پارہ نمبر:11

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
پارہ نمبر:11
منافقین کےلیےتین احکامات:
﴿یَعۡتَذِرُوۡنَ اِلَیۡکُمۡ اِذَا رَجَعۡتُمۡ اِلَیۡہِمۡ قُلۡ لَّا تَعۡتَذِرُوۡا لَنۡ نُّؤۡمِنَ لَکُمۡ قَدۡ نَبَّاَنَا اللہُ مِنۡ اَخۡبَارِکُمۡ ﴿۹۴﴾﴾
دسویں پارے کے آخر میں ان منافقین کا ذکر تھا جو جہاد میں نہ جانے کےلیے حیلے بہانے بنارہے تھے۔ اب ان آیات میں ان منافقین کاذکر ہے جو جہاد میں نہیں گئے اور وہ اس پر جھوٹے عذر پیش کررہے ہیں۔
آیت نمبر 94 تا 96 میں منافقین کے بارے میں تین حکم دیے گئے ہیں:
1: آپ ان سے کہہ دیجیے کہ بیکار اور جھوٹے عذر پیش نہ کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں تمہارے تمام حالات وواقعات سے آگاہ فرمادیا ہے کہ تم جھوٹے ہو۔
2: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا جارہا ہے کہ آپ ان سے اعراض کریں یعنی نہ ہی ان پر ملامت کریں اور نہ ہی ان سے تعلقات رکھیں۔
3: منافقین قسمیں کھا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو راضی کرنے کی کوشش کریں گے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے راضی نہیں ہونا۔
سات مؤمنین مخلصین کی قبولِ توبہ:
﴿وَ اٰخَرُوۡنَ اعۡتَرَفُوۡا بِذُنُوۡبِہِمۡ خَلَطُوۡا عَمَلًا صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّئًا عَسَی اللہُ اَنۡ یَّتُوۡبَ عَلَیۡہِمۡ ﴿۱۰۲﴾﴾
گزشتہ آیات میں منافقین کا ذکر تھا۔ اب یہاں سے ان کے مقابلے میں مؤمنین مخلصین کا ذکر ہے۔ جو مسلمان غزوہ تبوک میں شریک نہ ہوسکےوہ دس تھے۔ ان میں سےاس آیت میں سات حضرات کاذکر ہے جنہیں اپنی غلطی پر ندامت ہوئی اور انہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی غزوہ تبوک سے واپسی سے پہلے اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستونوں سے باندھ لیا تھا یہ کہہ کر جب تک خود اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں معاف کرکے نہیں کھولیں گے اس وقت تک ہم یہیں بندھے رہیں گے۔ پھر ان کی توبہ قبول ہوئی اور انہیں کھول دیا گیا۔ بقیہ تین کا ذکر آگے آرہا ہے۔
مسجدضرار:
﴿وَ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا مَسۡجِدًا ضِرَارًا وَّ کُفۡرًا وَّ تَفۡرِیۡقًۢا بَیۡنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۰۷﴾﴾
یہاں منافقین کی ایک خطرناک سازش کا ذکر ہے۔ انہوں نے مسجد کےنام پر ایک عمارت تعمیر کی جس کا مقصد ایک ایسا محاذبناناتھاجس کے ذریعے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جائے، مسلمانوں کی جمعیت کوتوڑا جائے، اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں کوپناہ دی جائے وغیرہ۔ انہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ کسی وقت تشریف لاکر نمازپڑھیں تا کہ اسے برکت حاصل ہو! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے چاہاتو میں غزوہ تبوک سے واپسی پر آؤں گا۔ غزوہ تبوک سے واپس پہنچنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس کی حقیقت کھول دی اور نمازپڑھنے سے بھی منع فرمادیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوصحابہ کرام کو بھیج کراس عمارت کوتباہ وبرباد کروادیا۔
مسجد قباء و اہل قباء:
﴿لَمَسۡجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقۡوٰی مِنۡ اَوَّلِ یَوۡمٍ اَحَقُّ اَنۡ تَقُوۡمَ فِیۡہِ ؕ فِیۡہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوۡنَ اَنۡ یَّتَطَہَّرُوۡا ﴿۱۰۸﴾﴾
