پارہ نمبر: 9

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
پارہ نمبر: 9
قومِ شعیب علیہ السلام کی دھمکی:
﴿قَالَ الۡمَلَاُ الَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖ لَنُخۡرِجَنَّکَ یٰشُعَیۡبُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَکَ مِنۡ قَرۡیَتِنَاۤ اَوۡ لَتَعُوۡدُنَّ فِیۡ مِلَّتِنَا﴿۟۸۸﴾﴾
آٹھویں پارے کے آخر میں حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کی قوم کی داستان شروع ہوئی تھی۔ اب نویں پارے کے شروع میں بھی انہی کی بقیہ داستان ہے۔ قوم کے متکبر لوگوں نے کہا اے شعیب!( علیہ السلام) یا تو تم اور جو تم پر ایما ن لائے ہیں سارے ہماری ملت میں واپس آجاؤوگرنہ ہم تمہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے۔ بالآخر قوم کی سرکشی کی وجہ سے ان پر زلزلہ آیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔
دستور ِخداوندی:
﴿وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا فِیۡ قَرۡیَۃٍ مِّنۡ نَّبِیٍّ اِلَّاۤ اَخَذۡنَاۤ اَہۡلَہَا بِالۡبَاۡسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّہُمۡ یَضَّرَّعُوۡنَ ﴿۹۴﴾ ﴾
اللہ تعالیٰ کی سنت اور طریقہ یہ ہے کہ جب کسی قوم کی طرف رسول بھیجتے ہیں اور وہ ان کی بات نہیں مانتے تو اللہ تعالیٰ پہلے ان کو فقروفاقہ،بیماری اور کسی مصیبت میں مبتلا کرتے ہیں۔ وہ باز نہ آئیں تو پھر انعامات، مال کی وسعت اور صحت دیتے ہیں تاکہ مصبیت کے بعد آسانی ملنے پر وہ شکر گزار بنیں۔ لیکن وہ پھر بھی بازنہیں آتے بلکہ کہتے ہیں کہ زمانہ کی عادت یہی ہے کہ کبھی تنگی اور کبھی آسانی؛ تو پھر اچانک اللہ تعالیٰ ان کو عذاب میں مبتلا کردیتے ہیں۔
داستانِ موسیٰ علیہ السلام وفرعون:
﴿ثُمَّ بَعَثۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ مُّوۡسٰی بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ وَ مَلَا۠ئِہٖ فَظَلَمُوۡا بِہَا﴿۱۰۳﴾﴾
یہاں سے لے کر کئی آیات تک حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا تفصیلی واقعہ بیان فرمایا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فرعون کے ساتھ مقابلہ ہوا ، فرعون سے گفتگو ہوئی اور فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں جادوگر بلائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فتح دی، جادوگروں کو ناکام کیا، پھر وہ سارے کے سارے جادوگر کلمہ پڑھ کرحضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے۔
معجزات کا ذکر:
﴿فَاَلۡقٰی عَصَاہُ فَاِذَا ہِیَ ثُعۡبَانٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۱۰۷﴾وَّ نَزَعَ یَدَہٗ فَاِذَا ہِیَ بَیۡضَآءُ لِلنّٰظِرِیۡنَ ﴿۱۰۸﴾٪ ﴾
اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو دو بڑے معجزے دیے ہیں:
1-ید بیضاء: اپنا ہاتھ بغل کے نیچے رکھتے پھر نکالتے تو ایسے چمکتا جیسے سورج چمکتا ہے۔
2- عصاء: موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام پتھر پر مارتے تو پانی کے چشمے بہہ پڑتے۔ اور سمندر پر مارتے توپانی میں راستے بن جاتے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کی قوم کی طرف آئے ہیں،دعوت دی ہے، انہوں نے ان کی دعوت کو جھٹلایا تو ان پر کئی قسم کے عذاب آئے ہیں۔
مختلف عذابوں کا ذکر:
﴿فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمُ الطُّوۡفَانَ وَ الۡجَرَادَ وَ الۡقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ ﴿۱۳۳﴾ ﴾
یہاں پر ان میں سے پانچ عذابوں کا ذکر ہے: طوفان کا عذاب، ٹڈی دل کا عذاب، چیچڑیوں یعنی جوؤوں کاعذاب، مینڈکوں کا عذاب اور خون کا عذاب۔
