پارہ نمبر: 13

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
پارہ نمبر: 13
یوسف علیہ السلام کی تواضع:
﴿وَ مَاۤ اُبَرِّیُٔ نَفۡسِیۡ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۡ﴿۵۳﴾﴾
بارھویں پارے سے حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ چلتاآرہاہے۔ یہاں بھی انہی کا ذکر ہے۔
جب عورتوں کی طرف سے حضرت یوسف علیہ السلام کی بے گناہی اور پاکدامنی ثابت ہوگئی تو اس موقع پر بھی انتہائی تواضع اور عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اپنے نفس کو بھی بری نہیں بتاتا کیونکہ نفس ہر انسان کو گناہ کا حکم دیتاہے، یہ صرف میرے رب کی رحمت ہے جس کی وجہ سے میں برائی سے محفوظ رہا۔
یوسف علیہ السلام کی حکومت:
﴿قَالَ اجۡعَلۡنِیۡ عَلٰی خَزَآئِنِ الۡاَرۡضِ اِنِّیۡ حَفِیۡظٌ عَلِیۡمٌ ﴿۵۵﴾﴾
جب شاہ ِمصر نے یوسف علیہ السلام کو اپنے پاس بلایا اور یوسف علیہ السلام نے بادشاہ کا پورا خواب اور اس کی تعبیردوبارہ بتائی توبادشاہ نے کہا کہ اس کا انتظام کون کرے گا؟ یوسف علیہ السلام نے فرمایا
﴿اجۡعَلۡنِیۡ عَلٰی خَزَآئِنِ الۡاَرۡضِ﴾
تم مجھے وزیر خزانہ بنادو، میں نگرانی کر سکتا ہوں اللہ نے مجھے ا س کا علم بھی عطا فرمایا ہے۔
کچھ عرصے کے بعد بادشاہ نے حکومت کے تمام اختیارات یوسف علیہ السلام کو سونپ دیےاور ان کے ہاتھ پر اسلام بھی قبول کرلیا۔ آپ نے بہت عمدہ طریقے سے انتظامات فرمائے۔
یہ بات یادرہے آپ کا عہدہ مانگنا اس وجہ سے تھا کہ اگر کسی نااہل کو عہدہ مل گیا تو کہیں وہ اس کو ضائع نہ کردے۔ نبوت کا عہدہ اتنا بڑا ہے کہ اس کے ملنے کے بعد کسی عہدے کی خواہش وضرورت نہیں رہتی اور ایک نبی کو کسی عہدے سے کیا غرض!
برادران کا مصر میں پہلا داخلہ:
﴿وَ جَآءَ اِخۡوَۃُ یُوۡسُفَ فَدَخَلُوۡا عَلَیۡہِ فَعَرَفَہُمۡ وَ ہُمۡ لَہٗ مُنۡکِرُوۡنَ ﴿۵۸﴾﴾
جب یوسف علیہ السلام خزانے پر متعین ہوگئے اس وقت یہ طے کیا گیا کہ قحط کی وجہ سے ہر آدمی کوایک خاص مقدار میں غلہ دیا جائے۔ یوسف علیہ السلام کے بھائی بھی آئے اور آپ کا سب سے چھوٹا بھائی بنیامین ساتھ نہیں تھا۔ جب واپس جانے لگے تو یوسف علیہ السلام نے پوچھا تم کتنے بھائی ہو انہوں نے بتایا ایک بھائی اور ہے وہ والد کے پاس ہے۔ یوسف علیہ السلام نے فرمایا آئندہ اس کو بھی لانا اگر نہ لائے تو تمہیں غلہ نہیں دوں گا۔ ان کی واپسی کے وقت یوسف علیہ السلام نے ان کے پیسوں کو انہی کے سامان میں رکھوا دیا اور ان کو پتہ بھی نہ چلا۔ جب واپس جا کر انہوں نے سامان کھولا تو اس میں پیسے موجود تھےانہوں نے کہا پیسے بھی واپس آگئے بہت نیک بادشاہ ہے!
