پارہ نمبر: 7

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
پارہ نمبر: 7
حبشہ کے نصاریٰ:
﴿وَ اِذَا سَمِعُوۡا مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَی الرَّسُوۡلِ تَرٰۤی اَعۡیُنَہُمۡ تَفِیۡضُ مِنَ الدَّمۡعِ ﴿۸۳﴾﴾
چھٹے پارے کے آخر میں فرمایا تھا کہ نصاریٰ؛ بنسبت یہود ومشرکین کے مسلمانوں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اس آیت میں حبشہ کے نصاریٰ کا ذکر ہے۔ جب مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کرکے تشریف لے گئے، نصاریٰ نے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی مبارک زبان سے قرآن سناتو ان کے آنسو جاری ہوگئے۔
حلال وحرام کا بیان:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُحَرِّمُوۡا طَیِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللہُ لَکُمۡ ﴿۸۷﴾﴾
یہاں ایک ضابطہ بیان کیا گیا کہ کوئی بھی چیز خواہ وہ کھانے پینے، پہننے یا منکوحات کی قسم سے ہو؛ حلال یا حرام قراردینے کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ مسلمانوں کو حکم دیا کہ جن چیزوں کو حلال قرار دیا گیا ہے نہ تو تم ان کو حرام قرار دو اور نہ ہی ان کے استعمال سے گریز کرو بلکہ یہ حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں استعمال کرو۔
قسم کی چند صورتیں اوراحکام:
﴿ لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللہُ بِاللَّغۡوِ فِیۡۤ اَیۡمَانِکُمۡ﴿۸۹﴾﴾
قسم کی تین قسمیں ہیں:یمینِ لغو، یمینِ غموس، یمینِ منعقدہ۔کسی کام کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں اپنے خیال کے مطابق سچی قسم کھائے اور واقع میں وہ غلط ہواس کو یمینِ لغو کہتے ہیں، اس پر نہ کفارہ ہے نہ گناہ۔ اگر کسی گزشتہ کام پر جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھائے اس کویمینِ غموس کہتے ہیں۔ یہ سخت گناہ ہے، توبہ واستغفار کرے، البتہ اس کا کفارہ نہیں۔ آئندہ زمانے میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھائے اس کو یمین ِ منعقدہ کہتے ہیں۔ اس قسم کوتوڑنے پر کفار ہ واجب ہوتا ہےجو یہ ہے کہ دس مسکینوں کو درمیانے درجے کا کھانا کھلائے یا دس مسکینوں کو کپڑے پہنائے یا ایک غلام آزاد کردے اور اگر تینوں پر قادر نہیں تو پھر لگاتار تین روزے رکھے۔
حرام چیزوں کابیان:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَ الۡمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ﴿۹۰﴾﴾
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے چار چیزوں؛ شراب، جوا،بُت اور جوے کے تیروں کی حرمت کو بیان کرکے انہیں گندہ اور شیطانی عمل قرار دیاہے۔ ان سے بچنے میں ہی کامیابی ہے۔ یہ چیزیں ایسی ہیں جن کے ذریعے شیطان ایمان والوں میں بغض وعداوت ڈالنا چاہتا ہے، اور ان کے ذریعے اللہ کے ذکر اور نماز سے روکنا چاہتا ہے۔
احرام کی حالت میں شکار کرنے کا حکم:
مُحرِم کےلیے حالت احرام میں خشکی کا شکار کرنا جائز نہیں خواہ شکار ماکول اللحم ہو یا غیر ماکول اللحم ہو۔ البتہ سمندری اور دریائی جانوروں کا شکار حالت احرام میں بھی جائز ہے۔
بے فائدہ سوال کرنے کی ممانعت:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَسۡـَٔلُوۡا عَنۡ اَشۡیَآءَ اِنۡ تُبۡدَ لَکُمۡ تَسُؤۡکُمۡ﴿۱۰۱﴾﴾
