پارہ نمبر: 12

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
پارہ نمبر: 12
رازق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے:
﴿وَ مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ فِی الۡاَرۡضِ اِلَّا عَلَی اللہِ رِزۡقُہَا ﴿۶﴾ ﴾
ہر جاندار انسان، جنات، چرند،پرند، جانور، بری، بحری وغیرہ کو روزی دینے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اوریہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے بس میں نہیں۔
تخلیق ِکائنات، مقصودِ کائنات:
﴿وَ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ وَّ کَانَ عَرۡشُہٗ عَلَی الۡمَآءِ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا﴿۷﴾ ﴾
اس آیت میں بنیادی طور پر دو باتیں ذکر کی گئی ہیں: کائنات کو مرحلہ وار کیوں تخلیق کیا گیا ہےاور کائنات کی تخلیق کا مقصد کیا ہے؟
1: اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اورزمین کی تخلیق مرحلہ وار چھ دن میں فرمائی جب کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے ایک لمحہ میں بھی پیدا فر ماسکتے تھے۔ ایک تو یہ انسان کے مزاج کے مطابق ہے اور دوسرا اس میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ امور کی انجام دہی میں عجلت سے کام نہیں لینا چاہیے۔
2: کائنات کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس میں غور وفکر کرکے کون سب سے زیادہ اچھے عمل کرنے والاہے۔ سب سے زیادہ اچھے اعمال نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ہیں معلوم ہوا کہ کائنات کی تخلیق کا اصل مقصود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔
تسلی خاتم الانبیاء:
﴿فَلَعَلَّکَ تَارِکٌۢ بَعۡضَ مَا یُوۡحٰۤی اِلَیۡکَ وَ ضَآئِقٌۢ بِہٖ صَدۡرُکَ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ کَنۡزٌ اَوۡ جَآءَ مَعَہٗ مَلَکٌ﴿ؕ۱۲﴾﴾
مشرکین اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمائشی معجزات مانگتے تھے جس سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دل تنگ ہوتا تھا۔ تو آپ کی تسلی کےلیے یہ آیت نازل ہوئی کہ آپ کو ان کے فرمائشی معجزوں کی وجہ سے دلی تنگی نہیں ہونی چاہیے۔ آپ تو صرف ڈرانے والے ہیں۔
قرآن کریم کا چیلنج:
﴿قُلۡ فَاۡتُوۡا بِعَشۡرِ سُوَرٍ مِّثۡلِہٖ مُفۡتَرَیٰتٍ وَّ ادۡعُوۡا مَنِ اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۳﴾﴾
گزشتہ آیات میں مشرکین کے فرمائشی معجزات کا ذکر تھا اب اس آیت میں ایک ایسے معجزے (قرآن کریم) کاذکر ہے جس کامشرکین بھی انکار نہیں کرسکتے۔ اگر ان کے مطالبے کا مقصد نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت کو جانناہے تو وہ بذریعہ قرآن ثابت ہوچکی ہے۔ اگر مطالبے کا مقصد محض ضد ہے تواگر اللہ تعالیٰ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر خزانہ اتاردیتے یا تصدیق کےلیے کوئی فرشتہ نازل فرمادیتے تب بھی مشرکین نے نہیں ماننا تھا کیونکہ مطالبے کا مقصد ماننانہیں بلکہ ضد تھی۔
اللہ تعالیٰ نےمنکرین کو قرآن کریم کے بارے میں تین قسم کے چیلنجز دیے ہیں: نمبر ایک اس جیسا قرآن لاؤ۔ نمبر دو اس جیسی دس سورتیں لاؤ۔ نمبر تین اس جیسی ایک سورت لاؤ۔ یہاں دس سورتوں کا چیلنج ہے۔ اگر تم باوجود فصاحت وبلاغت کے نہیں لا سکتے تو سمجھ لو کہ قرآن کریم برحق اور سچی کتاب ہے اور تمہارے الزامات، اعتراضات سب جھوٹ ہیں۔ پھرآیت نمبر 25 سے لے کر سورۃ ہود کے آخر تک اللہ تعالیٰ نے سات انبیاء علیہم السلام کے واقعات کو بطورِ درس و عبرت کے ذکر فرمایا ہے:
1: داستان ِنوح علیہ السلام:
﴿وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰی قَوۡمِہٖۤ اِنِّیۡ لَکُمۡ نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ۙ۲۵﴾﴾
حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم کوشب وروز 950 سال وعظ ونصیحت اور اللہ تعالیٰ کی توحید وعبادت کی طرف دعوت دیتے رہے۔ جب قوم شرک میں حد سے تجاوز کرگئی تو اللہ تعالیٰ کا حکم آگیا کہ کشتی تیار کرو۔ آپ نے کشتی تیار کرلی پھر جو کلمہ گو تھے ان کو کشتی میں سوار فرمالیا اور تمام جانوروں میں سے نر اور مادہ کو اس میں بٹھالیا۔ پھر عذاب کی شکل میں آسمان سے پانی برسا اور زمین سے بھی پانی نکلا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کنعان سے کہا کہ تو بھی آجا۔ بیٹے نے کہا کہ میں پہاڑ پر چڑھ کر بچ جاؤں گا۔ لیکن پانی پہاڑ سے بھی اونچا ہوگیا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے دعا مانگی کہ اے اللہ! یہ میرا بیٹا میرے اہل میں سے ہے اور آپ نے وعدہ فرمایا تھا کہ آپ کے ساتھ ایمان والوں اور اہل و عیال کو بچالوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام سے یہ بات فرمائی کہ اہل سے مراد وہ ہیں جو مسلمان ہیں اور یہ کافر ہے اس کا کوئی عمل قابلِ قبول ہی نہیں ہے۔ لہذا بیٹا مشرک ہونے کی بنیاد پر اسی عذاب میں غرق ہوگیا۔
2:داستانِ ہود علیہ السلام:
﴿وَ اِلٰی عَادٍ اَخَاہُمۡ ہُوۡدًا قَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ﴿۵۰﴾﴾
حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم؛ قوم عاد جو بہت طاقت ور تھی؛ کو دعوت دی کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو جس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں،اللہ تعالیٰ کے سواکسی اور کو عبادت کے لائق سمجھنا کفر ہے۔ اور فرمایا کہ سابقہ گناہوں کی معافی مانگو۔ لیکن قوم نے نہ مانااور اپنے بتوں کی پوجاپاٹ میں لگے رہے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے حضرت ہودعلیہ السلام اور ان پر ایمان لانے والوں کے علاوہ باقی قوم پر ہوا کاطوفان بطور عذاب بھیجا جس سے گھروں کی چھتیں اور درخت اکھڑگئے، جانور اور انسان فضا میں اڑتے اور اوندھے منہ نیچے گرتے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پوری قوم تباہ وبرباد ہوگئی۔
3:داستان ِ حضرت صالح علیہ السلام:
﴿وَ اِلٰی ثَمُوۡدَ اَخَاہُمۡ صٰلِحًا ﴿۶۱﴾﴾
حضرت صالح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم قومِ ثمود کو اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی عبادت کی طرف دعوت دی۔ قوم ثمود نے حضرت صالح علیہ السلام کی تکذیب کی اور فرمائشی معجزہ کا مطالبہ کیا کہ اگراس پہاڑ کی چٹان سے حاملہ اونٹنی نکل آئے تو ہم آپ کو مان لیں گے۔ ایسے ہی ہوا، اونٹنی آگئی؛ فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی اونٹنی ہے اسے چھوڑ دو۔ لیکن وہ باز نہ آئے اور اونٹنی کو ہلاک کردیا۔ بالآخراللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے علاوہ باقی قوم کو ایک سخت قسم کی چیخ کے ذریعہ نیست ونابود فرمادیا۔ وہ اپنے گھروں میں ایسے اوندھے منہ پڑے رہ گئے جیسے وہ کبھی وہاں بسے ہی نہیں تھے۔
4:داستان ِ حضرت ابراہیم علیہ السلام:
﴿وَ لَقَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُنَاۤ اِبۡرٰہِیۡمَ بِالۡبُشۡرٰی قَالُوۡا سَلٰمًا قَالَ سَلٰمٌ ﴿۶۹﴾﴾
اس رکوع میں اللہ تعالیٰ نے دوواقعات بیان فرمائے ہیں ایک حضرت ابراہیم علیہ السلام کا، دوسرا حضرت لوط علیہ السلام کا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف انسانی شکل میں فرشتے آئے۔ آپ علیہ السلام مہمان سمجھ کر بھنا ہوا بچھڑا پیش کیا۔ انہوں نے نہ کھایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اندیشہ لاحق ہواکہ کہیں فسادکی نیت سے نہ آئے ہوں۔ فرشتوں نے تسلی دی کہ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں۔