بنیامین کو مصر لے جانے کی درخواست:
﴿فَلَمَّا رَجَعُوۡۤا اِلٰۤی اَبِیۡہِمۡ قَالُوۡا یٰۤاَبَانَا مُنِعَ مِنَّا الۡکَیۡلُ فَاَرۡسِلۡ مَعَنَاۤ اَخَانَا نَکۡتَلۡ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ﴿۶۳﴾﴾
پھر اپنے والد سے کہا کہ اس نے کہا ہے کہ تم اپنے باپ شریک بھائی کو بھی لے کر آنا۔ انہوں نے اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام سے کہا کہ آپ ہمارے بھائی بنیامین کو ہمارے ساتھ بھیج دیں، ہم اس کی حفاظت کریں گے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کو پہلے سے جھٹکا لگا ہوا تھا فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ نہیں بھیجوں گا یہاں تک کہ تم مجھ سے پختہ عہد کروکہ تم اس کو واپس لاؤ گے۔
یعقوب علیہ السلام کی تدبیر:
﴿وَ قَالَ یٰبَنِیَّ لَا تَدۡخُلُوۡا مِنۡۢ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّ ادۡخُلُوۡا مِنۡ اَبۡوَابٍ مُّتَفَرِّقَۃٍ﴿۶۷﴾﴾
حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو نصیحت فرمائی کہ میرے بیٹو! جب تم مصر میں داخل ہو تو الگ الگ دروازے سے داخل ہونا۔ وہ خوبصورت اور قد آور تھے تو آپ کو خدشہ ہوا کہ کہیں نظر نہ لگ جائے۔ اور ساتھ یہ بھی فرمایا دیا کہ یہ محض ایک تدبیر ہے باقی کسی کو نفع یا نقصان پہنچانے کا اختیارصرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ بیٹے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مختلف دروازوں سے داخل ہوگئے۔
برادران کا مصر میں دوسرا داخلہ:
﴿وَ لَمَّا دَخَلُوۡا عَلٰی یُوۡسُفَ اٰوٰۤی اِلَیۡہِ اَخَاہُ قَالَ اِنِّیۡۤ اَنَا اَخُوۡکَ فَلَا تَبۡتَئِسۡ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۶۹﴾ ﴾
بنیامین جب پہنچے تو یوسف علیہ السلام نے انہیں اپنے پاس خاص جگہ دی اور فرمایا میں تمہارا بھائی یوسف ہوں لہذا تم ان باتوں پر رنجیدہ نہ ہوناجو یہ کرتے رہے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے ایک تدبیر اختیار کی جس سے بنیامین ان کے پاس رہ جائے۔ جب یہ واپس جانے لگے تو غلہ ناپنے کا پیمانہ حضرت یوسف علیہ السلام کے کہنے پر چھوٹے بھائی کے غلہ کے اندر رکھ دیا گیا۔ جب یہ چلے تو حکومت کی طرف سے ایک شخص نے اعلان کیا کہ ہماراغلہ ناپنے کا جو برتن تھا وہ چوری ہوگیا تم سب تلاشی دو۔ انہوں نے کہا ہم تو چور نہیں۔ اعلان کرنے والوں نے کہا کہ اگر تم جھوٹے ثابت ہوئے تو اس کی کیا سزا ہو گی؟ خود انہوں نے کہا کہ اس کی سزا یہ ہے کہ اسے روک لیاجائے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی شریعت میں یہی حکم تھا۔ پہلے دوسرے بھائیوں کی تلاشی لی پھر بنیامین کی۔ ان کے سامان سے پیالہ برآمد ہوگیا تو بھائی کہنے لگے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں اس سے پہلے اس کے بھائی (یوسف علیہ السلام ) بھی چوری کر چکے ہیں۔
