تین مجموعے حدائق بخشش کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔
انوار رضا ص 595
3۔ حدائق بخشش مولانا احمد رضا خان کی تصنیف ہے۔
تحریک آزادی ہند اور سواد اعظم ص 281
4۔ حدائق بخشش حصہ سوم جو اعلیٰ حضرت کے نعت مدح منقبت پر مشتمل غیر مرتب اشعار کا مجموعہ ہے۔
فیصلہ مقدسہ ص 71
5۔ حدائق بخشش حصہ سوم مطبوعہ بدایوں 1325 مولانا احمد رضا خان کی۔
فاضل بریلوی علماء حجاز کی نظر میں ص 96
6۔ مولانا بریلوی کے دیوان حدائق بخشش حصہ سوم میں یہ رباعی ملتی ہے۔
خیابان رضا ص 234
قارئین کرام !جو احمد رضا خان اماں جی رضی اللہ عنہا کو معاف نہ کرے وہ کسی اور کیوں کرے گا۔ جو فاصل بریلوی نبی محترم شفیع امم صلی اللہ علیہ وسلم کو معاف نہ کرے۔ وہ اکابر دیوبند کو کیسے کرے گا۔
دیکھیےنبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔
ان اللہ مستخلفکم فیہا فناظر کیف تعملون
ترمذی ج 2 ص 42، 43، ابن ماجہ ص 288، مشکوٰۃ شریف ص 437 ج 2
یعنی اللہ تعالی نے تمہیں زمین پر بھیجا پس دیکھنے والا ہے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔ اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کو ناظر کہا ہے۔
اور دوسری حدیث میں بخاری ص 1099 پرہے
آپ علیہ السلام نے فرمایا:
انکم لا تدعون اصم و لا غائباً
کہ تم کسی بہرے اور غائب خدا کو نہیں پکار رہے۔ خدا بہرا نہیں تو سننے والا ہوا اورجب غائب نہیں تو حاضر ہوا۔
اب اللہ تعالیٰ کے لیے حاضر کا مفہوم یہاں سمجھ آتا ہے۔
القصہ نبی پاک علیہ السلام کے فرمودات میں ناظر کا لفظ خدا کے لیے صراحتاً ہے۔ اور حاضر کالفط اشارتاً اور مفہوماً ہے۔
مگر فاضل بریلوی کی سنئے وہ لکھتے ہیں:
1۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں شہیدو بصیر ہے اس کو حاضر و ناظر نہ کہنا چاہیے۔
یہاں تک کہ بعض علماء نے اس پر تکفیر کی۔
فتاویٰ رضویہ قدیم ج 6، ص 157 ،فتاویٰ رضویہ جدید ج 14، ص 688
ہم فاضل بریلوی کی تمام ذریت کو کہتے ہیں کہ کس جید عالم و مفتی و فقیہہ نے تکفیر کی ہے یہ فاضل بریلوی کا جھوٹ ہے ورنہ اس کی نشاندہی کرو۔
اس لفظ کے استعمال پر باقی بریلوی علماء نے بھی تشدد کا راستہ اختیار کیا ہے۔
1۔ بریلوی شیخ القرآن فیض احمد اویسی نے لکھا ہے کہ
جو لفظ مخلوق کے لیے مستعمل ہوا سے اللہ پر استعمال کرنا کفر ہے۔ مثلاً حاضر و ناظر۔
فتاویٰ اویسیہ ج 1 ص 30
2۔ مفتی عبدالواحد قادری لکھتے ہیں کہ ان دونوں اسماء کو ذات الٰہی کی طرف منسوب کرنا شریعت مطہرہ پر جرأت کرنا ہے۔
فتاویٰ یورپ ص 98
3۔ محدث کچھوچھوی لکھتے ہیں صاحب درمختار نے بعض فقہا کا قول نقل کیا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ کو حاضر وناظر کہنا کفر ہے۔
رسائل میلاد حبیب ص 244
یہ بھی جھوٹ ہے ورنہ کوئی مفتی و فقیہہ یہ جرأت کیوں کر سکتا ہے کہ اس کوکفر کہے جو نبی پاک علیہ السلام کے الفاظ مبارک ہوں۔
4۔ ابوالحسنات قادری لکھتے ہیں:
یہ خالص جہالت ہے کہ جو حاضر و ناظر اللہ کی ذات کے ساتھ لگاتے ہیں۔
تفسیر الحسنات ج 6 ص 78، 6
5۔ اویسی صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں صاحب درمختار رحمۃ اللہ لکھتے ہیں کہ یا حاضر یا ناظر کہنا کفر نہیں۔
ظاہر ہے کہ نفی کفر مستلزم جواز نہیں اس لیے ممکن ہے کہ حرام ہو یا مکروہ ہے۔
ندائے یا رسول اللہ ص 35
یعنی خدا کو حاضر و ناظر کہنا حرام ہے یا مکروہ ہے۔القصہ خدا کو حاضر و ناظر کہنے کو:
حرام، مکروہ، جہالت، کفر، شریعت پر جرأت کرنا وغیرہا قرار دیا گیا ہے حالانکہ یہ لفط نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ جیسا کہ آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں۔ تو جو طبقہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو معاف نہ کرے وہ اکابر دیوبند کو معاف کیسے کر سکتے ہیں۔
آگے آئیے! جو طبقہ قرآن پاک پر جھوٹ بولے وہ اکابر دیوبند کومعاف کیسے کرے گا۔
بریلوی عالم مولوی نعیم الدین مرادآبادی لکھتے ہیں:
قرآن پاک میں جا بجا انبیاء کے بشر کہنے والوں کو کافر فرمایا گیا۔
خزائن العرفان ص 5
مفتی احمد الدین توگیری سیفی نے انوار سیفیہ حصہ عقائد کے ص 117 پر بھی یہی کچھ لکھا ہے۔ اب دیکھیے یا تو اسے قرآن پر جھوٹ کہیے یا پھر صحابہ کرام کی تکفیر کیجئے کیوں کہ ابوداؤد شریف ج 2 کتاب العلم میں باب کتابۃ العلم میں روایت موجود ہے حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ آپ علیہ السلام کے سارے فرمان لکھتے تھے وہ کہتے ہیں کہ قریش نے مجھے روکا اور کہا کہ
ورسول اللہ بشر الخ
کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں الخ…
تو دیکھیے قریشی صحابہ کرام نے بشر کہا:
اور شمائل ترمذی باب ماجافی تواضع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری روایت میں سیدہ عائشہ کا ارشاد گرامی ہے
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشرا من البشر
شمائل ترمذی ص 23
سیدہ عائشہ ؓ نے بشر کہا۔
تو اگر قرآن نے یہ کہا ہے کہ بشر کہنے والا کافر ہے تو صحابہ کرام پر فتویٰ کفر لگے گااور اگر قرآن نے نہیں کہا تو مراد آبادی کا قرآن پر جھوٹ۔
تو جو صحابہ کرام کی تکفیر اور قرآن پر جھوٹ بولیں و ہ اکابر دیوبند کو کیسے معاف کر سکتے ہیں۔ ایک اور مثال قرآن پر جھوٹ کی۔ فاضل بریلوی نے داڑھی منڈے کے لیے کہا ہے کہ قرآن عظیم میں اس پر لعنت ہے۔
احکام شریعت ص 190
حالانکہ کسی آیت میں صراحتًہ اس کا ذکر ہی نہیں جو قرآن پر جھوٹ بولے وہ ہمیں کب معاف کرے گا؟
آخری بات:
جو خدا کو معاف نہ کرے وہ ہمیں کیسے معاف کرے گا؟
فاضل بریلوی وہابیوں کے جھوٹے خدا کے عنوان سے لکھتے ہیں:
وہابی ایسے کو خدا کہتا ہے ………… جس کا بہکنا بھولنا سونا اونگھنا غافل رہنا ظالم ہونا حتیٰ کہ مر جانا سب کچھ ممکن ہے کھانا پینا پیشاب کرنا۔ پاخانہ پھیرنا ناچنا تھرکنا نٹ کی طرح کلا کھیلنا عورتوں سے جماع کرنا لواطت جیسی خبیث بے حیائی کا مرتکب ہونا حتیٰ کہ مخنث کی طرح خود مفعول ہونا کوئی خباثت کوئی فضیحت اس کی شان کے خلاف نہیں وہ کھانے کا منہ اور بھرنے کا پیٹ اور مردمی اورزنی دونوں علامتیں بالفعل رکھتا ہے۔ صمد نہیں جو جوف دار کھکل ہے سبوح قدوس نہیں خنثی مشکل ہے۔
فتاویٰ رضویہ ج 1 ص 745
یہی فاضل بریلوی دوسری جگہ لکھتے ہیں:
تمہارا خدا بھی زنا کر اسکے ورنہ دیوبند میں چکلہ والی فاحشات اس پر قہقہے اڑائیں گی کہ نکھٹو تو ہمارے برابر بھی نہ ہو سکا پھر کا ہے پر خدائی کا دم مارتا ہے۔ اب آپ کے خدا میں فرج بھی ضرور ہوئی ورنہ زنا کا ہے میں کرا سکے؟ خنثی خداکے پجاریو۔
آگے لکھتے ہیں:
یوں تو ایک خدائن ماننی پڑے گی جو اس کی وسعت رکھے اور ایک بڑا ڈبل خداماننا ہوگا جو دوسری ہوس بھر سکے۔
پھر آگے لکھتے ہیں:
ایک رنڈی کہ فاسقوں کی محفل میں رقص کرتی ہے لحظہ لحظہ کس قدر اپنی جہتیں بدلتی ہے اگر ان کا معبود یوں ہی نہ گھوم سکا تو رنڈی سے بھی گیا گزرا۔
اللہ جھوٹ سے پاک ہے ص 161،162،163
بریلوی کہتے ہیں کہ یہ تمہارے علماء نے لکھا ہے ہم دعوے سے کہتے ہیں ایک بچے سے لے کر بڑے علماء تک کسی نے بھی یہ لکھا ہو تو دکھاؤ ورنہ”موتوا بغیضکم“ بریلوی مناظرین یوں کہہ دیتے ہیں کہ جی یہ باتیں آپ کی تحریروں میں تو نہیں ہیں مگر آپ کی تحریروں سے لازم آتی ہیں تو جواباً ہم عرض کرتے ہیں کہ کبھی وہ دوربین اپنے گھر کی طرف بھی لگائی ہے اگر نہیں تو عبارات ہم بتلاتے ہیں اور وہ لازم آنے والی دور بین ادھر بھی لگائیں۔
