دو عظیم احسان …رمضان اور پاکستان

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
دو عظیم احسان …رمضان اور پاکستان
ماہنامہ بنات اہلسنت، اگست 2011ء
سلام اے صلح کامل کے مدرس

سلام اے عدلِ دائم کے موسس

آج سے 64برس قبل رمضان المبارک کی ستائیسویں شب تھی جب اہل اسلام کے لہو سے سیراب ہونے والی آزادی کی کونپل شجرسایہ دار بنی۔ 14اور15اگست کی درمیانی رات میں آل انڈیا ریڈیوپر ’’یہ ریڈیوپاکستان ہے‘‘کی آواز بلند ہوئی۔ مسلمانان ہند کے لیے یہ پرمسرت مژدہ نوید مسیحا سے کم نہ تھا، بیک وقت کئی نعمتیں ظاہر ہوئیں نعمت رمضان، نعمت آزادی، نعمت پاکستان، نعمت شب قدر اور دوسرے دن جمعۃ الوداع کی نعمت۔
پاکستان بنانے میں اہل اسلام نے قربانیوں کی جوداستان رقم کی ہے تاریخ کے اوراق پر ایسے سنہری باب کہیں نہیں ملتے۔ جہاں بچے یتیم ہو رہے ہیں، خواتین اپنے سہاگ کی بجائے بیوگی کے عصا سے سہارا لے کر چل رہی ہوں۔ بہادر نوجوان جرأت وہمت کے مجسمے بنے آزادئ وطن کے لیے اپنی جان کو ہتھیلیوں پر لیے میدان میں مسکرارہے ہوں۔
اس آزادی میں میرے اکابر علماء دیوبند نے جو مثالی قیادت کا کردار اداکیاہے۔ صبح قیامت تک پیدا ہونے والا مؤرخ اس کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔عوام الناس میں، خصوصا اہل اسلام میں علماء دیوبند نے آزادی کی وہ روح پھونکی جس کی وجہ سے آج ہم اس ملک میں ’’آزاد‘‘ ہیں……معاف کیجئے گا………میرا قلم اس آزادی کو قومین (’’ … ‘‘)کے درمیان لکھنے پر مجبور ہوگیا، ہم ’’آزاد‘‘ ہیں۔
ذرا سنیے ! کیسے آزاد؟…… خدائی احکامات سے ،فرامین رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ،تعلیمات اولیاء سے، ہمدردی اور ایثار سے، اخوت اورپیار سے، شرعی قوانین سے اور ہر اس چیز سے ’’آزاد‘‘ ہیں۔ جس پر پابندی اسلام کے لازمی فرائض میں شامل ہے۔ جسم ’’آزاد‘‘ اور دماغ ’’غلام‘‘ ہیں۔ زبان ’’آزاد‘‘ اور دل غیروں کے ہاتھ کامہرہ…
آپ بتلائیے! کیا اسی ’’آزادی‘‘ کے لیے ہمارے آباء واجداد خاک وخون میں تڑپ گئے؟؟ کیا اسی آزادی کے لیے مائیں اپنے دودھ پیتے بچے قربان کرتی رہیں ؟؟اور کیااسی آزادی کے لیے ہم الگ وطن حاصل کرتے رہے ؟؟……ہونہہ۔تف ہے ایسی آزادی پر! اور ایسے آزاد لوگوں پر جنہوں نے اسلاف کے مدفن بیچ کھائے ہیں۔ ہاں! ہم آزاد اس لیے ہوئے تھے کہ
پاکستان کا مطلب کیا… لاالہ الااللہ
یہاں پر اسلام کا بول بالا کریں گے، آزدی کے ساتھ عبادات بجا لائیں گے، اخوت ومحبت کی نیّا میں سوارہوکر دل کے ارمان پورے کریں گے۔مگر……
خیر!کوئی بات نہیں…ہم مایوسی کے مرض میں مبتلا نہیں…بلکہ مبتلا شدہ لوگوں کو اس مرض سے چھٹکارا دلاتے ہیں…ہم پورے عزم اور ارادے کے ساتھ اس وقت بھی وطن عزیز میں امن وسلامتی کے لیے ہر وقت سرگرم ہیں۔ اللہ گواہ ہے یہ ملک ہم نے بنایاتھا ہم ہی بچائیں گے۔
انگریز ہم سے بدلہ لینے پر مصر ہے اوراندرون خانہ وہ ہم میں خانہ جنگی کرانا چاہتا ہے وہ ہمیں فرقہ واریت کی آگ میں دھکیلنا چاہتا ہے لیکن ہم اپنے اسلاف کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اسلاف کے دامن سے وابستہ رہیں گے۔
