حسام الحرمین پر مناظرہ کرنے کی ترتیب و شرائط

User Rating: 2 / 5

Star ActiveStar ActiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
حسام الحرمین پر مناظرہ کرنے کی ترتیب و شرائط
1۔ سب سے پہلے فاضل بریلوی کے کفر و ایمان پر بات ہو گی پھر حسام الحرمین پر کیوں کہ مصنف کا ذکر اور حالات کتاب سے پہلے ہوتے ہیں۔
2۔ بریلوی مناظر حسام الحرمین کی عبارات من و عن اکٹھی اصل کتب سے دکھائے گا۔
3۔ حسام الحرمین کے احکام جو ہمارے متعلق ہیں اس کے منکر کا حکم بتانا ہو گا۔ یعنی جن جن حضرات نے ہمارے اکابر کومسلمان لکھا انہیں کافر لکھ کر دینا ہو گا۔
4۔ گفتگو بریلوی اصول و قواعد کو سامنے رکھ کر ہو گی۔
اکابر اربعہ کا مقام بریلوی کتب سے
الفضل ماشہدت بہ الاعداء کے اصول سے یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ہمارے اکابر کو اللہ کریم نے وہ مقام عطا فرمایا تھا کہ غیر بھی ان کی تعریف لکھنے پر مجبور تھے۔ اور ان کا مقام بریلوی علماء میں بھی مسلم ہے۔ ہم حیران ہیں کہ اگر بریلوی حسام الحرمین کو سچا مانتے ہیں تو اپنے بریلوی اکابرین میں سے کس کس کو کافر کہیں گے۔
کیونکہ بہار شریعت جو کہ بقول عبدالمجید خان سعیدی پسند فرمودہ اعلی حضرت ہے۔
نبوت عند الشیخین ص 16
اس میں ہے جو کسی کافر کے لیے اس کے مرنے کے بعد مغفرت کی دعا کرے یا کسی مردہ مرتد کو مرحوم یا مغفور .......کہے وہ کافر ہے۔
بہار شریعت حصہ اول ص 44 ،جنتی زیور ص 161
1۔ بریلوی جید علامہ نور بخش توکلی صاحب نے حجۃ الاسلام حضرت نانوتوی کانام یوں لکھا ہےمولانا مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ۔
سیرت رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم ص 666
اس سیرت رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق عبدالحکیم شرف قادری سابق شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ لاہور لکھتے ہیں
مولانا الحاج عبدالحمید لدھیانوی نے خواب میں آپ کی وفات کے ایک ماہ بعدآپ کو ایک باغ میں سنہری تخت پر بیٹھے ہوئے دیکھا تو دریافت کیا کہ اس اعزاز کی وجہ کیا ہے مولانا توکلی صاحب نے جواب دیا میرے اللہ کو میری کتاب سیرت رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم پسند آ گئی اور مجھے یہ انعام ملا۔
عظمتوں کے پاسبان ص343
اور یہی واقعہ میٹھی میٹھی سنتیں اور دعوت اسلامی کے ص 38 پر بھی موجود ہے جو لکھی تو ابوکلیم محمد صدیق فانی نے ہے اورلکھنے میں مدد ونصرت، مفتی شوکت سیالوی، ماہر بریلویت ڈاکٹر الطاف حسین سعیدی، اور جناب خلیل احمد رانا، جیسے لوگوں نے کی ہے۔ دیکھیے اصل کتاب
اور یہی واقعہ پیرزادہ اقبال احمد فاروقی نے تذکرہ علماء اہلسنت و الجماعت لاہور کے ص 299 پر بھی لکھا ہے اور تذکرہ مشائخ نقشبندیہ کے ص 10 پر بھی موجود ہے۔
شرف قادری صاحب مزید لکھتے ہیں سیرت رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم عوام میں بے پناہ مقبول ہوئی اور بارگاہ الٰہی اور دربار مصطفائی میں حضرت مصنف کے لیے ذریعہ اعزاز و اکرام نبی۔
عظمتوں کے پاسبان ص342