اس کے مقابلے میں مسجد قباء کی فضیلت بیان فرمائی جس کی بنیاد تقویٰ اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی پر ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے مدینہ ہجرت کرکے تشریف لائے تو اس وقت کچھ دن قباء میں قیام کے دوران اس مسجد قباء کی بنیاد رکھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اہل قباء کی تعریف فرمائی کہ مسجدِ قباء میں نماز پڑھنے والے ایسے لوگ ہیں جو ظاہری اور باطنی پاکیزگی وصفائی کا خوب اہتمام فرماتے ہیں۔
بیعت عقبہ:
﴿اِنَّ اللہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃَ﴿۱۱۱﴾﴾
پہلے بغیر عذر جہاد سے رکنے کی مذمت کا ذکر تھا، اب مجاہدین کی فضیلت کا بیان ہے۔ اس آیت میں بیعت عقبہ کا ذکر ہے۔ بعثت نبوی کے تیرھویں سال تیسری مرتبہ یہاں مدینہ منورہ سے آئے ہوئے ستر مرد وخواتین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت اور خصوصی طور پر جہاداور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت وحمایت کرنےپر بیعت کی۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھا کہ اگر ہم اس پر عمل کریں تو ہمیں کیا ملے گا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجنت ملے گی۔ انہوں نے کہاہم اس سودے پر راضی ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں سے جنت کے بدلے میں ان کی جان ومال خرید لیے ہیں۔
بقیہ تین مؤمنین مخلصین کی قبولِ توبہ:
﴿وَّ عَلَی الثَّلٰثَۃِ الَّذِیۡنَ خُلِّفُوۡا حَتّٰۤی اِذَا ضَاقَتۡ عَلَیۡہِمُ الۡاَرۡضُ بِمَا رَحُبَتۡ وَ ضَاقَتۡ عَلَیۡہِمۡ اَنۡفُسُہُمۡ ﴿۱۱۸﴾ ﴾
اس آیت میں مؤمنین مخلصین میں سے تین حضرات(مرارہ بن ربیع العمری، ہلال بن امیہ واقفی اور کعب بن مالک رضی اللہ عنہم ) کا ذکر ہے جو غزوہ تبوک میں شریک ہونے سے رہ گئے تھے۔ انہوں نے صاف صاف اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کیا تھا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے بارے میں کوئی حکم نہیں آتا تب تک ان کا معاشرتی بائیکاٹ کیاجائے یہاں تک کہ بیویوں سے بھی الگ رہنے کا حکم دیا گیا۔ بالآخر پچاس دن کے بعد اللہ تعالیٰ اس آیت میں ان کی توبہ قبول ہونے کوبیان فرمایا ۔
متقی بننے کا نسخہ:
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ ﴿۱۱۹﴾﴾
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایمان والوں کو متقی بننے کا بہترین نسخہ دیا ہے۔ فرمایا اگر تم متقی بننا چاہتے ہو تو متقین کے ساتھ رہو، جو خدا سے ڈرتے ہیں۔ اور یہاں متقین کے لیے لفظ صادقین فرمایا ہے یعنی وہ لوگ جن کی خلوت و جلوت ایک جیسی ہے۔ تو متقی بننے کا سب سے آسان اور بہترین نسخہ متقین کے ساتھ رہنا ہے جو تنہائی میں بھی پاک باز ہوتے ہیں اور لوگوں کے سامنے بھی پرہیز گار ہوتے ہیں۔
شفیق ومہربان نبی:
﴿لَقَدۡ جَآءَکُمۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَا عَنِتُّمۡ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۲۸﴾﴾
پھر اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ایسا پیغمبر ہم نے تمہیں دیا ہے جو تم میں سے ہے اور افضل ہے اور جس کو تمہاری تکلیف پر تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ تمہاری دنیا اور آخرت کے بارے میں بہت حریص اور بہت زیادہ فکرمند ہیں۔ تمہارے لیے مہربان ہیں۔