1۔ فاضل بریلوی کنزالایمان میں سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 20 کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:
بے شک اللہ سب کچھ کر سکتا ہے۔
کنز الایمان ص7
2۔ فاضل بریلوی لکھتے ہیں:
یہ قضیہ بے شک حق تھا کہ جس پر انسان قادر ہے اس منتاہی اشیاء پر مولی عزوجل قادر ہے۔
اللہ جھوٹ سے پاک ہے ص 150
3۔ فاضل بریلوی کے مسلک کے حکیم مفتی احمد یار خان لکھتے ہیں:
انبیاء کرام ارادۃً گناہ کبیرہ کرنے سے ہمیشہ معصوم ہیں کہ جان بوجھ کر نہ تو نبوت سے پہلے گناہ کبیرہ کر سکتے ہیں اور نہ اس کے بعد ہاں نسیاناً خطاً صادر ہو سکتے ہیں۔
جاء الحق ص 427
اور یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ فاضل بریلوی کہتے ہیں کہ کبیرہ گناہ سات سو ہیں۔
ملفوظات ص 137 مکتبہ المدینہ
جب ان لوگوں نے خدا سے لے کر امام اعظم تک کسی کو بھی معاف نہ کیا تو علماء دیوبند رحمۃ اللہ کو کیسے معاف کریں۔
5۔ بات چل رہی تھی کہ بریلوی زعماء نے فاضل بریلوی کی خوب تردید کی ہے۔ اسی میں ایک قابل ذکر شخصیت مولانا خلیل احمد خان برکاتی ہیں جنہوں نے حق کے بیان کا حق ادا کر دیا اور بتایا کہ فاضل بریلوی نے تکفیر کر کے غلطی کی ہے۔
وہ لکھتے ہیں دو مسئلے اعلیٰ حضرت نے امت مرحومہ کے سامنے ایسے پیش کیے جو ان سے قبل کسی امام، عالم کسی ولی کو نہ سوجھے دونوں مسئلوں کی بناء پر ہندوستان کے مسلمین میں جابجا جھگڑے اور فساد، نا اتفاقیاں، بغض، کینہ، بدگوئی، ایذائے مسلمین و غیبت و بہتان بری طرح پھیلے رب تعالیٰ رحم فرمائے گھر گھر اختلاف بھائی بھائی کاد شمن و مخالف بن گیا۔
وہ دومسئلے جو فاضل بریلوی نے پیش کیے وہ یہ ہیں۔
1۔ تمام علماء دیوبند تمام علماء مدرسہ قادریہ بدایوں کی تکفیر۔
2۔ مسئلہ اذان ثانی یعنی جمعہ کی اذان خطبہ کا باہر یعنی مسجد سے خارج ہونا۔
انکشاف حق ص 13،14
ایک جگہ لکھتے ہیں:
ان کو قطع و برید و تحریف کا ایسا چسکا پڑ گیا ہے کہ کوئی عبارت کسی کی پوری نقل نہیں فرماتے۔ علماء بدایوں فاضل بریلوی کے لیے صاف صاف بتا رہے ہیں کہ ان کو قطع و برید و تحریف عبارت غیر کا چسکا پڑگیا ہے۔
انکشاف حق ص 189
ان کی تفصیلی عبارات ہم آگے ذکر کریں گے۔
قارئین ذی وقار! ہم نے اختصار سے حسام الحرمین کاجواب عرض کر دیا ہے کہ جو سلیم الفطرت لوگوں کے لیے کافی ہے۔ مگر ہمارا واسطہ جس گروہ سے ہےان کے لیے ہمیں تفصیل سے اس پرکچھ لکھنا ہے۔ میں ایک بات اور عرض کر کے اجمالی جائزہ کو ختم کرتا ہوں باقی آگے تفصیلات میں۔
اور اس بات پر تمام ذریت رضاخانیت کو دعوت فکردوں گا کہ آؤ اور اس کو پڑھ کر فیصلہ کرو اگر حسام الحرمین کے وہ احکام جو اہل السنۃ دیوبند کے بارے میں ہیں سچ ہیں تو سب سے پہلے فتویٰ کفر فاضل بریلوی کے سر پر آتا ہے اسے بچانا ہے تو حسام الحرمین کے ان احکام کو ترک کر دو۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اکابر اربعہ میں سے حضرت نانوتوی پر الزام ختم نبوت کے انکار کا احمد رضا خان نے لگایا ہے اور حضرت گنگوہی پر الزام خدا کو جھوٹا کہنے کا لگایا ہے اور حضرت سہارنپوری پر الزام یہ لگایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علم مبارک سے شیطان کا علم زیادہ مانتا ہے اور حکیم الامت تھانوی پر الزام یہ لگایا ہے کہ وہ آنحضور پُرنور صلی اللہ علیہ وسلم کے علم مبارک کو چو پاؤں کے علم کے برابر سمجھتے ہیں۔
خلاصہ یہ ہوا کہ پہلے بزرگ کو ختم نبوت کا منکر کہا۔ دوسرے کو خدا کا جھوٹا کہنے والا کہا آخری دو کو توہین رسالت کامرتکب کہا
اب دیکھیے!یہ تینوں الزام شاہ اسماعیل شہید پر بھی اسی احمد رضا خان نے لگائے۔
مثلاً لکھا کہ:اسماعیل دہلوی کا اپنے پیر کو نبی ماننا۔
فتاویٰ رضویہ ج 15۔ ص 20
آگے شاہ صاحب پر رد کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
یہ صراحتہً غیر نبی کو نبی بنایا ہے کہ صریح کفر ہے اور نبی بھی کیسا؟ صاحب شریعت!
فتاویٰ رضویہ ص 248۔ ج 15
الزام کا خلاصہ یہ ہوا کہ شاہ اسماعیل اپنے پیر کو نبی مانتے ہیں اور نبی بھی صاحب شریعت تو اس اعتراض کی روشنی میں شاہ صاحب رحمۃ اللہ پر۔
ختم نبوت کے انکار کا الزام لگایا۔
آگے لکھتے ہیں:
”وہ (دیوبندی) اسماعیل دہلوی کی اتباع میں کذب کو ممکن بلکہ جائز و وقوعی مانتے ہیں۔“
فتاویٰ رضویہ ج 15، ص 34
نوٹ:قولہ سے عبارت اکابر دیوبند کی ہے اقول سے فاضل بریلوی کی شروع ہے۔
آگے لکھتے ہیں
قولہ: ہمارا اعتقاد ہے کہ خدا نے کبھی جھوٹ بولا نہ بولے۔
اقول: یہ زبانی اظہار محض بے بنیاد ناپائیدار کہ جب کذب ممکن بلکہ جائز و قوعی ہوا جیسا کہ تمہارے امام کا مشرب۔
فتاویٰ رضویہ ج 15، ص 436
خلاصہ یہ ہوا کہ شاہ صاحب پرخدا کو جھوٹا ماننے کا الزام لگایا۔
فاضل بریلوی لکھتے ہیں:
امام الوہابیہ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو کھلی دشنام دے کر مسلمانوں کے دلوں کو زخم پہنچایا۔
فتاویٰ رصویہ ج 15۔ ص 20
آگے شاہ صاحب کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
یہ صراحتہً حضور اقدس سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو فحش گالی دینا ہے۔
فتاویٰ رضویہ ج 15، ص 249
اس کا خلاصہ یہ ہوا کہ شاہ صاحب پر سخت توہین نبوی کے مرتکب ہونے کا الزام لگایا۔
القصہ: جو جو الزام اکابر اربعہ پر فاضل بریلوی نے لگایا وہی الزام شاہ صاحب پر بھی گایا مگر ان اکابر اربعہ کے متعلق یہ لکھا کہ جو ان کے کفر و عذاب میں شک کرے خود کافر ہے۔
حسام الحرمین ص 20
اور شاہ صاحب کے متعلق یہ لکھا کہ:
’’علمائے محتاطین انہیں کافر نہ کہیں یہی صواب ہے۔
’’وہو الجواب و بہ یفتی و علیہ الفتوی و ہوالمذہب و علیہ الاعتماد و فیہ السلامۃ و فیہ السداد‘‘
حسام الحرمین مع تمہید ص 132
آپ خود دیکھیے کہ اب جو حسام الحرمین کافتویٰ کہ ’’ جو ان کے کفر میں شک کرے خود کافر ہے۔ ‘‘ وہ فاضل بریلوی پر جا لگااور ہم برملا یہ اعلان کرتے ہیں کہ یہ فتویٰ جو حسام الحرمین کے نام سے موسوم فاضل بریلوی اپنے لیے لایا تھا نہ کہ اکابر اربعہ کے لیےخدا کی زمین پر کوئی بریلوی فاضل بریلوی کوکفر کے فتوے سے نہیں بچا سکتا اور نہ آج تک بچا سکا ہے۔
مقصود کو شروع کرنے سے پہلے دو باتیں عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
1۔ توہین رسالت اہل السنۃ کی نظر میں۔
2۔ توہین رسالت اہل بدعۃ کی نظر میں۔
ان مسائل پر روشنی ڈالنا ضروری ہے کیونکہ بریلوی حضرات لوگوں کو ورغلانے کا طرز یہ اپناتے ہیں کہ دیوبندی تو گستاخ رسول ہیں جبکہ میں یہ بات آج کھل کر لکھنا چاہتا ہوں کہ اس توہین کے مسئلہ میں جو نقطہ نظر اکابر و اسلاف کا ہے۔ وہی ہمارے اکابر دیوبند کا ہے۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ امام العصر محدث کبیر علامہ انورشاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک کتاب بنام اکفار الملحدین لکھی اور اس پر مندرجہ ذیل اکابر کی تقاریظ ہیں۔
1۔ حضرت اقدس مولانا خلیل احمد سہارنپوری
2۔ حضرت اقدس مجدد الملۃ والدین حضرت مولانا اشرف علی تھانوی
3۔ حضرت اقدس مرشد العلماء مفتی اعظم مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ
4۔ حضرت العلامہ مولانا عزیزالرحمن دیوبندی
5۔ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی شیخ التفسیر جامعہ اسلامیہ ڈابھیل
6۔ العلامۃ الفقیہ المحدث مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد صاحب رحمۃ اللہ
7۔ حضرت العلامہ مولانا سید مرتضیٰ حسن چاندپوری