ہاں! وہ لوگ ضرور اس فرقہ واریت کا شکار ہوں گے جو اکابر امت پر اعتماد نہیں کرتے۔ اعتماد تو کجا! ان پر سب وشتم کرنا اپنا ’’ایمانی فرض ‘‘ سمجھتے ہیں اللہ تعالی ہم سب کو اہل حق کے ساتھ وابستہ ہونے کی توفیق دے۔
دوسری عظیم نعمت رمضان المبارک ہے اس ماہ مقدس میں اہل اسلام کثرت سے پابندی صوم وصلوٰۃ ، تلاوت قرآن کے ساتھ ساتھ عمرے کی ادائیگی ،صدقہ وخیرات رواداری، مروت، رحمدلی، بھائی چارگی، وغیرہ پر عمل پیراہوتے ہیں۔
اس بار پھر رمضان اپنی برکات کے ساتھ ساتھ آزادی وطن کی یادگاریں لا رہا ہے۔ جہاں ہمیں شکرانِ نعمت کے لیے خدا کے حضور سجدہ ریز ہونا ہو گا وہاں اس بات کاعزم بھی کرنا ہوگا کہ وطن عزیز کی سا لمیت اور بقاء کے لیے نفاذ اسلام کے لیے ہم ہر وقت مستعد ہیں۔ ان شاء اللہ
والسلام
محمد الیاس گھمن
علم کے مسافر…رواں دواں رواں دواں
ماہنامہ بنات اہلسنت، اگست 2011ء
علم خدا کی معرفت اور تجلی کانام ہے، اسی کے بل بوتے انسان اور حیوان میں فرق کیاجاسکتاہے اسی کے طفیل انسان شرف ’’مسجودِملائک‘‘کو پالیتاہے اور علم… علم دین… سے دوری انسان کو أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَل کامصداق بنا دیتی ہے۔علم دین میں بنیادی مرکزی اور اساسی اہمیت حاصل ہے عقائد ونظریات کو پھر درجہ بدرجہ مسائل واحکام کو۔ باقی علوم مثلا گرائمر، صرف، نحو، منطق، فلسفہ وغیرہ یہ علوم نبوت کے خادم ہیں۔
سارا سال دینی مدارس میں علوم نبوت کی تحصیل کے کوشاں مقتدایان امت مرحومہ علماء کرام مصروف رہتے ہیں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سالانہ امتحانات کے فوراً بعد مرکز اھل السنت والجماعت87جنوبی سرگودھا میں12روزہ دورہ تحقیق المسائل (از 9 جولائی تا 21 جولائی 2011ء) کا انعقادکیا گیا تھا۔ مرکز کے حضرات ااساتذہ کرام نے اس سے قبل اس پر طویل مشاورت سے راقم کو اہم امور کی جانب متوجہ کیا جس پر راقم تمام حضرات کا تہ دل سے شکر گزار ہے۔
ملک بھرسے 180کے لگ بھگ علماء کرام مرکز اھل السنۃ والجماعۃ87جنوبی سرگودھا دورہ تحقیق المسائل کے لیے تشریف لائے علاوہ ازیں alittehaad.org ، ahnafmedia.com اور دیگر مختلف ویب سائیٹس پر مکمل اسباق براہ راست نشر کیے گئے۔
احناف میڈیا سروس کے ذمہ داران مولانا عابد جمشید ، مولانا محمد کلیم اللہ اور ان کے ساتھیوں نے لاہوردفتر احناف میڈیا سروس سے ہی اسے کنٹرول کیا۔ الحمد للہ ملک بھر اور زیادہ تر بیرون ممالک کے پڑھے لکھے افراد اس پروگرام سے براہ راست مستفید ہوتے رہے۔
آخر میں راقم اپنے آنے والے مہمانان گرامی خصوصا حضرات اساتذہ کرام امیراتحاد اھل السنۃ والجماعۃ پاکستان مولانا منیر احمد منور ، مولانا شفیق الرحمن امیر اتحاد اھل السنۃ والجماعۃ پنجاب ، مولاناعبدالشکور حقانی امیر اتحاد اھل السنۃ والجماعۃ لاہور ڈویژن، مولانامحمد رضوان عزیز، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی قائد مولانااللہ وسایا ، مولانا مفتی شبیر احمد ، مولانامحمد اکمل ، مولانامحمد عاطف معاویہ اور تمام شرکاء کورس کا شکریہ ادا کرتا ہے جنہوں نے اپنی گوناگوں مصروفیات میں عقیدے اور نظریے کی محنت کو ترجیح دی۔
والسلام
محمد الیاس گھمن
گنبد خضراء کا سایہ
ماہنامہ بنات اہلسنت ،ستمبر ،اکتوبر 2011ء
عاشق رسول سید انور حسین نفیس شاہ صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