فرشتوں کے آنے کے دو مقاصد تھے۔ پہلا مقصد حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بڑھاپے کی حالت میں بیٹے کی خوشخبری دیناتھا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتا دیا کہ بیٹے کا نام اسحاق (علیہ السلام)ہوگا، صاحب اولادہوں گے اور ان کے بیٹے کا نام یعقوب (علیہ السلام ) ہوگا۔
5:داستان حضرت لوط علیہ السلام:
﴿وَ لَمَّا جَآءَتۡ رُسُلُنَا لُوۡطًا سِیۡٓءَ بِہِمۡ وَ ضَاقَ بِہِمۡ ذَرۡعًا وَّ قَالَ ہٰذَا یَوۡمٌ عَصِیۡبٌ ﴿۷۷﴾﴾
فرشتوں کے آنے کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم سرکشی میں حدسےتجاوز کر گئی ہے اللہ تعالیٰ کے امر سے انہیں تباہ برباد کرناہے۔
قوم سدوم میں جو برائیاں تھیں ان میں سے ایک ہم جنس پرستی جیسی قبیح برائی تھی۔ جب فرشتے خوبصورت نوجوانوں کی شکل میں آئے تو حضرت لوط علیہ السلام اپنی قوم کے کرتوتوں کی وجہ سے غمزدہ ہوئے کہ کہیں قوم انہیں اپنی ہوس کا نشانہ نہ بنالے۔ فرشتوں نے تسلی دی کہ ہم اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے ہیں آپ اپنی بیوی کے علاوہ باقی اہل ایمان کو لے کر رات کو ہی بستی سے نکل جائیں۔ پیچھے مڑکربھی نہیں دیکھنا۔ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے پوری بستی کو اوپر لے جاکر الٹاپٹخ دیا اوراوپر سے ان پر پکی مٹی کے تہہ بہ تہہ پتھر برسائے۔
6:داستان حضرت شعیب علیہ السلام:
﴿وَ اِلٰی مَدۡیَنَ اَخَاہُمۡ شُعَیۡبًا قَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ وَ لَا تَنۡقُصُوا الۡمِکۡیَالَ وَ الۡمِیۡزَانَ ﴿۸۴﴾﴾
یہاں سے لے کر رکوع کے آخر تک قوم شعیب علیہ السلام کے واقعہ کو تفصیل سے بیان کیا جارہاہے۔ یہ قوم مدین میں آباد تھی اوربہت خوشحال تھی۔ ان میں ایک برائی ناپ تول میں کمی کرنا تھی۔ جب دیتے تو کم دیتے، لیتے تو زیادہ لیتے تھے۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں سمجھانے اور اصلاح کرنے کی بہت کوشش کی مگرانہوں نے نہ مانا۔ بالآخر حضرت شعیب علیہ السلام اور ان پرایمان لانے والوں کے علاوہ باقی قوم کو ایک سخت قسم کی چیخ کے ذریعہ نیست ونابود فرمادیا۔ وہ اپنے گھروں میں ایسے اوندھے منہ پڑے رہ گئے جیسے کبھی وہاں وہ بسے ہی نہیں تھے۔
7:داستان حضرت موسیٰ علیہ السلام:
﴿وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ فَاخۡتُلِفَ فِیۡہِ وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ لَقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ ﴿۱۱۰﴾﴾
یہاں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رسالت کابیان ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو دعوت دی لیکن وہ نہ مانا۔ قیامت کے دن وہ اپنی قوم کے آگے آگے ہوگا۔ قوم سمیت جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
قیامت کی ہولناکی:
﴿یَوۡمَ یَاۡتِ لَا تَکَلَّمُ نَفۡسٌ اِلَّا بِاِذۡنِہٖ ۚ فَمِنۡہُمۡ شَقِیٌّ وَّ سَعِیۡدٌ ﴿۱۰۵﴾ ﴾
قیامت کے دن ہیبت کی وجہ سے لوگوں کی یہ حالت ہوگی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر بات نہیں کرسکیں گے۔ ہاں البتہ جس کواللہ تعالیٰ اجازت دیں۔ لوگوں میں بعض شقی(بدبخت، کافر) ہوں گے اور بعض سعید(خوش بخت، مؤمن ) ہوں گے۔ شقی ہمیشہ جہنم میں رہیں گے اور سعید ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔
استقامت کاحکم:
﴿فَاسۡتَقِمۡ کَمَاۤ اُمِرۡتَ وَ مَنۡ تَابَ مَعَکَ وَ لَا تَطۡغَوۡا ؕ اِنَّہٗ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ﴿۱۱۲﴾﴾
