پارہ نمبر: 1

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
پارہ نمبر: 1
سورۃ الفاتحہ
قرآن کریم سورۃ فاتحہ اور تیس پاروں کے مجموعے کا نام ہے۔ فاتحہ
فَتْحٌ
سے ہے
فَتْحٌ
کا معنی "کھولنا"ہے۔ چونکہ اس سورۃ سے قرآن کریم کو کھولا جارہا ہے، اس لیے اس سورۃ کا نام سورۃ فاتحہ ہے۔ اس سورۃ کا ایک اور معروف و مشہور نام ام الکتاب، ام القرآن (قرآن کریم کا خلاصہ) بھی ہے۔
خلاصہ قرآن کریم:
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے چھ مضامین کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے:
توحید رسالت
قیامت احکام
ماننے والے نہ ماننے والے
اور ان چھ مضامین کا خلاصہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں بیان فرمایا ہے۔
﴿اَلۡحَمۡدُ لِلہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۲﴾﴾
میں توحید کو بیان فرمایا۔
﴿ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۳﴾﴾
میں قیامت کو بیان فرمایا۔
﴿ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾﴾
میں احکامات کو بیان فرمایا۔
﴿صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۙ﴾
میں رسالت اور ماننے والوں کو بیان فرمایا۔
﴿ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾﴾
میں نہ ماننے والوں کو بیان فرمایا۔
ماننے والوں کے لیے ایک ہی قسم کا لفظ "
الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ
" لائے ہیں۔ اور نہ ماننے والوں کے لیے دو لفظ الگ الگ لائے ہیں:
مغضوب ضال
جو شخص ضد، انا اور تکبر کی وجہ سے نہ مانے وہ مغضوب میں شامل ہے جیسے یہود، اور جو لاعلمی و جہالت کی وجہ سے نہ مانے وہ ضال میں شامل ہے، مثلاً نصاریٰ۔
انعام یافتہ چارطبقات:
﴿اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾﴾
اے اللہ! ہمیں صراط مستقیم پر چلا۔ یعنی ان لوگوں کے راستے پر چلا جن پر تو نے انعام فرمایااور وہ چار ہیں :انبیاءکرام علیہم السلام۔ صدیقین۔ شہداءاور صالحین۔
گمراہ اور مغضوب طبقہ:
﴿غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾﴾
گزشتہ آیت میں ہم نے دعا مانگی تھی کہ اے اللہ!ان کے راستے پر چلا جن پر تو نے انعام فرمایا۔ اب یہاں سے گمراہ اور مغضوب سے بچنے کی درخواست کی جارہی ہے۔ اے اللہ! ان سے بچا لے جن پرتیر ا غضب ہے اور جو گمراہ ہوئے۔
"مغضوب"
سے مراد یہود
"ضالین"
سے مراد نصرانی، عیسائی ہیں۔
سورۃ البقرہ
"بقرۃ" عربی زبان میں گائے کو کہتے ہیں چونکہ اس سورۃ میں گائے کا ذکر اور واقعہ بیان کیا گیا ہے اس لیے اس سورۃ کو سورۃ البقرہ کہتے ہیں۔
حروف مقطعات :
﴿الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾﴾
اس سورۃ کا آغاز حروف مقطعات سے ہوتا ہے:
﴿الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾﴾
مقطعات
مُقَطَّعَۃ
کی جمع ہے اور یہ
قَطْعٌ
سے مشتق ہے جس کا معنی کاٹنا ہے چونکہ ان میں سے ہر حرف کو الگ الگ یعنی کاٹ کر پڑھا جاتا ہے جیسے الف، لام، میم اس لیے ان حروف کو حروفِ مقطعات کہتے ہیں۔
سورہ بقرہ کا آغاز
الٓـمّٓ
سے کیا جارہا ہے اس کا معنی اللہ کی ذات کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ، اس کی بنیادی حکمت تو قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کو بیان کرنا ہے کہ تین حروف پر مشتمل ایک لفظ جو کہ ایک آیت بھی ہے، سارے عرب باوجود فصاحت وبلاغت کے اس ایک آیت کا مقابلہ بھی نہیں کرسکے۔
اور چونکہ اس کا معنی دنیا میں جانتا ہی کوئی نہیں تو اس کے ذریعے یہ بھی سمجھانا مقصود ہے کہ قرآن کریم کے اسرار ورموزاسی شخص پر کھل سکتے ہیں جو اپنی عاجزی، اللہ تعالیٰ کی طاقت و قدرت اور اللہ تعالیٰ کے علم کا اعتراف کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قدرتِ الہی کا صحیح معنوں میں ادراک کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
اہلِ ایمان کے اوصاف:
﴿الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ وَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ۙ﴿۳﴾﴾
