تعلیمِ نسواں مغرب اور اسلام کا نظام تعلیم

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تعلیمِ نسواں! مغرب اور اسلام کا نظام تعلیم…… ایک تجزیہ
رُت ہی بدل گئی ہے ، معیار بدل گئے ہیں ، انداز بدل گئے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ افکار بدل گئے ہیں۔ نبئِ برحق حضرت خاتم الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی صبح تک مسلمان کو دنیابہتر بنانے اور آخرت سنوارنے کے جو اصول اور قوانین عطا فرمائےتھے ہم ان اصولوں اور قوانین کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
آپ کی تعلیمات میں صرف آخرت کی ہی نہیں دنیا کی کامیابیاں بھی مضمر ہیں۔
اسلام محض چند ارکان کی ادائیگی ہی کا نام نہیں جسے کچھ وقت کے لیے اپنا کر اس کے دائرے سے نکلا جائے بلکہ یہ اس مجموعے کا نام ہے جس میں اعتقادات ، عبادات ، معاشرت ، معاملات ،کامیاب زندگی اور روشن مستقبل اخروی فلاح پنہاں ہے۔ جب تک اسلام کی روح کو نہیں سمجھا جائےگا اس وقت تک ہم بحیثیت قوم ترقی نہیں کر سکتے۔ ہماری تمام تر ترقیات اسلام کے دامن سے وابستہ ہیں۔ اس حوالے سے ہمیں سیرت مطہرہ سے رہنمائی لینے کی ضرورت ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات پر عمل پیرا ہوئے بغیر کامیاب زندگی محض سراب ہے جس سے آج کا مسلمان دھوکے کا شکار ہورہا ہے۔ اگر انسانیت کی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ جب سے اللہ تعالی نے انسانیت کو وجود بخشا اسی وقت سے مرد و عورت لازم و ملزوم کی حیثیت سے برابر چلے آرہے ہیں۔ مرد کو اللہ تعالی نے خارجی امور کا ذمہ دار قرار دیا اور عورت کو امور خانہ داری کے فرائض سونپے۔ مرد گھر سے باہر کے تمام معاملات کا نگہبان ہے اور عورت کو گھر کے اندرکے سارے امورتفویض ہوئے ہیں۔ چونکہ مرد وزن دونوں ہی معاشرے میں اپنی اپنی الگ الگ حیثیت کے حامل ہیں اس لیے دونوں کو آفاقی و سماوی ہدایات و احکامات کا مکلف بنایا گیا ہے۔ احکام اسلامیہ پر عمل دونوں کے لیے ضروری ہے۔
اب دوسری طرف یہ بات اپنی جگہ پر مسلم ہے کہ عمل کا مدار علم پرہے۔ علم صحیح ہو گا تو عمل بھی درست ہوگا اور اگر علم صحیح نہ ہوا تو عمل بیکار ہوگا۔ اس تناظر میں جیسے مرد کی تعلیم اس کی ضرورت ہے ایسے ہی خاتون کی تعلیم بھی اس کی زندگی کا جزو لاینفک ہے۔ اگر مرد تعلیم کے حصول کے بغیر زندگی گزارے گا تو معاشرے کے لیے وبال جان اور سراسر خسارے اٹھانے والا ہوگا۔ اسی طرح اگر عورت تعلیم حاصل نہیں کرے گی تو زمانے پر بوجھ بنے گی۔ معلوم ہوا کہ مرد کی طرح عورت کی تعلیم بھی ناگزیر ہے۔ یہاں تک تو سب اس پر متفق ہیں ،اس سے آگے جھگڑا شروع ہوتا ہے۔ اسلام کے نظام ِتعلیم میں عورت کی محض تعلیم ہی نہیں بلکہ اس کے حیاء ، تقدس اور عزت و شرافت کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے کہ یہ تعلیم تو بہر حال حاصل کرے ہی لیکن اسلام کے مقرر کردہ دائرے کے اندر رہتے ہوئے ، ایسی تعلیم جس سے اس کی دنیا بھی سنور جائے اور آخرت بھی۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے خواتین کی تعلیم کے سلسلے میں صحیح بخاری میں باب قائم کیا ہے باب عظة الامام النساء وتعلیمہنّ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تعلیم و تربیت سے نوازے ویسے ہی صحابیات کے درمیان بھی تعلیم و موعظت فرمایا کرتے تھے۔
