پارہ نمبر: 6

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
پارہ نمبر: 6
ظلم ختم کرنے کا قانون:
﴿لَا یُحِبُّ اللہُ الۡجَہۡرَ بِالسُّوۡٓءِ مِنَ الۡقَوۡلِ اِلَّا مَنۡ ظُلِمَ ﴿۱۴۸﴾ ﴾
اگر کوئی شخص کسی پر ظلم کرتا ہے اور وہ ظالم کی کسی کو شکایت کرتا ہے یا عدالت میں چارہ جوئی کرتا ہے تو یہ عدل وانصاف ہے، جرائم اور ظلم کے بند ہونے کا سبب ہے۔ مظلوم کا آواز اٹھانا اور کسی کو شکایت کرنا غیبت بھی نہیں۔ لیکن اگر مظلوم صبر کرے اور معاف کردے تو آخرت میں بڑا اجر ملے گا۔
یہود کے دعویٰ کی تردید:
﴿ وَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ﴿۱۵۷﴾ۙ﴾
﴿بَلۡ رَّفَعَہُ اللہُ اِلَیۡہِ ؕ وَ کَانَ اللہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا ﴿۱۵۸﴾﴾
یہودیوں کا دعویٰ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کردیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید فرمائی کہ یہودیوں نے نہ تو عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کیا ہے اور نہ ہی سولی پر چڑھایا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بحفاظت آسمانوں پر اٹھا لیا ہے۔ اھل السنۃ والجماعۃ کے ہاں قربِ قیامت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا عقیدہ قطعی اور اجماعی ہے۔
عقیدہ تثلیث کی تردید:
﴿وَ لَا تَقُوۡلُوۡا ثَلٰثَۃٌ اِنۡتَہُوۡا خَیۡرًا لَّکُمۡ ﴿۱۷۱﴾٪ ﴾
نصاریٰ کے تین فرقے تھے ایک کہتاتھا کہ عیسیٰ علیہ السلام خود خداہیں۔ دوسرا فرقہ کہتاتھا کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں۔ تیسرا کہتا تھا کہ تین میں سے تیسرے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ، روح القدس اور عیسیٰ علیہ السلام تینوں کا مجموعہ خدا ہے۔ یہاں ان کے عقیدہ تثلیث کی تردید فرمائی کہ عیسیٰ علیہ السلام حضرت مریم علیہا السلام کے بطن مبارک سے پیدا شدہ بشر اور خدا کے سچے رسول ہیں۔
کلالہ کی میراث کا حکم:
﴿یَسۡتَفۡتُوۡنَکَ قُلِ اللہُ یُفۡتِیۡکُمۡ فِی الۡکَلٰلَۃِ ﴿۱۷۶﴾٪﴾
کلالہ وہ ہوتا ہے جس کی اولاد اور والدین نہ ہوں۔ تجہیز وتکفین، قرض کی ادائیگی اور وصیت کے بعد کلالہ کی ایک بہن ہو تو اسے نصف ، دو یا زیادہ ہوں تو دو تہائی، بھائی ہو تو ساری وراثت ، بہن بھائی دونوں ہوں تو مذکر کو مؤنث سے دوگنا ملے گا۔
سورۃ المائدہ
"مائدہ" عربی میں دسترخوان کو کہتے ہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی تھی کہ یا اللہ! مائدہ یعنی دسترخوان آسمان سے نازل فرما اس لیے اس سورۃ کا نام سورۃ المائدہ ہے۔ اس سورۃمیں حلال اور حرام چیزوں کا تفصیل کے ساتھ ذکر ہے۔
عہد پوراکرنےکاحکم:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَوۡفُوۡا بِالۡعُقُوۡدِ ﴿۱﴾ ﴾
اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو حکم دیا کہ معاہدات کو ضرور پورا کرو۔ ان سے مراد وہ معاہدات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے ایمان واطاعت کے متعلق لیے ہیں۔ یا مراد وہ معاہدات ہیں جو لوگ آپس میں ایک دوسرے سے کر لیا کرتے ہیں۔
نو چیزوں کی حرمت کا بیان :
﴿حُرِّمَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحۡمُ الۡخِنۡزِیۡرِ وَ مَاۤ اُہِلَّ لِغَیۡرِ اللہِ بِہٖ﴿۳﴾﴾
