پارہ نمبر:4

User Rating: 2 / 5

Star ActiveStar ActiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
پارہ نمبر:4
محبوب ترین چیز خرچ کرنا:
﴿لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ﴿۹۲﴾﴾
چوتھے پارے کے شروع میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں اپنی محبوب اور پسندیدہ چیز خرچ کیا کرو۔
خصائص بیت اللہ:
﴿اِنَّ اَوَّلَ بَیۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیۡ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًا وَّ ہُدًی لِّلۡعٰلَمِیۡنَ﴿ۚ۹۶﴾﴾
پھر بیت اللہ کی خصوصیات اور فضیلت کو بیان فرمایا کہ زمین پر سب سے پہلی عبادت گاہ کعبۃ اللہ ہے۔ اس میں اہم نشانیاں ہیں؛ جن میں مقام ابراہیم وہ پتھر جس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کھڑے ہو کر بیت اللہ کی تعمیر کرتے تھے، زمزم کا کنواں ہے، زمزم وہ پانی ہے جو حضرت ہاجرہ کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی وجہ سے نکلا تھا اور حطیم شامل ہیں۔ جو شخص حرم میں داخل ہو جائے اسے امن مل جاتا ہے۔
حج کی فرضیت:
﴿وَ لِلہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الۡبَیۡتِ مَنِ اسۡتَطَاعَ اِلَیۡہِ سَبِیۡلًا ﴿۹۷﴾ ﴾
پھر اس پارے میں اللہ تعالیٰ نے حج کے فرض ہونے کو بیان فرمایا ہے۔ جوشخص سفر وغیرہ کے اخراجات برداشت کرسکتا ہو، پیچھے اہل خانہ کے گذربسر کا انتظام بھی ہو اور وہاں قیام کا خرچہ بھی ہو، اگر عورت ہو تو محرم بھی اس کے ساتھ ہو تو ایسے شخص پر حج فرض ہوجاتا ہے۔ فریضہ حج ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔
اھل السنۃ والجماعۃکا تذکرہ:
﴿یَّوۡمَ تَبۡیَضُّ وُجُوۡہٌ﴿۱۰۶﴾﴾
قیامت کے دن اہل السنۃ والجماعۃ کے چہرے سفید ہوں گے اور اہل بدعت کے چہرے سیاہ ہو ں گے۔
امت محمدیہ کی فضیلت:
﴿کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللہِ﴿۱۱۰﴾﴾
پھر اس امت کی خصوصیت بیان فرمائی ہے اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں، امر بالمعروف کرتے ہیں اور نہی عن المنکر بھی کرتے ہیں۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا بہت اہتمام کرنا چاہیے۔ جو جائز اسباب ہیں نیکی کی طرف لانے کے ان کو اختیار کرنا چاہیے اور جو جائز اسباب ہیں گناہ سے بچنے کے ان کو اختیار کرنا چاہیے۔
کفار ومنافقین سے دلی دوستی کی ممانعت:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا بِطَانَۃً مِّنۡ دُوۡنِکُمۡ لَا یَاۡلُوۡنَکُمۡ خَبَالًا وَدُّوۡا مَا عَنِتُّمۡ ۚ قَدۡ بَدَتِ الۡبَغۡضَآءُ مِنۡ اَفۡوَاہِہِمۡ وَ مَا تُخۡفِیۡ صُدُوۡرُہُمۡ اَکۡبَرُ﴿۱۱۸﴾﴾
مسئلہ بیان فرمایا کہ منافقین اور کفار سے قلبی تعلق نہ رکھو کیونکہ وہ تمہیں نقصان پہنچانے کے در پے ہیں۔ ان کے دلوں میں جو بغض اور حسد پوشیدہ ہے وہ ان کی اعلانیہ باتوں سے زیادہ سخت ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو دین اور دنیا کی پریشانی لاحق ہو۔ ہاں البتہ رکھ رکھاؤ اور وقتی ضرورت الگ چیز ہے۔
غزوات کاتذکرہ:
﴿وَ لَقَدۡ نَصَرَکُمُ اللہُ بِبَدۡرٍ وَّ اَنۡتُمۡ اَذِلَّۃٌ ۚ ﴿۱۲۳﴾﴾
پھر غزوات کا ذکر کیا ہے، یعنی غزوہِ بدر، غزوہ احد اور غزوہ حمراء الاسد۔ لیکن یہاں تفصیل سے غزوہ احد کا ذکر ہے جو کہ پچپن آیات پر مشتمل ہے۔ اسلام کی سب سے پہلی جنگ جس نے حق اور باطل کا فیصلہ کیا وہ جنگ بدر ہے، جس میں مشرکین مکہ کو شکست ہوئی۔ انہوں نے اس کا انتقام لینے کےلیے خوب تیاری کی۔ 3ہجری میں مدینہ منورہ پر چڑھائی کی۔ اولاً مسلمانوں کو فتح ہوئی لیکن پھر مسلمانوں کی اجتہادی خطا (یعنی جبل الرماۃ پر جو پچاس افراد کا دستہ متعین تھا وہ اپنی ذمہ داری چھوڑ کر مال غنیمت جمع کرنے میں مصروف ہوگیا تھا) کی وجہ سے یہ فتح شکست میں تبدیل ہو گئی جس سے ستر صحابہ کرام شہید ہوئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاسید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی شہداء میں شامل تھے۔