ایمان والوں کی چند ایک صفات کا ذکر فرمایا:
وہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں، یعنی جن چیزوں کو وہ نہیں دیکھ سکتے جیسے جنت وجہنم وغیرہ اور جن کی حکمت وہ نہیں سمجھ سکتے ان پر بھی ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ و صدقات ادا کرتے ہیں،قرآن کریم اور دیگر تمام آسمانی کتابوں پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔
منافقین کے اوصاف:
﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللہِ وَ بِالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ مَا ہُمۡ بِمُؤۡمِنِیۡنَ ۘ﴿۸﴾﴾
پھر منافقین کے اوصاف کا ذکر فرمایا:
وہ دھوکہ دیتے ہیں، زمین میں فساد کرتے ہیں، قلبی بیماریوں حسد، تکبر اور حرص میں مبتلا ہیں۔ احکام الہی اور ایمان والوں کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے منافقین کی دو مثالیں بیان فرمائی ہیں۔
حضرت آدم علیہ السلام کی خلافت:
﴿وَ اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً ﴿۳۰﴾﴾
حضرت آدم علیہ السلام کی خلافت کا ذکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلا شخص جس کو اپنا خلیفہ بناکر دنیا میں بھیجا وہ حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔
بنی اسرائیل کا تذکرہ اور انعاماتِ خداوندی:
﴿یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتِیَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ وَ اَوۡفُوۡا بِعَہۡدِیۡۤ اُوۡفِ بِعَہۡدِکُمۡ ۚ وَ اِیَّایَ فَارۡہَبُوۡنِ ﴿۴۰﴾﴾
بنی اسرائیل میں کثرت سے انبیاء علیہم السلام مبعوث ہوئے۔ ان کو دنیاوی خوشحالی دی گئی۔ فرعون کی غلامی اور مظالم سے نجات دی گئی۔ ان کےلیے وادی سینا میں آسمان سے مَنْ اور سَلوی ٰ اتارا گیا۔ سائے کےلیے بادلوں کا انتظام فرمایا گیا۔ پتھر سے پانی کے بارہ چشمے جاری فرمادیے گئے۔ وغیرہ
انعاماتِ خداوندی کی ناشکری:
بنی اسرائیل نے حق کو چھپایا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کیا۔ بچھڑے کی عبادت میں مبتلا ہوئے۔ انبیاء علیہم السلام کو ناحق قتل کیا۔ عہد شکنی کی۔ کلام اللہ میں لفظی و معنوی تحریف کی۔ بغض وحسد کی بیماری میں مبتلا ہوگئے۔ دنیاوی مال واسباب سے بے حد محبت ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتوں سے دشمنی رکھتے تھے۔ برے اعمال کے باوجود وہ دعویٰ کرتے تھے کہ جنت میں صرف یہود جائیں گے۔ یہی بات نصاریٰ بھی کہتے تھے۔
قاتل معلوم کرنے کا عجیب طریقہ:
﴿وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖۤ اِنَّ اللہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تَذۡبَحُوۡا بَقَرَۃً ﴿۶۷﴾﴾
پھر اس معروف واقعہ کا ذکر ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص قتل ہوگیا۔ قاتل نہیں ملتا تھا۔ یہودیوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ ہمیں قاتل کا پتہ بتادیں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا گائے ذبح کرو اور ذبح شدہ گائے کے گوشت کا ٹکڑا مقتول کے جسم کے ساتھ لگاؤ تو وہ زندہ ہوکر قاتل کا نام بتائے گا۔
گائے ذبح کرنے کی حکمتیں:
اس سے قاتل کی نشاندہی ہوئی۔ یہود کا ایک گروہ بعث بعد الموت کا منکر تھا اس سے ان پر حجت تام ہوئی۔ بچھڑے کے ساتھ جو عقیدت و محبت تھی اس کا رد ہوا۔
ہاروت ماروت کا قصہ:
﴿وَ مَاۤ اُنۡزِلَ عَلَی الۡمَلَکَیۡنِ بِبَابِلَ ہَارُوۡتَ وَ مَارُوۡتَ ؕ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنۡ اَحَدٍ حَتّٰی یَقُوۡلَاۤ اِنَّمَا نَحۡنُ فِتۡنَۃٌ فَلَا تَکۡفُرۡ ؕ﴿۱۰۲﴾﴾
ہاروت و ماروت کا قصہ بیان کیا۔ یہ دو فرشتے تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں سحر اور جادو کی تعلیم دے کر بابل کے مقام پر اتارا۔ یہ ایک آزمائش تھی کہ کون جان بوجھ کر کفر اختیار کرتا ہے۔ اور اس لیے بھی کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی وحی اور جادو میں فرق کر سکیں کہ جادو کیا ہے اور اللہ تعالی کی وحی کیا ہے۔