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ اور منہج کو دیکھتے ہوئے شارحین حدیث یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اسلام میں خواتین کی تعلیم ضروری ہے لیکن حصولِ تعلیم کے وقت اس بات کا بخوبی جائزہ لینا چاہیے کہ جو امور اسے زندگی میں پیش آتے رہتے ہیں انہی امور کی تعلیم سے آراستہ کرنا چاہیے۔ یعنی لکھنا پڑھنا ،عقائد و اعمال کی اصلاح ، تہذیب و شائستگی ، وہ علوم جن پر دنیوی و اخروی فلاح و کامیابی منحصر ہے ، تربیت اولاد ، اطاعت زوج اور حقوق العباد وغیرہ۔
دیگر کتب حدیث میں اس بارے میں بکثرت روایات موجود ہیں معجم کبیر طبرانی میں ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادکچھ اس طرح ہے: جو شخص اپنی بیٹی کو خوب اچھی طرح تعلیم دے اس کی اچھی تربیت کرے اور اس پر دل کھول کر خرچ کرے تو (یہ بیٹی کل قیامت کے دن) اس کے لیے جہنم سے نجات کا ذریعہ ہوگی۔ اس حدتک تو اسلام کے نظام تعلیم میں خواتین کے حصول علم کی اجازت اور ضرورت ثابت ہے۔
باقی رہا مغرب کا نظام تعلیم اور خواتین کا مسئلہ!یہ ایک غور طلب پہلو ہے اور لمحہ فکریہ ہے کہ مغرب لیبل تو خواتین کی تعلیم کا لگاتا ہے لیکن در حقیقت وہ مخلوط نظام تعلیم کے فروغ کے لیے سرگرم ہے۔ مغرب کے نظام تعلیم میں خواتین کو سراسر مشکلات کا سامنا ہے ،جس میں عورت کی سب سے اہم امتیازی شان حیاء اور عفت ختم ہوجاتی ہے۔ وہ اپنی عزت سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے ، مغرب کے نظام تعلیم میں اصلاح عقائد و اعمال تو رہے ایک طرف اس میں نہ تو اسلامی کلچر کی کوئی جھلک ہے ، نہ ہی انسانی تہذیب و تمدن کے کوئی آثار ، امور خانہ داری کا کوئی سبق ہے اور نہ گھریلو نظام زندگی کو بہتر بنانے کا کوئی فارمولہ۔
تربیت اولاد کے بارے میں کوئی ہدایات ملتی ہیں اور نہ خوشحال ازدواجی زندگی کی کوئی ضمانت۔ اس لیے اسلام کی بیٹیوں کو اسلام کے دامن سے ہی وابستہ رہنا چاہیے ، تاکہ ان کی دنیا بھی سنور جائے اور آخرت بھی۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
نونہالانِ قوم……تعلیم اور تربیت
31 مارچ کو عصری اداروں میں سالانہ امتحانات کے نتائج کا اعلان ہوتا ہے بچوں کے ٹیچرز اور والدین اپنے نونہالوں کی سال بھر کی محنت کا اندازہ لگاتے ہیں کامیاب ہونے والے بچوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور کمزور بچوں میں حوصلہ پیدا کیا جاتا ہے ، آئندہ سال کے لیے اسے مزید محنت اور پاس ہونے کا ٹاسک دیا جاتا ہے۔
