پارہ نمبر: 8

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
پارہ نمبر: 8
مشرکین کی ہٹ دھرمی:
﴿وَ لَوۡ اَنَّنَا نَزَّلۡنَاۤ اِلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃَ وَ کَلَّمَہُمُ الۡمَوۡتٰی وَ حَشَرۡنَا عَلَیۡہِمۡ کُلَّ شَیۡءٍ قُبُلًا مَّا کَانُوۡا لِیُؤۡمِنُوۡۤا﴿۱۱۱﴾﴾
ساتویں پارے کے آخر میں تھا کہ مشرکین؛ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی پسند اور مرضی کے معجزات طلب کرتے تھے۔ یہاں بیان کیا کہ اگر ان کے فرمائشی معجزات کو پورا کرنے کےلیے آسمان سے فرشتے اتریں اور مردے ان سے کلام کریں یہ پھر بھی اپنی ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے ایمان نہیں لائیں گے۔
تسلی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم:
﴿وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیۡنَ الۡاِنۡسِ وَ الۡجِنِّ یُوۡحِیۡ بَعۡضُہُمۡ اِلٰی بَعۡضٍ زُخۡرُفَ الۡقَوۡلِ غُرُوۡرًا﴿۱۱۲﴾﴾
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو تسلی دی کہ ان کی دشمنی سے پریشان نہ ہوں۔ سابقہ انبیاء علیہم الصلوۃ والتسلیم کے ساتھ بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ انسان اور جنات ان کے دشمن ہواکرتے تھے جوان کے خلاف سازشیں کرتے تھے۔ لہذا آپ کے راستے میں بھی رکاوٹیں ڈالی جائیں گی،دشمن بھی ہوں گے؛ آپ پریشان نہ ہوں۔
مؤمن اور کافر کی مثال:
﴿اَوَ مَنۡ کَانَ مَیۡتًا فَاَحۡیَیۡنٰہُ وَ جَعَلۡنَا لَہٗ نُوۡرًا یَّمۡشِیۡ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنۡ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیۡسَ بِخَارِجٍ مِّنۡہَا﴿۱۲۲﴾﴾
یہاں اللہ تعالیٰ نے کفاراور ایمان والوں کی حالت کو مثال دے کر سمجھایا ہے کہ مؤمن اورکافر کی مثال ایسے ہے جیسے زندہ اور مردہ، ایمان اور کفر کی مثال ایسے ہے جیسے روشنی اور اندھیرا۔
محشر میں سوال وجواب کا ذکر:
﴿یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ اَلَمۡ یَاۡتِکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡکُمۡ یَقُصُّوۡنَ عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِیۡ وَ یُنۡذِرُوۡنَکُمۡ لِقَآءَ یَوۡمِکُمۡ ہٰذَا﴿۱۳۰﴾﴾
محشر میں اللہ تعالیٰ ان انسانوں اور جنوں سے پوچھیں گے جنہوں نے نافرنی کی تھی کہ کیا تمہارے پاس میرے رسول نہیں پہنچے تھے جو تمہیں میری آیات پڑھ پڑھ کر سناتے تھے اور تمہیں ملاقات کے دن سے ڈراتے تھے؟ وہ اس وقت رسولوں کے آنے کا اور اپنے کفر اور نافرمانی کا اعتراف کریں گے۔
مشرکین کے عقائد باطلہ:
﴿وَ جَعَلُوۡا لِلہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الۡحَرۡثِ وَ الۡاَنۡعَامِ نَصِیۡبًا فَقَالُوۡا ہٰذَا لِلہِ بِزَعۡمِہِمۡ وَ ہٰذَا لِشُرَکَآئِنَا﴿۱۳۶﴾﴾
مشرکین؛ کھیتی اور جانوروں میں جو پیداوار ہوتی اپنے خیال کے مطابق اس میں سے ایک حصہ اللہ تعالیٰ کےلیے ٹھہراتے اور ایک حصہ بتوں کےلیے۔ اللہ تعالیٰ کے حصے کو مساکین، فقراء میں تقسیم کردیتے اور بتوں کے حصے کو بت خانے کے مجاوروں پر خرچ کرتے۔ حالانکہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہواہے اور حقیقت میں بھی اسی کا ہے۔ یہاں مشرکین کے عقائد باطلہ اور گمراہی کو بیان کیا ہے۔