8۔ حضرت اقدس مولانا حبیب الرحمن نائب مہتمم دارالعلم دیوبند
9۔ حضرت مولانا محمد رحیم اللہ بجنوری ادام اللہ
10۔ علامہ الدہر سید محمد یوسف بنوری نےاس کتاب پر تعارف لکھا
11۔ علامہ مولانا محمد ادریس میرٹھی نے ترجمہ کیا
ہم چند اقتباسات اسی کتاب سے نقل کر رہے ہیں۔
اور ہم نے یہ سب نام اس لیے ذکر کیے ہیں تاکہ معلوم ہو جائے کہ یہ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی صرف ذاتی رائے نہیں بلکہ تمام اکابر دیوبند کا یہی فیصلہ ہے اور اکابر دیوبند کا اجماعی مسئلہ ہے کہ گستاخی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ناقابل قبول جرم ہے انتہائی کفر و ارتداد ہے۔ تفصیل آگے آ رہی ہے۔
شاہ صاحب لکھتے ہیں:
ضروریات دین سے وہ تمام قطعی اور یقینی دین) کی باتیں (مراد ہیں جن کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہونا قطعی طورپر معلوم ہو اور حد تواتر و شہرت عام تک پہنچ چکا ہو حتیٰ کہ عوام بھی ان کو دین رسول جانتے اور مانتے ہوں۔ مثلاً توحید، نبوت، خاتم الانبیاء پر نبوت کا ختم ہونا۔۔۔۔۔ الخ۔
اکفار الملحدین ص 65،66
شاہ صاحب آگے لکھتے ہیں:
ضروریات دین سے کسی متواتر امر مسنون کے انکار سے بھی انسان کافر ہو جاتا ہے۔
مزید لکھتے ہیں:
ضروریات دین میں تاویل کرنا بھی کفر ہے۔
اکفار ص 75
توحید، نبوت، ختم نبوت کو ضروریات دین میں شامل مان کر ان کا انکار کفر قرار دیا ظاہر بات ہے توحید اور اس کے متعلقات، نبوت اور اس کے متعلقات بھی اس میں شامل ہیں ایک نبی کی عزت و حرمت مقام و شان، رفعت و بلندی اور احترام کا خیال رکھنا یہ بھی ضروری ہے کیونکہ قرآن مقدس نے خود اس بات کو سمجھایا ہے اور شاہ صاحب علیہ الرحمۃ تو یہاں تک لکھتے ہیں
ضروریات دین کا منکر کافر اور واجب القتل ہے۔
اکفار ص 100
امام العصر لکھتے ہیں:
ہمارے نزدیک تو ایسے قول و فعل پر بھی کافر کہا جا سکتا ہے جو موجب توہین و استخفاف نبی ہو اس لیے شیخ ابن ھمام نے مسایرہ میں فرمایا ہے۔
ما ینفی الاستسلام او یوجب التکذیب فہو کافر
ہر وہ قول و فعل جو تسلیم و اطاعت کے منافی ہو یا تکذیب نبی کے لیے موجب ہو وہ کفر ہے۔
اکفار الملحدین ص 174
سحنون کے رفیق احمد بن ابی سلیمان فرماتے ہیں:
جو شخص یہ کہے کہ رسول پاک علیہ الصلاۃ و السلام کا رنگ سیاہ تھا اس کو قتل کر دیا جائے گا اس لیے کہ یہ شخص ایک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولتا ہے دوسرے سیاہ رنگ معیوب بھی ہے (اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین و تحقیر کرتاہے) اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیاہ فام نہ تھے بلکہ آپ کا رنگ گلاب کی طرح سرخ و سفید اور شگفتہ تھا۔
اکفار الملحدین ص 182
امام العصر لکھتے ہیں:
بعض علماء متاخرین فرماتے ہیں کہ ابن ابی سلیمان کے اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور علیہ السلام کے اوصاف میں کسی صفت میں کذب بیانی کفر اور موجب قتل ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ کذب کے ساتھ تحقیر و توہین کا شائبہ ہونا بھی ضروری ہے۔ جیسا کہ مذکورہ بالا صورت میں اس لیے کہ سیاہ رنگ ناپسندیدہ اور معیوب ہے۔ خفاجی فرماتے ہیں حالانکہ تم جانتے ہو کہ اس میں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ (موجب نقص و عیب ہو یانہ) اس لیے کہ حضور علیہ السلام کی صفات مقدسہ اور حلیہ مبارکہ میں کسی بھی صفت کے بیان میں (کذب اور) خلاف واقع صفت کو آپ کی طرف منسوب کرنا شائبہ توہین و تحقیر سے خالی نہیں ہو سکتا۔ اس کہ آپ ایسی کامل ترین صفات کے مالک تھے کہ ان سے کامل تر صفات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا بلکہ ان کے خلاف جو صفت بھی آپ کی طرف منسوب کی جائے گی ضرور اس میں آپ کی تنقیص ہو گی لہٰذا آپ کی صفات قدسیہ کے باب میں کوئی بھی غلط بیانی اور کذب توہین و تحقیر سے خالی نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا ایسی صورت میں علماء و متاخرین کا مذکورہ بالا اعتراض بے محل ہے۔
اکفار ص 183
لیکن اہل بدعت حضرات ایسی صفات آپ علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے ہیں جو آپ کی ہیں نہیں اور کذب بنتی ہیں اور ساتھ ساتھ وہ تحقیر و توہین پر بھی مشتمل ہیں۔
مثلاً مفتی احمد یار نعیمی گجراتی لکھتے ہیں:
تاریک راتوں میں تنہائی کے اندر جو کام کیے جاویں وہ بھی نگاہ مصطفی علیہ السلام سے پوشیدہ نہیں۔
جاء الحق ص 72
دوسری جگہ یہی مفتی صاحب لکھتے ہیں: ہم لوگ گھر کی کوٹھڑی میں چھپ کر جو کام کریں وہ بھی حضور علیہ السلام کی نظر سے غائب نہیں۔
شان حبیب الرحمن ص 34، آیت نمبر 15
یہ کہیں بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا کہ میں یہ سب کچھ دیکھ رہا ہوں اور نہ کسی ذمہ دار عالم نے اور نہ کسی فقیہہ نے مگر مفتی صاحب جھوٹ پر جھوٹ بولتے چلے گئے اورہمارے خیال میں اس میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید توہین و تحقیر ہے۔
کہ رات کو چھپ کر میاں بیوی گھر میں ہمبستری کریں اور نبی پاک علیہ السلام اس ننگی حالت میں ان کو دیکھیں العیاذ باللہ تعالیٰ۔ کوئی مولوی پیر یہ بات اپنے لیے گوارا نہیں کرے گا اور کہے گا کہ تم نے میری توہین کر دی مگر نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے کیسے برداشت کر لی گئی۔
ہم برملا یہ اعلان کرتے ہیں یہ صفات آپ علیہ السلام کی طرف منسوب کرنا کذب اور توہین ہے۔ خیر آگے چلیے
امام العصر محدث کبیر فخر السادات رحمۃ اللہ لکھتے ہیں:
جو مسلمان شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر (العیاذ باللہ تعالیٰ) سب و شتم کرے یا آپ کو جھوٹا کہے یا آپ میں عیب نکالے یا کسی طرح بھی آپ کی توہین و تنقیص کرے وہ کافر ہے اور اس کی بیوی اس کے نکاح سے باہر ہو جائے گی۔
قاضی عیاض شفا میں فرماتے ہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سب و شتم کرنے والا کافر ہے اور جو کوئی اس کے معذب اور کافر ہونے میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔
مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے۔
شاتم رسول کی توبہ قبول نہیں ہوتی (دنیاوی احکام کے اعتبار سے)۔
مجمع الانہر، درمختار، بزازیہ، درر اور خیریہ میں لکھا ہے کہ
انبیاء علیہم السلام میں سے کسی بھی نبی کو سب و شتم کرنے والے کی توبہ مطلقاً قبول نہیں کی جائے گی اور جس شخص نے اس کے کفر اور معذب ہونے میں شک کیا وہ بھی کافر ہے۔
اکفار الملحدین ص 184، 185
آگے لکھتے ہیں: تحقیر کی نیت سے نبی کے نام کی تصغیر بھی کفر ہے۔
تحفہ شرح منہاج میں فرماتے ہیں:
کسی رسول یا نبی کی تکذیب کرے یا کسی بھی طرح ان کی تحقیر و توہین کرے مثلاً تحقیر کی نیت سے بصورت تصغیر ان کا نام لے یا ہمارے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد کسی کی نبوت جائز کہے ایسا شخص کافر ہے یادرہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو تو آپ (کی بعثت)سے پہلے نبی بنایا گیا ہے (آپ کی بعثت کے بعد نہیں ) لہٰذا ان کے آخر زمانہ میں آسمان سے اُترنا باعث اعتراض نہیں ہو سکتا۔
اکفار ص 187
یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی دنیا میں بعثت و رسالت پہلے اور آپ کی بعد میں ہےاور یہاں ایک بات پر اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ جو لکھا ہے کہ کسی رسول یا نبی کی تکذیب کرنا کفر ہے اور کہنے والا کافر ہے۔ آپ مقدمہ میں دیکھ آئے ہیں یہ رضا خانی حضرات حاضر و ناظر خدا کو کہنے کے مسئلہ میں تکذیب نبی کی کرتے ہیں یا نہیں باقی فیصلہ قارئین کے ہاتھ میں ہے۔