قوم کی اپیل:
﴿وَ لَمَّا وَقَعَ عَلَیۡہِمُ الرِّجۡزُ قَالُوۡا یٰمُوۡسَی ادۡعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَہِدَ عِنۡدَکَ﴿۱۳۴﴾ۚ﴾ۚ
جب ایک عذاب آتا تو وہ کہتےاے موسیٰ! اللہ تعالیٰ سے دعا کرو اگر یہ ٹل جائے تو آپ کی بات مان لیں گے،موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے، عذاب ٹل جاتا، یہ پھر سرکشی کرنا شروع کر دیتے۔ پھر دوسرا عذاب آتا… اے موسیٰ! اللہ تعالیٰ سے دعا کرو اگر یہ ٹل جائے تو آپ کی بات مان لیں گے۔ موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے، عذاب ٹل جاتا، یہ پھر سرکشی کرنا شروع کر دیتے۔ تو یہ لوگ سرکشی سے باز نہ آئے ان کی سرکشی بڑھتی ہی چلی گئی۔
ضابطہ حیات کی درخواست:
﴿وَ وٰعَدۡنَا مُوۡسٰی ثَلٰثِیۡنَ لَیۡلَۃً وَّ اَتۡمَمۡنٰہَا بِعَشۡرٍ فَتَمَّ مِیۡقَاتُ رَبِّہٖۤ اَرۡبَعِیۡنَ لَیۡلَۃً﴿۱۴۲﴾﴾
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرئیل کو ساتھ لے گئے تو فرعونیوں نے پیچھا کیا اور وہ دریا میں غرق ہوگئے۔ اب بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے درخواست کی کہ ہمیں کوئی ضابطہ حیات، شریعت یا دستور خداندی چاہیے جس کے مطابق ہم زندگی گزار سکیں! حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کوہ طور پر تیس دن کا قیام فرمائیں پھر مزید دس دن بڑھا دیے۔
دنیوی واخروی سزا کا ذکر:
﴿اِنَّ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوا الۡعِجۡلَ سَیَنَالُہُمۡ غَضَبٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ ذِلَّۃٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا﴿۱۵۲﴾﴾
موسیٰ علیہ السلام نے جاتے ہوئے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو اپناجانشین بنایاکہ میری قوم کی اصلاح کرتے رہنا اور انہیں سمجھاتے رہنا مگر قوم شرک میں مبتلا ہو گئی۔ اب یہاں سے فرمارہے ہیں کہ بچھڑے کو معبود بنانے کی وجہ سے آخرت میں بھی ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے غضب ہوگا اور دنیوی زندگی میں بھی یہ ذلیل وخوار ہوں گے۔
امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف:
﴿اَلَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الرَّسُوۡلَ النَّبِیَّ الۡاُمِّیَّ الَّذِیۡ یَجِدُوۡنَہٗ مَکۡتُوۡبًا عِنۡدَہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ وَ الۡاِنۡجِیۡلِ﴿۱۵۷﴾﴾
پہلی صفت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رسول ہیں۔ رسول ایسے پیغمبر کو کہتے ہیں جو نئی شریعت لےکر آئے۔ دوسری صفت یہ ہے کہ آپ نبی ہیں(صلی اللہ علیہ وسلم )۔ تیسری صفت آپ صلی اللہ علہ وسلم کے اُمّی ہونے کی ہے۔ چوتھی صفت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ توراۃ وانجیل میں ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خطاب بھی ہے کہ آپ علیہ السلام کی قوم کے جولوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجودہوں گے ان کے لیے دنیا وآخرت کی کامیابی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے میں ہی ہوگی۔
ختم نبوت پر دلیل :
﴿قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعَۨا﴿۱۵۸﴾﴾
اس آیت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا جارہاہے کہ آپ اعلانِ عام کے ذریعہ لوگوں کو بتادیں کہ میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سابقہ انبیاء علیہم السلام کی طرح کسی خاص قوم یا قبیلے یا خطے یا ملک کے نبی نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام اقوام عالم، جن وانس اور قیامت تک آنے والی نسلوں کےلیے نبی ورسول ہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک تمام اقوام عالم کے لیے نبی ورسول ہیں توپھر کسی اور نبی کے آنے کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔ یہی تو ختم نبوۃ کی دلیل ہے۔