اسی کتاب کے متعلق شیخ القرآن و الحدیث کا لقب بریلویوں میں پانے والا مفتی فیض احمد اویسی لکھتے ہیں: یہ مولانا توکلی کی وہ تصنیف ہے۔ جس پر انہیں حضور سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ فلہذایہ کتاب گویا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی منظور شدہ ہے۔
نہایت الکمال ص4
اب دیکھیے جو اللہ رسول کی بارگاہ میں مقبول و منظور ہو اور منظور و مقبول کہنے والے اتنے جید بریلوی ہیں تو اس کتاب میں جو مولانا قاسم نانوتوی کے نام کے ساتھ رحمۃ اللہ علیہ لکھا ہے۔ ا س کا کیا بنا کیا وہ مقبول و منظور نہیں ؟
معلوم ہوا کہ خدا تو ان پر رحمت کا اترنا پسند کرے اور اس کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی مگر بریلوی ملت کو پسند نہ ہو آپ خود فیصلہ کر لیں گے۔
بلکہ مفتی حنیف قریشی نے فیصلہ دیا ہےجو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند کو ناپسند کرے وہ کافر ہے۔
غازی ممتاز حسین قادری ص 291
اب دیکھیے حسام الحرمین کہتی ہے جو اسے کافر نہ جانے وہ کافر اور یہ کتاب کہتی ہے جو اسے مسلمان نہ جانے وہ کافر؟ اب بریلوی حضرات کے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ کس طرف جاتے ہیں اور ایک بات میں ان کا طبیب ہونے کے ناطے کہتا ہوں یہ اللہ رسول کی طرف نہیں آئیں گے جبکہ حسام الحرمین کو چھوڑیں گےنہیں تو پھر میں اتنی بات ضرور کہوں گا کہ فاضل بریلوی نے لکھا ہے: جو کفر کی بات کہے وہ کافر ہے اور جو اس بات کو اچھا بتائے یا اس پر راضی ہو وہ بھی کافر ہے۔
حسام الحرمین ص 20
تو توکلی صاحب تو گئے مگر یہ جید بریلوی علماء و زعماء جو اس کتاب کی تعریف و توثیق کر رہے تھے ان کے کفر میں اگر کوئی بریلوی شک کرے گا تو وہ بھی گیا۔ ہداہم اللہ۔
2۔ مولوی نوربخش توکلی صاحب لکھتے ہیں شیخنا العلامہ مولانا مولوی حاجی حافظ مشتاق احمد صاحب صاحب چشتی صابری دام اللہ تعالیٰ فیوضہ لکھتے ہیں کہ حضرت توکل شاہ صاحب رحمۃ اللہ علہ نے برسبیل تذکرہ عاجز سے فرمایا کہ ایک مرتبہ خواب میں یہ دیکھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے جا رہے ہیں میں اورمولانا محمد قاسم نانوتوی دونوں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے دوڑے کہ جلد حضور تک پہنچیں مولانا محمد قاسم صاحب تو وہاں اپنا قدم رکھتے ہیں جہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک کا نشان ہوتا تھا مگر میں بے اختیار جا رہا تھا آخر مولانا سے آگے ہو گیا اور پہنچ گیا۔
تذکرہ مشائخ نقشبندیہ ص527
اور ایک بریلوی عالم لکھتے ہیں: ہر ولی کے قدم نبی کے قدم پر ہوتے ہیں۔
تحقیق الاکابر از اویسی صاحب 21
تو معلوم ہوا حجۃ الاسلام ولی اللہ ہیں۔
3۔ ڈاکٹر انوار احمد صاحب بگوی لکھتے ہیں مولانا محمد قاسم نانوتوی 
تذکار بگویہ ص79، ج1
4۔ مفتی عبدالحمید خان سعیدی بریلوی لکھتے ہیں: دیوبندی حضرات خوش فہمی سے سنی عالم دین حضرت مولانا عبدالحی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ کو ان کی کثرت تصانیف کی بناء پر اپنے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایں خیال است و محال است وجنوں۔۔۔۔۔۔ الخ