تیری رحمت، تیری شفقت سے ہوا مجھ کو

نصیب

گنبد خضرا کا سایہ میں تو اس قابل نہ تھا

راقم اپنے گناہوں کی گٹھری لیے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو حاضر ہوا۔ اپنی ذات…اور سید کونین کے حضورہونے کا احساس دامن گیرہوا تو صلوٰۃ وسلام عرض کرتے ہی بے ساختہ میری زبان پر حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کا ایک اور شعر آگیا کہ
بارگاہ سید کونین صلی اللہ علیہ وسلم میں آ کر نفیس

سوچتا ہوں، کیسے آیا؟ میں تو اس قابل نہ تھا

اپنی کم مائیگی کے باوجود رحمۃ للعالمین کے حضورخود کو پاکر…میں بتلا نہیں سکتا کہ وہ کیفیت کیسی تھی ؟ آج ایک گناہ گار امتی اپنے شفیق اور محسن نبی کے دروازے پر تحفہ صلوٰۃ وسلام لیے کھڑاہے۔ سچ کہا جس نے بھی کہا:
تیری جالیوں کے نیچے تیری رحمتوں کے سائے

جسے دیکھنی ہو جنت وہ مدینہ دیکھ آئے

ہمارا عقیدہ ہے کہ
’’ما بین بیتی ومنبری روضۃ من ریاض الجنۃ‘‘
آقا علیہ الصلوۃ والسلام جہاں مدفون ہیں اس جگہ کا درجہ کعبۃ اللہ عرش وکرسی سے بھی بلند ہے۔ جوق در جوق ساری دنیا سے خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کے پروانے رنگ ونسل کے امتیاز کو بھلائے، ذات پات کے جھمیلوں سے کہیں دور، شاہ وگدا سب ایک ہو کر اپنے آقا علیہ السلام کے حضور ہدیہ صلوۃ وسلام پیش کررہے تھے۔ میرا دل ان حرمان نصیب لوگوں پر رحم کھا رہا تھا جو اتنی بڑی اور واضح حقیقت کو جھٹلاتے ہیں اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر برستی نورانی تجلیوں کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ اہل السنۃ والجماعۃ میں خود کو شمار کرنے کے باوجود ، احناف سے خود کو منسلک کرنے کے باوجود اور علماء حقہ علماء دیوبند سے اپنی نسبتیں استوارکرنے کے باوجود بھی نبی علیہ السلام کے مبارک جسم کو مدینہ والی قبرمیں زندہ تسلیم نہیں کرتے ؟
یہ لوگ مدینہ حاضر ہوکر اور نبی علیہ السلام کو قبر میں بے جان سمجھ کر درود کیسے پڑھتے ہوں گے ان کو درود پاک پڑھنے میں کیسے لذت آتی ہو گی؟ کونسی لذت؟؟ جب دل ودماغ میں آقا علیہ السلام کے بارے میں یہ بات سما چکی ہوکہ یہاں قبر انور میں وہ زندہ نہیں ہیں تو آپ بتلائیے کیسا صلوٰۃ وسلام اور کیسی لذت!
خیر!آج میرے سامنے شاہ خیرالوری کا روضہ ہے وہ چمکتی دمکتی جالیاں وہ شیخین کریمین شریفین کے جلو میں رسالت مآ ب صلی اللہ علیہ وسلم کا جلوہ… اللہ ھو اللہ! اس کیفیت میں محبت رسول مزید رچتی بستی نظر آرہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ دل چاہتاہے کہ اپنے آقا کو امت مرحومہ کے دکھڑے سناؤں، اہل حق کے ساتھ روا ظلم کی داستانوں کے باب کھولوں، فتنوں اور گمراہیوں کی دلدل میں دھنسی امت کی زبوں حالی کے تذکرے شروع کروں، لبوں پر صلوٰۃ وسلام کے زمزمے ہیں، دل آہوں کے پردرد نالوں سے معمور ہے…اور ہچکیاں بندھی ہوئی ہیں بس دل چاہ رہاہے کہ
روضے کے سامنے یہ دعائیں مانگتا تھا

میری جان نکل تو جائے یہ سماں بدل نہ جائے

اس شام کی سحر …اے کاش کبھی نہ ہو جس میں؛ میں گنبد خضراء کے سایہ عاطفت میں پناہ گزیں ہوا…حکیم الاسلام قاری محمد طیب مرحوم کا کلام میری آہوں کے ساتھ ہی زبان سے صادر ہو رہاتھا:
عجب مشکل میں کارواں ہے نہ
کوئی جادہ نہ پاسبان ہے
بشکل رہبر چھپے ہیں راہزن تمہی ذرا انتقام لے لو
 
