پارہ نمبر :2

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
پارہ نمبر :2
تحویل قبلہ کا حکم اور یہود کااعتراض:
﴿سَیَقُوۡلُ السُّفَہَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىہُمۡ عَنۡ قِبۡلَتِہِمُ الَّتِیۡ کَانُوۡا عَلَیۡہَا﴿۱۴۲﴾﴾
دوسرے پارے میں سب سے پہلے تحویل قبلہ کو بیان فرمایا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تشریف لائے تو تقریباً سولہ یا سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز ادا فرماتے رہے۔ لیکن آپ کی تمنا اور آرزو تھی کہ حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد ہیں ان کے بنائے ہوئے کعبہ کی طرف منہ کرکے نمازیں ادا فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ نے حکم نازل فرمادیا:
﴿فَوَلِّ وَجۡہَکَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ ﴿۱۴۴﴾﴾
اس حکم کے نازل ہونے پر یہودی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرنے لگے کہ یہ کیسے اللہ کے پیغمبر ہیں کبھی قبلہ بیت المقدس کوبناتے ہیں اور کبھی بیت اللہ کو۔ تو یہود کو جواب دیا گیا:
﴿قُلۡ لِّلہِ الۡمَشۡرِقُ وَ الۡمَغۡرِبُ ﴿۱۴۲﴾﴾
اے میرے پیغمبر! آپ کہہ دیجیے کہ مشرق ومغرب سب اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں۔
بعثت نبوی کے مقاصد :
﴿کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا فِیۡکُمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡکُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِنَا وَ یُزَکِّیۡکُمۡ وَ یُعَلِّمُکُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُعَلِّمُکُمۡ مَّا لَمۡ تَکُوۡنُوۡا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۵۱﴾ؕ﴾
اس مقام پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجنے کے بنیادی طور پر چار مقاصد بیان کیے گئے ہیں :
پہلا مقصد تلاوت آیا ت، دوسرا مقصد تزکیہ نفوس، تیسرا مقصد کتاب کی تعلیم اور چوتھا مقصد حکمت کی تعلیم ہے۔ یہ مضمون قرآن کریم کے مختلف مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔
شعائر اسلام:
﴿اِنَّ الصَّفَا وَ الۡمَرۡوَۃَ مِنۡ شَعَآئِرِ اللہِ ۚ فَمَنۡ حَجَّ الۡبَیۡتَ اَوِ اعۡتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِ اَنۡ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا﴿۱۵۸﴾﴾
زمانہ جاہلیت میں صفا اور مروہ پر بت رکھے ہوئے تھے تو مسلمان ان کا طواف کرنے سے بچتے تھے اس شبہ کو دور کرتے ہوئے فرمایا کہ صفا مروہ کی سعی شعائر اسلام میں سے ہے لہذا ان کا طواف کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
حج وعمرہ کے تفصیلی احکامات کےلیے میری کتاب "حج وعمرہ " ملاحظہ فرمائیں۔
چار چیزوں کی حرمت کا بیان :
﴿اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃَ وَ الدَّمَ وَ لَحۡمَ الۡخِنۡزِیۡرِ وَ مَاۤ اُہِلَّ بِہٖ لِغَیۡرِ اللہِ ۚ﴿۱۷۳﴾﴾
مشرکین اپنی طرف سے کچھ چیزوں کو حلال کہتے تھے اور کچھ چیزوں کو حرام۔ یہاں ان کی تردید فرمائی کہ جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے وہ حرام ہیں اور یہاں چارچیزوں کا ذکر ہے:
مردار، بہنے والا خون، خنزیر اور وہ جانور جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ پھر اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے اور بہت سے احکام تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
قصاص لینے کا فائدہ:
﴿وَ لَکُمۡ فِی الۡقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿۱۷۹﴾﴾
اگر قصاص کے مسئلہ پر عمل در آمد ہو تو آپ یقین فرمائیں کہ اس میں قاتل اور مقتول دونوں کی زندگی ہے اس طرح کہ جب قاتل کو اپنی سزا کا یقین ہوگا تو وہ قتل کرنے سے گریز کرے گا۔ اس سے مقتول بھی بچ جائے گا اور قاتل بھی ۔
وصیت کا حکم :
﴿کُتِبَ عَلَیۡکُمۡ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ اِنۡ تَرَکَ خَیۡرَۨاالۡوَصِیَّۃُ لِلۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ حَقًّا عَلَی الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۱۸۰﴾ؕ﴾
اس آیت میں وصیت کا حکم بیان کیا گیا ہے کہ فوت ہونے والا اپنی وفات سے پہلے اپنے والدین اور دیگر رشتے داروں کے لیے وصیت کرے کہ کس کو کتنا حصہ ملناہے۔ اس آیت کے نزول سے پہلے ورثاء کے حصے متعین نہیں تھے اور مرنے والے کا سارا ترکہ اس کے لڑکوں کو ملتاتھا۔ اس لیے اس آیت میں والدین اور دوسرے رشتے داروں کے لیے وصیت کرنے کاحکم دیا ہے۔ پھر جب سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ نے تمام ورثاء کے میراث میں حصے متعین فرمادیے تو اب اس آیت میں مذکوروصیت کی فرضیت باقی نہیں رہی۔ ہاں البتہ اب بھی کوئی شخص ورثاء کے علاوہ کسی اور کےلیے اپنے مال کے ایک تہائی حصے کی وصیت کرسکتاہے۔
روزہ کی فرضیت :
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ ﴿۱۸۳﴾ۙ﴾
یہاں روزے کی فرضیت اور روزے کے احکام ومسائل کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ روزہ دین اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ یہ ایسی عبادت ہے جو تمام شرائع سابقہ میں بھی مشروع رہی ہے، صرف امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والتسلیم کے ساتھ خاص نہیں۔ روزہ کی شرعی تعریف یہ ہے: روزے کی نیت کے ساتھ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور جماع سے رکنا۔ اگر کسی نے غروب آفتاب سے ایک منٹ بھی پہلے افطار کردیا تو روزہ نہیں ہوگا۔ روزہ ایسی عبادت ہے کہ بندہ اس کی وجہ سے جلدی تقویٰ کی نعمت حاصل کرلیتا ہے۔ پھر مسافر اور مریض کےلیے رمضان کے روزوں اور فدیہ کے متعلق احکام بیان فرمائے۔
ماہِ رمضان کی فضیلت :
﴿شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَ الۡفُرۡقَانِ﴿۱۸۵﴾﴾
رمضان المبارک میں جہاں روزے فرض ہیں وہیں اس کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ قر آن کریم اس ماہ مبارک میں نازل کیا گیا ہے۔ دن کو مؤمن روزہ رکھتا ہے اور رات کو قاری قرآن اور حافظ قرآن بیس رکعات تراویح میں قرآن کریم کی تلاوت کرتاہے۔ غیر حافظ قرآن کریم کی سماعت کرتا ہے۔ اس لیے اس ماہ مبارک میں زیادہ سے زیادہ قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کرناچاہیے۔
شفقت خداوندی :