تنبیہات ص 124
اب دیکھیے مولانا لکھنوی لکھتے ہیں:
مولوی محمد قاسم النانوتوی ہو فاضل کامل مستعد جید…………نانونۃ بلدۃ من ا ضلاع سہارنفورومدفنہ فی بلدۃ دیوبند فرحمہ اللہ
مقدمہ عمدہ الرعایہ ص29
5۔ پیر کرم شاہ بھیروی لکھتے ہیں. حضرت قاسم العلوم کی تصنیف لطیف مسمی بہ تحذیر الناس کو متعدد بار غور و تامل سے پڑھا اور ہر بار نیا لطف و سرور حاصل ہوا علماء حق کے نزدیک حقیقت محمدیہ علی صاحبہا الف الف صلوۃ وسلام متشبہات سے ہے اوار اس کی صحیح معرفت ا نسانی حیطہ سے خارج ہے کہ لیکن جہاں تک فکر انسانی کا تعلق ہے۔ حضرت مولانا قدس سرہ کی یہ نادر تحقیق کئی شپرہ چشموں کے لیے سرمہ بصیرت کا کام دے سکتی ہے۔ الخ……
جسٹس کرم شاہ کا تنقیدی جائزہ ص23
صاحبزادہ اقبال احمد فاروقی لکھتے ہیں ہندوستان کی دیگر اکابر ہستیاں بھی مثلاً مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی مولوی محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند مولانا فیض الحسن سہارنپوری، مولانا عبدالسمیع رامپوری (مولانا انوار ساطعہ) مولوی اشرف علی تھانوی آپ کے حلقہ ارادت میں شامل تھیں۔
تذکرہ علماء اہلسنت و جماعت ص 198
7۔ خواجہ غلام فرید چاچڑاں والے فرماتے ہیں: مولوی رشید احمد گنگوہی بھی حاجی صاحب کے مرید اور خلیفہ اکبر ہیں ان کے اور خلفاء بھی بہت ہے چنانچہ مولوی محمد قاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور مولوی محمد یعقوب صاحب وغیرہم۔
مقابیس المجالس ص 352
حضرت خواجہ صاحب کے اس ملفوظ سے ثابت ہوا کہ مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا محمد قاسم نانوتوی وغیرہم علماء دیوبند صحیح معنوں میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے خلیفہ اور اہل طریقت ہے۔ حالانکہ بعض صوفی حضرات ان کو غلط فہمی سے وہابی کہتے ہیں۔
حاشیہ مقابیس المجالس ص352
یہی بات پیر نصیر الدین گولڑوی صاحب نے تائیداً اپنی کتاب میں اشرف سیالوی گروپ کی تردید کرتے ہوئے اس حوالے کے بارے میں یوں لکھتے ہیں کہ قارئین آپ خود انصاف کریں کہ سیالوی صاحب کے فتوے کی زد میں کون کون آ رہے ہیں۔
لطمۃ الغیب ص221
مولوی الحاج (کپتان) واحد بخش سیال چشتی صابری لکھتے ہیں کہ: ’’علمائے دیوبند حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی علیہ الرحمۃ کے مرید ہیں اور پکے صوفی ہیں۔ ‘‘
مشاہدہ حق ص179
’’آپ نے بھی 1857ء کی جنگ آزادی میں بے دین انگریزی سلطنت کے خلاف علم جہاد بلند کیا اور کئی معرکے لڑے لیکن چونکہ آپ کے رفقائے کار کی تعداد قلیل تھی اس لیے کامیاب نہ ہو سکے اور بالآخر انگریزی حکومت نے آپ کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے جس کی وجہ سے آپ حجاز مقدس ہجرت فرما گئے۔ اسی طرح آپ کے رفقائے کار اور مخلص مریدین مثل حضرت مولانا محمدقاسم بانی دیوبند اور مولانا رشید احمد گنگوہی کے خلاف بھی انگریزوں نے وارنٹ گرفتاری نکالے اور بغاوت کے مقدمات چلائے۔ صوفیائے دیوبند سلسلہ عالیہ چشتیہ صابریہ سے تعلق رکھتے ہیں حنفی مذہب پر کاربند ہیں اور شریعت اسلامیہ پر اس سختی سے کاربند ہیں کہ وہابی مشہور ہو گئے۔