مردار، بہنے والا خون، خنزیر، وہ جانور جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو،جو جانور گلاگھونٹ کر ہلاک کیاگیا ہو،جو سخت ضرب کے ذریعے ہلاک کیا گیا ہو، جو اوپر سے نیچے لڑھکتا ہواگر کر مرجائے، جو کسی ٹکر اور تصادم سے ہلاک ہوگیاہو، جسے کسی درندے جانور نے پھاڑدیا اور وہ مرگیاتوان کا کھانا حرام ہے۔ البتہ اضطرار کی حالت میں جبکہ جان کو خطرہ لاحق ہو ان کا اتنی مقدار میں کھانا جس سے جان بچ جائے جائز ہے۔ پہلے چار کے علاوہ اگر کسی جانور کو زندہ حالت میں پاکر ذبح کردیا گیا تو وہ حلال ہوگا۔
تکمیلِ دین کا اعلان :
﴿اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا﴿۳﴾﴾
یہ قرآن کریم کی احکام کے اعتبارسے نازل ہونے والی آخری آیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یوم عرفہ؛ میدانِ عرفات میں اعلان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر دین کو کامل فرمادیا ہے۔ دین کے مکمل ہونے کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ مسائل قرآن کریم میں بیان فرمائے، کچھ احادیث میں اور کچھ مسائل کے لیے قرآن وحدیث میں اصول بتا دیےجن کی روشنی میں باقی ماندہ مسائل کو نکالا جائے گا۔ ان مسائل کو نکال کر دینے کے لیےاللہ تعالیٰ نے امت کو فقہاء عطا فرمائے ہیں۔
اہل کتاب کے ذبیحہ کا حکم:
﴿وَ طَعَامُ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمۡ وَ طَعَامُکُمۡ حِلٌّ لَّہُمۡ ٪﴿۵﴾﴾
یہاں طعام سے مراد ذبیحہ ہے۔ اہل کتاب کا ذبیحہ مسلمانوں کے لیے حلال ہے اور مسلمانوں کا ذبیحہ اہل کتاب کے لیے حلال ہے۔ اہل کتاب سے مراد وہ لوگ ہیں جوکسی ایسی آسمانی کتاب پر ایمان رکھتے ہوں جس کی قر آن وسنت تصدیق کرتے ہوں؛ یعنی توراۃ،انجیل، زبور اور صحفِ ابراہیم وموسی علیہما السلام۔ لہذا یہود ونصاری اہل کتاب ہیں۔
عدل وانصاف کا بیان:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ﴿۸﴾﴾
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عدل وانصاف کرنے کا حکم دیا ہے۔ دوستوں سے معاملہ ہو یا دشمنوں سے، عدل وانصاف کے حکم پر قائم رہو نہ تو کسی تعلق کی بنا پر اس میں کمزوری آئے اور نہ ہی کسی سے دشمنی وعداوت کی وجہ سے اس میں کمزور ی آئے۔
یہودونصاری کے دعوی کی تردید:
﴿وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ وَ النَّصٰرٰی نَحۡنُ اَبۡنٰٓؤُا اللہِ وَ اَحِبَّآؤُہٗ﴿۱۸﴾﴾
یہود ونصاریٰ کا دعویٰ تھا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے بیٹے اور محبوب ہیں۔ چونکہ ہم انبیاء کی اولاد ہیں اس لیے گناہ بھی کریں تو اس پر ناراضگی نہیں ہوگی۔ ان کے اس دعوی کو باطل کرنے کےلیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کیا کہ آپ ان سے پوچھیں: اچھاپھر تم بتاؤ کہ اللہ تعالی تمہیں آخرت میں عذاب کیوں دیں گے؟ سورۃ بقرہ میں یہود کا قول مذکور ہے کہ اگر ہمیں عذاب ہوا بھی تو گنتی کے چند دن ہوگا جب تمہیں خود بھی اقرار ہے، تو کیا کوئی باپ اپنے بیٹے یا محبوب کو عذاب دیا کرتا ہے؟
ہابیل اور قابیل کی داستان:
﴿وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ ابۡنَیۡ اٰدَمَ بِالۡحَقِّ ﴿۲۷﴾﴾