امام العصر آگے لکھتے ہیں: ملا علی قاری شرح شفا میں ج 2، ص 393 میں فرماتے ہیں۔
تمام علماء کا اجماع ہے کہ جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر سب و شتم کرے (وہ مرتد ہے) اس کو قتل کر دیا جائے فرماتے ہیں طبری نے بھی اسی طرح یعنی ہر اس شخص کے مرتد ہو جانے کو امام ابو حنیفہ اور صاحبین سے نقل کیا ہے کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عیب گیری کرے یا آپ سے بے تعلقی (اور بے زاری) کا اظہار کرے یا آپ کی تکذیب کرے (وہ مرتد ہے) نیز فرماتے ہیں۔ سحنون مالکی کا قول ہے کہ تمام علماء کا اس پر اجماع ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب و شتم کرنے والا اور آپ کی ذات مقدس میں عیب نکالنے والا کافر ہے اور جو کوئی اس کے کافر و معذب ہونے میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔
اکفار ص 208
امام العصر فرماتے ہیں:
ہم حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ کی کتاب الصارم المسلول علی شاتم الرسول کے چند اہم اقتباسات اس مسئلہ پر پیش کرتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کی عیب چینی اور ان کی تنقیص و توہین سراسر کفر بلکہ سب سے بڑا کفر ہے۔ علامہ موصوف نے اس کتاب میں اس مسئلہ کو پورے استیعاب کے ساتھ بیان کیا ہے اورکتاب و سنت اجماع و قیاس سے ماخوذ دلائل و براہین سے کتاب کو بھر دیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اختیار تھا کہ چاہے سب و شتم کرنے والے کو قتل کردیں چاہیے معاف فرما دیں چنانچہ عہد نبوی میں دونوں قسم کے واقعات پائے جاتے ہیں لیکن امت پر شاتم رسول کو قتل کرنا فرض ہے۔ باقی اس سے توبہ کرانے یا نہ کرانے اور دنیوی احکام کے اعتبار سے توبہ کے معتبر و قبول ہونے نہ ہونے میں بے شک علماء کا اختلاف ہے۔ (لیکن اس کے کافر ہو جانے میں کوئی اختلاف نہیں یہی پوری کتاب کا حاصل ہے)۔ چنانچہ الصارم المسلول میں ص 195،418) پر فرماتے ہیں
حرب نے مسائل حرب میں لیث بن ابی سلیم کے واسطے سے حضرت مجاہد سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ کے سامنے ایک شخص کو لایا گیا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں سب و شتم کیاتھا حضرت عمر ؓ نے اسے قتل کر دیا اور اس کے بعد فرمان جاری کردیا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی شان میں یا انبیاء علیہم السلام میں سے کسی بھی نبی کی شان میں سب و شتم یا گستاخی کرے اسے قتل کر دو۔ لیث کہتے ہیں کہ مجاہد نے مجھ سے حضرت ابن عباسؓ کی روایت بھی نقل کی کہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جس کسی مسلمان نے انبیاء علیہم السلام میں سے کسی نبی پر یا اللہ تعالیٰ پر سب و شتم کیا یااس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کی اور اس کا فعل ارتداد ہے اس سے توبہ کرنے کو کہا جائے گا اگر توبہ کر لی تو فبھا ورنہ اس کو قتل کر دیاجائے گا اور جس کسی غیر مسلم معاہد (ذمی) نے اللہ تعالیٰ یا کسی بھی نبی کی شان میں سب و شتم کیا یا علانیہ کوئی گستاخی کی اس نے اپنی اس حرکت سے جان و مال کی سلامتی کے عہد کو توڑ دیا لہٰذا اس کو قتل کر دو۔
اکفار الملحدین ص 293
امام العصر فرماتے ہیں:
شاتم رسول کبھی سب و شتم کا یہ طریقہ اختیار کرتا ہے کہ(خود گالیاں دینے کی بجائے)دوسرے شخص کی دی ہوئی گالیاں نقل کرتا ہے اور یہ محض ایک فریب اوردھو کا ہوتا ہے کہ اس طرح وہ اپنا بچاؤ بھی کرلیتا ہے اور سب وشتم کا خوب پروپیگنڈہ اور اشاعت بھی کر لیتا ہے۔ اور اس کا مقصد پورا ہوجاتا ہے یہ دراصل چھپا ہوا کفر ہے۔ جو چھپا نہیں رہتا۔ بلکہ اس کی سبقت لسانی اور قلبی زہر افشانیوں سے ظاہر ہوجاتا ہے اور یہ اس کے دل میں گھر کیے ہوئے روگ اور دیرینہ مرض (کفر و نفاق) کا نتیجہ ہوتا ہے جو اس کے دل و جگر اور سینہ وشکم کو تباہ کر ڈالتا ہے۔
اکفار الملحدین ص 294، 295
شاہ صاحب رحمۃ اللہ آگے لکھتے ہیں:
حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ الصارم المسلول میں ص 225 پر فرماتے ہیں۔ احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تتبع سے اس کی بہت سے مثالیں مل جائیں گی مثلاً بھزبن حکیم عن ابیہ عن جدہ والی مشہور و معروف روایت جس میں مروی ہے۔ کہ اس کا بھائی (جو کافر تھا) حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں آیا اور کہا کہ میرے پڑوسی کس جرم کی پاداش میں پکڑے گئے ہیں (گستاخانہ انداز بیان کو دیکھ کر) حضور علیہ السلام نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا تو اس پر کہتا ہے لوگ کہتے ہیں تم اوروں کو تو گمراہی اور کج راہی سے منع کرتے ہو اور خود کج راہی (ظلم)کو اختیار کرتے ہو حضور علیہ السلام نے فرمایا اگر میں ایسا کرتا ہوں گا تو اس کا خمیازہ خود مجھے بھگتنا پڑے گا لوگوں کو نہیں۔ اور صحابہ سے فرمایا کہ اس کے پڑوسیوں کو رہا کردو ابوداؤد نے بسند صحیح اس حدیث کو روایت کیا ہے تو دیکھیے بظاہرتو یہ شخص لوگوں کی جانب سے اس بہتان کو نقل کرتا ہے مگر درحقیقت اس کا مقصد خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنا ان الفاظ سے حضور کی دل آزاری کرنا اور ایذا پہنچانا ہے۔ (نہ کہ کہنے والوں کی بہتان تراشی کی خبر دینا یا تردید کرنا) غرض کسی کو گالیاں دینے کا یہ بھی ایک طریقہ ہے۔ (عربی میں اس کو تعریض کہتے ہیں یعنی دوسروں پر رکھ کر بات کرنا)۔
مصنف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
مسند احمد کی ایک روایت کے الفاظ تو یہ ہیں (جو اوپر نقل کیے گئے) دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں۔
انک تنہی عن الشر و تستخلی بہ
ترجمہ: آپ دوسروں کو تو شروفساد سے روکتے ہیں اور خود شرو فساد کو اختیار کرتے ہیں۔ (یعنی غیی کی بجائے شر کا لفظ ہے)۔
کنز الاعمال میں ج 4 ص 46 پر بھی انہیں الفاظ کے ساتھ یہ روایت مذکور ہے۔
الصارم المسلول میں ص 527پر حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں
ہمارے مشائخ کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بطور تعریض سب و شتم کرنا بھی کفر و ارتداد ہے۔ اس کی سزا بھی قتل ہے۔ (جیسے صراحتاً سب و شتم رسول کی سزا قتل ہے)۔
مصنف فرماتے ہیں کہ: ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے دلائل و براہین سے اس کو ثابت کیا ہے اور تعریض کی متعدد مثالیں بھی بیان کی ہیں اور ایسے شخص کے ارتداد (و قتل) پر انہوں نے اُمت کا اجماع نقل کیا ہے۔
نیز ص 559 پر فرماتے ہیں: اس سے قبل ہم امام احمد کی تصریح نقل کر چکے ہیں کہ جو شخص رب العالمین کی شان میں بطور تعریض بھی کسی بُرائی کا ذکر کرے اس کو قتل کردیا جائے گا چاہے مسلمان ہو چاہے کافر اسی طرح ہمارے مشائخ نے فرمایا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کا یا اس کے دین کا یا رسول اللہ کا یا کتاب کا برائی کے ساتھ تذکرہ کرے گا خواہ صراحتہً ہو خواہ کنایۃً دونوں کا حکم ایک ہے (کہ اس کو کافر و مرتد قرار دیاجائے گا) یہی حکم تعریض کا ہے۔
امام العصر فرماتے ہیں کہ ابن تیمیہ نے امام احمد کا یہ قول متعدد مقامات پر نقل کیا ہے۔
الصارم المسلول ص527،536، 563، 553