مشاہدہ حق ص 180۔179
8۔ بریلوی پیرزادہ اقبال احمد فاروقی کی ترتیب و مقدمہ سے چھپنے والی کتاب میں یوں لکھا ہے: آپ (حاجی صاحب) کے خلفاء راشدین رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے اسماء درج ہیں مولوی محمد قاسم، مولوی رشید احمد گنگوہی … الخ
تحفۃ الابرار ص 447
9۔ اسی کتاب میں حضرت نانوتوی کا تذکرہ یوں ہے: حضرت مولوی محمد قاسم رحمۃ اللہ علیہ۔
مقام ولادت
نانوتہ ہندوستان
مقام مزار شریف
دیوبند ضلع سہارنپور
حوالہ کتب
انوارالعارفین
آپ رؤسائے شیوخ صدیقی قصبہ نانوتہ کے ہیں آپ کو اجازت ہرچہار طریقہ معروف کی ہے حضرت حاجی محمدامداد للہ رحمۃ اللہ علیہ سے تھی اور حدیث کی سند حضرت شاہ عبدالغنی مجددی سے حاصل کی تھی محققانہ و عارفانہ کلام حقائق و معارف میں آپ کا تھا۔ اثبات وجودی میں رطب اللسان تھے۔ توحیدشہودی سے بھی انکار نہیں رکھتے تھے۔
تحفۃ الابرار ص 447
10۔ مولوی عبدالکریم بن مولانا محمد صدیق احمد جو مصنف ہے ملفوظات حسینیہ فارسی کے وہ لکھتے ہیں: مجھے حصن حصین و دلائل الخیرات وجواہر خمسہ کی اجازت والد کی طرف سے تھی اور ان کو اجازت مولانا مولوی رشید احمد گنگوہی سے تھی۔
ملفوظات حسینیہ فارسی ص 176
11۔ حاجی مرید احمد چشتی سیالوی اپنے معتمد مولوی نجم الدین دہریالوی کے حالات زندگی میں لکھتے ہیں شیخ الہند مولانا محمود حسن علامہ سید انور شاہ اور مولانا رشید احمد گنگوہی جیسے اکابر سے فیض حاصل کیا۔
انوار سیال ص 22
12۔ یہی بریلوی جید عالم لکھتے ہیں: رئیس المحدثین زبدۃ المفسرین پسندیدۂ احد مولانا مولوی رشید احمد گنگوہی دام برکاتہ۔
فوز المقال فی خلفاء پیر سیال ص 573، ج2
13۔ مولانا عبدالباری فرنگی محلی لکھتے ہیں: ہمارے اکابر نے اعیان علماء دیوبند کی تکفیر نہیں کی ہے۔ جو حقوق اسلام کے ہیں اس سے ان کو کبھی محروم نہیں رکھا ہے۔
کلیات مکاتیب رضا ج1، ج 390
14۔ پروفیسر ڈاکٹر مسعود لکھتے ہیں: مولانا گنگوہی 
فتاویٰ مظہریہ ص 356،357،361
15۔ مفتی خلیل احمد خان قادری برکاتی لکھتے ہیں: ’’ خود فقیر نے جامع مسجد بریلی کے امام و مدرسہ منظر الاسلام کے محدث فقیر کے بڑے بھائی مولانا عبدالعزیز خان صاحب مرحوم کے مکان پر مولوی ظفر الدین صاحب موصوف کی زبان سے سنا تھا۔ چنانچہ فرمایا کہ علماء دیوبند کی تکفیر صحیح نہیں ان کا یہ عقیدہ نہیں ہے مجھ کو خوب تحقیق ہو چکی ہے۔ ان کا ہر گز یہ عقیدہ نہیں چنانچہ بھائی مرحوم سے اس باب میں گفتگو ہوئی یہاں تک کہ بھائی صاحب خاموش ہو گئے۔ مولانا موصوف نے بڑے شدومد کے ساتھ یہی فرمایا کہ تکفیر کا مسئلہ چلے گا نہیں ان حضرات کا ہرگز یہ عقیدہ نہیں ہے جو ہمارا عقیدہ ہے وہی ان کا عقیدہ ہے یہاں تک کہ بقول مولوی حبیب الرحمن صاحب کے مولانا ظفر الدین صاحب نے مولوی سہیل صاحب کی جو مولوی اشرف علی صاحب کے مرید تھے۔ اقتداء میں نماز بھی ادا کی تھی۔
انکشاف حق ص 150