یہود کی بقیہ داستان:
﴿وَ قَطَّعۡنٰہُمُ اثۡنَتَیۡ عَشۡرَۃَ اَسۡبَاطًا اُمَمًاوَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰۤی اِذِ اسۡتَسۡقٰىہُ قَوۡمُہٗۤ اَنِ اضۡرِبۡ بِّعَصَاکَ الۡحَجَرَ﴿۱۶۰﴾ ﴾
درمیان میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومی بعثت اور ختم نبوۃ کا بیان تھا۔ اب یہاں سے لے کر کئی آیات تک پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے یہودیوں کے حالات واقعات کوبیان کیاجارہا ہے۔
عہدِ اَلَسْت:
﴿وَ اِذۡ اَخَذَ رَبُّکَ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اٰدَمَ مِنۡ ظُہُوۡرِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ وَ اَشۡہَدَہُمۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ قَالُوۡا بَلٰی﴿۱۷۲﴾ۙ﴾
گزشتہ آیات میں ان معاہدات کاذکر تھا جوبنی اسرائیل سے احکامِ توراۃ کی پابندی کے سلسلے میں لیے گئے تھے۔ اب یہاں سے معاہدہ الست کا ذکر ہے۔
جب حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے زمین پر اتارا گیا تو وادی نعمان میں جو عرفات میں واقع ہے اللہ تعالیٰ نے قیامت تک پیدا ہونے والی انسانیت کی روحوں کو جمع کیا جو چھوٹی چھوٹی چیونٹیوں کی شکل میں تھیں۔ پھر ان سے عہد وپیمان لیا کہ کیا وہ اللہ تعالیٰ کو اپنا رب مانتے ہیں؟ سب نے اقرار کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اپنا رب مانتے ہیں۔ دنیا میں آنے کے بعد کچھ شخصیات ایسی بھی تھیں جنہیں عہد الست یاد رہاتھا۔
بلعم بن باعوراء کاواقعہ:
﴿وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ الَّذِیۡۤ اٰتَیۡنٰہُ اٰیٰتِنَا فَانۡسَلَخَ مِنۡہَا فَاَتۡبَعَہُ الشَّیۡطٰنُ فَکَانَ مِنَ الۡغٰوِیۡنَ ﴿۱۷۵﴾﴾
جب موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوا کہ قوم جبارین سے جہاد کریں تو جبارین نے بلعم بن باعوراء سے درخواست کی کہ موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کےلیے بددعا کریں کہ وہ واپس ہوجائیں۔ اس نے یہ کہہ کر بددعا کرنے سے انکار کیاکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کے نبی ہیں ان کے ساتھ فرشتے ہیں لہذا میں بددعا نہیں کرتا۔ قوم نے باربار اصرار کیا بالآخر انہوں نے اسے بطور رشوت بھاری رقم دی اب اس نے بددعا کی، جوالفاظ یہ حضرت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کےلیے کہنا چاہتاتھا اس کی زبان سے وہ الفاظ بددعا خود اپنی قوم جبارین کےلیے نکلے، نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے دین ودنیا برباد ہوگئے اور زبا ن لٹک کر سینے پر آگئی۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں اس کو کتے کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ کتے کےاوپر وزن ہو تب بھی ہانپتا ہے وزن نہ ہو تب بھی ہانپتا ہے۔ یہ بھی ایسا شخص ہے جس کے پاس علم ہو تب بھی فائدہ نہیں علم نہ ہو تب بھی فائدہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔
علم غیب اللہ تعالیٰ کی ذات کا خاصہ ہے:
﴿قُلۡ لَّاۤ اَمۡلِکُ لِنَفۡسِیۡ نَفۡعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللہُ وَ لَوۡ کُنۡتُ اَعۡلَمُ الۡغَیۡبَ لَاسۡتَکۡثَرۡتُ مِنَ الۡخَیۡرِ وَ مَا مَسَّنِیَ السُّوۡٓءُ﴿۱۸۸﴾﴾