مشرکین کی جاہلانہ رسوم:
﴿وَ کَذٰلِکَ زَیَّنَ لِکَثِیۡرٍ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ قَتۡلَ اَوۡلَادِہِمۡ شُرَکَآؤُہُمۡ ﴿۱۳۷﴾ ﴾
یہاں سے لے کر کئی آیات تک مشرکین کی جاہلانہ رسوم کو بیان کیا گیا ہے ان میں سے چند ایک یہ ہیں:
بیٹیوں کو قتل کرنا۔ اگر یہ بیٹیاں نہ ہوتیں تو یہ کیسے پیدا ہوتے؟ آگے اولاد کیسے چلتی؟بحیرہ اور سائبہ جانوروں کو بتوں کے نام پر چھوڑنا۔ جن جانوروں کو بتوں کے نام پر چھوڑتے ان پر سواری اور بوجھ اٹھانے کو حرام سمجھنا۔ بعض جانوروں کا دودھ مردوں کےلیے حلال اور عورتوں کے لیے حرام سمجھنا،وغیرہ۔
مشرکین کی تردید:
﴿ثَمٰنِیَۃَ اَزۡوَاجٍ مِنَ الضَّاۡنِ اثۡنَیۡنِ وَ مِنَ الۡمَعۡزِ اثۡنَیۡنِ قُلۡ ءٰٓالذَّکَرَیۡنِ حَرَّمَ اَمِ الۡاُنۡثَیَیۡنِ اَمَّا اشۡتَمَلَتۡ عَلَیۡہِ اَرۡحَامُ الۡاُنۡثَیَیۡنِ ﴿۱۴۳﴾ۙ ﴾
اللہ تعالیٰ نے آٹھ قسم کے حلال جانور(بھیڑ،بکری، اونٹ، گائے بھینس ) نر اور مادہ کا ذکر کیا ہے۔ مشرکین نے اپنی طرف سے کچھ مخصوص جانوروں کو حرام ٹھہرایا تھا، ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا ان کی تحریم اللہ تعالیٰ نے کی ہے؟ دلیل سے بتاؤ اگر تم اپنے اس کلام میں سچے ہو ! کیا تم اس وقت حاضر تھے جب اللہ تعالیٰ نے تحریم اور تحلیل کا حکم دیا؟ظاہر ہے نہ تو ان کے پاس دلیل ہے اور نہ ہی یہ اس وقت حاضر تھے۔ پھر ان مشرکین سے بڑاظالم اور کاذب علی اللہ کون ہوگا؟ اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتے۔
مشرکین کی بری عادت:
﴿قُلۡ لَّاۤ اَجِدُ فِیۡ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطۡعَمُہٗۤ اِلَّاۤ اَنۡ یَّکُوۡنَ مَیۡتَۃً اَوۡ دَمًا مَّسۡفُوۡحًا اَوۡ لَحۡمَ خِنۡزِیۡرٍ ﴿۱۴۵﴾﴾
مشرکین کی طرف سے بعض چیزوں کو خود ہی حلال اور بعض کو حرام کہنے کی تردید کرتے ہوئے ان کو سمجھایا کہ کسی چیز کو حلال یا حرام قراردینا صرف اللہ تعالی کا کام ہے جن چیزوں کو اللہ تعالی نے حلال قراردیا ہے انہیں حلال سمجھیں اور جن چیزوں کو اللہ تعالی نے حرام قرار دیا ہے انہیں حرام سمجھیں۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے یہاں چارچیزوں کو حرام قرار دیا ہے۔ مردار، بہنے والا خون، خنزیر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور۔
اوامر و نواہی کا بیان:
﴿قُلۡ تَعَالَوۡا اَتۡلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمۡ عَلَیۡکُمۡ اَلَّا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا﴿۱۵۱﴾﴾
دین کا خلاصہ دو چیزیں ہیں: اوامر اور نواہی۔ اوامرپر عمل کرنا ہے اور نواہی سے اجتناب کرنا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے اوامر اور نواہی میں سے دس چیزیں بیان فرمائی ہیں۔ ان کا بہت زیادہ خیال کرنا چاہیے:
اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔ اپنی اولاد کو رزق کےخدشے کی وجہ سے قتل نہ کرنا۔ بے حیائی اور ہر قسم کے برے کام سے بچنا۔ کسی بے گناہ آدمی کو ناحق قتل نہ کرنا۔ یتیم بچوں کے مال میں بطور خاص ناجائز تصرف نہ کرنا۔ ناپ تول میں کمی نہ کرنا۔ عدل و انصاف کرنا۔ اللہ تعالیٰ کے عہد کو پورا کرنا۔ صرف صراط مستقیم پر چلنا۔
