پارہ نمبر: 5

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
پارہ نمبر: 5
جن عورتوں سے نکاح جائز ہے:
﴿وَ اُحِلَّ لَکُمۡ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُمۡ اَنۡ تَبۡتَغُوۡا بِاَمۡوَالِکُمۡ مُّحۡصِنِیۡنَ غَیۡرَ مُسٰفِحِیۡنَ﴿۲۴﴾﴾
چوتھے پارے کے آخر میں محرمات کا ذکرتھا۔ اب پانچویں پارے کے شروع میں محرمات کے علاوہ ان عورتوں کا ذکر ہے جن سے نکاح کرنا حلال وجائز ہے۔ نکاح سے مقصود پاک دامنی ہے نہ کہ صرف شہوت پوری کرنا۔ نکاح کے لیے ایجاب و قبول، دو گواہ اور حق مہر کا ہونا ضروری ہے۔ جب نکاح ہو تو اس کا اعلان بھی لازمی کرنا چاہیے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ فلاں کا فلاں سے نکاح ہوا ہے۔ اس سے انسان تہمت سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
حرمتِ متعہ:
متعہ کہتے ہیں کہ کوئی آدمی کسی عورت سے کہے میں تجھ سے اتنے دنوں کے لیے اتنے اتنے مال کے بدلے نفع اٹھانا چاہتا ہوں اور وہ عورت اسے قبول کرلے۔ اس میں نہ تو لفظ نکاح استعمال ہوتا ہے اور نہ ہی دو گواہوں کی موجودگی ضروری ہوتی ہے۔ لہذاجس طرح زنا حرام ہے اسی طرح متعہ بھی حرام ہے۔
مردکی حاکمیت و فضیلت:
﴿اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ﴿۳۴﴾ ﴾
مرد کو اللہ تعالیٰ نے عورت پر فضیلت دی ہے اور اس پر حاکم مقرر کیا ہے اس کی دو وجوہات ہیں:
1: عورت کے تمام اخراجات مرد کے ذمہ ہیں۔
2: تکوینی طور پر فطرت اور طبیعت کے اعتبار سے مرد کو فضیلت دی ہے۔
یہ ضابطہ عام مرد اور عورت کے اعتبار سے ہے لیکن بعض خواتین علم و فضل میں یا کبھی جسمانی قوت و طاقت میں کسی مرد سے آگے نکل جائیں تو یہ اس ضابطے کے خلاف نہیں۔
نافرمان بیوی کی اصلاح کا طریقہ:
﴿فَعِظُوۡہُنَّ وَ اہۡجُرُوۡہُنَّ فِی الۡمَضَاجِعِ وَ اضۡرِبُوۡہُنَّ﴿۳۴﴾ ﴾
اگر کبھی بیوی نافرمان اور سر کش بن جائے تو اس کی اصلاح کےلیے تین تدبیریں درجہ بدرجہ اپنائی جائیں:
1: اسے سمجھایاجائے اور نافرمانی کی وجہ سے برے انجام سے آگاہ کیا جائے۔
2: اگر سمجھانے سے اصلاح نہ ہو تو اسے بستر سے الگ کردیاجائے۔
3: اس کے بعد بھی سرکشی ختم نہ ہو تو شرعی حدود میں رہتے ہوئے مناسب سزا دی جائے۔
طہارت کے مسائل:
﴿وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مَّرۡضٰۤی اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ اَوۡ جَآءَ اَحَدٌ مِّنۡکُمۡ مِّنَ الۡغَآئِطِ اَوۡ لٰمَسۡتُمُ النِّسَآءَ﴿۴۳﴾ ﴾
یہاں طہارت کے مسائل بیان فرمائے ہیں مثلاً جب نماز پڑھنی ہو یا قرآن کریم کو ہاتھ لگانا ہو یا کوئی ایسا مسئلہ ہو جہاں طہارت کی ضرورت ہو تو وہاں وضو کرنا ضروری ہے۔ بعض حالات ایسے ہیں جہاں پر غسل کرنا فرض ہے مثلاً آدمی کو احتلام ہو جائے یا اپنی اہلیہ سے ملاقات کرے تو غسل جنابت فرض ہوجاتا ہے۔ اسی طرح عورت حیض و نفاس سے پاک ہو تواس پر بھی غسل فرض ہوجاتا ہے۔
تیمم کا حکم ایک نعمت ہے:
﴿فَلَمۡ تَجِدُوۡا مَآءً فَتَیَمَّمُوۡا صَعِیۡدًا طَیِّبًا﴿۴۳﴾ ﴾
اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑااحسان ہے کہ وضو وطہارت کےلیے ایسی چیز کو پانی کے قائم مقام کردیا جو پانی سے بھی زیادہ آسانی سے حاصل ہوجاتی ہے کیونکہ زمین اور مٹی ہر جگہ موجود ہے، تیمم کی نعمت صرف امت محمدیہ کی خصوصیت ہے۔
امانت ادا کرنے کی تاکید:
﴿اِنَّ اللہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا﴿۵۸﴾ ﴾
اس آیت کا شان نزول تو خاص واقعہ ہے کہ ہجرت سے پہلے عثمان بن طلحہ؛ جو کعبہ کے کنجی بردار تھے ؛ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت اللہ میں داخل ہونے سے روکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن طلحہ سے فرمایاتھا کہ اے عثمان! شاید تم ایک دن بیت اللہ یہ کی کنجی میرے ہاتھ میں دیکھو گے اس وقت مجھے اختیار ہو گا جس کو چاہوں سپرد کردوں۔ جب فتح مکہ ہواتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن طلحہ سے کنجی لے لی اور بیت اللہ میں نماز ادا کرنے کے بعد کنجی عثمان کو واپس کردی اور فرمایا یہ قیامت تک تمہارے خاندان کے پاس رہے گی۔ لیکن اس آیت کا حکم عام ہے جس کی پابندی تمام معاملات میں پوری امت کےلیے ضروری ہے۔
خدا،مصطفیٰ اور فقہاء:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ﴿۵۹﴾ ﴾
اللہ تعالیٰ نے شریعت پر عمل کرنے کے حوالے سے ارشاد فرمایا:خدا کی اطاعت کرو، مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور فقہاء کی اطاعت کرو۔
یہ تین باتیں کیوں فرمائی ہیں ؟اس لیے کہ اللہ تعالیٰ تو خالق اور مالک ہیں، ہم مخلوق اور مملوک ہیں ہم نے اللہ تعالیٰ کی بات ماننی ہے لیکن ہم دنیا میں اپنے اس کان سے اللہ تعالیٰ کی بات سن نہیں سکتے، اس آنکھ سے اللہ تعالیٰ کو دیکھ نہیں سکتے تو ہم اللہ تعالیٰ کی بات کو کیسے مانیں گے ؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اور ہمارے درمیان ایک واسطہ ہو اور وہ واسطہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی بات کو سنتے ہیں۔ کوئی نبی براہِ راست سنتا ہے اور کوئی بذریعہ جبرئیل علیہ السلام سنتا ہے۔ کبھی اللہ تعالیٰ القاء بھی فرمادیتے ہیں۔
پھر ہمارے پیغمبر پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عربی ہیں ہم عجمی ہیں ہم عربی نہیں جانتے اور اگر کوئی عربی نہ سمجھتا ہو تو وہ قرآن وسنت کی تہہ تک نہیں پہنچ سکتا توہم نبی کی بات کیسے مانیں؟ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فقہاء کی بات مانو! فقہاء اللہ اور نبی کی بات کی تشریح کرتے ہیں۔ خدا کی بات کو قرآن کہتے ہیں،مصطفیٰ کی بات کو حدیث کہتے ہیں اور فقہاء کی بات کو فقہ کہتے ہیں، گویا اللہ تعالیٰ نے یہاں قرآن کریم، حدیث اور فقہ تینوں کو ماننے کا حکم دیا ہے۔
اجتہاد اور قیاس کا ثبوت:
﴿فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللہِ وَ الرَّسُوۡلِ ﴿۵۹﴾ ﴾