گزشتہ آیات میں فرمایا تھا کہ قیامت کا علم صرف اللہ کی ذات کو ہے۔ یہاں سے اس مشرکانہ عقیدے کی تردید فرمائی جو لوگوں نے انبیاء علیہم السلام اور خصوصاً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اپنا رکھا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی علم غیب حاصل ہے۔ اسی وجہ سے قیامت کی معین تاریخ بتانے کا آپ سے مطالبہ کرتے تھے۔ اس آیت میں خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متعلق واضح الفاظ میں علم غیب کی نفی فرمائی ہے۔
امام کے پیچھے مقتدی خاموش رہیں:
﴿وَ اِذَا قُرِیَٔ الۡقُرۡاٰنُ فَاسۡتَمِعُوۡا لَہٗ وَ اَنۡصِتُوۡا لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ ﴿۲۰۴﴾﴾
قرآن کریم کاموجب ِ رحمت ہونا اس وقت ہوگا جب اس کی قراءۃ کے وقت آداب کالحاظ رکھا جائے گا۔ قرآن کریم کا ادب یہ ہے کہ جب پڑھاجائے تو سننے والے کان لگا کر توجہ سے سنیں اورخاموش رہیں۔
جہری اور سری نماز:
اب بات کو سمجھیں؛ اس آیت کا تعلق نماز کے ساتھ ہےاورپورا قرآن کریم سورۃ فاتحہ سے لے کر سورۃالناس تک 114 سورتوں کا نام ہے۔ نمازیں دوطر ح کی ہیں:
نمبرایک جہری جیسے فجر،مغرب اور عشاء۔ نمبر دو سرّی جیسے ظہر وعصر۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے حکم بھی دودیے ہیں۔ نمبر ایک
﴿فَاسۡتَمِعُوۡا لَہٗ﴾
کہ جب امام جہری نمازوں میں بلندآواز سے قراءت کرے تو مقتدی کان لگا کرتوجہ کے ساتھ سنیں۔ نمبردو
﴿ اَنۡصِتُوۡا﴾
جب امام سری نمازوں یعنی ظہر وعصرمیں آہستہ قراءت کرے، اس کی آوازسنائی نہ دے رہی ہوتومقتدیوں کےلیے حکم ہے کہ خاموش رہیں۔
سورۃ الانفال
"انفال "نفل کی جمع ہے، نفل زائد چیز کو کہتے ہیں۔ مراد اس سے مال غنیمت ہے جو میدان جنگ میں ملتا ہے۔ اس سورت میں چونکہ مال غنیمت کا ذکر ہے اس لیے اس سورت کا نام سورۃ الانفال ہے۔
مال ِغنیمت کا حکم:
﴿یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡاَنۡفَالِ قُلِ الۡاَنۡفَالُ لِلہِ وَ الرَّسُوۡلِ فَاتَّقُوا اللہَ وَ اَصۡلِحُوۡا ذَاتَ بَیۡنِکُمۡ ﴿۱﴾﴾
یہاں مال غنیمت کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ غزوہ بدر کے موقع پر فتح کے بعد مسلمانوں کے درمیان مال غنیمت کی تقسیم کے بارے میں اختلاف واقع ہوا تھا۔ تو اس آیت میں اس اختلاف کو ختم کرنے کےلیےفرمایا کہ مال غنیمت کے فیصلے کا اختیار اللہ اور اس کے رسول کو ہے۔ مسلمانوں کو آپس میں صلح اور تقویٰ کا حکم دیا گیا ہے۔ مال غنیمت کی مزید تفصیل دسویں پارے کے شروع میں آئے گی۔
مؤمنین کے اوصاف:
﴿اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِرَ اللہُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ وَ اِذَا تُلِیَتۡ عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُہٗ زَادَتۡہُمۡ اِیۡمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ ۚ﴿ۖ۲﴾ ﴾
یہاں اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کی پانچ صفات بیان فرمائی ہیں:
پہلی صفت خوف خدا۔ دوسری صفت تلاوت کے ذریعے اپنے ایمان کو بڑھاتے ہیں یعنی ایمان میں ترقی کرتے ہیں۔ تیسری صفت اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں۔ توکل کا معنی ہے اسباب اختیار کرتے ہوئےاللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا۔ اسباب چھوڑ کر بھروسہ کرنے کو تعطل کہتے ہیں۔ شریعت میں تعطل نہیں بلکہ توکل ہے۔ چوتھی صفت اقامت صلوۃ، یعنی فرائض، واجبات و سنن اور آداب کا خیال کرتے ہیں۔ پانچویں صفت انفاق فی سبیل اللہ۔
غزوہ بدر کی تفصیلی داستان:
﴿کَمَاۤ اَخۡرَجَکَ رَبُّکَ مِنۡۢ بَیۡتِکَ بِالۡحَقِّ وَ اِنَّ فَرِیۡقًا مِّنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ لَکٰرِہُوۡنَ ۙ﴿۵﴾﴾
