پارہ نمبر: 10

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
پارہ نمبر: 10
مالِ غنیمت کی تقسیم:
﴿وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا غَنِمۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَاَنَّ لِلہِ خُمُسَہٗ وَ لِلرَّسُوۡلِ وَ لِذِی الۡقُرۡبٰی ﴿۴۱﴾﴾
سورۃ انفال کے شروع میں مال غنیمت کے بارے میں سوال و جواب کا ذکر تھا، اب دسویں پارے کے شروع میں اس کی مزید تفصیل بیان کی جارہی ہے۔
مال غنیمت کے اولاً پانچ حصے کیےجائیں گے۔ ان میں سے چار حصے مجاہدین کے درمیان برابر برابر تقسیم کیے جائیں گےاور مال غنیمت کا پانچواں چونکہ خالص اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے اس لیے یہ حصہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کو دیاجائے گا۔
بقیہ قصہ غزوہ بدر:
﴿اِذۡ اَنۡتُمۡ بِالۡعُدۡوَۃِ الدُّنۡیَا وَ ہُمۡ بِالۡعُدۡوَۃِ الۡقُصۡوٰی وَ الرَّکۡبُ اَسۡفَلَ مِنۡکُمۡ﴿ۙ۴۲﴾﴾
یہاں سے پھراللہ تعالیٰ نے غزوہِ بدر کا ذکر فرمایا۔ غزوہِ بدر مسلمانوں اور کفار کے درمیان وہ پہلی جنگ ہے جس نے مشرکین مکہ اور کفار کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ اس غزوہ میں ظاہری اور مادی طور پر مسلمانوں کے فتح پانے کا کوئی امکان نہیں تھا اور مشرکین مکہ کی شکست کاکوئی احتمال نہیں تھا مگر اللہ تعالی کی غیبی قوت نے سارے سازوسامان اور ظاہری اسباب کی کایاپلٹ دی۔ اور یہی وہ جنگ ہے جس نے اسلام کی فتوحات کے دروازے کھولے۔ غزوہ بدر میں شریک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا خاص مقام ہے۔
مددحاصل کرنے کے چھ اصول:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا لَقِیۡتُمۡ فِئَۃً فَاثۡبُتُوۡا وَ اذۡکُرُوااللہَ کَثِیۡرًا لَّعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿ۚ۴۵﴾ ﴾
یہاں سے لے کر آیت 47 تک بتایا ہے کہ اگر مسلمان میدان جنگ میں اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت حاصل کرنا چاہتےہیں تو درج ذیل چھ چیزوں کا اہتمام کریں:

میدان جنگ میں ثابت قدمی اختیار کرنا۔

کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا۔

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنا۔

آپس کے اختلافات سے پرہیز کرنا۔

اگرجنگ میں ناموافق حالات آجائیں تو صبر کرنا۔

کفار کی طرح تکبر اور ریا نہ کرنا۔
یہ چھ چیزیں ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مددونصرت کو کھینچ لیتی ہیں۔
اسلحہ اور جنگ کےلیے تیاری کرنا:
﴿وَ اَعِدُّوۡا لَہُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّۃٍ وَّ مِنۡ رِّبَاطِ الۡخَیۡلِ ﴿۶۰﴾﴾
اس آیت میں مسلمانوں کو سمجھایا جارہا ہے کہ جنگی ہتھیار اور جنگ کےلیے خوب تیاری کیا کرو۔ البتہ یہ ضروری نہیں کہ جتنا سازوسامان کفار کے پاس ہے مسلمانوں کے پاس بھی اتناہوناچاہیے بلکہ مسلمان اپنی طاقت کے مطابق خوب تیاری کریں۔ جنگ کےلیے تیاری کرنا فرض ہے۔
قیدیوں سے صلح اور فدیہ لینا:
﴿مَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہٗۤ اَسۡرٰی حَتّٰی یُثۡخِنَ فِی الۡاَرۡضِ تُرِیۡدُوۡنَ عَرَضَ الدُّنۡیَا وَ اللہُ یُرِیۡدُ الۡاٰخِرَۃَ ﴿۶۷﴾ ﴾