گزشتہ کئی آیات میں سابقہ انبیاء علیہم السلام میں سے سات انبیاء اور ان کی اقوام کے حالات واقعات بیان کیے گئے۔ اب یہاں سے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت کو استقامت علی الدین کا حکم دیا جارہا ہے۔ استقامت کا تعلق عقائد، عبادات، معاملات، اخلاق اور معاشرت وغیرہ سب کے ساتھ ہے۔ مطلب یہ ہے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو حدود اور اصول مقرر کیے گئے ہیں ان کی مکمل پابندی کرکے چلنا استقامت ہے۔
ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈاڑھی مبارک میں کچھ سفید بال دیکھ کر کہا اے اللہ کے رسول! آپ پر بڑھاپا تیزی کے ساتھ آرہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ سورۃ ہوداور اس جیسی سورتوں نے مجھے بوڑھا کردیاہے۔
اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ عافیت کی دعامانگا کریں۔ بعض حضرات مجھے دعادیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو استقامت عطا فرمائے۔ میں انہیں کہتا ہوں کہ بھائی مجھے استقامت کی بلکہ عافیت کی دعادیا کریں۔
اقامت صلوٰۃ کا حکم:
﴿وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیۡلِ ؕ اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ ﴿۱۱۴﴾ۚ ﴾ۚ
اس آیت میں تین چیزیں بیان کی گئی ہیں: اقامت صلوٰۃ کا حکم،اوقات نماز اور اقامت صلوۃ کا فائدہ یعنی فرض نمازوں کو واجبات، سنن، مستحبات اور آداب کا خیالات رکھتے ہوئے ادا کرنا۔ یہاں چار نمازوں کا ذکر ہے فجر،عصر، مغرب اور عشاء۔ جبکہ نمازظہر کا ذکر دوسری آیت میں موجود ہے۔ نمازاداکرنے کافائدہ یہ ہے کہ یہ انسان کے گناہوں کو مٹا دیتی ہے۔
سابقہ انبیاء علیہم السلام کے قصص بیان کرنے کی حکمت:
﴿وَ کُلًّا نَّقُصُّ عَلَیۡکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہٖ فُؤَادَکَ ۚ وَ جَآءَکَ فِیۡ ہٰذِہِ الۡحَقُّ وَ مَوۡعِظَۃٌ وَّ ذِکۡرٰی لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۲۰﴾﴾
سورۃ ہود میں مختلف مقامات پر سات انبیاء علیہم السلام کے قصص اور ان کی اقوام کے واقعات کو بیان کیا گیا ہے۔ اب یہاں سورۃ کےآخر میں ان قصص کی حکمتوں کو بیان کیاجارہاہےکہ سابقہ انبیاء علیہم السلام کے واقعات بیان کرنے سے مقصود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دینا اور آپ کے دل کو مطمئن کرنا ہےاور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کےلیے بھی اس میں نصیحت وموعظت اور عبرت ہے۔
سورۃ یوسف
اس پوری سورۃ میں حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ اسی مناسبت سے آپ کے نام پر اس سورۃ کانام سورۃ یوسف رکھا گیا ہے۔
یہودیوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیاکہ بنواسرائیل فلسطین سے مصر جاکرکیسے آبادہوئے؟ یہودیوں کا مقصدِسوال یہ تھا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کے پاس اس کا جواب نہیں ہوگا توان کی تکذیب کرناہمارے لیے آسان ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں یہ پوری سورۃ نازل فرمادی۔
چند ایک مشترکات :
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور یوسف علیہ السلام کے درمیان بہت سی چیزوں میں مشابہت ہے:
یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے آپ سے حسدکرکے تکلیفیں پہنچائیں بالآخر غلبہ یوسف علیہ السلام کو حاصل ہوا۔ اسی طرح قریش مکہ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو طرح طرح کی تکلیفیں پہنچائیں بالآخر فتح مکہ کی صورت میں غلبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوا۔ یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کومعاف کرتے ہوئے انتقام نہیں لیا۔ اسی طرح نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فتح مکہ کے موقع پر قریش کو معاف فرمادیا۔ وغیرہ….