جبکہ ثابت ہو گیا ہر سب و شتم خواہ صراحۃً ہو یاکنایۃً موجب کفر ہے،اسی مسئلہ سے متعلق ابن حجر رحمۃ اللہ فتح الباری میں ج12 ص 284 پرفرماتے ہیں۔ خطابی کہتے ہیں اگر کسی شخص نے تعریضاً بھی کوئی گستاخی کی (اللہ تعالیٰ کی یا اس کے کسی نبی کی شان میں ) تو میرے علم میں ایسے شخص کے قتل کے واجب ہونے میں علماء کے اندر مطلق اختلاف نہیں ہوا جبکہ وہ مسلمان ہو۔
قاضی عیاض شفا میں فرماتے ہیں: ابن عتاب کا قول ہے کہ قرآن و حدیث کی نصوص واجب قرار دیتی ہیں کہ جو شخص حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو ذرا بھی اذیت پہنچانے کایا ذرا بھی آپ کی توہین و تذلیل کا قصد کرے صراحۃً ہو یا کنایۃً اس کو قتل کر دینا فرض ہے۔
اسی شفا اور اس کی شرح نسیم الریاض للخفا جی میں ص 459 پر لکھا ہے اگر دوسروں کی طرف سب وشتم کرنے والے پر یہ الزام ثابت ہو جائے کہ
1۔ گالیاں خود اسی شخص کی ساختہ پرداختہ ہیں اور (سزا سے بچنے کے لیے اس نے) دوسروں کی طرف منسوب کردیا ہے۔
2۔ یا اس شخص کی عادت ہو کہ وہ بکثرت ایسی گستاخانہ باتیں خود کہتا ہو اور دعویٰ کرتا ہو کہ میں دوسروں کا قول نقل کرتا ہوں۔
3۔ یا ان گستاخانہ ہرزہ سرائیوں کے وقت اس کی حالت سے ظاہر ہوتا ہو کہ اسے یہ باتیں اچھی لگتی ہیں اور اس میں کوئی برائی محسوس نہیں کرتا۔
4۔ یا وہ اس قسم کی توہین و تذلیل کا دلدادہ فریفتہ ہو اور اس کو معمولی بات سمجھتا ہو اور ممنوع نہ جانتا ہو۔
5۔ یا وہ اس جیسی گستاخانہ باتوں کو خاص طور پر یاد کرتاہو کہ اس کا محبوب مشغلہ ہو
6۔ یا وہ ایسی باتوں کی تلاش و جستجو میں رہتا ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہے ہو بہو یہ اشعار اور سب و شتم کے قصے عموماً روایت کرتا ہوتو ان تمام صورتوں میں اس نقل کرنے والے کا وہی حکم جو خودہجو اور سب و شتم کرنے والے کا ہے کہ اس پر مواخذہ کیا جائے اور (جو اس جرم کی سزا ہے وہ دی جائے گی) دوسروں کی طرف منسوب کرنا اس کے لیے مفید نہ ہو گا اور جلد از جلد اس کو قتل کر کے جہنم رسید کیا جائے گا۔
اسی شفا میں اور اس کی شرح ج 4 ص 459پر قاضی عیاض فرماتے ہیں: فصل چھٹی صورت (سب وشتم کی) یہ ہے کہ وہ (سب و شتم کرنے والا) ان گستاخانہ باتوں کو دوسروں سے نقل کرے اور ان کی جانب منسوب کرے تو اس شخص کے انداز نقل اور گفتگو کے قرائن کو دیکھا جائے گا اور ان کے اعتبار سے حکم ہو گا ( یعنی اگر قرائن سے ثابت ہو کہ دوسروں کا نام لینا محض اپنے بچاؤ کے لیے یا اس کو خود مزا آتا ہے یا اس کا محبوب مشغلہ ہے تو اس کو اس سب و شتم کا مجرم قرار دے کر قتل کر دیا جائے گا اور اگر قرائن و تحقیق سے ثابت ہو کہ واقعی یہ دوسروں کا بیان ہے اور یہ شخص محض ناپسندیدگی کی وجہ سے نقل کر رہا ہے تو قتل تو نہ کیا جائے مگر کسی اورمناسب سزا یا تنبیہہ پر اکتفا کیا جائے گا۔
مجمع علیہ امور کو بیان کرنے والے مصنفین میں سے بعض نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو میں کہے ہوئے اشعار کے روایت کرنے لکھنے پڑھنے یا جہاں وہ اشعار ملیں ان کو بغیر مٹائے چھوڑ دینے کی حرمت پر تمام مسلمانوں کا اجماع نقل کیا ہے۔
نیز لکھتے ہیں: ابو عبیدہ قاسم بن سلام نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجو میں کہے اشعار کا ایک مصرعہ بھی پڑھنا یا یاد کرنا کفر ہے۔ نیز قاسم کہتے ہیں میں نے اپنی کتابوں میں اس ہستی کا نام لینے کی بجائے جس کی ہجو میں اشعار کہے گئے ہیں اس کا ہم وزن کوئی اسم بطور کنایہ ذکر کیا ہے۔
اکفار الملحدین ص 295،296،297،278
قارئین گرامی قدر !یہ ہمارے اصول اور نظریات ہیں جس میں توہین رسالت کیس کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔
اسی تعریض کو دیکھ لیجئے کہ آدمی گستاخی خود کرے جب اس سے پوچھا جائے تو وہ کسی اور کا نام لے دے۔ یہی صورت مولوی احمد رضا خان کی ہے۔
ہم نے کچھ اوراق پہلے احمد رضا کی وہ گالیاں نقل کی ہیں جو اس نے خدا کو دی ہیں جب بریلویوں سے پوچھو تو کہتے ہیں یہ تو شاہ اسماعیل نے دی ہیں ہم کہتے ہیں شاہ صاحب کی کسی کتاب میں یہ گالیاں دکھاؤ اگر نہیں تو پھر جہنم کی آگ سے ڈرو اور فاضل بریلوی کا دامن چھوڑ دو۔ کیونکہ خود اس نے مزا لے کر خدا کو یہ گالیاں دی ہیں بعض بریلوی کہتے ہیں کہ یہ شاہ صاحب کی عبارت پر لازم آتی ہیں۔ العیاذ باللہ تعالیٰ
یہ بھی جھوٹ ہے اور اگر بالفرض تم سچے تو جو عبارات ہم پیچھے چند اوراق قبل تمہاری نقل کرآئے ہیں ص 44،54 پراس میں بھی غور کرو اور فکر کرو پھر ہم سے بات کرو۔ہم ایسی بات کو نقل نہیں کرنا چاہتے۔
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
اب ان عبارات سے جو لازم آ رہا ہے وہ بھی بتایا جائے مگر رضا خانی مر سکتے ہیں اس عبارت پر لازم آنے والی باتیں نقل نہیں کر سکتے۔ اگر نہیں تو وہاں کیوں۔ اگر وہاں نقل کیں تو یہاں کیوں نہیں ؟
فما ہو جوابکم فہو جوابنا
قارئین ذی وقار! اب ہم بریلوی مسلک کے ہاں بھی توہین رسالت کا مسئلہ آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتے ہیں۔ چونکہ ایک دھوکہ یہ لوگ یہ بھی دیتے کہ ہم عاشق ہیں۔ آج کی تحریر سے یہ واضح ہو جائے گا کہ عشق رسالت کے محض نعرے ہیں حقیقت کچھ نہیں۔
1۔ بریلوی جید عالم احمد سعید کاظمی صاحب لکھتے ہیں:
صریح توہین میں نیت کا اعتبار نہیں۔ راعنا کہنے کی ممانعت کے بعد اگر کوئی صحابی نیت توہین کے بغیر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو راعنا کہتا تو وہ واسمعوا وللکافرین عذاب الیم کی قرآن وعید کامستحق قرار پایا جو اس بات کی دلیل ہے کہ نیت توہین کے بغیر بھی حضور کی شان میں توہین کا کلمہ کہنا کفر ہے۔
گستاخ رسول کی سزا قتل ص 24
یعنی اب جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو راعی کہے وہ کافر ہے۔
2۔ سوال: اگر کوئی شخص سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کا چرواہا کہے اس کے لیے کیا حکم ہے؟
جواب:یہ توہین آمیز لفظ ہے کہنے والا تو بہ و تجدید ایمان کرے۔
کفریہ کلمات کے بارے میں سوال و جواب از الیاس عطار ص204
3۔ مولوی فیض احمد اویسی صاحب بہاولپوری لکھتے ہیں:
اللہ جل شانہ کو گوارا نہ ہوا اس لیے راعنا بولنے سے نہ صرف روک دیا بلکہ آئندہ یہ لفظ بولنے والا نہ صرف کافر بلکہ سخت عذاب میں مبتلا کرنے کی وعید شدید بتائی اور سنائی۔
بے ادب بے نصیب ص 15
راعی کا لفظ بولنے پر اویسی صاحب کفر کا فتویٰ دے رہے ہیں۔
اب آئیے! فاضل بریلوی کے ہاں چلتے ہیں وہ لکھتے ہیں: اللہ کا محبوب امت کا راعی کس پیار کی نظر سے اپنی پالی ہوئی بکریوں کو دیکھتا اور محبت بھرے دل سے انہیں حافظ حقیقی کے سپرد کر رہا ہے۔
ختم النبوۃ ص 71
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
اس کے سچے راعی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
اللہ جھوٹ سے پاک ہے۔ ص 111
اب بریلوی کبھی بھی اس اصول کی طرف نہیں آئیں گے کیونکہ پتا ہے کہ یہ لفظ جس پر فتویٰ کفر ہم نے دیا ہے وہ توفاضل بریلوی صاحب نے لکھا ہے یہ ہے ان کے عشق و محبت کے جھوٹ کی داستان شاید کوئی کہے کہ فتویٰ کفر تو لفظ راعنا پر ہے اور فاضل بریلوی نے راعی لکھا ہے تو جواباً عرض یہ ہے کہ راعنا کا معنی ہمارا چرواہا اور راعی کا معنی چرواہا، اور ہمارا چرواہا کہنے سے صرف چرواہا کہنا زیادہ سخت ہے۔
مثال نمبر2: نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو تو کہنا گستاخی ہے۔