جب غزوہ بدر میں مسلمانوں کو فتح ہوگئی، کفار کو شکست ہوئی اور ان کے ستر سردار بھی گرفتار کرلیےگئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ان کے بارے میں مشورہ کیا کہ ان کے ساتھ کیاکیاجائے؟ حضرت صدیق اکبر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رائے تھی کہ فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیا جائے۔ جبکہ حضرت فاروق اعظم اور حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہم کی رائے تھی کہ انہیں قتل کردیاجائے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےرحمت للعلمین ہونے کی وجہ سے فدیہ لے کر چھوڑنے والی رائے کو پسند کیا تو اس پر ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےلیے اللہ تعالیٰ کی طرف عتاب نازل ہوا جنہوں نےفدیہ لے کر چھوڑنے کی رائے دی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ کا حکم پہلے نہ آچکا ہوتا توجوفدیہ تم نے لیاہے اس کے بدلے تم پر عذاب عظیم نازل ہوتا۔
مہاجرین وانصار کا ذکر:
﴿وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ ہَاجَرُوۡا وَ جٰہَدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَ الَّذِیۡنَ اٰوَوۡا وَّ نَصَرُوۡۤا اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ رِزۡقٌ کَرِیۡمٌ ﴿۷۴﴾﴾
سورۃ انفال کے آغاز میں جہاد کا ذکر تھا اور اختتام میں ہجرت کا ذکر ہے۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مہاجرین وانصار کا تذکرہ فرمایاکہ مہاجرین وہ ہیں جنہوں نے دین اسلام کےلیے ہجرت کی اور انصار وہ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضاکےلیے انہیں ٹھکانہ دیااور ان کی مدد کی۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں گروہوں کے ایمان کی گواہی دیتے ہوئے فرمایاکہ یہی پکے مؤمن ہیں اور ان کے لیے بخشش اور عزت کی روزی ہے۔
سورہ توبہ
اس سورت کا نام سورۃ توبہ ہے۔ اس میں ان مخلصین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی داستان اور توبہ کاذکر ہے جو غزوہ تبوک میں کسی وجہ سے شریک نہ ہوسکے۔ پھر انہوں نے سچے دل سے توبہ کی تو ان کی توبہ قبول ہوگئی جس کا ذکر آیت نمبر 118میں ہے۔ اس مناسبت سے اس سورت کا نام سورت توبہ رکھاگیاہے۔
مشرکین کے متعلق احکامات :
سورۃ توبہ فتح مکہ کے بعد نازل ہوئی اور اس کی پہلی پانچ آیات میں چار قسم کے مشرکین کے احکامات بیان کیے گئے ہیں۔
پہلی قسم :
﴿بَرَآءَۃٌ مِّنَ اللہِ وَ رَسُوۡلِہٖۤ اِلَی الَّذِیۡنَ عٰہَدۡتُّمۡ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ؕ﴿۱﴾﴾
وہ جن سے کسی قسم کا معاہدہ صلح نہیں تھا۔ ان کو چار ماہ کی مہلت دی گئی تھی کہ اگر وہ اسلام قبول کرلیں تو ٹھیک یا جزیرہ عرب سے باہر جانا چاہیں تو اس کی ترتیب بنالیں وگرنہ انہیں جنگ کا سامناکرنا ہوگا۔
دوسری قسم :
وہ جن سےمعاہدہ صلح بغیر تعیین مدت کے ہوا تھا۔ ان کا حکم بھی پہلی قسم والا ہے۔ ان دونوں قسموں کا آیت نمبر 1اور 2میں ذکر کیا گیا ہے۔
تیسری قسم :
﴿اِلَّا الَّذِیۡنَ عٰہَدۡتُّمۡ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ثُمَّ لَمۡ یَنۡقُصُوۡکُمۡ شَیۡئًا وَّ لَمۡ یُظَاہِرُوۡا عَلَیۡکُمۡ اَحَدًا فَاَتِمُّوۡۤا اِلَیۡہِمۡ عَہۡدَہُمۡ اِلٰی مُدَّتِہِمۡ ﴿۴﴾ ﴾
وہ جن سے صلح کا معاہدہ کسی خاص میعاد کےلیے کیا گیا اور وہ اس معاہدہ پر قائم رہے۔ ان کے بارے میں یہ حکم دیا گیا کہ ان کے معاہدے کی جتنی مدت باقی ہے اس کو پورا کیاجائے۔ ان کے معاہدے کی مدت ختم ہونے میں 9ماہ باقی تھے تو انہیں 9ماہ تک مہلت دی گئی۔
چوتھی قسم :
﴿فَاِذَا انۡسَلَخَ الۡاَشۡہُرُ الۡحُرُمُ فَاقۡتُلُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ حَیۡثُ وَجَدۡتُّمُوۡہُمۡ﴿۵﴾ ﴾
وہ مشرکین جن سے حدیبیہ میں صلح کا معاہدہ ہوا اور انہوں نے خود اس کو توڑ دیا۔ (اسی نقض معاہدہ کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ پر حملہ کرکے بغیر خون خرابے کے فتح فرمالیاتھا)۔ ان کےلیے مہلت تو نہیں تھی لیکن حج کے موقع پر ان سے برأت کااعلان کیاگیا تھا جو کہ خودحرمت والا مہینہ تھا اور اس کے بعد محرم وہ بھی حر مت والاتھا اسی وجہ سے محرم کے آخر تک ان کو بھی مہلت مل گئی تھی کہ اگر وہ ایمان نہ لائیں یا جزیرہ عرب سے باہر نہ جائیں تو ان کو قتل کردیاجائے۔