﴿وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ ﴿۱۸۶﴾﴾
گزشتہ آیات میں روزے کا ذکر تھا، اس آیت کے بعد پھر روزے اور اعتکاف کا ذکر ہوگا۔ تواس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنی شفقت اور مہربانی کا تذکرہ فرمارہے ہیں کہ اے میرے بندوں میں نے جو تمہیں احکامات عطا فرمائے ہیں اگر ان کی تعمیل کرنے میں تھوڑی بہت مشقت بھی محسوس ہو تو کوئی بات نہیں۔ میں تمہارے بہت ہی قریب ہوں مجھ سے مانگو میں دعا کو قبول کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ قریب ہیں اس سے معلوم ہوا کہ دعا آہستہ مانگنی چاہیے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ فقط عرش پر نہیں بلکہ ہر جگہ بلامکان موجود ہیں۔ اس آیت سے اشارۃً معلوم ہورہا ہے کہ روزے کے بعد خصوصاً افطار کے وقت دعا قبول ہوتی ہے لہذا اس وقت دعا کا خوب اہتمام کرنا چاہیے۔
اعتکاف کا بیان :
﴿وَ اَنۡتُمۡ عٰکِفُوۡنَ ۙ فِی الۡمَسٰجِدِ ؕ تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللہِ فَلَا تَقۡرَبُوۡہَا ﴿۱۸۷﴾ ﴾
رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے۔ مرد مسجد حضرات ایسی مساجد میں اعتکاف کریں جس میں نماز باجماعت ہوتی ہو۔ جبکہ خواتین اپنے گھروں میں مخصوص جگہوں میں اعتکاف کریں۔
چاندکا فائدہ :
﴿یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَہِلَّۃِ ؕ قُلۡ ہِیَ مَوَاقِیۡتُ لِلنَّاسِ وَ الۡحَجِّ ﴿۱۸۹﴾﴾
چاند سے اسلامی تاریخ معلوم ہوتی ہے اور اس کے علاوہ اس کے ذریعے سے عبادات یعنی حج،روزہ اور عدت کی مدت کے علاوہ دیگر معاملات اور معاہدوں کی میعاد مقررہ کا پتہ بھی چلتا ہے۔
جہاد وقتال :
﴿وَ قَاتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَکُمۡ وَ لَا تَعۡتَدُوۡا اِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الۡمُعۡتَدِیۡنَ ﴿۱۹۰﴾﴾
جہاد کا مسئلہ بیان فرمایا، جہاد فرض ہے اور اس کا مقصد اعلاء کلمۃ اللہ ہے جہاد قیامت تک جاری وساری رہے گا۔ یہاں یہ بات ذہن نشین فرمالیں کہ شریعت کی اصطلاح میں جہاد نام ہے "قتال فی سبیل اللہ" کا، اگر کسی اور حکم شرعی پر جہاد کے لفظ کا استعمال ہوا ہے تو وہ لغت کے اعتبار سے ہے شریعت کی اصطلاح نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کو دیگر تمام اعمال کرنے والوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے، جہاد بہت عظیم و مبارک اور مقدس عمل ہے۔
حج کا بیان :
﴿اَلۡحَجُّ اَشۡہُرٌ مَّعۡلُوۡمٰتٌ﴿۱۹۷﴾﴾
حج اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ حج میں دو ارکان ہیں ایک وقو ف عرفہ دوسرا طواف زیارۃ۔ پانچ دنوں میں، پانچ مقامات پرسات عبادتوں کے کرنے کو حج کہتے ہیں۔ حج کے پانچ دن یہ ہیں: 8، 9، 10، 11 اور 12 ذوالحجہ۔ حج کے پانچ مقامات یہ ہیں :بیت اللہ، صفا،مروہ، منیٰ، مزدلفہ اورعرفات۔ حج کی سات عبادتیں یہ ہیں:احرام، طواف، سعی، وقوف، رمی، قربانی اورحلق یاقصر۔
مرتدین کی سزا کا بیان :
﴿وَ مَنۡ یَّرۡتَدِدۡ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَیَمُتۡ وَ ہُوَ کَافِرٌ فَاُولٰٓئِکَ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُہُمۡ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ۚ وَ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿۲۱۷﴾ ﴾