بہترین قصہ یعنی احسن القصص:
﴿نَحۡنُ نَقُصُّ عَلَیۡکَ اَحۡسَنَ الۡقَصَصِ بِمَاۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ﴿۳﴾﴾
حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ کو احسن القصص سے اس لیے تعبیر فرمایا کہ اس میں عبرتیں، نصیحتیں، سیرت وسوانح، زہد وتقوی، حکومت کے رموز، دین اور معاشی خوش حالی کی تدبیریں وغیرہ؛ سب کو بڑی جامعیت کے ساتھ بیان کیا گیاہے۔
یوسف علیہ السلام کا خواب:
﴿اِذۡ قَالَ یُوۡسُفُ لِاَبِیۡہِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیۡ رَاَیۡتُ اَحَدَعَشَرَ کَوۡکَبًا وَّ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ رَاَیۡتُہُمۡ لِیۡ سٰجِدِیۡنَ ﴿۴﴾﴾
حضرت یوسف علیہ السلام نے کہاکہ ابا جی! میں نے خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے، ایک سورج اور ایک چاند مجھے سجدہ کررہے ہیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نبی ہونے کی وجہ سے خواب کی تعبیرسمجھ گئے کہ اس کے گیارہ بھائی، والداور والدہ کسی وقت ان کے مطیع اور فرمانبردار ہوجائیں گے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی پہلی بیوی سے دس بیٹے تھے۔ دوسری بیوی سے دو (یوسف علیہ السلام اور بنیامین )تھے۔
یعقوب علیہ السلام کی تدبیر:
﴿قَالَ یٰبُنَیَّ لَا تَقۡصُصۡ رُءۡیَاکَ عَلٰۤی اِخۡوَتِکَ فَیَکِیۡدُوۡا لَکَ کَیۡدًا﴿۵﴾﴾
حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا کہ اپنا خواب اپنے بھائیوں سے بیان نہ کرنا۔ ممکن ہے کہ وہ سوتیلے بھائی ہونے کی وجہ سے حسد کرنے لگیں۔
برادران یوسف کا حسد:
﴿اِذۡ قَالُوۡا لَیُوۡسُفُ وَ اَخُوۡہُ اَحَبُّ اِلٰۤی اَبِیۡنَا مِنَّا وَ نَحۡنُ عُصۡبَۃٌ﴿۸﴾﴾
حضرت یوسف علیہ السلام کے والد گرامی ان سے غیر معمولی محبت کرتے تھے۔ یاتو اسی وجہ سے انہوں نے حسد کیا یاپھر انہیں کسی طریقے سے خواب معلوم ہوگیا تو حسد کرنے لگے۔ وہ کہنے لگے کہ ہم عمر، طاقت اور تعداد میں بھی زیادہ ہیں والدگرامی کی مدد تو ہم کر سکتے ہیں اس لیے ہم سےزیادہ محبت ہونی چاہیے۔
یوسف علیہ السلام کے قتل منصوبہ:
﴿اقۡتُلُوۡا یُوۡسُفَ اَوِ اطۡرَحُوۡہُ اَرۡضًا یَّخۡلُ لَکُمۡ وَجۡہُ اَبِیۡکُمۡ﴿۹﴾﴾
یہاں سے لے کر آیت نمبر 21تک کا خلاصہ:
برادران نے مشورہ کیاکہ اسے قتل کردیں یا پھر کسی کنویں میں ڈال دیں۔ یہودا جو ان کا بڑابھائی تھا اس نے کہاقتل نہ کریں بلکہ کسی کنویں میں ڈال دیں۔ والد سے کہا ہم سیر وتفریح کےلیے جاناچاہتے ہیں ہماری خواہش ہے کہ یوسف (علیہ السلام ) کوبھی ہمارے ساتھ بھیج دیجیے۔ لے جاکر کسی کنویں میں ڈال دیا۔ عشاء کے وقت والد کے پاس روتے ہوئے آئے اور ان کے کرتے کوخون لگادیا کہ ہمارے بھائی کو بھیڑیے نے کھا لیا ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اصل حقیقت سمجھ گئے۔