رحیم وکریم:
﴿مَنۡ جَآءَ بِالۡحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشۡرُ اَمۡثَالِہَا وَ مَنۡ جَآءَ بِالسَّیِّئَۃِ فَلَا یُجۡزٰۤی اِلَّا مِثۡلَہَا ﴿۱۶۰﴾ ﴾
اللہ تعالیٰ کی ذات کتنی کریم اور رحیم ہے کہ انسان جب نیکی کاصرف ارادہ کرتاہے تواس کے نامہ اعمال میں ایک نیکی لکھ دی جاتی ہےاگر وہ نیکی کرلے تو نامہ اعمال میں دس نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں۔ گناہ کا ارادہ کرے تو گناہ لکھا نہیں جاتاجب تک گناہ کر نہ لے، اگر وہ گناہ کرلے تو صرف ایک گناہ لکھاجاتاہے۔
مالکیت باری تعالیٰ:
﴿قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۲﴾ۙ ﴾
سورۃ انعام کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اے میرے نبی! کہہ دیجیےکہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ کےلیے ہے۔ تمام چیزوں کے اللہ تعالیٰ ہی مالک ہیں ہم مملوک ہیں اس لیے انسان کادل، دماغ، ہاتھ، پاؤں، زبان، آنکھ، کان؛ الغرض ہر چیز اللہ رب العزت کی اطاعت کےلیے استعمال ہو اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف ہر گزاستعمال نہ ہو۔
سورۃاعراف
"اعراف " حد فاصل اور دیوارکو کہتے ہیں چونکہ سورۃ اعراف کی آیت نمبر48 میں اصحاب اعراف کا ذکر ہے جو دیوار پر بیٹھ کر اہل جنت اور اہل جہنم کو دیکھ رہے ہوں گےاس لیے اس کا نام سورۃ اعراف ہے۔ اس سورۃ میں زیادہ تر بنیادی مضامین یعنی آخرت، رسالت اور توحیدکو بیان کیاگیاہے۔
تسلی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم:
﴿کِتٰبٌ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ فَلَا یَکُنۡ فِیۡ صَدۡرِکَ حَرَجٌ مِّنۡہُ لِتُنۡذِرَ بِہٖ وَ ذِکۡرٰی لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۲﴾ ﴾
یہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی ہے کہ تبلیغ دین میں آپ کا دل تنگ نہیں ہونا نہیں ہونا چاہیے کہ لوگ اس کو جھٹلا دیں گے۔ وہ ایمان نہ لائیں تو آپ پریشان نہ ہوں کیونکہ آپ کا کام فقط دین کو احسن طریقے سے پہنچادینا ہے۔
ترازو برحق ہے:
﴿وَ الۡوَزۡنُ یَوۡمَئِذِ ۣالۡحَقُّ فَمَنۡ ثَقُلَتۡ مَوَازِیۡنُہٗ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ﴿۸﴾﴾
قیامت کے دن اچھے اور برے دونوں اعمال کا وزن کیاجائے گا اور یہ حق وصحیح ہے۔ اعمال کو شمار نہیں کیاجائے گا بلکہ وزن کیاجائے گا۔ ان آیات میں بات سمجھائی کہ جس شخص کے اعمال کا پلڑا بھاری ہو گا وہ کامیاب ہوگا، جس کے اعمال کا پلڑا ہلکا ہوگا وہ ناکام ہوگا۔ اس لیے اعمال کا صحیح اور سنت کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ مزید یہ کہ اعمال کے قبول ہونے کی تین شرائط ہیں :نمبر ایک عقیدہ ٹھیک ہو۔ نمبردوارادہ ٹھیک ہو۔ نمبر تین طریقہ ٹھیک ہو۔
داستان آدم علیہ السلام وابلیس:
﴿وَ لَقَدۡ خَلَقۡنٰکُمۡ ثُمَّ صَوَّرۡنٰکُمۡ ثُمَّ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡالِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ﴿۱۱﴾ ﴾