بعض لوگوں کو خواہ مخواہ سوال کرنے کا شوق ہوتا ہے اس آیت میں ان کو سمجھایا گیا ہے کہ اس طرح کے سوالات نہ کریں جن کے نتیجے میں ان پر کوئی مشکل آجائے۔ ایک صحابی نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ حج ہر سال فرض ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ جب انہوں نے تیسری مرتبہ پوچھا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میں ہاں میں جواب دے دیتا تو حج ہر سال فرض ہوجاتااور پھر تم اس کو پورا نہ کرسکتے۔
مشرکانہ رسوم کی تردید:
﴿مَا جَعَلَ اللہُ مِنۡۢ بَحِیۡرَۃٍ وَّ لَا سَآئِبَۃٍ وَّ لَا وَصِیۡلَۃٍ وَّ لَا حَامٍ﴿۱۰۳﴾﴾
مشرکین نے اپنے طور پر کچھ جانوروں کو حرام قرار دیا ہوا تھا مثلاً بحیرہ، سائبہ،وصیلہ اور حام تو اللہ تعالیٰ نے ان کی اس رسم بد کی تردید فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے کسی جانور کو حرام قرار نہیں دیا۔
انبیاء کرام علیہم السلام سے سوال:
﴿یَوۡمَ یَجۡمَعُ اللہُ الرُّسُلَ فَیَقُوۡلُ مَا ذَاۤ اُجِبۡتُمۡ قَالُوۡا لَا عِلۡمَ لَنَا اِنَّکَ اَنۡتَ عَلَّامُ الۡغُیُوۡبِ ﴿۱۰۹﴾﴾
قیامت کے دن میدان محشر میں تمام انبیاء علیہم السلام سے ان کی امتوں کے بارے سوال کیاجائے گا کہ جب آپ لوگوں نے اپنی اپنی امتوں کو اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کی طرف دعوت دی تو ان لوگوں نے آپ کو کیا جواب دیا؟انبیاء علیہم السلام جواب میں کہیں گے کہ ہمیں ان کے ایمان وعمل کاکچھ علم نہیں آپ ہی غیب کی چیزوں کی خبر رکھنے والے ہیں۔
مائدہ کا مطالبہ:
﴿اِذۡ قَالَ الۡحَوَارِیُّوۡنَ یٰعِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ ہَلۡ یَسۡتَطِیۡعُ رَبُّکَ اَنۡ یُّنَزِّلَ عَلَیۡنَا مَآئِدَۃً مِّنَ السَّمَآءِ ﴿۱۱۲﴾﴾
مائدہ یعنی دسترخوان کا ذکر ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے مطالبے پراللہ تعالیٰ سے دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا کہ ٹھیک ہے ہم دسترخوان اتاریں گے لیکن اگر اس کے باوجود بھی کوئی نہ مانا تو پھر ہم بہت سخت سزا دیں گے۔
الوہیت عیسیٰ ومریم کی نفی:
﴿وَ اِذۡ قَالَ اللہُ یٰعِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ ءَاَنۡتَ قُلۡتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوۡنِیۡ وَ اُمِّیَ اِلٰہَیۡنِ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ﴿۱۱۶﴾﴾
قیامت کےدن اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے سوال کریں گے کہ اےعیسیٰ!کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو اللہ کے سوا معبود مانو؟ جواب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے: اللہ جی! آپ کی ذات پاک ہے، ایسی بات تو میرے لیے مناسب ہی نہیں جس کے کہنے کا مجھے حق نہ ہو۔
مختاریت باری تعالیٰ:
﴿اِنۡ تُعَذِّبۡہُمۡ فَاِنَّہُمۡ عِبَادُکَ وَ اِنۡ تَغۡفِرۡ لَہُمۡ فَاِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱۱۸﴾﴾
قیامت کے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے عرض کریں گے کہ میں نے تو انہیں آپ کی عبادت کا حکم دیا تھا۔ اگر انہوں نافرمانی اور سرکشی کی ہے تو اےاللہ! آپ کو اختیار ہے اگر آپ عذاب دینا چاہیں تو یہ آپ کے بندے ہیں آپ ان کو عذاب دینے پر قادر ہیں اور اگر آپ معاف کرنا چاہیں تو آپ غالب ہیں اور معاف کرنے کی حکمتیں بھی جانتے ہیں۔