ان غزوات کے ذکر کرنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اسلام جہاد ہی سے غالب آتا ہے۔
ذاکرین کا تذکرہ:
﴿الَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ﴿۱۹۱﴾﴾
دلائل قدرت کا ذکرکرتے ہوئے ذاکرین کی شان بیان کی گئی ہے کہ وہ اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹے ہوئے اللہ تعالیٰ کاذکرکرتے رہتے ہیں۔
اہل ایمان کا تذکرہ :
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اصۡبِرُوۡا وَ صَابِرُوۡا وَ رَابِطُوۡا وَ اتَّقُوا اللہَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۲۰۰﴾﴾
پھر سورۃ آل عمران کے آخر میں اہل ایمان کو حکم دیا: تم صبر کرو، یعنی مصائب کی وجہ سے دل چھوٹا نہ کرنا۔ شجاعت اور بہادری کا مظاہرہ کرو یعنی ڈٹ جاؤ، سرحدوں پر پہرے دو، ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔
اللہ تعالیٰ ہمیں احکام شریعت پر عمل کرنے کی توفیق دے اور شریعت کی حفاظت کے لیے پہرے دار بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین )
سورۃ النساء
نساء عورتوں کو کہتے ہیں اس میں چونکہ اللہ تعالیٰ نے خواتین کے متعلقہ احکام بیان فرمائے ہیں اسی وجہ سے اس سورۃ کا نام سورۃ النساء رکھ دیا گیا ہے۔
اسلام کی نظر میں عورت کی عظمت:
حیران کن بات یہ ہے کہ پورے قرآن میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ الرجال یعنی مردوں کے نام سے کوئی سورۃ نازل نہیں فرمائی البتہ عورتوں کے نام سے سورۃ نازل فرمائی ہے۔ خواتین کو کس قدر عظمت دی ہے! اب اس پروپیگنڈے سے متاثر ہونا کہ اسلام عورت کو عظمت نہیں دیتا، حقوق کا خیال نہیں رکھتا یہ ناانصافی ہے۔ اسلام نے سب سے زیادہ عورت کے حقوق بیان کیے ہیں اور عزت بھی دی ہے، مگر کوتاہی ہماری ہے کہ ہم اسلام پر عمل نہیں کرتے۔
اس سورۃ میں کئی احکام بیان کیے ہیں:
یتیموں کے مال کی حفاظت:
﴿وَ اٰتُوا الۡیَتٰمٰۤی اَمۡوَالَہُمۡ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الۡخَبِیۡثَ بِالطَّیِّبِ﴿۲﴾﴾
یتیموں کا مال ان کے حوالے کردینا چاہیے،نہ ہی اسے کھائیں اور نہ ہی ان کے عمدہ مال کو ردی مال سے بدلنے کی کوشش کریں کیونکہ ایسا کرنا گناہ کبیرہ ہے۔
تعدد ازواج کابیان:
﴿فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ﴿۳﴾﴾
اللہ تعالیٰ نے تعدد ازواج کا مسئلہ بیان فرمایا کہ ایک سے زائد؛ چار تک نکاح کرنے کی اجازت ہے لیکن ضروری نہیں۔ اگر کسی شخص کے پاس طاقت و ہمت ہو، اسباب ہوں، عدل کرتا ہو تو ذہن نشین فرمالیں کہ ایک سے زائد شادیاں کرنے والا افضل ہے۔ لیکن اگر حقوق ادا نہ کرسکتا ہو تو اس پر مواخذہ بھی سخت ہے۔ اگر ایک سے زائد شادیوں پر قوت و طاقت نہ ہو، اسباب نہ ہوں اور حقوق ادا نہ کرسکتا ہو تو پھر ایک ہی نکاح پر اکتفاکرنا بہتر ہے۔
میراث کا بیان:
﴿یُوۡصِیۡکُمُ اللہُ فِیۡۤ اَوۡلَادِکُمۡ ٭ لِلذَّکَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ﴿۱۱﴾﴾
پھر میراث کا مسئلہ بیان فرمایا، وراثت کے تفصیلی اصول بیان فرمائے کہ کس کو کتنا حصہ دینا ہے۔ جہاں مردوں کےلیے میراث کے حصص کو بیان کیا ہے وہاں عورتوں اور بچوں کو وراثت کا حق دار قرار دیتے ہوئے ان کےلیے بھی حصص کوبیان کیا ہےاور یہ بتایا کہ عورتوں کو حصہ دینا ان پر کسی کا احسان نہیں بلکہ ان کا حق اور اللہ تعالی کی طرف سے مقرر کردہ فریضہ ہے۔
محرمات کا بیان:
﴿حُرِّمَتۡ عَلَیۡکُمۡ اُمَّہٰتُکُمۡ وَ بَنٰتُکُمۡ وَ اَخَوٰتُکُمۡ﴿ۙ۲۳﴾﴾
محرمات کو بیان فرمایا یعنی کس سے نکاح کرنا جائز ہے، کس سے ناجائز ہے۔ یہ بات ذہن نشین فرمالیں کہ نکاح حرام ہونے کے بنیادی طور پر تین اسباب ہیں:
1: نسب۔ یعنی جوخونی رشتے ہیں۔
2: رضاعت۔ یعنی دودھ پینے کی وجہ سے جو رشتے ہوتے ہیں۔
3: مصاہرت۔ شادی کرنے کی وجہ سے جو رشتے ہوتے ہیں۔ کسی عورت سے نکاح اورخصتی ہوگئی ہو تو اس کی والدہ یعنی اپنی ساس سے نکاح نہیں ہوسکتا۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