تسلی خاتم الانبیا ءصلی اللہ علیہ وسلم:
﴿فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُلۡ حَسۡبِیَ اللہُ ۫٭ۖ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ وَ ہُوَ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡعَظِیۡمِ ﴿۱۲۹﴾٪﴾
سورۃ توبہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے کہ اگر کفار اعراض کریں اور دعوت کوقبول نہ کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبر اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں۔
غم دور کرنے کا عمل:
حَسۡبِیَ اللہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ عَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ وَ ہُوَ رَبُّ الۡعَرۡشِ الۡعَظِیۡمِ
صبح و شام سات مرتبہ یہ آیت پڑھ لی جائے تو اللہ تعالیٰ غموں کو ہلکا فرماتے ہیں۔
سورۃ یونس
سورۃ یونس مکی ہے اور مکی سورتوں کی طرح اس میں بھی توحید،رسالت اور آخرت کے مضامین پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ مشرکین کے اعتراضات کے جوابات اور ان کی ہٹ دھرمی پر سابقہ قوموں کے حالات وواقعات کو بیان کرکےوعیدات سنائی گئی ہیں۔ عقائد اور ترغیب و ترہیب کا پہلو غالب ہے۔ اس سورۃ میں بطور خاص حضرت یونس علیہ السلام اور ان کی قوم کا ذکر ہےاسی مناسبت سے اس کا نام سورۃ یونس ہے۔
مشرکین کے شبہ کا جواب:
﴿اَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنۡ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی رَجُلٍ مِّنۡہُمۡ اَنۡ اَنۡذِرِ النَّاسَ﴿۲﴾﴾
اس آیت میں مشرکین کے ایک شبہ کا جواب دیا جارہا ہے۔ شبہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف انسان کو نبی بنا کر کیوں بھیجا ہے،کسی فرشتے کو نبی بنا کرکیوں نہیں بھیجا؟ تو انہیں جواب دیا کہ اس پر شبہ اور تعجب نہ کریں اس لیے کہ اگر کسی فرشتے کو نبی بنا کر بھیجتے توجو رسالت کا مقصد تھا وہ فوت ہوجاتا۔ انسان فرشتے کی بات کیسے سمجھتا؟ اس لیے زمین پر بسنے والے انسانوں کی ہدایت ورہنمائی کےلیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو نبی بنا کر مبعوث فرمایاہے۔
توحید وقدرتِ باری تعالیٰ پر دلائل:
﴿اِنَّ رَبَّکُمُ اللہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ﴿۳﴾﴾
یہاں ان موضوعات پر بات کی گئی ہے: اللہ تعالیٰ کی ربوبیت، آسمان وزمین کی تخلیق، سورج اور چاند کا اپنے محور اور مرکز میں مقرر وقت کے مطابق چلنا،دن اور رات کا آنا جانا۔ پوری کائنات کے نظام کا چلنا یہ ثابت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قادر، یکتا اور اکیلے ہیں،اللہ تعالیٰ کو کسی شریک کی کیا ضرورت ہوسکتی ہے! پھر اہل ایمان اور اہل کفر کے ٹھکانوں کو بیان فرمایا۔ کفار کا ٹھکانہ جہنم ہے اور ایمان والوں کا ٹھکانہ جنت ہے۔
مشرکین کے مطالبے کاجواب:
﴿وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا ائۡتِ بِقُرۡاٰنٍ غَیۡرِ ہٰذَاۤ اَوۡ بَدِّلۡہُ ﴿۱۵﴾﴾
جب مشرکین کو دعوت دینے کےلیے ان کے سامنے قرآن کریم کی واضح آیات تلاوت کی جاتیں تو بجائے ماننے کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سےمطالبہ کرتے کہ اس قرآن کےبجائے دوسرا قرآن لے آئیں یا اس کوتبدیل کردیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جواب دیا کہ مجھے دونوں کاموں میں سے کسی کااختیار نہیں، میں تو اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی گئی ہے۔