یوسف علیہ السلام کی طرف چوری کی نسبت کا واقعہ یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام بچپن میں پرورش کےلیے اپنی پھوپھی کے پاس تھے۔ جب یعقوب علیہ السلام انہیں واپس لینے گئے تو پھوپھی کو یوسف سے محبت ہوچکی تھی وہ چاہتی تھیں کہ یوسف کسی بھی طریقے سے میرے پاس رہ جائے۔ انہوں نے اس کےلیے تدبیر یہ اختیارکی کہ ان کی کمر کے ساتھ پٹکا باندھ کر یہ مشہور کردیا کہ پٹکا چوری ہوگیا ہے۔ جب پٹکا یوسف علیہ السلام سے برآمد ہوا تو یعقوب علیہ السلام کی شریعت کے مطابق پھوپھی نے یوسف علیہ السلام کو اپنے پاس رکھ لیا۔ برادران کو اس معاملے کی حقیقت حال کا علم تھا اس کے باوجود بھی انہوں نے چوری کا الزام لگا دیا۔
برادران کی یوسف علیہ السلام سے در مندانہ التجا:
﴿قَالُوۡا یٰۤاَیُّہَا الۡعَزِیۡزُ اِنَّ لَہٗۤ اَبًا شَیۡخًا کَبِیۡرًا فَخُذۡ اَحَدَنَا مَکَانَہٗ اِنَّا نَرٰىکَ مِنَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۷۸﴾﴾
جب بنیامین کو روکاجانے لگا تو بھائیوں کو جان کے لالے پڑ گئے اب منت سماجت شروع کی کہ ہمارے ابا بوڑھے اور ضعیف ہیں لہذا آپ ہم میں سے کسی ایک کو اس کی جگہ رکھ لیں بنیامین کو واپس جانے دیں ہم آپ کو محسنین میں سے سمجھتے ہیں۔ یوسف علیہ السلام نے کہا میں اس نا انصافی سے پناہ مانگتاہوں کہ جس شخص کے پاس سے ہماری چیز ملی ہے اس کو چھوڑ کر کسی اور کو رکھ لیں۔
برادران کی مایوسی اور مشورہ:
﴿فَلَمَّا اسۡتَیۡـَٔسُوۡا مِنۡہُ خَلَصُوۡا نَجِیًّا ﴿۸۰﴾﴾
جب وہ یوسف علیہ السلام سے مایوس ہوگئے تو آپس میں مشورہ کرنے لگے بڑے بھائی یہودا نے کہا کہ تمہارے والد نے بنیامین کے متعلق ہم سے پختہ عہد لیا تھا۔ اس سے پہلے یوسف (علیہ السلام ) کے بارے میں جو تم کوتاہی کرچکے وہ بھی معلوم ہے لہذا میں تو واپس نہیں جاؤں گا۔ تم جاؤ اور جاکر اپنے والد سے کہو کہ آپ کے بیٹے نے چوری کی ہے جس کی وجہ سے بادشاہ نے اسے اپنے پاس رکھ لیا ہے۔ تصدیق کےلیے قافلے والوں سے پوچھ لیں۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کا جواب:
﴿قَالَ بَلۡ سَوَّلَتۡ لَکُمۡ اَنۡفُسُکُمۡ اَمۡرًا فَصَبۡرٌ جَمِیۡلٌ عَسَی اللہُ اَنۡ یَّاۡتِـیَنِیۡ بِہِمۡ جَمِیۡعًا﴿۸۳﴾﴾
حضرت یعقوب علیہ السلام نے بیٹوں کی بات سن کر وہی جواب دیا جو یوسف علیہ السلام کے متعلق دیا تھا اور فرمایا کہ میں صبر کروں گا ، کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو میرے پاس لے آئے۔ اور کہا کہ میں اپنے رنج وغم کی فریاد اللہ تعالیٰ سے کرتاہوں۔
برادران کا مصر میں تیسرا داخلہ:
﴿فَلَمَّا دَخَلُوۡا عَلَیۡہِ قَالُوۡا یٰۤاَیُّہَا الۡعَزِیۡزُ مَسَّنَا وَ اَہۡلَنَا الضُّرُّ وَ جِئۡنَا بِبِضَاعَۃٍ مُّزۡجٰىۃٍ فَاَوۡفِ لَنَا الۡکَیۡلَ وَ تَصَدَّقۡ عَلَیۡنَا ﴿۸۸﴾﴾
جب بھائی واپس یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچے تو کہا ہمارے گھر والوں پر سخت مصیبت آپڑی ہے اور ہم معمولی سی رقم لے کر آئے ہیں، آپ ہمیں غلہ پورا پورا دے دیں اور مہربانی کا معاملہ فرمائیں۔ اب یوسف علیہ السلام نے پوچھا کہ تمہیں معلوم ہے کہ تم نے یوسف (علیہ السلام) اور اس کے بھائی بنیامین کے ساتھ کیا معاملہ کیا تھا؟ یوسف علیہ السلام کے واقعے کو چالیس سال گزرچکے تھے۔ بھائیوں نے سوچا کہ بادشاہ کو یوسف کے بارے کیسے علم ہوگیا ہے ! تو بھائی کہنے لگے کیا آپ یوسف ہیں؟ یوسف علیہ السلام نے فرمایا جی میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی بنیامین ہے۔ اب کی بار یوسف علیہ السلام نے ساری حقیقت حال بیان فرمادی۔ بھائیوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔ یوسف علیہ السلام نے فرمایا﴿ لَا تَثۡرِیۡبَ عَلَیۡکُمُ الۡیَوۡمَ ﴾آج تم پر کوئی ملامت نہیں ہوگی۔