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اگر تمہارا کسی مسئلہ کے بارے میں اختلاف ہوجائے تو تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب رجوع کرو۔ علماء کرام نے اس سے اجتہاد اور قیاس کو ثابت کیا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دعائے مغفرت کروانا:
﴿وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ جَآءُوۡکَ فَاسۡتَغۡفَرُوا اللّٰہَ وَ اسۡتَغۡفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ﴿۶۴﴾ ﴾
یہ آیت اگرچہ خاص واقعہ میں منافقین کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن اس کا حکم عام ہے۔ جو شخص رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوجائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کےلیے دعائے مغفرت کردیں تو اس کی مغفرت ضرور ہوجائے گی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیوی حیات کے زمانہ میں ہوسکتی تھی اسی طرح آج بھی روضہ اقدس پر حاضری اسی کے حکم میں ہے، جیساکہ دیہاتی والا واقعہ مشہور ہے۔
انعام یافتہ طبقات:
﴿اَنۡعَمَ اللہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ﴿۶۹﴾﴾
اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفاتحہ میں یہ بات فرمائی تھی کہ مجھ سے دعا مانگو
﴿ اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ﴾
اے اللہ! ہمیں صراط مستقیم پر چلائیے۔ یہ صراط مستقیم کیا ہے؟ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے خود دیا کہ
﴿ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ﴾
ان لوگوں کا راستہ جن پر آپ نے انعام فرمایا۔ ان انعام یافتہ لوگوں کا ذکر پانچویں پارے کی اس آیت میں کیا۔ یہ انعام یافتہ طبقات چار ہیں:
انبیاء کرام علیہم السلام، صدیقین یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، شہداء اور اولیاء
پہلی بات انبیاء علیہم السلام کی بات مانو؛ نبی تو ہر علاقے میں نہیں تو فرمایا کہ صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلو۔ پھر ہر علاقے میں صحابی بھی نہیں تو فرمایا کہ شہید کے نقش قدم پر چلو۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ شہید شہادت کے بعد ہماری بات کو سن بھی لے تو وہ بتائے گا کیسے ؟ تو پھر فرمایا اولیاء، علماء اور بزرگانِ دین کے نقشِ قدم پر چلو۔ تو ہمیں چاروں کے نقشِ قدم پر چلنے کا حکم دیا گیا ہے۔
عوام کےلیے تقلید ِائمہ کا ثبوت:
﴿وَ لَوۡ رَدُّوۡہُ اِلَی الرَّسُوۡلِ وَ اِلٰۤی اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡہُمۡ ﴿۸۳﴾ ﴾
اگرچہ یہ آیت جنگ کے بارے میں ہے لیکن حکم عام ہے جن مسائل میں کوئی نص نہ ہو تو ان کے احکام کے حل کےلیے دو طرف رجوع کرنے کا حکم دیا۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں تو ان کی طرف رجوع کرکے حل کروائیں اور اگر وہ موجود نہ ہوں تو علماء اور فقہاء کی طرف رجوع کرکے حل کروائیں۔
قتل اور دیت کا بیان:
﴿وَ مَا کَانَ لِمُؤۡمِنٍ اَنۡ یَّقۡتُلَ مُؤۡمِنًا اِلَّا خَطَـًٔا ﴿۹۲﴾ ﴾
اللہ تعالیٰ نے قتل کے احکام بیان فرمائے ہیں کہ مسلمان کی شان کے لائق نہیں کہ کسی دوسرے مسلمان کو قتل کرے مگر غلطی سے۔