پھر مرتدین کی سزا کو بیان فرمایا کہ جو شخص مؤمن ہے اور پھر وہ ایمان کو چھوڑ کر مرتد ہوجاتا ہے اگر وہ سمجھا نے کے باوجود باز نہ آئے تو اس کے سارے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں، وہ قتل اور ہمیشہ کےلیے جہنم کا مستحق ہوجاتا ہے۔
لیکن یہاں پر یہ بات ذہن نشین فرمالیں کہ مرتد کو سزا دینا ہر آدمی کے اختیار میں نہیں ہے کہ جس کا جی چاہے وہ اٹھ کر مرتد کو قتل کردے بلکہ یہ کام حکومت وقت کا ہے۔
حالت حیض میں جماع کا حکم :
﴿وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡمَحِیۡضِ قُلۡ ہُوَ اَذًی فَاعۡتَزِلُوا النِّسَآءَ فِی الۡمَحِیۡضِ وَ لَا تَقۡرَبُوۡہُنَّ حَتّٰی یَطۡہُرۡنَ فَاِذَا تَطَہَّرۡنَ فَاۡتُوۡہُنَّ مِنۡ حَیۡثُ اَمَرَکُمُ اللہُ﴿۲۲۲﴾﴾
عورت کے ساتھ حالت حیض میں ہمبستری کرنا ناجائز اور حرام ہے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین فرمالیں کہ عورت کو ہر ماہ ماہواری کا جو خون آتا ہے اس کو حیض کا خون کہتے ہیں اور بچے کی ولادت کے بعد جو خون آتا ہے اس کو نفاس کا خون کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں حالت حیض میں بیوی کے ساتھ ہم بستر ہونے کو منع فرمایا ۔ قرآن کریم میں حالت نفاس میں عورت کے ساتھ ہمبستری کے منع فرمانے کا ذکر نہیں ہے لیکن حالت نفاس میں ہمبستری بھی اسی طرح حرام و ناجائز ہے۔ حالت نفاس میں ہمبستری کے حرام ہونے کا ذکر احادیث میں بھی آیا ہے اور قران کریم میں حالت حیض پر قیاس کرنے سے حالت نفاس میں بھی ہمبستری کی حرمت سمجھ میں آتی ہے۔ اس کے حرام ہونے کی بنیادی وجہ یہ بیان فرمائی کہ یہ گندگی کے دن ہیں۔
ایک اور بات نوٹ فرمالیں کہ عورت نکاح کے بعد شوہر کے لیے حلال ہے لیکن جس طرح حیض اور نفاس کی حالت میں شوہر اپنی بیوی سے ہمبستری نہیں کرسکتا اسی طرح شوہر اپنی بیوی سے پچھلی جانب سے صحبت کرنا چاہے تو نہیں کرسکتا، پچھلی جانب سے صحبت کرنا حرام و ناجائز ہے۔
طلاق کا بیان :
﴿اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪ فَاِمۡسَاکٌۢ بِمَعۡرُوۡفٍ اَوۡ تَسۡرِیۡحٌۢ بِاِحۡسَانٍ ﴿۲۲۹﴾﴾
طلاق کے مسئلہ کی تفصیلات بیان فرمائی ہیں۔ طلاق کے بارے میں ذہن نشین فرمالیں کہ ایک طلاق دی تو ایک واقع ہوگی، دو طلاقیں دیں تو دونوں واقع ہوں گی۔ اگر ایک مجلس میں الگ الگ تین طلاقیں یا اکٹھی ایک ہی کلمہ سے تین طلاقیں دیں تو تینوں واقع ہوجائیں گی۔
مسئلہ طلاق کی تفصیلات میری فائل "مسئلہ طلاق ثلاثہ" میں ملاحظہ فرمائیں۔
رضاعت کا بیان :
﴿وَ الۡوَالِدٰتُ یُرۡضِعۡنَ اَوۡلَادَہُنَّ حَوۡلَیۡنِ کَامِلَیۡنِ لِمَنۡ اَرَادَ اَنۡ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ﴿۲۳۳﴾﴾
پھربچےکے دودھ پینے کا مسئلہ بیان کیا کہ دو سال تک مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلائیں۔ اسلام نے دودھ پیتے بچوں کے حقوق کا بھی خیال رکھا ہے کہ مدت رضاعت تک کو بیان کیا۔ مدت رضاعت کی مکمل تفصیل میری مرتب کردہ فائل "فقہ حنفی پر اعتراضات کے جوابات " میں ملاحظہ فرمائیں!