خاندان کو مصر لانے کا حکم:
﴿اِذۡہَبُوۡا بِقَمِیۡصِیۡ ہٰذَا فَاَلۡقُوۡہُ عَلٰی وَجۡہِ اَبِیۡ یَاۡتِ بَصِیۡرًاوَ اۡتُوۡنِیۡ بِاَہۡلِکُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿٪۹۳﴾ ﴾
حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کو اپنی قمیص دی کہ اسے والد محترم کے چہرے پر ڈال دینا اس سے ان کی بینائی واپس آجائے گی۔ اور والدین سمیت پورے خاندان کو مصر لے آنا۔ قافلہ ابھی شہر سے نکلا ہی تھا کہ ادھر یعقوب علیہ السلام نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں سے کہا کہ میں یوسف (علیہ السلام)کی خوشبو محسوس کررہاہوں۔ جب برادران پہنچے اور قمیص چہرے پر ڈالی تو بینائی واپس آگئی۔ پھر برادران نے سارا قصہ سنایا کہ یوسف علیہ السلام ملکِ مصر کی بادشاہت کے عہدے پر فائز ہوچکے ہیں۔
برادران کا خاندان سمیت مصر میں چوتھا داخلہ:
﴿فَلَمَّا دَخَلُوۡا عَلٰی یُوۡسُفَ اٰوٰۤی اِلَیۡہِ اَبَوَیۡہِ ﴿ؕ۹۹﴾ ﴾
حضرت یعقوب علیہ السلام کی قیادت میں پورا خاندان؛ کنعان سے مصر کی طرف روانہ ہوا۔ جب وہاں پہنچے تو یوسف علیہ السلام ان کے استقبال کےلیے شہر مصر سے باہر تشریف لائے۔ والدین سے ملاقات ہوئی تو ان کا خاص اکرام کیا اور انہیں تخت پر بٹھایا۔ وہ سب ان کے سامنے سجدے میں گر پڑے، حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا اباجان!یہ میرے خواب کی تعبیر ہے جسے رب تعالیٰ نے سچ کردکھایا۔ یہ سجدہ یاتو اللہ تعالیٰ کاشکر بجالانے کےلیے تھا کہ یوسف علیہ السلام مل گئے ہیں یا سجدہ تعظیمی تھا جو حضرت یوسف علیہ السلام کی شریعت میں جائز تھا۔
خاتم الانبیاء کی نبوت پر دلیل:
﴿ذٰلِکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الۡغَیۡبِ نُوۡحِیۡہِ اِلَیۡکَ وَ مَا کُنۡتَ لَدَیۡہِمۡ اِذۡ اَجۡمَعُوۡۤا اَمۡرَہُمۡ وَ ہُمۡ یَمۡکُرُوۡنَ ﴿۱۰۲﴾﴾
شروع سورۃ میں یہ بات بیان کی جاچکی ہے کہ یہود نے آزمائش کےلیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا تھا کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو ہمیں بتائیں کہ آلِ یعقوب کنعان سے مصر کیسے منتقل ہوئے؟ تو اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب کےلیے پوری سورۃ نازل فرمادی جس میں آل یعقوب کا تفصیل سے پورا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا۔ یہ آپ کا معجزہ اور آپ کی نبوت پر دلیل ہے کہ آپ نے کسی سے پڑھا بھی نہیں پھر بھی وہ واقعہ ٹھیک ٹھیک بیان فرمادیا۔
قرآن کریم مصدِق ہے:
﴿لَقَدۡ کَانَ فِیۡ قَصَصِہِمۡ عِبۡرَۃٌ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ مَا کَانَ حَدِیۡثًا یُّفۡتَرٰی وَ لٰکِنۡ تَصۡدِیۡقَ الَّذِیۡ بَیۡنَ یَدَیۡہِ ﴿۱۱۱﴾﴾