ذہن سازی کے مرحلے میں محنت اور دل لگی سے پڑھائی کرنے پر زور دیا جاتا ہے ، بچے کو پوزیشن ہولڈر بنانے کے لیے اسکول کے علاوہ مختلف محنتی اور لائق اساتذہ کی زیر نگرانی چلنے والے ٹیوشن سنٹرز اور اکیڈمیز کا انتخاب بھی کیا جاتا ہے۔ یا کم از کم کلاس پاس کرانے میں ٹیچرز اور والدین خوب توجہ دیتے ہیں۔ یہ تمام اقدامات خوش آئند ہیں ، لیکن ایک بات جس کی بحیثیت قوم کوشش نہیں کر پا رہے یا پھر یوں سمجھ لیجیے کہ ہم اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہو پارہے وہ ہے تربیت۔
تربیت کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں بہت سستی پائی جا رہی ہے ، اکثر والدین تو اپنے کاروبار زندگی میں اتنے مصروف ہو گئے ہیں کہ ان کے پاس اپنے بچوں کو سمجھانے بجھانے کا” وقت“ ہی نہیں۔ ایسے والدین کی خدمت میں گزارش ہے کہ اپنے بچوں کے مستقبل کو برباد ہونے سے بچائیں ، بچوں کو تربیت کے لیے وقت دینا آپ کا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے۔ جس میں کوتاہی کرنا اخلاقا و شرعا جرم ہے۔
ماضی قریب تک دیکھ لیجیے کہ ہمارے آباء و اجداد نے ہمیں پالا پوسا بھی ہے اور ہماری تربیت میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہمیں بھی کوشش کرنی چاہیے کہ مستقبل میں قوم کی امانت کو صحیح معنوں میں علمی ، عملی اور اخلاقی اقدار کا حامل بنائیں۔ اس حوالے سے بچوں کوجیسے حب الوطنی کے جذبے سے سرشار کرنے کی ضرورت ہے اس طرح بلکہ اس سے کہیں زیادہ انہیں اطاعت نبوی کا خوگر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ انہیں سائنس، جدید ٹیکنالوجی ، معاشیات ،طب وغیرہ سے بھی روشناس کرائیں اور قرآن ، سنت اور فقہ سے بھی بہرہ ور بنائیں۔ ان باتوں سے آگاہی بھی کرائیں جن کی بدولت معاشرے میں امن و امان، راحت،سکون اور شعور نصیب ہوتا ہےاور معاشرے میں ایک بااخلاق ، سنجیدہ ، محب وطن اور نیک سیرت انسان وجود میں آتاہے۔ المیہ یہ ہے اکثر والدین؛ بچوں کی دینی اور اخلاقی تربیت میں غفلت برتتے ہیں،دینی احکام بالخصوص عبادات نماز ، روزہ ، زکوٰۃ وغیرہ ، تلاوت قرآن ، صوم وصلاۃ کی پابندی کرانااور اخلاقیات میں بری سوسائٹی سے اپنے بچوں کو دور کرنا ضروری ہے اور انہیں نیک صحبت میسر کرانا کسی اللہ والےسے اخلاقی تربیت دلانا ضروری ہے تاکہ یہ غلط کاموں اور بری باتوں سے بچ جائے۔
جب ہم اپنی اولادوں کو نیکی کی طرف رغبت نہیں دلائیں گے تو نتیجہ بعد میں بھگتنا پڑے گا۔ یہی بچے کل کو والدین کا سہارا بننے کی بجائے ان کے لیے وبال جان بن جاتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ دینی تعلیمات، اخلاقی اقدار اور اسلامی شعائر کو اجنبیت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
سالانہ نتائج یا نئے سال کے داخلوں کے شروع ہونے کی تقریبات اور گاہے بگاہے عصری اداروں میں فنکشنز کے موقعوں پر ٹیچرز کو اور گھروں میں والدین کو اپنے بچوں کی اسلامی ، دینی اور دنیاوی تربیت کرتے رہنا چاہیے۔ تاکہ قوم کا مستقبل اپنے ملک اور والدین کا نام روشن کرے اور دنیوی و اخروی کامیابیوں سے بھی ہمکنار ہو۔ اللہ پاک ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین بجاہ النبی الامی الکریم۔