16۔ محدث اعظم ہند جناب مولوی سید محمد میاں صاحب کچھوچھوی نے جمعۃ المبارک کی نمازدیوبندی امام کے پیچھے پڑھی بریلوی علماء نے روکا بھی سہی مگر وہ خاموش رہے اور نماز ادا کر لی اس پر بگڑ کر مولوی حشمت علی قادری نے’’70 باادب سوالات‘‘ نامی کتاب لکھی۔
ملخص انکشاف حق ص 70،71
17۔ چوہدری نور احمد مقبول نقشبندی مجددی میرووالی لکھتے ہیں: (حضرت کرمانوالہ سرکار نے) مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور میں مولانا خلیل احمد رحمۃ اللہ علیہ صدرمدرس سے سند تکمیل حاصل کی۔
مخزن کرم ص 20
18۔ مولوی محمدا کرام صاحب بریلوی لکھتے ہیں:
مدرسہ مظاہر العلوم میں ان دنوں مولانا خلیل احمد رحمۃ اللہ علیہ مدرس تھے۔ وہاں سے تکمیل علم کی سند حاصل کرکے آپ نے دہلی میں مدرسہ مولوی عبدالرب میں داخل ہو کر شیخ الحدیث مولانا عبدالعلی قاسمی جیسے متبحر عالم سے دورہ حدیث کیا۔
معدن کرم ص 95
19۔ پروفیسر ڈاکٹر مسعود صاحب لکھتے ہیں: مولانا اشرف علی تھانوی صاحب 
فتاویٰ مظہریہ ص 446
دوسری جگہ لکھتے ہیں: مولانا اشرف علی تھانوی 
تذکرہ مظہر مسعود ص 450
20۔ تذکرہ تاجدار گولڑہ شریف مصدقہ عبدالحکیم شرف قادری و پیر نصیر الدین گولڑوی میں ہے: حضرت مولانا اشرف علی تھانوی 
ص 107
21۔ بریلویوں کی مستند زمانہ کتاب مہر منیر میں ہے: مولوی اشرف علی تھانوی جو ہر مسئلہ کو خالص شرعی نقطہ نظر سے دیکھنے کے عادی تھے۔
مہر منیر 268
22۔ خواجہ قمر الدین کے استاد مولانا معین الدین اجمیری لکھتے ہیں: حق تعالیٰ آپ کو فائز المرام کرے اورسلسلہ خیر آبادیہ کو آپ کے دم سے زندہ رکھے۔
باغی ہندوستان 238
حضرت نے یہ بات مولانا عبدالشاہد صاحب شیروانی کو لکھی ہے۔ شیروانی صاحب سلسلہ خیرآباد یہ کے چشم و چراغ مشہور و معروف تھے۔
وہ لکھتے ہیں: مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم۔
باغی ہندوستان ص 224
23۔ پیر مہر علی شاہ صاحب لکھتے ہیں: فرقتین اسماعیلیہ و خیر آباد میں سے شکر اللہ سعیہم راقم دونوں کو ماجور و مثاب جانتا ہے۔
فتاویٰ مہریہ ص 9
فرقہ اسماعیلیہ سے اشارہ اکابر دیوبند کی طرف ہے۔مزید لکھتے ہیں: میرے خیال میں فریقین از علماء کرام متنازعین اہل السنۃ و الجماعت سے ہیں آنحضرت کو بالاسماء المعظمہ واجب اور ضروری اعتقاد کرتے ہیں۔
آگے لکھتے ہیں: فریقین کو تحریر ہذا سنا کر آپس میں ملا دیں اور ایک دوسرے کو برا نہ کہیں۔
فتاویٰ مہریہ ص 5،6
24۔ پیر کرم شاہ بھیروی لکھتے ہیں:
اس باہمی و داخلی انتشار کا سب سے المناک پہلو اہل سنت و جماعت کا آپس میں اختلاف ہے۔ جس نے انہیں دو گروہوں میں بانٹ دیا ہے۔ دین کے اصولی مسائل میں دونوں متفق ہیں، اللہ تعالیٰ کی توحید ذاتی و صفاتی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و ختم نبوت، قرآن کریم، قیامت اور دیگر ضروریات دین میں کلی موافقت ہے۔
تفسیر ضیاء القرآن ج1، ص 11، طبع 1995
25۔ فاضل بریلوی نے حکیم الامت کو گالیوں میں مونث کہا تو خواجہ قمر الدین سیالوی کے استاذ خواجہ معین الدین اجمیری نے جواباً لکھا کہ