سورۃ یوسف کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ یوسف علیہ السلام اور ان جیسے دیگر واقعات وقصص میں عقل مندوں کےلیے عبرت اور نصیحت ہے۔ یوسف علیہ السلام کا قصہ کوئی افسانہ یا گھڑی ہوئی بات نہیں ہے بلکہ تصدیق ہے سابقہ کتابوں یعنی توراۃ وانجیل کی جن میں یوسف علیہ السلام کا قصہ موجود ہے۔
سورۃ الرعد
اس سورۃ میں کائنات کی بہت ساری نشانیاں ذکر کی گئی ہیں ان میں سے ایک نشانی بادلوں کی گرج چمک بھی ہے۔ اسی پر ا س سورۃ کانام سورۃ الرعد رکھا گیا ہے۔ اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور قیامت کو بیان کیا ہے۔ اور ان پر ہونے والے اعتراضات کے جوابات بھی دیے ہیں۔
حجیتِ حدیث:
﴿الٓـمّٓرٰ ۟ تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ وَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ الۡحَقُّ ﴿۱﴾﴾
اس آیت میں قرآن کریم کے کلام ِحق ہونے کو بیان کیاجارہاہے۔
"الۡکِتٰبِ "
سے مراد قرآن کریم ہے۔ اور
" الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ "
سے قرآن کریم بھی مراد ہوسکتا ہے اسی طرح اس سے حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی مراد ہوسکتی ہے جوکہ وحی غیر متلو ہے۔ جس طرح قرآن کریم وحی الٰہی اور بر حق ہے۔ اسی طرح حدیث بھی وحی الٰہی اور برحق ہے۔ تو جیسے قرآن کریم حجت ہے اسی طرح حدیث بھی حجت ہے۔ قرآن کریم کے الفاظ اور معانی دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں جبکہ حدیث کے معانی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں اور الفاظ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہوتے ہیں۔
قدرتِ باری تعالیٰ کی نشانیاں:
﴿اَللہُ الَّذِیۡ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیۡرِ عَمَدٍ تَرَوۡنَہَا ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ وَ سَخَّرَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ ؕ کُلٌّ یَّجۡرِیۡ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ یُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ بِلِقَآءِ رَبِّکُمۡ تُوۡقِنُوۡنَ ﴿۲﴾﴾
یہاں سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی بڑی بڑی نشانیاں(آسمان، سورج اورچاند) بیان کی جارہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اتنے بڑے آسمان کو بغیر ستونوں کے کھڑا کیا ہواہے جو کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت پر دلیل ہے۔ سورج اور چاند اپنے مدار میں گردش کررہے ہیں ان میں سے ہر ایک مقرر کردہ رفتار سے چل رہا ہے نہ اس میں کمی کرتا ہے نہ بیشی۔ ان ساری چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے ہماری خدمت پر لگارکھاہے۔
فرشتوں کی ذمہ داری:
﴿ لَہٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ مِنۡ خَلۡفِہٖ یَحۡفَظُوۡنَہٗ مِنۡ اَمۡرِ اللہِ ﴿۱۱﴾﴾