یہاں حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کا ذکر ہے۔ آدم علیہ السلام اور اماں حوا جب دنیا میں آئے، اولاد کا سلسلہ شروع ہوا تو ہر حمل سے جڑواں اولاد پیدا ہوتی تھی ؛ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔ ان کا آپس میں نکاح نہیں ہوسکتا تھا یہ حقیقی بہن بھائی سمجھے جاتے تھے۔ دوسرے حمل سے پیدا ہونے والے لڑکے سے اس لڑکی کا نکاح جائز تھا۔ قابیل کے ساتھ جو لڑکی پیدا ہوئی وہ بہت خوبصورت تھی۔ ہابیل کے ساتھ جو لڑکی پیدا ہوئی وہ کم خوبصورت تھی۔ اسی وجہ سے قابیل ہابیل کا دشمن ہوگیا۔ وہ چاہتا تھا جو لڑکی میرے ساتھ پیدا ہوئی ہے وہی میرے نکاح میں دی جائے۔ آدم علیہ السلام کی شریعت کے مطابق ان کا آپس میں نکاح نہیں ہو سکتا تھا۔ آدم علیہ السلام نے اس اختلاف کو ختم کرنے کےلیے فرمایاتم دونوں قربانی کروجس کی قربانی قبول ہوجائے گی یہ لڑکی اسی کو دی جائے گی ہابیل کی قربانی قبول ہوگئی۔ قابیل کی قبول نہ ہوئی۔ قابیل کو اور زیادہ غصہ آیا، اس نے ہابیل کو قتل کردیا۔
باغیوں کی سزا کابیان:
﴿اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیۡنَ یُحَارِبُوۡنَ اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَسۡعَوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ فَسَادًا﴿ۙ۳۳﴾﴾
یہاں باغیوں، ڈاکوؤں کی سزا کو بیان کیا گیا ہے۔ اس کی چار صورتیں ہیں: ان کو قتل کیا جائے یاسولی پر لٹکایاجائے یا مختلف جانب سے ہاتھ پاؤں کاٹے جائیں یا جلاوطن کیاجائے۔ ڈاکوؤں نے دارالاسلا م کے کسی مسلمان یا غیر مسلم کو قتل کیا، مال نہیں لوٹا تو ان کی سزا صرف قتل ہے۔ اگرکسی کو قتل بھی کیا اور مال بھی لوٹاتو زندہ سولی پر لٹکا کر نیزے سے پیٹ کو چاک کردیاجائے۔ اگر صرف مال لوٹا ہے تو مخالف جانب سے ہاتھ پاؤں کاٹےجائیں۔ اور اگر قتل بھی نہیں کیااور مال بھی نہیں لوٹا تو ان کو زمین سے نکال دیاجائے۔ ان سزاؤں کا بنیادی مقصد جرائم کو ختم کرنا ہے۔
چور کی سزا کا بیان:
﴿وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَۃُ فَاقۡطَعُوۡۤا اَیۡدِیَہُمَا﴿۳۸﴾﴾
کوئی شخص کسی دوسرے کا مال کسی محفوظ جگہ سے بغیر اس کی اجازت کے چھپ کر لےلے، اس کو چوری کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں عموماً خطا ب مردوں کوہوتا ہے عورتیں ضمناً، تبعاً شامل ہوتی ہیں۔ لیکن یہاں حدکا معاملہ تھا تو عورتوں کا ذکر بھی صراحتاً فرمایا کیونکہ حدود شبہات سے ساقط ہوجاتی ہیں۔ چور مرد ہویا عورت اگر مال مسروقہ کا نصاب پورا ہوتو ہاتھ کاٹاجائے گا۔
یہود،نصاری اور منافقین کا ذکر:
﴿یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ لَا یَحۡزُنۡکَ الَّذِیۡنَ یُسَارِعُوۡنَ فِی الۡکُفۡرِ ﴿۴۱﴾ ﴾
یہاں مذکورہ تینوں فرقوں کی عادت کو بیان کیا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے احکام اور ہدایات کے مقابلے میں اپنی خواہشات اور آراء کو مقدم رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات میں تاویلیں کرکے اپنی خواہشات کے مطابق بنانے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ یہاں ان لوگوں کی دنیا وآخرت میں رسوائی اور انجام بد کا بیان ہے۔
یہود ونصاری سے دلی دوستی کی ممانعت:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡیَہُوۡدَ وَ النَّصٰرٰۤی اَوۡلِیَآءَ﴿۵۱﴾﴾