یہود کی شرارت کھل گئی:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقُوۡلُوۡا رَاعِنَا وَ قُوۡلُوا انۡظُرۡنَا وَ اسۡمَعُوۡا وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۱۰۴﴾﴾
اس آیت میں یہود کی ایک گستاخانہ شرارت سے مسلمانوں کو آگاہ کیا جارہا ہے۔ اور ساتھ ہی اہل ایمان کو بھی ایک چیز کی تعلیم دی جاری ہے۔ یہود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کرتے
" رَاعِنَا "
یہ عبرانی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی ہے ہماری رعایت فرمائیے۔ لیکن عربی میں
"رَاعِیْنَا "
کا معنی ہے "ہمارے چرواہے"تو یہود محض حسد کی بنیاد پر جب یہ لفظ کہتے تو عین کو کھینچ کر ادا کرتے تھے جس سے وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی یہ لفظ
رَاعِنَا
استعمال کردیتے معنی معلوم نہ ہونے کی وجہ سے تویہودی اس سے بہت خوش ہوتے تھے۔ یہاں اہل ایمان کو تعلیم دی کہ
"رَاعِنَا"
کے بجائے
" اُنۡظُرۡنَا "
یعنی ہم پر شفقت کی نظر فرمائیے ! کہا کریں۔
کامیابی اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ہے :
﴿وَ لِلہِ الۡمَشۡرِقُ وَ الۡمَغۡرِبُ ٭ فَاَیۡنَمَا تُوَلُّوۡا فَثَمَّ وَجۡہُ اللہِ ؕ اِنَّ اللہَ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۱۱۵﴾﴾
یہودیوں کا قبلہ بیت المقدس تھا جبکہ مشرکین بیت اللہ کو قبلہ مانتے تھے اور مسلمان بھی بیت اللہ کی طرف رخ کرکے نمازیں پڑھتے تھے تو یہود کو اس سے تکلیف ہوتی تھی پھر کچھ عرصہ کےلیے مسلمانوں کو بیت المقدس کی طرف نمازپڑھنے کاحکم دیا گیا تویہود خوش ہوئے اور کہا کہ مسلمان ہمارا قبلہ ماننے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ تویہاں یہ بات سمجھائی جارہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی ایک جہت میں محدود نہیں بلکہ وہ ہر جگہ موجود ہیں لہذا وہ جس سمت کی طرف بھی نماز پڑھنے کا حکم عنایت فرمادیں تو کامیابی صرف اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے میں ہے۔
ابراہیم علیہ السلام کے فضائل اور اتباع شریعت محمدیہ:
اہل کتاب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظمت کو تسلیم کرتے تھے اور اپنی نسبت بھی انہی کی طرف کرتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فضائل ومناقب بیان کرکے متوجہ کیا کہ اگر وہ اپنے دعوی میں سچے ہیں تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع وپیروی کریں، کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں ہی کا نتیجہ ہیں اور ملت ابراہیمی پر قائم ودائم بھی ہیں۔
ابراہیم علیہ السلام کا امتحانات میں ثابت قدم رہنا:
﴿وَ اِذِ ابۡتَلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ ؕ قَالَ اِنِّیۡ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ﴿۱۲۴﴾﴾
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مختلف امتحانات میں ڈالا گیا لیکن وہ ہر امتحان میں اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے سو فیصد کامیاب ہوئے۔
ملت ابراہیمی کی اتباع:
﴿قُلۡ بَلۡ مِلَّۃَ اِبۡرٰہٖمَ حَنِیۡفًا ؕ وَ مَا کَانَ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۱۳۵﴾﴾
اس پارہ کے آخر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت کا ذکر فرمایا جس ملت کی تکمیل کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ ملتِ ابراہیمی (دین اسلام ) کی طرف دعوت دیں جو تمام انبیاء علیہم السلام کا دین ہے۔
صحابہ کرام معیار حق :
﴿فَاِنۡ اٰمَنُوۡا بِمِثۡلِ مَاۤ اٰمَنۡتُمۡ بِہٖ فَقَدِ اہۡتَدَوۡا﴿۱۳۷﴾ؕ﴾
اگر یہود اس طرح ایمان لے آئیں جس طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تیار کردہ جماعت؛ جماعت ِ صحابہ کرام واہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم ایمان لائے ہیں تو یہ ہدایت پا جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین اسلام کو اختیار کرنے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ (آمین)
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