پارہ نمبر: 3

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
پارہ نمبر: 3
فضائل انبیاء علیہم السلام:
﴿تِلۡکَ الرُّسُلُ فَضَّلۡنَا بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ﴿۲۵۳﴾﴾
تیسرے پارے کے شروع میں انبیاء علیہم السلام کا ذکر فرمایا۔ ارشاد فرمایا کہ انبیاء علیہم السلام میں سے بعض انبیاء کو اللہ تعالی نے دوسرے بعض پر فضیلت دی ہے۔ امت سے تو تمام انبیاء علیہم السلام افضل ہیں لیکن نبیوں میں سے بعض نبی دوسرے نبی سے افضل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کو براہ راست اپنے ساتھ ہم کلام ہونے کا شرف بخشا ہے تو کسی نبی کو کوئی اور اعزاز بخشا ہے۔ پھر انبیاء علیہم السلام کو جو معجزات دیے ان کاذکر کیا ہے۔
اس پارے کے دوسرے رکوع میں آیۃالکرسی ہے جو قرآن کریم کی افضل ترین آیت ہے اس کے پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نمرود سے مناظرہ:
﴿اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡ حَآجَّ اِبۡرٰہٖمَ فِیۡ رَبِّہٖۤ اَنۡ اٰتٰىہُ اللہُ الۡمُلۡکَ ﴿۲۵۸﴾﴾ۚ
پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نمرود سے جو مناظرہ ہوا ہے اس کو تفصیل سے ذکر کیا ہے، نمرود خود کو سجدے کراتا تھا، خدائی کا دعوی کرتا تھا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دلیل کی طاقت کے ساتھ اس کو خاموش کرایا۔
مناظرہ کرنا گناہ نہیں:
یہ بات ذہن نشین فرمالیں کہ جس طرح دین کا کام تصنیف ہے، تبلیغ ہے، دعوت ہے، جہاد ہے، وعظ و نصیحت ہے، امامت ہے، خطابت ہے، اسی طرح مناظرہ بھی دین کا حصہ ہے۔ انبیاء علیہم السلام معصوم ہوتے ہیں، چھوٹا یا بڑا کوئی بھی گناہ کا کام نہیں کرتے؛ اگر مناظرہ کرنا گناہ ہوتا تو ابراہیم علیہ السلام کبھی بھی اس کو نہ کرتے۔
حضرت عذیر علیہ السلام کا واقعہ:
﴿اَوۡ کَالَّذِیۡ مَرَّ عَلٰی قَرۡیَۃٍ وَّ ہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا﴿۲۵۹﴾﴾
حضرت عذیر علیہ السلام کا ایک تباہ شدہ بستی سے گزر ہوا تو ان کے دل میں خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ انہیں دوبارہ کیسے زندہ فرمائیں گے ؟تو اللہ تعالیٰ حضرت عذیر علیہ السلام پر سو سال تک موت کو طاری کیا پھر انہیں زندہ کیا۔
انفاق فی سبیل اللہ کی مثال:
﴿مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتۡ سَبۡعَ سَنَابِلَ﴿۲۶۱﴾﴾
اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے والوں کے اجر کو ایک مثال سے سمجھایا۔ کسان زمین میں ایک دانہ بوتا ہے اس سے سات بالیاں اگتی ہیں ہر بالی میں سو دانے ہوتے ہیں تو کسان ایک دانہ خرچ کرکے سات سو دانے حاصل کرتا ہے۔ یہی حال اس شخص کا ہے جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں ایک روپیہ خرچ کرکےسینکڑوں نیکیاں کما لیتا ہے۔
سود کی حرمت اور سود پر وعید:
﴿وَ اَحَلَّ اللہُ الۡبَیۡعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا﴿۲۷۵﴾﴾
﴿فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرۡبٍ مِّنَ اللہِ وَ رَسُوۡلِہٖ﴿۲۷۹﴾﴾
پھر سود کی حرمت کو بیان فرمایا ہے۔ سود پر جہاں اور وعیدیں ہیں وہاں اہم ترین وعید یہ ہے کہ اللہ تعالی نے سود خور کے ساتھ اعلان جنگ کیا ہے۔ جنگ کا ضابطہ یہ ہے کہ جس سے جنگ ہوتی ہے ایک فریق اس کی سب سے قیمتی چیز کو تباہ و برباد کرتاہے اور اللہ تعالی کے یہاں سب سے قیمتی چیز ایمان ہے۔ سود خور جب سود کو حلال سمجھتا ہے تو ایمان ختم ہوجاتا ہے اور حرام سمجھ کر کھاتا ہے اور اس پر مداومت کرتا ہے توبہ نہيں کرتا تو بھی خدشہ ہے کہ ایمان ختم نہ ہو جائے۔ سود سے بچنا ضروری ہے۔ سود کا ایک روپیہ کھانا اپنی ماں سے ستّر مرتبہ بد فعلی کرنے سے بڑا جرم ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائیں۔