اب وہاں سے قافلہ گزرا انہوں نے پانی نکالنے کےلیے ڈول ڈالاتو ڈول میں سے یوسف علیہ السلام نکل آئے۔ بھائی قریب تھے آگئے کہنے لگے کہ یہ ہمارابھگوڑا غلام ہے ہم اسے بیچنا چاہتے ہیں۔ چالیس یا بیس درہم میں فروخت کردیا۔ قافلے والے لے کر مصر آگئے، وہاں عزیز مصر نے خرید لیا۔ عزیز مصر نے اپنی بیوی سے کہا کہ اس کا بہت خیال کرنا یہ بڑی صفات والا ہے۔
آزمائش میں کامیابی:
﴿وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗۤ اٰتَیۡنٰہُ حُکۡمًا وَّ عِلۡمًا وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۲۲﴾﴾
یہاں سے لے کرآیت نمبر 29تک کا خلاصہ:
عزیز مصر کے گھر میں پلے، بڑھے اورجوان ہوئے تو عزیز مصر کی بیوی زلیخا آپ پر فریفتہ ہوگئی۔ جب جذبات پر قابونہ رہاتوحضرت یوسف علیہ السلام کی قربت حاصل کرنےکےلیے اندر سےدروازے بند کرکے تالے لگادیے۔ گناہ کے تمام اسباب موجود تھے مثلاًخود عورت کی طرف سے خواہش کرنا،کسی غیر کے آنے جانے کے سب راستے بند، جوانی وقوت کا زمانہ وغیرہ مگر اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کو اس سے مکمل طور پرمحفوظ رکھا۔
یوسف علیہ السلام بچنے کےلیے وہاں سے بھاگے، زلیخا پکڑنے کےلیے پیچھے دوڑی، کرتہ پکڑ کر ان کو باہر جانے سے روکنا چاہا جس سے کرتہ پھٹ گیا۔ باہر عزیز مصر موجود تھے۔ زلیخا نے فوراً الزام لگادیا۔ اللہ تعالیٰ نے یوسف علیہ السلام کی پاکدامنی ظاہر کرنے کےلیے ایک شیرخوار بچے کو شہادت دینے کےلیے قوت گویائی عطا فرمائی۔ گواہی سے ثابت ہو ا کہ زلیخا قصور وار ہے۔ عزیز مصر کو یقین ہوگیا کہ زلیخا قصوروار ہےاور اس سے کہا کہ اس گناہ کی معافی مانگو۔ یوسف علیہ السلام سے کہا کہ اے یوسف! در گزر کرو۔
زنانِ مصر کا طعنہ اور زلیخا کی تدبیر:
﴿وَ قَالَ نِسۡوَۃٌ فِی الۡمَدِیۡنَۃِ امۡرَاَتُ الۡعَزِیۡزِ تُرَاوِدُ فَتٰىہَا عَنۡ نَّفۡسِہٖ قَدۡ شَغَفَہَا حُبًّا ﴿۳۰﴾﴾
شہر کی عورتیں باتیں کرنے لگیں کہ زلیخا اپنے غلام پر فریفتہ ہوگئی ہے۔ زلیخا نے ان سب عورتوں کی دعوت کی دستر خوان پر تیز چھریاں اور پھل رکھ دیے۔ یوسف علیہ السلام کو باہر آنے کےلیے کہا جب عورتوں نے دیکھا تو ان کے حسن وجمال میں ایسی محو ہوئیں کہ بے خیالی میں پھل کاٹنے کے بجائے اپنی انگلیاں کاٹ بیٹھیں اور کہنے لگیں کہ یہ انسان نہیں بلکہ فرشتہ ہے۔ زلیخا نے ان عورتوں سے کہا اس محبت پر تم مجھے طعنہ دیتی تھیں، اب پتہ چلا؟
یوسف علیہ السلام کی دعا:
﴿قَالَ رَبِّ السِّجۡنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدۡعُوۡنَنِیۡۤ اِلَیۡہِ ﴿۳۳﴾ ﴾
حضرت یوسف علیہ السلام نے دعا کی کہ یا رب! یہ عورتیں مجھے جس کام کی دعوت دے رہی ہیں اس کے مقابلے میں جیل مجھے زیادہ پسند ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کی، ان کی چالوں سے حفاظت فرمائی اور آپ علیہ السلام کو جیل میں بھیج دیا گیا۔
دوقیدیوں کاخواب:
﴿وَ دَخَلَ مَعَہُ السِّجۡنَ فَتَیٰنِ ؕ﴿۳۶﴾﴾