یہاں سے کئی آیات تک حضرت آدم علیہ السلام کی تفصیلی داستان کا ذکر ہے۔ آدم علیہ السلام کا مسجود ملائکہ ہونا، شیطان کا مردود ہونا، آدم علیہ السلام کا جنت میں رہنا پھر جنت سے زمین پر آنا اور آخر میں دعاکا ذکر ہے۔ اور ساتھ ساتھ ابن آدم کو سمجھایا گیا کہ شیطان تمہارا ازلی دشمن ہے اس لیے اس سے بچ کر رہنا۔
چوتھا عین:
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ شیطان میں تین عین تھے، مگر چوتھا عین نہیں تھا، اس لیے مارا گیا۔ وہ عالم تھا اور اتنا بڑا عالم کہ معلم ملکوت کہلاتا تھا۔ بہت بڑا عابد بھی تھا۔ وہ عارف تھا اور ایسا عارف کہ عین غضب الٰہی کے وقت بھی جب کہ اُسے راندۂ درگاہ کیا جارہا تھا، دعا کرنے لگا کہ مجھے مہلت دو، کیونکہ جانتا تھا کہ یہ حالت بھی قبولیت دعا سے مانع نہیں۔ لیکن ظالم میں عشق نہیں تھا، اگراسے یہ چوتھا عین بھی حاصل ہوجاتا اور اسے اللہ تعالیٰ سے محبت ہوتی تو حکم الٰہی سے سرتابی نہ کرتا، جب حکم ہوا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو تو فوراً سجدہ میں گرجاتا، کیونکہ محبت مصلحتیں اور علتیں تلاش نہیں کیا کرتی، محبت تو محبوب کے حکم پر مرمٹنے کا نام ہے، پس جب تک عشق ومحبت نہ ہو، نہ علم کا اعتبار ہے، نہ عبادت کا، نہ معرفت کا۔
معنوی اور ظاہری لباس:
﴿یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ قَدۡ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡکُمۡ لِبَاسًا یُّوَارِیۡ سَوۡاٰتِکُمۡ وَ رِیۡشًا وَ لِبَاسُ التَّقۡوٰی ذٰلِکَ خَیۡرٌ﴿۲۶﴾﴾
گزشتہ آیات میں بتایا کہ شیطان کی خباثت کی وجہ سے آدم وحواعلیہما السلام کا جنتی لباس اترا اور انہیں برہنہ ہونا پڑا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے لباس کو نعمت قرار دیا ہے۔ لباسِ ظاہری بھی نعمت ہے جس سے انسان اپنا ستر چھپاتا ہے اور اس کا اصل مقصد بھی تقوی اختیار کرنا ہے۔ اور لباسِ معنوی یعنی تقوی اختیارکرنا یہ لباسِ ظاہری سے بھی بڑھ کر ہے۔ اس لیے اولاد آدم کو دونوں لباسوں کا اہتمام کرناچاہیے کہ کہیں شیطان ان کے باپ کی طرح اولاد کو بھی آزمائش میں نہ ڈال دے۔
لباس اختیار کرنے کا حکم:
﴿یٰبَنِیۡۤ اٰدَمَ خُذُوۡا زِیۡنَتَکُمۡ عِنۡدَ کُلِّ مَسۡجِدٍ ﴿۳۱﴾﴾
گزشتہ آیات میں مشرکین کی رسم بداورجاہلانہ رسم کا بیان تھا کہ وہ ننگے جسم بیت اللہ کا طواف کرتے تھے اور اس کو عبادت اور بیت اللہ کا احترام سمجھتے تھے۔ یہاں سے ان کی اس بے ہودہ رسم کی تردید کی جارہی ہے کہ بیت اللہ کا برہنہ ہوکر طواف کرنا بے حیائی اور سخت بے ادبی ہے۔ اس آیت سے جمہور صحابہ کرام و تابعین اور فقہا ء کرام رضی اللہ عنہم نے استنباط کیا ہے کہ جس طرح ننگی حالت میں طواف کرنا منع ہے اسی طرح ننگے سر نماز پڑھنا بھی منع ہے۔
انسان بقدر طاقت مکلف ہوتاہے:
﴿وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَا نُکَلِّفُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَاۤ﴿۴۲﴾﴾
اللہ تعالیٰ نے دین کے بارے میں فرمایا کہ یہ ایسا بہترین دین ہے کہ اس میں اسی چیز کا حکم دیا گیا ہے جو انسان کی طاقت میں ہے۔ ہمت سے جو بڑھ جائے اس کا اللہ تعالیٰ حکم ہی نہیں دیتے بلکہ جتنا برداشت ہوسکے اسی کا حکم دیتے ہیں۔