اللہ اکبر! اگر میں اپنی رقت آمیزی کا تذکرہ زیادہ کروں اندیشہ ہے تصنع سمجھا جانے لگے لیکن واللہ بخدا دکھلاوا نہیں یہ تو میری اس وقت کی وہ حالت جس کو میں ہزار کوشش کے باوجود بھی نوک قلم پر نہیں لا سکتا، جب کبھی آنسوؤں کو پونچھتا ہوں تو پلکوں کے ورے سے ندامت ومحبت کے آنسو کی ایک اور لہرامڈ آتی ہے مولاناحالی کا کلام بھی میرے لبوں پر آرہاتھا۔
اے خاصئہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑاہے
ہم نیک ہیں یا بد ہیں پھر آخر ہیں تمہارے

نسبت بہت اچھی ہے…اگر حال برا ہے

چشم نم تربتر تھی، میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم! آج تیرے ماننے فرقہ واریت کی آگ میں جُھلس رہے ہیں، آج تیری ردائے ختم نبوت کو چرانے والے کھلے عام اسلام کا حلیہ مسخ کررہے ہیں۔ آقا !اب تیری امت میں وہ بد نصیب بھی پیدا ہوچکے ہیں جو تیرے فرامین ذی وقار کو حجت نہیں مانتے۔ آقا! تیرے اصحاب کے دشمن بھی دو حصوں میں بٹ چکے ہیں ایک اصحاب کی ذات کو نہیں مانتے دوسرے تیرے اصحاب کی بات کو نہیں مانتے، تیرے سچے جانثاروں پر الزامات کے طومار باندھے جارہے ہیں۔ آقا!جن لوگوں نے تیری اتباع کی وجہ سے مقام ولایت حاصل کیاتھا، آج ان کا نام لے لے کر انہیں گالیاں دی جارہی ہیں۔
آقا! خانہ خدا کو چھوڑ کر تیری امت میلوں ٹھیلوں پر’’روح کی غذا ‘‘تلاش کر رہی ہے۔آقا! تیری امت !ننگ دھڑنگ قسم کے اوباش لوگوں کو اپنا مقتداء سمجھ بیٹھی ہے۔جعلی پیر اور بہروپیے؛ اولیاء اللہ کا روپ دھارے اہل اسلام کے ایمان کو لوٹ رہے ہیں۔ جبے ودستار کی چکاچوند ’’تجلیوں‘‘ سے لوگوں کے ایمان کے چراغ گل کر رہے ہیں۔ ایک ایسے اسلام کو جس میں ڈاڑھی اور پردہ سے لے کر اسلامی حدود وقصاص تک کو فرسودہ کہا جارہا ہے یعنی’’ ماڈرن اسلام‘‘ کو نافذ کرنے والے دانشورصبح وشام اپنی توانائیاں خرچ کر رہے ہیں۔
ہر سو خوف و وحشت ہے شرک کی طوفان خیز آندھیاں اس زور سے چل پڑی ہیں کہ اس نے صحیح غلط کی پہچان ایک آزمائش بن چکی ہے۔ آقا! آج تیری امت بد اعمالیوں میں مسلسل آگے بڑھ رہی ہے اورسود، رشوت، جھوٹ، والدین کی نافرمانی، زنا ، غیبت، شرک،ترک صلوۃ، چغلی، بدخواہی وغیرہ جیسی مہلک امراض کا شکار ہورہی ہے۔ آقا ! آج تیری امت کے دولت مند؛ غریب کے منہ کا نوالہ چھین کر اپنے پیٹ پال رہے ہیں۔ آقا! حق بات کہنا سننا جرم کی حیثیت رکھتاہے۔ آقا ! آج آپ کے اور آپ کے بھائیوں (انبیاء کرام) کے ورثاء بہت کڑے امتحان میں ہیں۔ آقا ! ہماری سفارش فرمائیے۔
آقا! اپنے اللہ کے حضور دعا کریں کہ آپ کی امت پھر سے متحد ہو جائے، اسلام کو غلبہ حاصل ہوجائے، بدعت کی ظلمت ختم ہواورسنت کا نور عام ہوجائے۔ آقا! میں تیرا ایک ادنیٰ امتی رحم کی امید لیے دست بستہ کھڑا ہوں۔ آقا! میرے لیے بھی دعا فرمائیے کل قیامت کو میرے لیے شفاعت بھی فرمائیے گا آقا !آقا !آقا !میں اس قابل تونہیں تھا کہ تیرے دربارمیں حاضر ی کی سعادت حاصل کرتا لیکن

تیری رحمت تیری شفقت سے ہوا مجھ کو

نصیب

گنبد خضرا سایہ، میں تو اس قابل نہ تھا

والسلام
محمد الیاس گھمن