حضرت یوسف علیہ السلام کی قید کے زمانے میں دومزید قیدی بادشاہ کو کھانے میں زہر دینے کے الزام میں جیل میں آگئے۔ انہوں نے خواب دیکھا۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ میں بادشاہ کو انگور نچوڑ کر شراب پلارہا ہوں۔ دوسرے نے کہا کہ میرے سر پر روٹیوں کا ٹوکرا ہے پرندے نوچ نوچ کر کھارہے ہیں۔ یوسف علیہ السلام سے تعبیر پوچھی۔ آپ نے فرمایا کہ کچھ دیر میں بتاتاہوں۔ پہلے انہیں توحید کی دعوت دی پھرپیغمبرانہ شفقت کی وجہ سے بغیر تعیین کے تعبیر بتائی کہ تم میں سے ایک نجات پائے گا اور بادشاہ کو شراب پلائے گا دوسرے کو پھانسی ہوگی۔ کچھ دن بعد تحقیقات مکمل ہونے پر فیصلہ ہوگیا کہ ساقی بے گناہ ہے اور باورچی قصوروار ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے ساقی سے کہا کہ بادشاہ سے کہہ دیناایک بے قصور قیدی جیل میں ہے۔ ساقی کو شیطان نے بھلادیا۔ یوسف علیہ السلام کئی سال تک جیل میں رہے۔
بادشاہ کاخواب:
﴿وَ قَالَ الۡمَلِکُ اِنِّیۡۤ اَرٰی سَبۡعَ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ یَّاۡکُلُہُنَّ سَبۡعٌ عِجَافٌ وَّ سَبۡعَ سُنۡۢبُلٰتٍ خُضۡرٍ وَّ اُخَرَ یٰبِسٰتٍ﴿۴۳﴾﴾
بادشاہ نے خواب دیکھا کہ سات موٹی تازی گائے ہیں جنہیں سات دبلی پتلی گائے کھارہی ہیں، نیز سات خوشے ہرے بھرے ہیں اور سات مزید خوشے ہیں جو سوکھے ہوئے ہیں۔ ارکان سلطنت سے اس کی تعبیر پوچھی تو انہوں نے کہا کہ یہ الجھے ہوئے اور پریشان خیالات ہیں اور ہم خوابوں کی تعبیر سے واقف بھی نہیں۔ اس ساقی کو یوسف علیہ السلام یاد آگئے، اس نے کہابادشاہ سلامت! جیل میں ایک آدمی ہے جو سچا ہے اور تعبیر بھی درست بتاتاہے۔ یوسف علیہ السلام نے تعبیر بتادی کہ سات سال کھیتی باڑی کرکے اناج محفوظ کرو، ان کے بعد سات سال سخت قحط سالی کے آئیں گے۔ قحط سالی کے ان سات سالوں کےبعد پھر بارشیں ہوں گی اور دوبارہ ہریالی اور فصلیں ہوں گی۔ بادشاہ بہت خوش ہوا کہ یہ میرے خواب کی صحیح تعبیر ہے۔
یوسف علیہ السلام کی رہائی:
﴿وَ قَالَ الۡمَلِکُ ائۡتُوۡنِیۡ بِہٖ ۚ فَلَمَّا جَآءَہُ الرَّسُوۡلُ قَالَ ارۡجِعۡ اِلٰی رَبِّکَ فَسۡـَٔلۡہُ مَا بَالُ النِّسۡوَۃِ الّٰتِیۡ قَطَّعۡنَ اَیۡدِیَہُنَّ ﴿۵۰﴾﴾
بادشاہ نے کہا اسے بلاؤ، یہ عام آدمی نہیں بلکہ بہت ہی عظیم شخص ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ میں بعد میں آؤں گا بادشاہ سے کہوکہ پہلے ان عورتوں کے معاملات کی تحقیق کریں جنہوں نے اپنی انگلیاں کاٹ ڈالی تھیں۔ بادشاہ نے ان سب عورتوں کو بلا کر پوچھا تو انہوں نے یوسف علیہ السلام کی بے گناہی کی واضح الفاظ میں گواہی دی۔ اور زلیخا نے بھی اقرار کیا کہ اصل غلطی میری تھی،یوسف علیہ السلام سچے ہیں۔ اس کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام بادشاہ کے پاس رہنے لگے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