اولاً قتل کی دو قسمیں ہیں: قتل عمد اور قتل خطا، پھر یہاں قتل خطا کی تین صورتیں بیان کی ہیں :
1: مومن قتل ہوجائے تو قاتل پر دیت اور کفارہ لازم ہوگا۔ دیت کی مقدار احادیث میں بیان کی گئی ہے: سو اونٹ یا دس ہزار دینا لازم ہوں گے، کفارہ میں ایک مسلمان غلام آزاد کیا جائے گا اگر غلام میسر نہ تو دو ماہ مسلسل روزے رکھنے پڑیں گے۔
2: اگر کوئی مسلمان دارالحرب میں رہتا ہو، اسے غلطی سے قتل کر دیا جائے تو صرف کفار ہ لازم ہوگا۔
3: اگر کوئی ذمی (جودارالاسلام میں معاہدہ کے تحت رہتاہو)کوقتل کر د ے تو اس میں بھی قاتل پر کفارہ اور دیت لازم ہوگی۔
صلوۃ خوف اور صلوۃ قصر:
﴿وَ اِذَا ضَرَبۡتُمۡ فِی الۡاَرۡضِ فَلَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ اَنۡ تَقۡصُرُوۡا مِنَ الصَّلٰوۃِ﴿۱۰۱﴾ ﴾
گزشتہ آیات میں جہاد اور ہجرت کا بیان تھا تو چونکہ ان دونوں میں خوف وخطر کا سامناہوتا ہے جس کی وجہ صلوۃ خوف اور قصر کی نوبت پیش آتی ہے اس لیے یہاں صلوۃ خوف اور صلوۃ قصر کا ذکر کیا ہے۔ ان کی تفصیلات کے لیے کتبِ فقہ اور علماء کرام سے رجوع فرمائیں۔
اجماعِ امت حجت ہے:
﴿وَ مَنۡ یُّشَاقِقِ الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الۡہُدٰی وَ یَتَّبِعۡ غَیۡرَ سَبِیۡلِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَ نُصۡلِہٖ جَہَنَّمَ ﴿۱۱۵﴾﴾
اس آیت میں دوچیزوں کو بڑا جرم اور دخول جہنم کا سبب ہونا بتایا ہے:
1: ایک مخالفتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم، اور یہ ظاہر ہے کہ مخالفتِ رسول کفر اور بڑا جرم ہے۔
2: جس کام پر سب مسلمان متفق ہوں اس کو چھوڑ کر ان کے خلاف کوئی راستہ اختیار کرنا، اس سے معلوم ہوا کہ اجماع امت حجت ہے۔
منافقین کی ذہنی کیفیت:
﴿مُّذَبۡذَبِیۡنَ بَیۡنَ ذٰلِکَ ٭ۖ لَاۤ اِلٰی ہٰۤؤُلَآءِ وَ لَاۤ اِلٰی ہٰۤؤُلَآءِ﴿۱۴۳﴾﴾
اللہ تعالیٰ نے منافقین کی حالت بیان فرمائی کہ منافقین نہ ادھر کے ہوتے ہیں نہ ادھر کے، درمیان میں پھنسے پڑے ہوتے ہیں۔ جونہی دین میں کوئی فائدہ دیکھا تو ادھر لپک گئے دنیا میں کوئی فائدہ دیکھا تو ادھر دوڑ گئے۔
عذاب سے بچنے کا نسخہ:
﴿ مَا یَفۡعَلُ اللہُ بِعَذَابِکُمۡ اِنۡ شَکَرۡتُمۡ وَ اٰمَنۡتُمۡ ﴿۱۴۷﴾ ﴾
پانچویں پارے کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے بہت پیاری بات ارشاد فرمائی ہے: اگر تمہارا عقیدہ ٹھیک ہو اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر کرو تو اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب کیوں دے گا؟ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے کے لئےان دو چیزوں کا ہونا ضروری ہے: عقائد کا ٹھیک ہونا اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکرادا کرنا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں تمام نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ( آمین )
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