تغییر اور تبدیل میں فرق:
تغییر کہتے ہیں کہ پہلے والی چیز رکھ لیں اور دوسری لے آئیں جیسے بیٹا والد کےلیے کپڑے لے آئے والد کو پسند نہ آئیں تو وہ کپڑے بیٹا اپنے لیے رکھ لے اور والد کےلیے دوسرے لے آئے۔ تبدیل کہتے ہیں پہلے والی چیز واپس کرکےاس کے بدلے دوسری لے آئیں جیسے کپڑے والد کوپسند نہ آئیں تو واپس کرکے دوسرے لے آئے۔
مشرکین سے سوالات:
﴿قُلۡ مَنۡ یَّرۡزُقُکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ اَمَّنۡ یَّمۡلِکُ السَّمۡعَ وَ الۡاَبۡصَارَ﴿۳۱﴾ ﴾
مشرکین کا عقیدہ تھاکہ ساری کائنات کا خالق اللہ تعالیٰ ہے لیکن اللہ نے بہت سے اختیارات بتوں کو بھی دے رکھے ہیں جو اللہ کے شریک ہیں لہذا ان کو راضی رکھنے کےلیے ان کی عبادت کرنی چاہیے۔ اس آیت میں ان سے پوچھا گیا ہے کہ کون ہے جو تمہیں آسمان وزمین سے روزی دیتا ہے، کون تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک ہے، کون ہے جو زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے اور مردہ کو زندہ سے، کون ہے جوہرکام کا انتظام کرتاہے؟ تو یہ لوگ کہیں گے: اللہ، تو تم ان سے کہو کہ پھر بھی تم اللہ سے ڈرتے نہیں؟ جب ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہے تو پھر عبادت کے لائق و مستحق بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
قرآن کی صداقت کے حوالے سے چیلنج:
﴿قُلۡ فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّثۡلِہٖ وَ ادۡعُوۡا مَنِ اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۳۸﴾﴾
مشرکین اعتراض کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے قرآن کو گھڑلیاہے یہ اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں۔ انہیں چیلنج دیا کہ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ قرآن کریم ہمارے پیغمبر اپنی طرف سے گھڑکر لے آئے ہیں تو تم بھی اللہ تعالیٰ کے سوا جن کو چاہو مدد کےلیے بلا لاؤ اور ایک سورت اس جیسی بناکر لے آؤ اگر تم اس بات میں سچے ہو! جب ایک سورت تم سارے مل کر نہیں لاسکتے تو پھر یہ کیسے مان لیا جائے کہ یہ قرآن کریم کسی انسان نے گھڑا ہوگا!
مشرکین کے مطالبے کاجواب:
﴿وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ہٰذَا الۡوَعۡدُ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۴۸﴾﴾
گزشتہ آیات میں مشرکین کو وعیدات سنائی گئی تھیں کہ ان کو عذاب میں مبتلا کیاجائے گا۔ اب یہاں ان مطالبے کا ذکر ہے کہ وہ عذاب کب ہوگا؟ان کا مقصد تکذیب تھی۔ انہیں اگلی آیت میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی جواب دیا گیاکہ میں تو اپنی ذات کےلیے نفع حاصل کرنے کا اور کسی ضرر کو دفع کرنے کا اختیار بھی نہیں رکھتا تو میں دوسروں کے نفع اور نقصان کا کیسے مالک ہوسکتا ہوں؟ لہذا عذاب واقع کرنا میرے اختیار میں نہیں ہے۔
وسعت ِعلم باری تعالیٰ:
﴿وَ مَا تَکُوۡنُ فِیۡ شَاۡنٍ وَّ مَا تَتۡلُوۡا مِنۡہُ مِنۡ قُرۡاٰنٍ وَّ لَا تَعۡمَلُوۡنَ مِنۡ عَمَلٍ اِلَّا کُنَّا عَلَیۡکُمۡ شُہُوۡدًا اِذۡ تُفِیۡضُوۡنَ فِیۡہِ ﴿۶۱﴾﴾