مالی معاملات کابیان:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا تَدَایَنۡتُمۡ بِدَیۡنٍ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکۡتُبُوۡہُ﴿۲۸۲﴾﴾
قرآن کریم نے مالی معاملات کو بھی بہت اہمیت کے ساتھ بیان کیا ہے، لین دین، تجارت اور رہن کے مسائل کو بیان کیا۔ اگر کبھی لین دین یا سفر میں رہن رکھنے کی ضرورت پڑجائے تو اس کی تحریری دستاویز تیار کر لینی چاہیے اور اس پر گواہ بھی بنا لینے چاہییں۔
جامع اور مفید ترین دعا:
﴿ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا ۚ رَبَّنَا وَ لَا تَحۡمِلۡ عَلَیۡنَاۤ اِصۡرًا کَمَا حَمَلۡتَہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا ۚ رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلۡنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ۚ وَ اعۡفُ عَنَّا ٝ وَ اغۡفِرۡ لَنَا ٝ وَ ارۡحَمۡنَا ٝ اَنۡتَ مَوۡلٰىنَا فَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۲۸۶﴾﴾
اے ہمارے رب! اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کریں تو ہماری پکڑ نہ فرمائیے گا۔ اے ہمارے رب! ہم پر ایسا بھاری بوجھ نہ رکھیے گا جیسا آپ نے ہم سے پہلے لوگوں پر رکھا تھا۔ اے ہمارے رب! ہم سے وہ بوجھ نہ اٹھوائیے گاجس کی ہم میں طاقت نہیں۔ ہمیں معاف کر دیجیے، ہمیں بخش دیجیےاور ہم پر رحم کیجیے۔آپ ہی ہمارے کارساز ہیں، کافروں کے مقابلہ میں ہماری مدد کیجیے۔
سورۃ بقرۃ کے آخر میں ایک جامع اور مفید ترین دعا کا ذکر کیا ہے۔ اگر احکام کی تعمیل میں ہم سے کوئی غلطی یا کمی کوتاہی ہوجائے تو یہ دعا مانگنی چاہیے تا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے درگذر کا معاملہ فرمائیں۔
سورۃ آل عمران
" آل "اولاد کو کہتے ہیں اور "عمران"ایک شخص کا نام ہے آلِ عمران کے معنی عمران کی اولاد، اس سورت میں چونکہ اولادِ عمران کا تفصیل سے ذکر فرمایا ہے اس لیے اس سورت کا نام آلِ عمران ہے۔
عیسائیوں کے وفد کی خدمت ِنبوی میں آمد:
﴿ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ مِنۡہُ اٰیٰتٌ مُّحۡکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الۡکِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ﴿۷﴾﴾
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نجران کے عیسائی ساٹھ افراد کا وفد لے کر آئے۔ انہوں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے مکالمہ کیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام الہ ہونے میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ہیں۔ انہوں نے اپنی جہالت کی وجہ سے قرآن کریم کے ان الفاظ سے استدلال کیا جن میں عیسیٰ علیہ السلام کو کلمۃ اللہ، روح اللہ فرمایاگیا ہے۔
گفتگو کی ترتیب:
عیسائیوں کو ناز تھا کہ ہمارے یہاں شاعری بہت ہے تو انہوں نے اپنا شاعر کھڑا کیا۔ اس کے مقابلے کے لیے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو کھڑا کیا تو ان کا شاعر شکست کھا گیا۔
خطابت پر ناز تھا تو انہوں نے اپنا خطیب کھڑا کیا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مقابلے میں حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو کھڑا کیا تو ان کا خطیب بھی شکست کھاگیا اور پھر جب دلائل کی باری آئی خود حضور اکرم صلی علیہ وسلم نے دلائل سے توحید خداوندی کو ثابت کرکے ان کے عقیدہ تثلیث کی تردید فرمائی۔
اہل کتاب کے جرائم:
﴿اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡفُرُوۡنَ بِاٰیٰتِ اللہِ وَ یَقۡتُلُوۡنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیۡرِ حَقٍّ ﴿۲۱﴾ ﴾