ان میں فحش اور سوقیت کے علاوہ حضرات علماء کرام کی غایت درجہ تحقیر و توہین بھی ہے کہ ایسے حضرات کو جو عبادالرحمن اور حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے وارث ہیں صاف لفظوں میں مونث کہا گیا ہے کہ جس کو سن کر بازاری و اوباش تک کانوں پر ہاتھ دھرتے ہیں۔
تجلیات انوار معین ص 36
26۔ تحریک منہاج القران والے لکھتے ہیں: جامعہ اشرفیہ کے مہتمم مولانا عبدالرحمن اشرفی ملک عبدالرؤف خطیب آسٹریلیا مسجد لاہور اور مفتی غلام سرورقادری نے ایک معاہدہ کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کاپی محفوظ ہے۔ ہم اپنے اپنے فکری تشخص بریلوی دیوبندی کو ختم کر کے صرف اہلسنت و جماعت کہلائیں۔
تحفہ اوکاڑویہ ص 26، ازحافظ ناصر قیوم خان
27۔ مفتی شوکت سیالوی صاحب لکھتے ہیں:
بدقسمتی سے پاکستان و ہندوستان میں اہلسنت و جماعت بریلوی و یوبندی دو گروپوں میں منقسم ہو گئے۔
قرآن اور ادارہ معارف القرآن ص13
28۔ جامع معقول و منقول مولانا نذیر احمدخان صاحب صدر مدرس مدرسہ طیبہ احمدآباد گجرات نے مولانانوتوی رحمۃ اللہ کے متعلق اپنی کتاب بوارق لامعہ میں ص34 پر علوم دینیہ کا ناشر اور ایک عالم کو علم دین کی طرف رہنما، اور مرحوم لکھا ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیے انکشاف حق ص 67،68، 69
29۔ سید تبسم شاہ صاحب لکھتے ہیں: تحذیر الناس شائع ہونے پر نظریاتی تصادم ابھر کر سامنے آ گیا اور اہل سنت کے دو حصے معرض وجود میں آ گئے۔
ختم نبوت اور تحذیر الناس ص84
30۔ یہی بخاری صاحب لکھتے ہیں:
ہمارے ملک کے اندر ایک پورا طبقہ علماء کا وجود میں آ چکا ہے یہ طبقہ دیگر تمام اعمال و عقائد میں پکا بریلوی ہے اور سنی بریلوی اجتماعات میں شرکت کرتا ہے اس طبقے کو بھی امام احمد رضا خان بریلوی کا یہ فتویٰ کفر قبول نہیں۔
جسٹس کرم شاہ کا تنقیدی جائزہ ص82
31۔ پیر نصیرالدین گولڑوی لکھتے ہیں:
ہمارے حضرت پیر مہر علی شاہ قدس سرہ کسی کلمہ گو کو کافر یا مشرک کہنے کے حق میں نہیں تھے اور نہ کبھی آپ نے کسی دیوبندی کو کافر اور مشرک قرار دیا۔
راہ ورسم ومنزل ص266
32۔ حکیم محمود احمد برکاتی لکھتے ہیں مولانا معین الدین اجمیری نے ایک استفتاء کے جواب میں کہا کہ حضرات شاہ اسماعیل ،مولانا محمد قاسم ، مولانا رشید احمد کافر ہیں ؟ تحریر فرمایا تھا کہ یہ حضرات مسلمان اور مسلمانوں کے پیشوا ہیں۔
مولانا حکیم سید برکات احمد سیرت وعلوم ص184
اسی جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ مولانا عبد الحق کے جید تلامذہ مولانا عبد العزیز، مولانا برکات احمد، مولانا نادرالد ین ، مولانا فضل حق رامپوری مولانا ہدایت علی بریلوی مولانا ماجد علی وغیرھم کسی سےمخالفین کی تکفیر ثابت نہیں۔ اگلے صفحے پر مولانا برکات احمد کا چشم دید واقعہ یوں لکھا ہے کہ والد ماجد مولانا حکیم دائم علی مولانا محمد قاسم کے خواجہ تاش تھے اس لیے ایک بار مجھے ان سے ملانے کے لیے دیوبند لے گےتھے جب ہم پہنچے تو مولانا چھتہ کی مسجد میں سو رہے تھے مگر اس حالت میں بھی ان کا قلب ذاکر تھا اور ذکر بھی بالجہر کر رہا تھا۔
مولانا حکیم سید برکات احمد سیرت وعلوم ص185