مشرکین مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے کو اس وجہ سے ناممکن سمجھتے تھے کہ جب انسان مرکر مٹی میں مل جائے گا تو قیامت کے دن یہ کیسے پتا چلے گا کہ مٹی کا یہ ذرہ فلاں انسان ہے اور یہ ذرہ فلاں انسان ہے؟ تو انہیں جواب دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے علم اور قدرت کو اپنے علم پر قیاس نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ کاعلم اتنا وسیع ہے کہ کائنات کی کوئی چیزخواہ چھوٹی ہویا بڑی اللہ تعالیٰ سے مخفی نہیں ہے۔ تو پھر اللہ تعالیٰ کےلیے ان ذرات کو اکٹھا کرکے انسان بنانا کیا مشکل ہے؟
قصہ نوح علیہ السلام:
﴿وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ نُوۡحٍ ﴿۷۱﴾﴾
پہلے مشرکین وکفار اور ان کے اعتراضات کا ذکر تھا۔ اب یہاں امم سابقہ کے حالات وواقعات کوبیان کیا جارہا ہے یہ بتانے کےلیے کہ جھٹلانے والوں کا وہی حال ہوگا جو سابقہ امتوں کا ہواتھا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو بہت طویل عرصے تک وعظ ونصیحت کی اور اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دی۔ سوائے چند ایک افراد کے قوم نے نہ مانا۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے منکرین ومکذبین کو طوفان میں غرق کردیا۔
داستان ِ موسیٰ علیہ السلام وفرعون:
﴿ثُمَّ بَعَثۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ مُّوۡسٰی وَ ہٰرُوۡنَ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ وَ مَلَا۠ئِہٖ بِاٰیٰتِنَا فَاسۡتَکۡبَرُوۡا وَ کَانُوۡا قَوۡمًا مُّجۡرِمِیۡنَ ﴿۷۵﴾ ﴾
یہاں سے لے کر کئی آیات تک حضرت موسیٰ وہارون علیہم السلام کی بعثت اور فرعون اور اس کی قوم کی بدبختی اور اس کے غرق ہونے کو بیان کیا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون کے بدن کو محفوظ کرلیا جو قیامت تک آنے والی انسانیت کے لیے عبرت ہے کہ یہ ہے وہ شخص جس نے بادشاہ بننے کے بعد خدائی کا دعویٰ کیا تھا اور اس کا انجام دیکھو کیا ہوا ہے۔ فرعون عذاب کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کے بعد ایمان لایا، اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ ایسی حالت کا ایمان قبول اور معتبر نہیں ہوتا۔
قصہ قومِ یونس علیہ السلام:
﴿فَلَوۡ لَا کَانَتۡ قَرۡیَۃٌ اٰمَنَتۡ فَنَفَعَہَاۤ اِیۡمَانُہَاۤ اِلَّا قَوۡمَ یُوۡنُسَ﴿۹۸﴾﴾
گزشتہ آیت میں تھا کہ انسان کا ایمان اسی وقت قبول ہوتاہے جب وہ موت سے پہلے اور عذاب الہی کا مشاہدہ کرنے سے پہلے ایمان لائے۔ سابقہ امتیں عذاب دیکھنے سے پہلے ایمان نہیں لائیں اسی وجہ سے عذاب کا شکار ہوئیں۔ البتہ حضرت یونس علیہ السلام کی ایک ایسی قوم تھی کہ وہ عذاب کے نازل ہونے سے تھوڑا پہلے سچی توبہ کرکے ایمان لے آئی تھی اس لیے ان کا ایمان قبول ہوااور ان سے عذاب کو ہٹالیا گیا۔
نبی کا کام صرف تبلیغ ہے:
﴿قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَکُمُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ﴿۱۰۸﴾ؕ﴾
پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بات سمجھا رہے ہیں کہ لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق آگیا ہے، اب جو شخص ہدایت کا راستہ اپنائے گااس کی ہدایت کا فائدہ خوداسے پہنچے گا، اور جو گمراہی اختیار کرے گا، اس کی گمراہی کا نقصان خود اسی کو پہنچے گا اور میں تمہارے کاموں کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ یعنی میرا کام دعوت و تبلیغ ہے، ماننا نہ ماننا تمہارا کام ہے، تمہارے بار ے میں مجھ سے پوچھ نہیں ہوگی۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