اگر کوئی بچہ مدعت رضاعت میں کسی اجنبی عورت کا دودھ پی لے تو وہ بچہ اس کا رضاعی بیٹا اور وہ عورت اس کی رضاعی ماں بن جاتی ہے۔ جس طرح حقیقی نسب کے ساتھ رشتے حرام ہوجاتے ہیں تو اسی طرح رضاعت کی وجہ سے بھی رشتے حرام ہوجاتے ہیں۔ لیکن جب بھی ایسی کوئی صورت پیش آئے اپنے علماء سے اس کی تفصیل معلوم کرلینی چاہیے۔
عدت کا مسئلہ :
﴿وَ الَّذِیۡنَ یُتَوَفَّوۡنَ مِنۡکُمۡ وَ یَذَرُوۡنَ اَزۡوَاجًا یَّتَرَبَّصۡنَ بِاَنۡفُسِہِنَّ اَرۡبَعَۃَ اَشۡہُرٍ وَّ عَشۡرًا﴿۲۳۴﴾﴾
پھر عدت کے مسئلہ کو بیان فرمایا کہ اگر کسی عورت کو طلاق ہوجائے یا اس کا شوہر فوت ہوجائے تو دونوں صورتوں میں عورت پر عدت لازم ہے۔
مطلقہ عورت کی عدت اگر وہ حیض والی ہو تو تین حیض ہے، اگر کسی وجہ سے حیض نہ آتا ہوتو عدت تین ماہ ہے، حاملہ عورت کو طلاق ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔ شوہر فوت ہوجائے اور عورت حاملہ نہ ہو تو عدت چار ماہ دس دن ہے، اگر حاملہ ہوتو عدت وضع حمل (بچے کی پیدائش )ہے۔
عدت کے زمانے میں نکاح کا پیغام دینا :
﴿وَ لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ فِیۡمَا عَرَّضۡتُمۡ بِہٖ مِنۡ خِطۡبَۃِ النِّسَآءِ اَوۡ اَکۡنَنۡتُمۡ فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ ﴿۲۳۵﴾٪﴾
اگر کوئی عورت عدت میں ہوتو اسے واضح لفظوں میں پیغامِ نکاح دینا درست نہیں، البتہ اشارۃً یا کنایۃً نکاح کا پیغام دیا جا سکتا ہے، لیکن اس سے پختہ وعدہ نہ لیاجائے۔
حضرت طالوت کا ذکر :
﴿فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوۡتُ بِالۡجُنُوۡدِ ﴿۲۴۹﴾﴾
اس پارے کے آخر میں حق کے نمائندے حضرت طالوت اور باطل کے نمائندے جالوت کا واقعہ بیان فرمایا کہ جالوت کے پاس طاقت بھی تھی کثرت ِ تعداد بھی تھی، منظم فوج بھی تھی اور حضرت طالوت کے پاس طاقت بھی کم تھی اور فوج بھی کم تھی، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کو فتح عطا فرمائی۔
قرآن کریم نے باقاعدہ ضابطہ بیان فرمادیا
﴿ کَمۡ مِّنۡ فِئَۃٍ قَلِیۡلَۃٍ غَلَبَتۡ فِئَۃً کَثِیۡرَۃًۢ بِاِذۡنِ اللہِ﴾
کہ کتنی جماعتیں ہیں جو طاقت میں کمزور ہوتی ہیں، ا ن کی تعداد بھی کم ہوتی ہے لیکن ان کی فرمانبرداری اور اطاعت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرماتے ہیں اور اپنی مدد کے ذریعے انہیں غالب فرمادیتے ہیں۔
ہمیں خدا کے اس بیان فرمودہ اصول سے یہ بات سمجھ میں آجانی چاہیے کہ مسلمان جب بھی کامیاب ہوتے ہیں تو وہ مادیت اور دنیاوی طاقت و قوت کے بل پوتے پر غالب نہیں آتے بلکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان، بھروسہ رکھنے اور نیک اعمال کی بنیاد پر غالب آتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذات پر توکل اور بھروسہ نصیب فرمائیں۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