نجات سچ میں ہے:
﴿قَالَ اللہُ ہٰذَا یَوۡمُ یَنۡفَعُ الصّٰدِقِیۡنَ صِدۡقُہُمۡ﴿۱۱۹﴾﴾
اس دن اللہ تعالی فرمائیں گے کہ عیسیٰ !یہ وہ دن ہے جہاں ہر شخص کی سچائی ہی کام آئے گی۔ سچوں کو نجات ملے گی اور جھوٹے تباہ ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سچائی کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے اور جھوٹ سے بچنے کی توفیق دے۔
سورۃ الانعام
"انعام "مویشیوں کو کہتے ہیں۔ چونکہ اس سورت میں مویشیوں کا ذکر ہے اس لیے اس پوری سورت کا نام ہی سورۃ الانعام رکھ دیا گیا ہے۔ اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی توحید،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ودیگر انبیاء علیہم السلام کی رسالت، قیامت اور قدرت باری تعالیٰ کے دلائل بیان کیے گئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ مشرکین کے غلط عقائد ونظریات کی بھی تردید کی گئی ہے۔
مشرکین سے سوال:
﴿وَ یَوۡمَ نَحۡشُرُہُمۡ جَمِیۡعًا ثُمَّ نَقُوۡلُ لِلَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡۤا اَیۡنَ شُرَکَآؤُکُمُ الَّذِیۡنَ کُنۡتُمۡ تَزۡعُمُوۡنَ ﴿۲۲﴾ ﴾
قیامت کے دن جب مشرکین اللہ تعالیٰ کے سامنے ہوں گے، ایک عرصے کے بعد اللہ تعالیٰ ان سے پوچھیں گےکہ کہاں ہیں وہ تمہارے شریک جن کو تم ہمارا شریک اور اپنا حاجت رواو مشکل کشا سمجھتے تھے، جن کے گن گاتے تھے اور اپنی جان ومال ان پر قربان کرتے تھے؟ اگلی آیت میں ہے کہ مشرکین بڑے غور کے بعد جواب دیں گے اللہ کی قسم ہم مشرک نہیں تھے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگادیں گے، ان کے ہاتھ، پاؤں اور دیگر اعضا ان کے خلاف گواہی دیں گے۔
مجرمین کی تمنا:
﴿قَدۡ خَسِرَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِلِقَآءِ اللہِ حَتّٰۤی اِذَا جَآءَتۡہُمُ السَّاعَۃُ بَغۡتَۃً قَالُوۡا یٰحَسۡرَتَنَا عَلٰی مَا فَرَّطۡنَا فِیۡہَا﴿۳۱﴾﴾
تین بنیادی عقائد میں سے تیسرے عقیدے؛ عقیدہ آخرت کو بیا ن کیا کہ جس وقت مجرمین کو جہنم کے کنارے پر کھڑا کیا جائے گاجہنم کی ہولناکی اور سختی کو دیکھ کر وہ اس وقت تمنا کریں گے کہ کا ش ہم پھردنیامیں واپس ہوجاتے تو ہم احکامات کی تکذیب نہ کرتے اور مومن ہوکر لوٹتے۔ بالفرض اگران کو دنیا میں بھیج بھی دیاجائے تو وہ اپنی اس بات کو بھول جائیں گے اور وہی کریں گے جو انہوں نے پہلے کیا تھا۔
اہل باطل کی مجلس سے بچنا:
﴿وَ اِذَا رَاَیۡتَ الَّذِیۡنَ یَخُوۡضُوۡنَ فِیۡۤ اٰیٰتِنَا فَاَعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ حَتّٰی یَخُوۡضُوۡا فِیۡ حَدِیۡثٍ غَیۡرِہٖ﴿۶۸﴾﴾
یہاں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ جب اہل باطل اللہ تعالیٰ کی آیات میں لہو ولعب اور استہزاء کرنے کےلیے دخل اندازی کریں تو آپ ان سے مبارک چہرہ پھیر لیں۔ یہاں اگرچہ بظاہر خطاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے لیکن مراد عام ہے یعنی امت بھی شامل ہے۔
مشرک باپ کاموحد بیٹا:
﴿وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہِیۡمُ لِاَبِیۡہِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصۡنَامًا اٰلِہَۃً اِنِّیۡۤ اَرٰىکَ وَ قَوۡمَکَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۷۴﴾ ﴾