یہودونصاریٰ سے دلی دوستی رکھنے سے منع کردیا کہ یہ تمہارے ساتھ مخلص نہیں۔ ان سے دوستی رکھنے میں نقصانات ہیں اس لیے تمہارا یارانہ صرف مسلمانوں سے ہونا چاہیے۔ اوریہی دستور یہود ونصاریٰ کا بھی ہے کہ وہ اپنی قوم کے علاوہ کسی اور سے دلی دوستی نہیں کرتے۔ اب اگراس قرآنی حکم کے باوجود بھی کوئی مسلمان یہودونصاریٰ سے دلی دوستی کرے گا تو وہ اسی قوم کا فرد کہلانے کے قابل ہے۔
مرتدین اور مخلصین کا ذکر:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَنۡ یَّرۡتَدَّ مِنۡکُمۡ عَنۡ دِیۡنِہٖ فَسَوۡفَ یَاۡتِی اللہُ بِقَوۡمٍ یُّحِبُّہُمۡ وَ یُحِبُّوۡنَہٗۤ﴿۵۴﴾﴾
اگر مسلمانوں میں کچھ لوگ مرتد بھی ہوجائیں تو دین اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ کیونکہ اللہ تعالی تمہارے محتاج نہیں ہیں اگر تم اللہ تعالیٰ کے دین کو سنبھالو گے تو یہ تمہاری دنیا و آخرت کے لیے اچھا ہوگا اور اگر تم خدا کے مقابلے میں اپنی مرضی چلاؤگے اور خدا کے دین کی حفاظت اور دعوت و تبلیغ کی خدمت انجام نہیں دوگے تو اللہ تعالیٰ تمہاری جگہ کسی دوسری جماعت کو لائیں گے جو اخلاق واعمال میں اعلی ہوگی۔ پھر اللہ تعالیٰ ان نئے لوگوں سے پیار کریں گے اور وہ اللہ تعالیٰ سے پیار کریں گے، اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے بالکل بھی نہیں ڈریں گے۔
تبلیغِ دین کی تاکید:
﴿یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ﴿۶۷﴾﴾
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ کی تاکید کی جارہی ہے اور ساتھ ساتھ تسلی بھی دی جارہی ہے کہ جو کچھ آپ پر نازل کیاجائے وہ سب بغیر کسی جھجک اور روک ٹوک کے لوگوں کو پہنچادیں۔ کوئی برامانے یا بھلا،اور مخالفت کرے یا قبول کرے آپ کسی کی پرواہ نہ کریں۔ اور تسلی بھی دی کہ تبلیغ دین میں کفار آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ یہی وجہ ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری زندگی اس فریضہ کی ادائیگی میں اپنی پوری ہمت وقوت صرف فرمائی۔
یہود،مشرکین اور نصاریٰ کی دشمنی:
﴿لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الۡیَہُوۡدَ وَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡا وَ لَتَجِدَنَّ اَقۡرَبَہُمۡ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّا نَصٰرٰی﴿۸۲﴾﴾
آخر میں ایک بات یہ بھی فرمائی کہ دیکھو تمہارے دشمن یہود بھی ہیں، مشرکین بھی ہیں، نصاریٰ بھی ہیں؛ تینوں تمہارے مخالف ہیں۔ لیکن ان تینوں میں سے یہودومشرکین مسلمانوں کے ساتھ نفرت، دشمنی اور کینہ زیادہ رکھتے ہیں اور عیسائی؛ یہودیوں کی نسبت نرم دل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی بات برحق ہے جو فرمایا سو فیصد درست ہے۔ جب یہود اور نصاری ہمارے دشمن ہیں تو ہمیں بھی اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ ہم بھی انہیں اپنا دشمن سمجھیں،خیرخواہ نہ سمجھیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کوقرآن کریم کی سورۃ البقرہ میں فرمادیا:
﴿وَ لَنۡ تَرۡضٰی عَنۡکَ الۡیَہُوۡدُ وَ لَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمۡ﴿۱۲۰﴾ؔ﴾
اے میرے پیغمبر! یہ یہود ونصاریٰ آپ سے تب راضی ہوں گے جب آپ یہودی یا عیسائی ہوجائیں ( العیاذ باللہ )اور ایسا ہونا نہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا امتی بنائے، شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