ایک ہے کسی چیز کا ناممکن ہونا، برداشت سے باہر ہونا اور ایک ہے کسی چیز کا مشکل ہونا۔ شریعت کا کوئی حکم ناممکن اور برداشت سے باہر نہیں ہے، ہاں البتہ کچھ نہ کچھ مشکل ہوتا ہے تبھی تو اللہ تعالیٰ عمل کرنے پر اجر عطا فرماتے ہیں۔
اصحاب اعراف کا ذکر:
﴿وَ نَادٰۤی اَصۡحٰبُ الۡجَنَّۃِ اَصۡحٰبَ النَّارِ اَنۡ قَدۡ وَجَدۡنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَہَلۡ وَجَدۡتُّمۡ مَّا وَعَدَ رَبُّکُمۡ حَقًّا ؕ قَالُوۡا نَعَمۡ ﴿۴۴﴾﴾
یہاں سے کئی آیات تک اہل جنت، اہل جہنم اور اصحاب الاعراف کا تذکرہ فرمایا کہ ایک طرف جنت والے ہیں اور ایک طرف جہنم والے ہیں درمیان میں ایک دیوار ہے جس کا نام اعراف ہے۔ جنت والے جہنم والوں سے کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا وہ سچا تھا ہم نے پالیا۔ تمہارے ساتھ جو جہنم کا وعدہ تھا تمہیں بھی مل گیا ہے۔ اور کچھ لوگ اعراف والے ہوں گے یعنی جن کی نیکیاں اور برائیاں دونوں برابر ہوں گی تو یہ لوگ اعراف میں ہوں گے بالآخر اللہ تعالیٰ ان کو بھی جنت میں داخل فرمادیں گے۔
توحیدپر اہم دلائل:
﴿اِنَّ رَبَّکُمُ اللہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ﴿۵۴﴾ ﴾
یہاں سے اللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین کی تخلیق کا ذکر کیا کہ سات آسمان بنائے کسی آسمان کے نیچے ستون نہیں ہے۔ ایک چھوٹی سی چھت بغیر سہارے کے کھڑی نہیں ہوتی مگر اللہ تعالیٰ کی طاقت و قدرت تو دیکھیں کہ اس قادر مطلق نے سات آسمان بغیر ستون کے پیدا فرمائے ہیں۔ پھر عرش کی وسعت کا ذکر فرمایا ہے اور عرش بھی بغیر سہارے اورستونوں کے ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے سورج اور چاند کی تخلیق بتائی کہ سورج کیسے پیدا فرمایا، چاند کیسے پیدا فرمایا یہ کتنی بڑی مخلوقات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی قدرت اور طاقت سے پیدا فرمایااور پھر ان کے نظام کو چلارہے ہیں۔
پانچ انبیاء علیہم السلام اور ان کی اقوام کا ذکر:
﴿لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰی قَوۡمِہٖ فَقَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ﴿۵۹﴾ ﴾
یہاں سے لے کر پارے کے آخر تک اللہ تعالیٰ نے پانچ انبیاء علیہم السلام اور ان کی امتوں کے قصص بیان فرمائے ہیں۔
ان قصص کے بیان کرنے سے ایک تو یہ بتانا مقصود ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام اصول میں متفق ہیں کہ تمام انبیاء نے اللہ تعالی کی توحید کی دعوت دی۔ دوسرا مقصد خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینا ہے کہ مخالفین کی تکالیف پردل برداشتہ نہ ہوں کیونکہ سابقہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ان کی قوموں نے بھی ایساکیاتھا۔ ان انبیاء کے اسمائے مبارکہ یہ ہیں: حضرت نوح، حضرت ھود، حضرت صالح، حضرت لوط، حضرت شعیب؛ علیہم السلام۔
آخر میں دعا کرتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں شرک سے بچنے اور توحید پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے، بری عادات سے بچنے کی اور اچھی عادات اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اہل باطل سے دور رہنے اور اہل حق کے ساتھ چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