1۔ فاضل بریلوی کے والد صاحب نقی علی خان صاحب لکھتے ہیں: اگر ہندی اپنے باپ یا بادشاہ خواہ کسی واجب التعظیم کو تو کہے گا تو شرعاً بھی گستاخ و بے ادب اور تعزیر و تنبیہہ کا مستوجب ٹھہرے گا۔
اصول الرشاد ص 228
2۔ مولوی حنیف رضوی لکھتے ہیں: ہمارے دیار میں کسی معظم و بزرگ بلکہ ساتھی اور ہمسر کو بھی ’’تو‘‘ کہنا خلاف ادب اور گستاخی قرارپائے گا۔
مقدمہ اصول الرشاد ص 35
3۔ مفتی اقتدار احمدخان نعیمی بریلوی لکھتے ہیں: حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف نام لے کر یا تو تا کر کے… ہی پکارنا ہے تو تجھ میں اور ابوجہل و ابولہب اور دیگر کفار و خبثاء میں فرق کیا رہے گا۔
العطایاالاحمدیہ ج5، ص 158
4۔ مکتبہ ضیاء القرآن والوں نے کنزالایمان کا خصوصی ایڈیشن شائع کیا اس کے ص 1100،اور انوار اکنزالایمان کے ص 528پر لکھا ہے: اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو صیغہ واحد حاضر میں مخاطب فرمایا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ترجمہ کرتے وقت اردو میں وہی الفاظ استعمال کیے جائیں اردو زبان میں تو کہہ کر اپنے بڑے کو مخاطب کرنا گستاخی ہے۔
5۔ بریلوی پیر طریقت ڈاکٹر سرفراز محمدی آستانہ ترنول شریف لکھتے ہیں:
قرآن پاک میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے صیغہ واحد میں مخاطب فرمایا لیکن اردو میں ترجمہ کرتے وقت لازمی تو نہیں کہ وہی الفاظ استعمال کیے جائیں کیونکہ اردو میں کسی بھی معزز و محترم ھستی کو لفظ،تو، سے مخاطب کرنا گستاخی کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔اگر یہی لفظ ذات باری تعالی کے لیے ہو تو قابل گرفت نہیں کہ مقصد شرک سے اجتناب ہوتا ہے لیکن نبی اکرم، نور مجسم، شفیع معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے استعمال کرنا سراسر بے ادبی میں شمار ہوگا۔
انوار کنز الایمان ص28
1- اب دیکھیے فاضل بریلوی کی طرف انہوں نے سورۃ القارعۃ پارہ نمبر 30، سورۃ نمبر 101 میں آیت نمبر 3وما ادراک ما القارعۃ کا ترجمہ کیا ہے اور تو نے کیا جانا کیا ہے دہلانے والی اور آیت نمبر 10۔
و ماادراک ماہیہ کا ترجمہ کیا ہے اور تو نے کیا جانا کیا ہے نیچا دکھانے والی۔
کنزالایمان ص 1081
2۔ سورۃ منافقون آیت نمبر 4 کا ترجمہ دیکھیے۔واذا رایتہم تعجبک اجسامہم اور جب تو انہیں دیکھے ان کے جسم تجھے بھلے معلوم ہوں۔
کنزالایمان ص 998
3۔ سورۃ زمر کی آیت نمبر 21 کا ترجمہ دیکھیے۔الم تر ان اللہ انزل من السماء مائً (الایۃ)کیا تو نے نہ دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا۔
کنز الایمان ص 828
4۔ سورۃ مائدہ کی آیت نمبر 41 یا ایھا الرسول لا یحزنک الذین………… و من یرد اللہ فتنۃ، فلن تملک لہ من اللہ شیاء (الایۃ)۔
اے رسول تمہیں غمگین نہ کریں … اور جسے اللہ گمراہ کرنا چاہے تو ہر گز تواللہ سے اس کا کچھ نہ بنا سکے۔
کنز الایمان ص 205، 206
یہی چار مثالیں بہت ہیں ورنہ اور بھی کئی ہیں۔
اب بریلوی حضرات سے پوچھ لیجئے کیا اپنے اصولوں پر کاربند رہو گے تو یقینا ان کو سانپ سونگھ جائے گا اور کاٹو تو خون نہیں والی مثال صادق آئے گی۔
ہم دو چار مثالیں اور لکھ کر یہ عنوان ختم کرتے ہیں۔
مثال نمبر3: بریلویوں کے بہت بڑے عالم مفتی فیض احمد اویسی بہاولپوری لکھتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہرفعل اور قول اور عمل مبنی بر حکمت ہوتا ہے۔ اس سے آپ کی لاعلمی یا عدم اختیار ثابت کرنا جاہلوں یا نبوت کے گستاخوں کا کام ہے۔
رسائل اویسہ ج 4، لاعلمی میں علم ص 15
یعنی آپ علیہ السلام کی طرف لاعلمی کی نسبت کرنا گستاخی ہے۔ آئیے دیکھیے کہ پیر مہر علی شاہ صاحب غلام قادیانی کا رد کرتے ہوئے یوں لکھتے ہیں کہ
یہ جو (تم نے) لکھا ہے کہ قیامت سات ہزار سال پہلے نہیں آسکتی میں کہتا ہوں کہ یہ سات ہزار سال کی تحدید جو آپ نے لگا دی ہے یہ منافی ہے۔ لا یجلیہا لوقتہا الا ہو کے اور ان احادیث کے جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لاعلمی بیان فرمائی۔
شمس الہدایہ ص 66
یہاں پیر صاحب نے نبی پاک علیہ السلام کے لیے لاعلمی کی نسبت کی اب اصول بریلوی کی روشنی میں یہ گستاخی ہے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم مگر اب بریلوی اصول نہ جانے کیوں خاموش ہے کیوں پیر صاحب یا ان کی اولاد کے خلاف آواز نہیں اُٹھتی۔
کیا یہ عشق و محبت کا محض دعویٰ ہی نہیں ہے؟ اگر واقعی یہ شرعی اُصول تھا تو کیوں اب تک اس کتاب پر پابندی نہیں لگوائی گئی مگر یہ سب دوسروں کے لیے ہے نہ کہ اپنے لیے کیوں کہ وہ خود تو نام نہاد عاشق ہیں۔
مثال نمبر4: کسی اور کو رحمۃ للعالمین کہنے پر بریلوی اکابر ین میں صف ماتم بچھا ہے۔
1۔ بریلوی علامہ ارشد القادری صاحب رئیس التحریر لکھتے ہیں:خدا کی پناہ حبیب خدا کی شان یکتائی پر اس سے زیادہ سنگین حملہ اور کیا ہو سکتا ہے۔
تبلیغی جماعت ص 67، مکتبہ نبویہ لاہور
2۔ بریلوی ضیغم اہل بدعت حسن علی رضوی اس بات کو سنگین گستاخی قرار دیتے ہیں وہ لکھتے ہیں: حضور علیہ الصلوۃ و السلام کی عظمت اوررفعت شان کو گھٹا کر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک عظیم و جلیل صفت پر ڈاکہ مارنا مقصود تھا۔
محاسبہ دیوبندیت ص 198 ج1
3۔ بریلوی مناظر اعظم جنید زمان مولوی عمر اچھروی لکھتے ہیں:
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے تمام عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجا اب اورکون سے عالمین ہیں جن کے یہ بھی رحمت بن سکتے ہیں جیسا کہ رب العالمین کہنے کے بعد تمام عالمین میں کسی دوسرے رب کی ضرورت نہیں اگر کوئی مانے تو اس نے شرک فی التوحید کہا ہے ایسے ہی رحمۃ للعالمین کے اقرار کے بعد کوئی عالمین کی رحمت نہیں کہلا سکتا اور اگر کوئی تسلیم کرے تو مشرک فی الرسالت ہو گا۔
مقیاس حقیقت ص 198، 199
4۔ بریلوی جید عالم مفتی خلیل احمد خان برکاتی لکھتے ہیں:
مسلمانوں کے نز دیک رحمۃ للعالمین ہونا قطعاً یقینا خاص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت خاصہ ہے جس میں اور انبیاء بھی شریک نہیں۔
فیصلہ ہفت مسئلہ توضیحات و تشریحات ص 305
یعنی مسلمان تو کسی اور کو نہیں کہتے باقی کافر کسی اور کو بھی رحمۃ للعالمین کہتے ہیں۔
5۔ مفتی عبدالوہاب خلیفۃ مفتی اعظم بریلویہ فی الہند لکھتے ہیں:
ہر مسلمان کا قرآن کریم پر ایمان ہے کہ رحمۃ للعالمین صرف اور صرف صفت خاصہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
صاعۃ الرضا علی اعداء المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ص 311
یعنی کسی اور کو رحمۃ للعالمین کہنے والا آپ کی صفت خاصہ کا منکر اور منکر قرآن ہے۔
6۔ مفتی احمد میاں برکاتی لکھتے ہیں:
رحمۃ للعالمین نہ ہو گا مگر رسول الی العالمین۔
ملفوظات مشائخ مارہرہ ص110
یعنی رحمۃ للعالمین وہی ہو گا جو تمام عالمین کا رسول ہو گا۔
7۔ مولوی ظفر الدین بہاری لکھتے ہیں:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس صفت میں رحمۃ للعلمین میں سب ملاوں کو شریک کر دیا
انا للہ وانا الیہ راجعون،
پھر سیدالعالمین کیوں کر مان سکتے ہیں ؟
حیات اعلی حضرت ج2 ص404
یعنی کسی اور کے لیے یہ لفظ استعمال کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سید العالمین ہونے کا انکار ہے۔ اب آئیے دیکھیے شانِ رسالت پر ڈاکہ ڈالنے والا، توہین کرنے والا، شان و مقام و عظمت مصطفی پر سنگین حملہ کرنے والا آپ کی شان کو گھٹانے والا کون ہے۔
1۔ پیرزادہ اقبال احمد فاروقی نے اپنے مقدمہ اور ترتیب سے ایک کتاب اپنے مکتبہ سے چھاپی ہے اس میں ہے:
شہہ سلیمان رحمۃ للعالمین رحمۃ للعالمین قطب الوریٰ
تحفۃ الابرار ص 306، 307
یہ خواجہ سلیمان تونسوی رحمۃ اللہ علیہ کے لیے لکھا گیا ہے۔
2۔ قادری کتب خانہ لاہور سے کتاب چھپی ہے۔ اردو ترجمہ ملک فضل الدین نقشبندی مجددی نے کیا ہے اور فنی تدوین کتاب کی مولوی محمد عالم مختار حق نے کی ہے اس میں ہے۔
شاہ گیلانی ترا حق در وجود رحمۃ للعالمین آوردہ است
تحفہ قادریہ ص 49
اس میں شیخ گیلانی کو رحمۃ للعالمین لکھا ہے۔
3۔ ماہنامہ ضیائے حرم کے ایڈیٹر خواجہ عابد نظامی نے پیش لفظ لکھ کر ایک کتاب ضیاء القرآن سے چھپوائی۔ جس کا ترجمہ خواجہ حسن نظامی کے مرید اور خلیفہ سید محمد ارتضیٰ المعروف ملا واحدی ایڈیٹر ماہنامہ نظام المشائخ دہلی نے خواجہ صاحب کے حکم سے کیا۔ اس میں ہے
صحبۃ الصالحین نور و رحمۃ للعالمین
راحۃ القلوب ص 81
صالحین کی صحبت نور اور رحمۃ للعالمین ہے۔
4۔ بریلویوں کے بہت بڑے سکالر جناب شمس بریلوی لکھتے ہیں:
حضرت خواجہ راستیں لقب یافتہ و ما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین ملک الفقراء و المساکین نظام الحق و الشرع و الہدیٰ والدین۔
فوائد الفواد ص 57، مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی
خواجہ نظام الدین کو رحمۃ للعالمین کا لقب دیا گیا ہے۔
5۔ پیر جماعت علی شاہ کہتے ہیں اولیاء کے متعلق کہ
یہ مقبولان بارگاہ ایزدی رحمۃ للعالمین کی شان میں جلوہ گر تھے۔
سیرت امیر ملت ص 609
6۔ بریلوی جید عالم دین مولوی غلام جہانیاں صاحب لکھتے ہیں:
الٰہی بحرمۃ شیخ المشائخ سلطان العاشقین رحمۃ للعالمین۔محبوب الٰہی حضرت خواجہ نظام الحق والدین محمد بن احمد بخاری چشتی ہے رضی اللہ عنہ
ہفت اقطاب ص 70
7۔ مولوی اشرف جلالی کا رسالہ ماہنامہ جلالیہ میں ہے،خواجہ باقی باللہ کی تعریف میں
ہست ذات خواجہ باقی مرحمۃ للعالمین
جلالیہ شمارہ نمبر12، دسمبر 2011، ص 26
قارئین گرامی قدر! حوالے اور بھی لکھے جا سکتے ہیں مگر یہی کافی ہیں ہمارا سوال ہے کہ اگر توہین رسالت کے متعلقہ تمہارے اصول درست ہے تو جن بریلوی زعماء اکابرین نے یہ لفظ استعمال کیا ہے۔ کیا وہ منکر قرآن، شان رسالت کے ڈاکو، عظمت گھٹانے والے ہیں ؟ اگر نہیں تو معلوم ہوا کہ تمہارا عشق و محبت کادعویٰ صرف دعویٰ ہی ہے حقیقت کچھ نہیں۔
قارئین آپ ان چند مثالوں سے سمجھ تو گئے ہوں گے کہ ان رضا خانی حضرات میں عشق و محبت کے صرف دعوے ہیں حقیقت کچھ نہیں اس طرح کئی مثالیں لائی جا سکتی ہیں مگر میں آخری لا کر موضوع کی طرف آنا چاہتا ہو۔
5۔ سورۃ فتح کی آیت نمبر 2 کے ترجمہ میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گناہ کی نسبت کرنا ملاحظہ فرمائیے:

1-

فاضل بریلوی لکھتے ہیں:
واستغفر لذنبک (الایۃ)۔
مغفرت مانگ اپنے گناہوں کی۔
فضائل دعا ص 86
2۔ فاضل بریلوی کے والد صاحب لکھتے ہیں:
معاف کرے اللہ تیرے اگلے اور پچھلے گناہ۔
الکلام الاوضح ص 62
3۔ علامہ فضل حق خیر آبادی لکھتے ہیں:
برشما لازم است کر بروید بر محمد صلی اللہ علیہ وسلم او بندہ ایست کہ آمرزیدہ است خداتعالیٰ مرا را زگناہان پیش و پسین او۔
شفاعت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ص 321
یعنی تم پر لازم ہے کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ وہ خدا کے ایسے بندے ہیں جن کے خدانے اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیے ہیں۔
اب آئیے ان پر بریلوی اصول سے فرد جرم عائد کرتے ہیں۔
1۔ پیر افضل قادری صاحب لکھتے ہیں:
یہ تمام تراجم نصوص و حدیث اور عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے قطعی عقیدے کے خلاف ہونے کی وجہ سے غلط ہیں اور ان میں بارگاہ نبوی میں بدترین گستاخی کا ارتکاب کیا گیا ہے۔
قرآن مجید کے ترجموں کی نشاندہی ص 36
2۔ بریلوی جید عالم مولانا قاری رضاء المصطفیٰ لکھتے ہیں:
عام تراجم سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نبی معصوم ماضی میں بھی گناہ گار تھا مستقبل میں بھی گناہ کرے گا۔ مگرفتح مبین کے صدقے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف ہو گئے اور آئندہ گناہ رسول معاف ہوتے رہیں گے کاش یہ فتح مبین آپ کو نہ دی گئی ہوتی تاکہ آپ کے گناہوں پر ستاری کا پردہ پڑا رہتا۔
قرآن شریف کے غلط ترجموں کی نشاندہی ص 7
3۔ مولوی شہزاد مجددی کی مصدقہ کتاب میں ایسے تراجم پر فتویٰ لگا کر لکھا گیا ہے کہ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گناہ گار کہنا بے ایمانی اور کفر ہے۔
آؤ حق تلاش کریں ص14
آگے لکھتے ہیں:
مترجمین کے تراجم سے بھی ایسے معلوم ہو رہا ہے کہ جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم گناہگار ہے۔ معاذ اللہ۔
آؤ حق تلاش کریں ص18
4۔ اور مولوی شیر محمد جمشیدی صاحب نے اپنی کتاب فیصلہ کیجئے کہ ص 24، 28 پر یہی کچھ لکھا ہے۔
5۔ مفتی حنیف قریشی کی مرضی سے چھپنے والی کتاب اور اس کے مناظرے کی روئیداد میں یوں لکھا:
خود سوچیں کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گناہ ہو سکتے ہیں۔ جن کی معافی مانگنے کا حکم ہو رہا ہے۔ کیا یہ ترجمہ تقدیس رسالت کے خلاف نہیں ؟
مناظرہ گستاخ کون ص201
بریلوی جید علامہ عبدالستار نیازی صاحب لکھتے ہیں:
اس آیت میں مترجمین نے خطاؤں اور گناہوں کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک معصوم عن الخطاء سے منسوب کر دیا جائے جو صریحاً عصمت انبیاء پر حملہ ہے۔
انوار کنزالایمان ص 823
7۔ بریلوی امام وقت نباض بریلوی قوم ابوداؤد محمد صادق صاحب لکھتے ہیں:
سوال یہ ہے کہ کیا مذکورہ تراجم شان الوہیت و منصب رسالت و نبوت کے منافی نہیں ہیں۔ کیا اس سے بہتر اور متبادل الفاظ نہیں مل سکتے کیا مفسرین نے ان نازک مقامات پر بہتر پہلو استعمال اور پیش نہیں کیے۔ پھر اس قدر عامیانہ و گھٹیا الفاظ کے استعمال کا کیا جواز ہے؟
انوار کنزالایمان ص 894
8۔ لاہور سے ایک گروہ کھڑا ہوا۔ مفتی محمود ساقی کرنل انورمدنی، مولوی ذوالفقار سانگلہ ہل وغیرہم، ان لوگوں نے صاف لکھا ہے کہ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس سے گناہ منسوب کرنا پھر معافی سے متعلق کرناکفر ہے۔
خلاف اولیٰ کے رد میں ص 62
آگے لکھتے ہیں:
گناہ کی نسبت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا اور تاویل بعدمیں کرنا بھی غلط ہے گستاخی ہے۔
خلاف اولیٰ کے رد میں ص 62
آگے لکھتے ہیں:
ذنب کا ترجمہ گناہ کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے سے کوئی تاویل قابل قبول نہیں کیونکہ یہ صراحۃً گستاخی توہین ہے۔
خلاف اولیٰ کے رد میں ص 92
9۔ مولوی الطاف حسین ناظم اعلیٰ دارالعلوم سیف الاسلام کشمیر لکھتے ہیں
ذنب کا معنی گناہ کر کے اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا بڑی بیباکی، جرأت ہے۔
الذنب فی القرآن ص 803
10۔ معروف بریلوی ادیب خواجہ رضی حیدر صاحب لکھتے ہیں:
اگر کسی نبی کو گناہ گار تصور کیا جائے یہ تصور بھی گناہ ہے۔ ایسی صورت میں اگر کسی آیت کریمہ سے یہ مطلب لیا جائے کہ نعوذ باللہ نبی آخر الزماں کی نسبت سے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ کہ آپ کی اگلی پچھلی سب خطائیں معاف کر دی جائیں گی تو یہ ترجمہ کی غلطی نہیں بلکہ ایک ایسا مذموم اقدام ہے جس سے ایمان ساقط ہو سکتا ہے۔
الذنب فی القرآن ص 812
لفظ خطا گناہ سے ہلکا ہے اگر اس سے ایمان ساقط ہو سکتا ہے تو خدا جانے لفظ گناہ استعمال کرنے والے تو ساقط الایمان ہی ہوں گے۔