یہاں کئی آیات میں امام الموحدین حضرت ابراہیم علیہ السلام کی توحید اور آپ علیہ السلام کے والد اور قوم کی بت پرستی کی تردید کا ذکر ہے۔ والد بت بناتے ہیں اور بیٹا دین کی دعوت دے رہا ہے۔ باپ مشرک بناتا ہے اور بیٹا توحیدی بناتاہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا اباجی! آپ اور آپ کی قوم دونوں گمراہی پر ہیں۔ میں آپ کو دعوت دیتاہوں خود کو اور قوم کو کفر سے بچائیے! پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو دلائل کے ساتھ سمجھایا اور ان کی ستارہ پرستی کی تردید فرمائی۔
اٹھارہ انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر:
﴿وَ تِلۡکَ حُجَّتُنَاۤ اٰتَیۡنٰہَاۤ اِبۡرٰہِیۡمَ عَلٰی قَوۡمِہٖ نَرۡفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنۡ نَّشَآءُ﴿۸۳﴾ ﴾
یہاں اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ انبیاء علیہم السلام کا یکجا ذکر کیا ہے۔ اس قدر انبیاء علیہم السلام کا ذکر اس سورت کے علاوہ اور کسی سورت میں نہیں ہے۔ ان کے اسمائے مبارکہ یہ ہیں: حضرت ابراہیم،حضرت اسحاق،حضرت یعقوب،حضرت نوح،حضرت داود،حضرت سلیمان، حضرت ایوب،حضرت یوسف،حضرت موسیٰ،حضرت ہارون،
حضرت زکریا، حضرت یحییٰ،حضرت عیسیٰ،حضرت الیاس، حضرت اسماعیل،حضرت یسع،حضرت یونس،حضرت لوط علیہم الصلاۃ والسلام۔ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ان کے نقش قدم پر چلو، ان کی ہدایات پر عمل کرو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو تعلیمات تمام انبیاء علیہم السلام کے درمیان قدرِ مشترک ہیں جیسے عقائد میں سے عقیدہ توحید، عقیدہ رسالت اور عبادات میں سے صداقت، دیانت، سچائی، ایفائےعہد، حقوق کی ادائیگی وغیرہ ؛ ان پر چلو۔ اگرچہ احکام کی تفصیل تبدیل ہوتی رہتی ہے لیکن بنیادی باتیں تمام انبیاء کی شریعت میں یکساں رہی ہیں۔
ذات وصفات خداوندی پر دلائل:
﴿اِنَّ اللہَ فَالِقُ الۡحَبِّ وَ النَّوٰی یُخۡرِجُ الۡحَیَّ مِنَ الۡمَیِّتِ وَ مُخۡرِجُ الۡمَیِّتِ مِنَ الۡحَیِّ ذٰلِکُمُ اللہُ فَاَنّٰی تُؤۡفَکُوۡنَ ﴿۹۵﴾ ﴾
تعالیٰ نے اپنی ذات اور صفات کادلائل کے ساتھ تعارف کروایا ہے۔ انسان خود سے اللہ تعالیٰ کی ذات کو سمجھنا چاہے تو اس کے بس میں نہیں، اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی معرفت دلائل اور نشانیوں سے حاصل ہوتی ہے۔
رؤیت باری تعالیٰ:
﴿لَا تُدۡرِکُہُ الۡاَبۡصَارُ وَ ہُوَ یُدۡرِکُ الۡاَبۡصَارَ وَ ہُوَ اللَّطِیۡفُ الۡخَبِیۡرُ ﴿۱۰۳﴾﴾
اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ یہ ہے کہ اس دنیا میں کوئی جن یا بشر اللہ تعالیٰ کی ذات کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا، یہ ناممکن ہے۔ البتہ عالم آخرت میں اہل جنت کو اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوگا وہ اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کی زیارت کریں گے۔ جو حدیث پاک میں ہے کہ شب معراج میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوا ، یہ قرآن کریم کی اس آیت کے خلاف نہیں کیونکہ آیت میں اس دنیا میں رؤیت کی نفی ہے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس مقام پردیدار ہوا وہ عالم آخرت کہلاتا ہے عالم دنیا نہیں۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