پھر اس سورۃ میں یہود و نصاریٰ کے جرائم کو بیان کیا ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام کو ناحق قتل کیا کرتے تھے، اللہ تعالی کے نیک بندوں کو تنگ کرتے تھے، ظلم و تشدد کرتے تھے۔ ان کے جرائم کی پاداش میں ان کے اعمال ضائع ہونے اور جہنم میں داخلے کی وعید سنائی گئی ہے۔
کفار کو دلی دوست نہ بنائیں :
﴿لَا یَتَّخِذِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡکٰفِرِیۡنَ اَوۡلِیَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۲۸﴾ ﴾
ہمیں حکم دیا کہ ان کے ساتھ قلبی تعلقات، دوستی اور محبت قائم نہ کرو۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ قلبی محبت جسے موالات کہتے ہیں کفار کے ساتھ جائز نہیں۔ ہاں البتہ رکھ رکھاؤ، وقتی ضرورت اور اپنے ماحول کو سازگار رکھنے کے لیے ایسے تعلقات جسے مدارات کہتے ہیں اس کی گنجائش ہے مگر یہ بھی علماء سے پوچھ لینا چاہیے کہ یہ تعلق کیسا ہے یہ تعلق کیسا ہے۔ کفار کے ساتھ تجارت جائز ہے مگر اس وقت جب کفار مسلمانوں کو نقصان نہ پہنچاتے ہوں، ان کی املاک نہ تباہ کرتے ہوں اور کفار اپنے تجارتی مال کو اسلام کے خلاف استعمال نہ کررہے ہوں۔ بہرحال ہر وقت علماء سے رابطہ رکھنا چاہیے اور پوچھ لینا چاہیے کہ اس تعلق کی نوعیت کیا ہے، یہ تعلق کیسا ہے، یہ تعلق کیسا ہے۔
پھر اس سورۃ میں تین بڑے اہم واقعات بیان کیے ہیں:
1:حضرت مریم کی والدہ کا ذکر:
﴿اِذۡ قَالَتِ امۡرَاَتُ عِمۡرٰنَ رَبِّ اِنِّیۡ نَذَرۡتُ لَکَ مَا فِیۡ بَطۡنِیۡ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلۡ مِنِّیۡ﴿۳۵﴾﴾
حضرت مریم کی والدہ حضرت حنہ بنت فاقوذ کا ذکر ہے کہ ا ن کی اولاد نہیں تھی تو انہوں نے منت مانی کہ اے اللہ تو مجھے بیٹا دے میں اس کو تیرے دین کے لیے وقف کروں گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں بیٹی عطا فرمائی تو حضرت مریم کی والدہ کو شبہ ہوا کہ بیٹا ہوتا تو میں دین کےلیے پیش کرتی لیکن میری تو بیٹی ہوئی ہے اور بیٹی کیا کرے گی؟ تو اللہ تعالی نے بڑا پیارا جواب دیا
﴿ وَ لَیۡسَ الذَّکَرُ کَالۡاُنۡثٰی
﴾کہ جو بیٹا تونے مانگا تھا وہ اس بیٹی کی طرح نہیں ہے جو ہم نے دی ہے۔
بسا اوقات دینی معاملات میں بیٹیاں بیٹوں سے بھی بڑھ جاتی ہیں۔ بیٹیاں الله تعالی کی رحمت ہیں اس لیے بیٹی کی پیدائش پر دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے الله تعالی کی رحمت کو خوشی خوشی قبول کرنا چاہیے۔
نذر کا مسئلہ:
پھر نذر کا مسئلہ بیان کیا کہ نذرصرف اللہ کے لیے ہو کسی غیراللہ کے لیے ہرگز نہیں ہونی چاہیے کیوں کہ نذر عبادت ہے اور عبادت صرف اللہ کی ہوتی ہے۔
2:حضرت زکریا ویحیٰ علیہما السلام کا ذکر:
﴿ہُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّہٗ ۚ قَالَ رَبِّ ہَبۡ لِیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً﴿۳۸﴾﴾
پھر زکریا علیہ السلام کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے حضرت مریم جبکہ وہ چھوٹی تھیں، کے پاس بغیر موسم کے پھل دیکھے تو حضرت زکریا علیہ السلام نے پوچھا کہ اے مریم! تمہارے پاس یہ تر و تازہ پھل کہاں سے آئے ہیں؟ حضرت مریم نے کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ یہ حضرت مریم کی کرامت تھی۔
حضرت زکریا علیہ السلام کے ہاں اولاد نہیں تھی۔ حضرت مریم کے پاس بغیر موسم کے پھل دیکھ کر اللہ تعالیٰ سے اولاد کی دعا مانگی کہ اے اللہ! مجھے بھی اپنی طرف سے اولاد عطا فرما جس طرح تو نے مریم کو بغیر موسم کے پھل دیا ہے۔ حالانکہ حضرت زکریا بھی بوڑھے تھے اور ان کی اہلیہ بھی بوڑھی بانجھ تھیں اس کے باوجود اللہ تعالی نے یحیی علیہ السلام جیسا بیٹا عطا فرمایا۔
ہرحال میں اللہ سے مانگنا:
اس واقعے سے یہ واضح طور پر معلوم ہوا کہ ولی کی کرامت دیکھ کر ولی کے خدا سے مانگنا چاہیے نہ کہ خود ولی سے، اور پھر مزارات پر چکر لگانے لگیں یہ شرک ہے، اس سے بچنا ضروری ہے۔ یاد رکھیں کہ ولی کی کرامت کو دیکھ کر ولی سے مانگنا؛ یہ اسلام نہیں ہے، ولی کی کرامت دیکھ کر ولی کے خدا سے مانگنا؛ یہ اسلام ہے۔
3:حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا ذکر:
﴿قَالَتۡ رَبِّ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ وَلَدٌ وَّ لَمۡ یَمۡسَسۡنِیۡ بَشَرٌ ؕ قَالَ کَذٰلِکِ اللہُ یَخۡلُقُ مَا یَشَآءُ ؕ اِذَا قَضٰۤی اَمۡرًا فَاِنَّمَا یَقُوۡلُ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ﴿۴۷﴾﴾
پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کو بیان فرمایا کہ وہ خدا کے کلمہ کن سے بغیر کسی ظاہری سبب کے پیدا ہوئے۔ مذکورہ تینوں واقعات خرق عادت بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت پر دلالت بھی کرتے ہیں۔
یہودیوں کا عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر نے کا ارادہ:
﴿وَ مَکَرُوۡا وَ مَکَرَ اللہُ ؕ وَ اللہُ خَیۡرُ الۡمٰکِرِیۡنَ ﴿۵۴﴾ ﴾
یہود نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا تھا، دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے انہیں بچانے کی تدبیر فرمالی اور اللہ تعالیٰ کی تدبیر ہی غالب رہتی ہے۔
﴿اِذۡ قَالَ اللہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ ﴿۵۵﴾ ﴾
الله تعالی نے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تسلی دیتے ہوئے فرمادیا کہ تجھے دنیا میں دوبارہ اتارنے کے بعد ظاہری موت مَیں ہی دوں گا۔ اس کے بعد فرمایااور میں تجھے ابھی زندہ آسمان پر اٹھالوں گا اور تجھ تک یہود کے ہاتھ پہنچنے بھی نہیں دوں گا۔ تجھے ان بد بخت یہود سے محفوظ رکھوں گا اور پھر جو تیرے ماننے والے ہیں انہیں کامیاب کروں گا۔
نظریہ اھل السنۃ والجماعۃ:
اھل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں۔ قیامت سے پہلے آئیں گے اور حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کی حیثیت سے آئیں گے، جہاد کریں گے اور پھر پوری دنیا میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی برکت سے کوئی ایک شخص بھی کافر نہیں رہے گا۔ اگر آپ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنی زندگی میں دیکھ لیں تو ان کے سپاہی بنیں اور ان کے معاون بنیں۔
نظریہ یہود کی تردید:
رفعِ عیسیٰ علیہ السلام سے یہودیوں کے اس باطل نظریے کا رد ہو گیا کہ عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر چڑھادیا گیا ہےاور وہ قتل کر دیے گئے ہیں۔ الله تعالی نے اس کی تردید میں فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر نہیں چڑھا یاگیا بلکہ وہ آسمان پر حیات ہیں۔
مباہلہ کی دعوت:
﴿فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمۡ وَ اَنۡفُسَنَا وَ اَنۡفُسَکُمۡ﴿۶۱﴾﴾
عیسائیوں کا جو وفد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں آیا تھادلائل سننے کے باوجود بھی انہوں نے جب حق کا اعتراف نہ کیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ سلم نے انہیں مباہلہ کی دعوت دی وہ مباہلہ پر تیار نہ ہوئے بلکہ جزیہ دینا قبول کرلیا۔
انبیاء علیہم السلام سے عہد:
﴿وَ اِذۡ اَخَذَ اللّٰہُ مِیۡثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیۡتُکُمۡ مِّنۡ کِتٰبٍ وَّ حِکۡمَۃٍ ﴿۸۱﴾﴾
اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء علیہم السلام سے یہ عہد لیا کہ اگر تمہاری موجودگی میں سید الانبیاء خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے تو تم سب نے ان پر ایمان لانا ہے۔ انبیاء سے جو عہد لیا ہے حقیقت میں وہ عہد ان کی امتوں سے تھا۔ اللہ تعالی ہم سب کو ایمان کی نعمت عطا فرمائیں۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