ایمان کےبغیرکوئی عمل قبول نہیں:
﴿مَا کَانَ لِلۡمُشۡرِکِیۡنَ اَنۡ یَّعۡمُرُوۡا مَسٰجِدَ اللہِ شٰہِدِیۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ بِالۡکُفۡرِ اُولٰٓئِکَ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُہُمۡ وَ فِی النَّارِ ہُمۡ خٰلِدُوۡنَ ﴿۱۷﴾ ﴾
گزشتہ آیات میں بھی مشرکین کاذکر تھا، اب یہاں بھی انہی کا ذکر ہے۔ مشرکین بیت اللہ کی تعمیر کرتے اور حاجیوں کو پانی پلاتے تھے اورمسلمانوں کے مقابلے میں اس پر فخرکرتے تھے کہ اس سے بڑھ کرکسی کا کوئی عمل نہیں ہوسکتا۔ یہاں سے ان کی تردید کی جارہی ہے کہ مسجد کی خدمت یاحاجیوں کو پانی پلانابڑی خدمت ہے بشرطیکہ ایمان ہو۔ مشرک کے پاس ایمان نہیں اس لیے اعمال کا کوئی فائدہ بھی نہیں۔ آگے یہ بھی فرمایا کہ تعمیرِ مساجد وغیرہ امور اہلِ ایمان کا حق ہیں۔
غزوہ حنین:
﴿لَقَدۡ نَصَرَکُمُ اللہُ فِیۡ مَوَاطِنَ کَثِیۡرَۃٍ وَّ یَوۡمَ حُنَیۡنٍ ﴿ۚ۲۵﴾﴾
یہاں سے آگے غزوہ حنین کاواقعہ بیان کیاجارہا ہے۔ فتح مکہ کے بعد قبیلہ بنو ہوازن ؛جس کا سردارمالک بن عوف تھا؛ نے مسلمانوں پر حملہ کرنے کےلیے تیاری کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی اطلاع ہوئی تو صحابہ کرام کا چودہ ہزار کا لشکر لے کر حنین کے مقام پر پہنچ گئے جہاں یہ جنگ ہوئی۔ تعداد کی کثرت کی وجہ سے کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زبان سے نکل گیا کہ آج ہم کسی سے مغلوب نہیں ہوسکتے۔ یہ بات اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آئی۔
جب مسلمان ایک تنگ وادی سے گزررہے تھے تو بنوہوازن کے تیر اندازوں نے یکایک حملہ کردیا جس سے مسلمانوں کے پاؤں اکھڑگئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور کچھ صحابہ کرام ثابت قدم رہے۔ پھر حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے آواز لگانے پر صحابہ کرام پلٹے۔ نتیجۃً مسلمانوں کو فتح حاصل ہوگئی اور کفار شکست کھا کر بھاگ نکلے۔ ان کے ستر آدمی مارے گئے، بہت سارا مال غنیمت بھی ہاتھ آیا اور تقریباً چھ ہزار جنگی قیدی بنائے گئے۔
مسلمانوں کو یہاں یہ بات سمجھائی جارہی ہے کہ اپنی کثرت اور طاقت پر نظر نہیں کرنی چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ وتوکل رکھنا چاہیے، مدد ونصرت، فتح وشکست اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔
اہل کتاب کے متعلق حکم:
﴿قَاتِلُوا الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللہِ وَ لَا بِالۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ﴿٪۲۹﴾﴾
گزشتہ آیات میں تھا کہ مشرکین کے لیے جزیرہ عرب میں رہنے کی گنجائش نہیں ۔ اب یہاں مسلمانوں کو حکم دیا جارہا ہے کہ اہل کتاب سے جہاد کرو یہاں تک کہ وہ ذلیل ہوکر جزیہ دیں۔ اہل کتاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی میں جزیرہ عرب میں غیر مسلم شہری کی حیثیت سے رہ کر جزیہ ادا کرتے رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی وصیت کے مطابق حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اہل کتاب کو جزیرہ عرب سے بھی نکال دیاگیا۔
یہودونصاری کی تردید:
﴿وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ عُزَیۡرُۨ ابۡنُ اللہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ اللہِ ذٰلِکَ قَوۡلُہُمۡ بِاَفۡوَاہِہِمۡ ﴿۳۰﴾﴾