یہاں سے لے کر کئی آیات تک غزوہ بدر کی تفصیلی داستان کو بیان کیا جارہا ہے۔ پھر آگے اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو مخاطب کرکے جنگ کے کچھ بہترین اصول بیان فرمائے ہیں جن پر عمل کرکے میدان جنگ میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ اصول اپنانے کی توفیق عطا فرمائیں۔
میدان جنگ میں کامیابی کے اصول
میدانِ جنگ میں کامیابی کے پانچ اصول بیان کیے گئے:
1: میدان جنگ میں پیٹھ نہ پھیریں:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا لَقِیۡتُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا زَحۡفًا فَلَا تُوَلُّوۡہُمُ الۡاَدۡبَارَ﴿ۚ۱۵﴾﴾
اے ایمان والو! جب کافروں سے تمہارا آمنا سامنا ہوجائے، اور وہ چڑھائی کر کے آرہے ہوں، تو ان کو پیٹھ مت دکھاؤ۔
2: اللہ اور رسول کی اطاعت کریں:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ لَا تَوَلَّوۡا عَنۡہُ وَ اَنۡتُمۡ تَسۡمَعُوۡنَ ﴿ۚ۲۰﴾﴾
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرو، اور اس (تابعداری) سے منہ نہ موڑو، جبکہ تم (اللہ اور رسول کے احکام) سن رہے ہو۔
3: اللہ اور اس کے رسول کی دعوت قبول کریں:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَجِیۡبُوۡا لِلہِ وَ لِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاکُمۡ لِمَا یُحۡیِیۡکُمۡ ۚ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللہَ یَحُوۡلُ بَیۡنَ الۡمَرۡءِ وَ قَلۡبِہٖ وَ اَنَّہٗۤ اِلَیۡہِ تُحۡشَرُوۡنَ﴿۲۴﴾﴾
اے ایمان والو! اللہ اور رسول کی دعوت قبول کرو، جب رسول تمہیں اس بات کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے۔ اور یہ بات جان رکھو کہ اللہ انسان اور اس کے دل کے درمیان آڑ بن جاتا ہے۔ اور یہ کہ تم سب کو اسی کی طرف اکٹھا کر کے لے جایا جائے گا۔
4: اللہ اور اس کے رسول سے بے وفائی نہ کریں:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَخُوۡنُوا اللہَ وَ الرَّسُوۡلَ وَ تَخُوۡنُوۡۤا اَمٰنٰتِکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۲۷﴾﴾
اے ایمان والو! اللہ اور رسول سے بےوفائی نہ کرنا، اور نہ ہی جانتے بوجھتےاپنی امانتوں میں خیانت کے مرتکب ہونا۔
5: تقویٰ اختیار کریں:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تَتَّقُوا اللہَ یَجۡعَلۡ لَّکُمۡ فُرۡقَانًا وَّ یُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ وَ اللہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ ﴿۲۹﴾﴾
اے ایمان والو! اگر تم اللہ کے ساتھ تقویٰ کی روش اختیار کرو گے تو وہ تمہیں (حق و باطل کی) تمیز عطا کردے گا، تمہاری برائیوں کا کفارہ کردے گا اور تمہیں مغفرت سے نوازے گا۔ اور اللہ فضل عظیم کا مالک ہے۔
کفار کےلیے ترغیب وترہیب:
﴿قُلۡ لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ یَّنۡتَہُوۡا یُغۡفَرۡ لَہُمۡ مَّا قَدۡ سَلَفَ وَ اِنۡ یَّعُوۡدُوۡا فَقَدۡ مَضَتۡ سُنَّتُ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿۳۸﴾﴾
گزشتہ آیات میں ایمان والوں کےلیے اصول کا بیان تھا۔ اب ان کے مقابلے میں نویں پارے کے آخر میں اللہ تعالیٰ کفار کو ترغیب دے رہے ہیں کہ کفار اپنے کفر سے اب بھی بازآجائیں تو اللہ تعالیٰ ان کے سابقہ گناہوں کومعاف فرمادیں گے۔ اور ترہیب بھی ہے کہ اگر وہ باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ کو کوئی نیا قانون بنانا نہیں پڑے گا بلکہ جو قانون جاری ہوچکا ہے ان پر بھی جاری ہوگایعنی دنیا میں بھی ہلاک وبرباد ہو ں گے اور آخرت میں بھی عذاب کے مستحق ہوں گے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