11۔ قارئین !آپ بھی شاید حوالے پڑھ کر تھک گئے ہوں گے میں اسی لیے آخری حوالہ عرض کرتا ہوں ورنہ بیسوں بریلویوں کے حوالے اس پر شاہد ہیں کہ یہ ترجمہ کرنا گستاخی توہین کفر وغیرہ ہے۔
دیوبندی مذہب کا مصنف مولوی غلام مہر علی چشتیاں کا رہائشی لکھتے ہیں:
ذنبک کامعنی آپ کے گناہ یا ترک افضل و خلاف اولیٰ یا خطاء آپ کی عصمت پرحملہ آور ایک نہایت ہی زہریلا سانپ ہے۔
معرکۃ الذنب ص8
آگے لکھتے ہیں:
یہ ترجمہ کہ ’’اور بخشش مانگ واسطے گناہ اپنے کے‘‘۔ سراسر عصمت رسول سے بغاوت و جہالت و شقاوت ہے ،نبوت کا انکار اور کفر ہے۔
معرکۃ الذنب ص 20
قارئین ان پانچ عدد مثالوں میں بریلوی زعماء و اصاغر و اکابر یعنی بریلویوں کے اصول و فروغ گستاخان رسول اپنے بنائے ہوئے اصولوں سے بنتے ہیں۔
مگر قیامت آ سکتی ہے وہ ان سب کو گستاخ رسول عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ڈاکہ ڈالنے والا نہیں کہہ سکتے اوران سے برات نہیں کر سکتے۔ تو یہ ثابت ہوا کہ ان کا عشق و محبت کا دعویٰ بلا حقیقت ہے۔ تفصیل کا ڈر نہ ہوتا تو ہم مزید اس پر کلام کرتے۔
و بھذا القدر نکتفی وللہ الحمد اولا و آخرا
اپنے مناظرین و علماء کی خدمت میں گزارش
بریلوی حضرات مختلف جگہ اکابرین اہل السنۃدیوبند کے خلاف گالیاں بکتے نظر آتے ہیں اور عبارات پر چیلنج کرتے نظر آتے ہیں آپ اس کو زبانی طور پر قبول کر لیں اور ان سے یہ بات کہی جائے کہ چیلنج تحریری طور پر لکھ کر دیا جائے اگر وہ دے دیتے ہیں تو آپ بھی تحریری طور پر قبول کر لیں باقی جب شرائط طے ہونے لگیں تو مندرجہ ذیل کتب آپ کے پاس ہونی ضروری ہیں اور یہ عبارات بھی نکال کر آپ ان کے سامنے رکھ دیں کہ آپ کے علماء کا اقرار ہے کہ ہمارا اختلاف تو صرف حسام الحرمین والی پیش کردہ چند عبارات پر ہے۔ لہٰذا مناظرہ حسام الحرمین پر ہو گا۔
ویسے بھی اسی کتاب کی بنیاد پر تم اکابر کو کافر کہتے ہو لہٰذا پہلے بنیاد کو دیکھا جائے حسام الحرمین پر مناظرہ بہت آسان ہے۔ آپ ان سے شرائط طے کرتے ہوئے یہ بات لکھوائیں کہ حسام الحرمین میں جو عبارات ہمارے متعلق پیش کی گئی ہیں وہ من و عن اکٹھی اصل کتب سے دکھانے کے بریلوی پابند ہوں گے اور پہلے حسام الحرمین میں پیش کی گئی ہماری پہلی عبارت پر گفتگو ہو گی اس کے بعد بریلویوں کے امام و پیشوا و قائد فاضل بریلوی کے کفر پر بات ہو گی کہ بریلویوں کی کتب کی روشنی میں اس کا اسلام ثابت نہیں ہوتا۔ بلکہ فاضل بریلوی کے کفر و ایمان پر بات پہلے کی جائے اور حسام الحرمین پر بعد میں۔
اب آئیے! ان حوالہ جات کی طرف جن کی بنیاد پر میں نے یہ بات عرض کی ہے۔
1۔ بریلوی معتبر کتاب میں ہے:علامہ عبدالحکیم شرف قادری مدظلہ نے بھی حسام الحرمین شریف کے مقدمہ میں بنائے اختلاف ان گستاخانہ عبارتوں کو قرار دیاہے۔ دیکھیے حسام الحرمین شریف مطبوعہ مکتبہ نبویہ لاہور و مکتبہ المدینہ کراچی۔
پتہ چلاکہ اصل اختلاف ان ہی گستاخانہ عبارتوں پر ہے جو وہابی دیوبندی اکابرین نے لکھیں۔
جسٹس محمد کرم شاہ کا تنقیدی جائزہ ص 75
معلوم ہوا جو عبارات ہمارے اکابر کی فاضل بریلوی نے حسام الحرمین میں پیش کی ہیں اصل اختلاف بریلوی حضرات کو انہی کی وجہ سے ہے تو اختلاف سارا سمٹ کر حسام الحرمین میں آ گیا بقول ان کے تو حسام الحرمین پر ہی گفتگو کر لی جائے۔
2۔ بریلوی جید مولوی حسن علی رضوی کہتے ہیں:
جن حضرات پر ان کی کفریہ عبارات کے باعث حسام الحرمین شریفین اور الصوارم الہندیہ میں فتویٰ کفر و ارتداد لگا ہے اور عرب و عجم شرق و غرب پاک و ہند کے اکابر و مشاہیر علماء و فقہا نے اس کی تائید کی ہے اور تصدیق فرمائی ہے۔ صرف ان گنتی کے چند مولویوں سے قطع تعلق کرتے ہوئے توہین کو توہین تسلیم کرلیں کفر کو کفر مان لیں اور سچے دل سے توبہ کر کے ان کی وکالت اور دلالی چھوڑ دیں جھوٹی تاویلات کا سلسلہ بند کر دیں اور حسام الحرمین پر تصدیق کر دیں تو امید ہے امت کا وسیع تر اتحاد اور یک جہتی قائم ہو سکتی ہے اور قوم کوخلفشار سے نجات مل سکتی ہے۔
محاسبہ دیوبندیت ج 1، ص 36
آگے لکھتے ہیں:
جب تم ان سے دستبردار ہو گے تو کسی پر بھی تکفیر کا حکم شرعی باقی بند رہے گا۔ یہ ہم مودبانہ ملتجیانہ عرض کر رہے ہیں کہ کافر کو کافر اور مسلمان کو مسلمان ماننا ضروریات دین سے ہے۔
محاسبہ دیوبندیت ج1، ص 279
اس سے بھی معلوم ہوا کہ اگر حسام الحرمین ان احکام کو جو ہمارے متعلق ہیں درست مان لیا جائے تو اختلاف مٹانے کے لیے بریلوی تیار ہیں تو پھر سارا اختلاف حسام الحرمین میں ہی ہوا ناں ؟
3۔ سید تبسم شاہ بخاری بریلوی لکھتےہیں:
ہمارا اصل اور بنیادی اختلاف تحذیر الناس براہین قاطعہ اور حفظ الایمان کی چند کفریہ عبارات پر ہے۔
دیوبندیوں سے لاجواب سوالات ص 456
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
دیوبندیوں سے ہمارا بنیادی اختلاف ان کی کچھ کتب کی چند صریح کفریہ عبارات پر ہے۔
جسٹس محمد کرم شاہ کا تنقیدی جائزہ ص 81
اس عبارت سے بھی معلوم ہوا کہ ان تین کتب کی چند عبارات ہیں۔ جو حسام الحرمین میں درج ہیں صرف ان پر اختلاف ہے اس لیے مناظرہ اسی کتاب حسام الحرمین پر ہواور جو عبارات اس حسام میں ہماری لی گئی ہیں ان کو من و عن و اکٹھی اصل کتب سے دکھائیں اور حسام الحرمین کے احکام جو ہمارے متعلقہ ہیں ان کو سچ ثابت کریں۔
4۔ آستانہ عالیہ کچھوچھ شریف سے فتویٰ لکھا گیاکہ علماء حرمین طیبین نے جو فتویٰ ان کے حق میں صادر فرمایا ہے اس کا لفظ بہ لفظ صحیح اورنقطہ نقط حق و درست ہے۔ جس کا انکار نہ کرے گا مگر جاہل یا منافق اور اسی بناء پر ہم ان لوگوں کو کافر و مرتد جانتے ہیں اور اعتقاد رکھتے ہیں۔
الصوارم الہندیہ ص52
اس سے بھی معلوم ہوا کہ فتویٰ کفر حسام الحرمین کی وجہ سے ہے اسی وجہ سے ہمیں بریلوی کافر کہتے ہیں۔ تو بات حسام الحرمین پر ہواور بس۔ اور اپنے بزرگوں میں سے کسی اور بزرگ کی کوئی عبارت نہ پیش کرنے دی جائے۔
5۔ سنبھل کے فتاویٰ:
قاسم نانوتوی، رشید احمد گنگوہی، خلیل احمد انبیٹھی اشرف علی تھانوی اپنے مذکورہ بالا اقوال (جو حسام الحرمین میں درج ہیں۔ )کی بناء پر کافر مرتد خارج از اسلام ہیں۔
الصوارم الہندیہ ص 71
6۔ فتاویٰ جاورہ:
مولوی قاسم نانوتوی، مولوی رشید احمد گنگوہی، مولوی خلیل احمد انبیٹی و مولوی اشرف علی تھانوی کے جو اقوال استفسار (حسام الحرمین والے) میں نقل کیے گئے ہیں ان پر سابق ازیں بحث و تمحیص ہو کر علماء اہلسنت نے کفر کا فتویٰ دیا ہے۔
الصوارم ص103
7۔ فتاویٰ بریلی شریف از قلم حشمت علی قادری:
نانوتوی گنگوہی انبیٹی تھانوی اپنے ان کفریات واضحہ صریحہ خبیث معلونہ کے سبب جو اصل فتاویٰ حسام الحرمین شریف میں بعبارتہا۔ منقول ہیں جن میں کوئی ایسی تاویل و توجیہ قطعاً ناممکن جوقائلین کو قطعی یقینی کفر و ارتداد سے بچا سکے۔ قطعاً یقینا کافر، مرتد لائق تذلیل واجب التفضیح ہیں۔
الصوارم ص 114
قارئین ذی وقار!سات عدد حوالوں سے معلوم ہو گیا بریلویوں کی طرف سے اکابر اربعہ پر فتویٰ کفر کی بنیاد حسام الحرمین ہے۔ لہٰذا اسی حسام الحرمین پر ہی گفتگو کی جائے۔ اگر بریلوی اس حسام الحرمین کے وہ احکام جو ہمارے متعلق ہیں سچے ثابت کر دیں اور اسی طریق سے جو پیچھے مذکور ہوا تو وہ سچے ہوئے اوراگر ہم یہ ثابت کریں کے فاضل بریلوی نے ان عبارات میں خیانت دھوکہ دہی سے کام لیا ہے تو پھر فاضل بریلوی جھوٹا اور یہ کتاب جھوٹ کا پلندہ، مگر رضا خانی حضرات اس کی ہمت نہیں کر سکتے۔ ہداہم اللہ