یہاں سے لے کر کئی آیات تک اہل کتاب کا ذکر ہے۔ اہل کتاب میں سے یہود حضرت عزیر علیہ السلام کو اور نصاریٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کواللہ تعالیٰ کا بیٹا مانتے تھے۔ یہاں ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ ان کے منہ کی بنائی ہوئی باتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مشرکانہ باتوں سے پاک ہے۔
ناحق مال کھانے پر وعید:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡاَحۡبَارِ وَ الرُّہۡبَانِ لَیَاۡکُلُوۡنَ اَمۡوَالَ النَّاسِ بِالۡبَاطِلِ ﴿۳۴﴾﴾
اہل کتاب ناحق طریقوں سے لوگوں کا مال کھاتے تھے۔ ان میں سے ایک طریقہ یہ تھا کہ شریعت موسوی میں تحریف کرتے اور اس پرلوگوں سے پیسے لیتے تھے۔ یہاں اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ ان کے لیے قیامت کے دن درد ناک عذاب ہوگا۔
غزوہ تبوک:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَا لَکُمۡ اِذَا قِیۡلَ لَکُمُ انۡفِرُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ اثَّاقَلۡتُمۡ اِلَی الۡاَرۡضِ اَرَضِیۡتُمۡ بِالۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا مِنَ الۡاٰخِرَۃِ فَمَا مَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا فِی الۡاٰخِرَۃِ اِلَّا قَلِیۡلٌ ﴿۳۸﴾﴾
یہاں سے لے کر تقریباً سورۃ کے آخر تک مختلف اعتبار سے غزوہ تبوک کا ذکر ہے۔ فتح مکہ اور حنین کے بعدجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ پہنچے تو اطلاع ملی کہ رومی سلطنت کا بادشاہ ہرقل؛ مدینہ منورہ پرایک زبردست قسم کے حملے کے لیے تیاری کررہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے مدینہ کے مسلمانوں کو تیاری کا حکم فرمایااور تیس ہزارصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا لشکر لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش قدمی کی۔
مسلمانوں کے لیے یہ بہت بڑی آزمائش تھی۔ سخت گرمی تھی،کھجوریں پک چکی تھیں یہی ان کےلیے سال بھر کاگزربسر تھا۔سفر بہت دورکاتھا تقریباً آٹھ سومیل تھا،جنگ کےلیےسازوسامان کم تھا،ادھر مقابلہ دنیاکی سپر پاورکےساتھ تھا، وغیرہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے پیش قدمی کرنے کی وجہ سے کفار پر رعب طاری ہوگیا۔ وہ واپس چلے گئے اور جنگ کی نوبت نہ آئی۔ منافقین قسمیں کھا کر حیلے بہانے کرنے لگے اور مدینہ میں رک گئے۔ چندایک مسلما ن بھی کسی وجہ سے نہ جاسکے بعدمیں انہوں نے توبہ کی۔ ان کی توبہ قبول ہوگئی۔
آگے آنے والی آیات میں منافقین کے نفاق اور جھوٹ کو تفصیل کے ساتھ بیان کیاجارہاہے۔ ان مؤمنین مخلصین کا ذکر بھی ہے جو غزوہ تبوک میں شریک نہ ہوسکے تھے۔
صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی صحابیت:
﴿اِذۡ یَقُوۡلُ لِصَاحِبِہٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللہَ مَعَنَا﴿۴۰﴾﴾
یہ ہجرت کے واقعے کی طرف اشارہ ہے جب مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعاقب کیا۔ آپ غارثور میں تین دن تک روپوش رہے تھے۔ کھوجی جب غار کے منہ کے قریب پہنچے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر گھبراہٹ کے آثار ظاہر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاغم نہ کرو اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہیں۔ یہاں نص قطعی سے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت ثابت ہے اگر کوئی شخص صحابیت صدیق کا انکارکرےگا تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گا۔
مصارفِ صدقات کابیان:
﴿اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ الۡعٰمِلِیۡنَ عَلَیۡہَا وَ الۡمُؤَلَّفَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الۡغٰرِمِیۡنَ وَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ فَرِیۡضَۃً مِّنَ اللہِ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ ﴿۶۰﴾﴾
گزشتہ آیات میں منافقین کے اعتراضات کا ذکر تھا۔ وہ کہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صدقات کی تقسیم میں انصاف نہیں کرتے جس کو جتنا چاہتے ہیں دےدیتے ہیں۔ اب اس آیت میں مصارف کی تعیین اور ان کے الزام کو رد کیا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات خود متعین فرمادی ہے کہ صدقات کن لوگوں کو دینے چاہییں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ زکوٰۃ کے مصارف آٹھ ہیں:
2،1 - فقراء و مساکین
فقیر اور مسکین میں کچھ فرق ہے۔ فقیر اسے کہتے ہیں کہ جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو اور مسکین کہتے ہیں جس کے پاس مال تو ہو مگر اس سے اس کی ضرورت پوری نہ ہوتی ہو۔
3- عاملین:
جن کو حکومت نے متعین کیا ہو زکوٰۃ کے اموال جمع کرنے کے لئے تو ان کی تنخواہ اموال ِزکوٰۃ سے دی جائے گی۔
4-مؤلفۃ القلوب:
ان سے مراد وہ نو مسلم ہیں جوضرورت مند ہوں ان کو اسلام پر برقرار رکھنے اور دل جوئی کےلیے زکوٰۃدیناجائز ہے۔ یہ ذہن نشین فرمالیں کہ یہ مسئلہ اس وقت تھا اب نہیں ہے۔
5- فی الرقاب:
غلام کو آزاد کرنے کے لیے یعنی اگر غلام کو اس کا مالک کہہ دے کہ تو اتنے پیسے دے دے ؛ میں تجھے آزاد کر دوں گا تو اس کو زکوٰۃ دینا جائز ہے تاکہ وہ آزاد ہو جائے۔
6- غارمین:
مقروض کو زکوٰۃ دینا تاکہ قرض سے اس کو نجات مل جائے۔
7- فی سبیل للہ:
مجاہد جو جہاد پرجانا چاہتاہو لیکن اس کے پاس سواری وغیرہ نہ ہواس کو زکوۃ دینا جائز ہے۔ اسی طرح وہ لوگ جو دینی کاموں؛ تعلیم و تعلم وغیرہ کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں بجا نہ لاسکتے ہوں، ان کو بھی زکوۃ دی جاسکتی ہے۔ مثلاً مدارس کے طلبہ و اساتذہ وغیرہ۔
8- ابن السبیل:
مسافر یعنی ایسا شخص کہ جس کے پاس اپنے گھر میں تو الحمدللہ پیسے موجود ہیں لیکن سفر میں اس کے پاس پیسے نہیں ہیں اور اس کو ضرورت پڑ گئی ہےتو اس کو زکوۃ دینا بھی جائز ہے۔
منافقین کی مغفرت نہیں ہوسکتی:
﴿اِسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ اَوۡ لَا تَسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ اِنۡ تَسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ سَبۡعِیۡنَ مَرَّۃً فَلَنۡ یَّغۡفِرَ اللہُ لَہُمۡ ﴿٪۸۰﴾﴾
گزشتہ کئی آیات میں منافقین کے نفاق، جھوٹ، جہاد میں نہ نکلنا، حیلے بہانے کرنا، ایک دوسرے کو برائی کا حکم دینا،نیکی سے منع کرنا، مسلمانوں سے بغض وحسد رکھنا جیسے قبیح افعال کی تفصیل بیان کی گئی۔ اب یہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا جارہا ہے کہ منافقین کےلیے اگر آپ ستر بار بھی مغفرت کی دعاکریں تب بھی اللہ تعالیٰ انہیں معاف نہیں فرمائیں گے۔
اوراگلی آیت
﴿وَ لَا تُصَلِّ عَلٰۤی اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمۡ عَلٰی قَبۡرِہٖ﴾
میں منافق کا جنازہ پڑھنے اور قبر پر کھڑے ہونے (دعائے مغفرت کرنے) سےبھی منع فرمادیا۔
یہ آیت عبد اللہ ابن ابی ابن سلول منافق کی موت اور اس پر نماز جنازہ کے متعلق نازل ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز جنازہ پڑھی پھریہ آیت نازل ہوئی۔ اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی کسی منافق کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