اس آیت میں فرشتوں کی ذمہ داری کو بیان کیاجارہاہے کہ یہ انسانوں کی بحکم الہی حادثات سے حفاظت فرماتے ہیں۔ فرشتوں کی ڈیوٹی کا یہ مطلب نہیں کہ انسان جو چاہے کرتا پھرے کہ یہ فرشتےحفاظت کر لیں گے،اللہ تعالیٰ بذات خود کسی بھی قوم کی اچھی حالت کو بری حالت سے تبدیل نہیں کرتے ہاں جب وہ قوم خود نافرمانی پر اترتی آتی ہےتو پھر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوتاہے اور وہ محافظ فرشتے بھی اس وقت ہٹ جاتے ہیں۔
حق اور باطل کی مثال:
﴿اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَالَتۡ اَوۡدِیَۃٌۢ بِقَدَرِہَا فَاحۡتَمَلَ السَّیۡلُ زَبَدًا رَّابِیًا ؕ وَ مِمَّا یُوۡقِدُوۡنَ عَلَیۡہِ فِی النَّارِ ابۡتِغَآءَ حِلۡیَۃٍ اَوۡ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثۡلُہٗ ؕ کَذٰلِکَ یَضۡرِبُ اللہُ الۡحَقَّ وَ الۡبَاطِلَ ﴿ؕ۱۷﴾﴾
اللہ تعالی نے اس سورة میں حق و باطل کی مثال دی ہے کہ باطل ایک مرتبہ ایسا ہوتا ہے جیسے سیلاب آتا ہے پانی چڑھ جاتا ہے اور اس کے اندر میل کچیل اور جھاگ بھی ہوتی ہے اور ایسا نظر آتا ہے کہ نہ جانے کیا ہوگا۔ پھر جب جھاگ ختم ہوجاتی ہے اور خالص چیزیں جو لوگوں کےلیے فائدہ مند ہوتی ہیں نیچے رہ جاتی ہیں تو ایسے ہی باطل کا ریلہ آتا ہے تو بسا اوقات حق بظاہر دب جاتا ہے جب باطل ختم ہوتا ہے تو حق پھر ابھر کر اوپر آجاتا ہے۔ اسی طرح سونا چاندی پگھلاتے ہیں اس میں اصلی چیز نیچے رہتی ہے اور میل کچیل اوپر آجاتا ہے اس کو پھینک دیتے ہیں اسی طرح باطل آتا ہے ختم ہوجاتا ہے اور حق باقی رہتا ہے۔ وقتی مشکل سے بندے کو متاثر نہیں ہونا چاہیے حق حق ہے اور وہ اپنی طاقت دکھاتا ہے، حق اپنا راستہ بھی خود بناتا ہے۔
متقین کے اوصاف:
﴿الَّذِیۡنَ یُوۡفُوۡنَ بِعَہۡدِ اللہِ وَ لَا یَنۡقُضُوۡنَ الۡمِیۡثَاقَ ﴿ۙ۲۰﴾﴾
یہاں اللہ تعالیٰ نے متقین کے آٹھ اوصاف بیان فرمائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرتے ہیں اور معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ جن رشتوں کو اللہ تعالیٰ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں جوڑے رکھتے ہیں۔ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں۔ حساب کے برے انجام سے خوف کھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضاکی خاطر صبر سے کام لیتے ہیں۔ نماز قائم کرتے ہیں۔ جو ہم نے انہیں رزق عطاکیاہے اس میں سے خفیہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں۔ بدسلوکی کا دفاع حسن سلوک سے کرتے ہیں۔
کفار کے مطالبات:
﴿وَ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ اٰیَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ قُلۡ اِنَّ اللہَ یُضِلُّ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ اَنَابَ ﴿ۖ۲۷﴾﴾
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سارے معجزات دیے گئے تھے لیکن کفار فرمائشی معجزات کا مطالبہ کرتے تھے۔ جب ان کا مطالبہ پورا نہ ہوتا تو وہ کہتے کہ ان (محمدصلی اللہ علیہ وسلم )پر ان کے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں اتاری گئی؟ یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ ان کے مطالبات ان کی گمراہی کی دلیل ہیں۔ فرمایا کہ اگر ان کے فرمائشی معجزات پورے ہوجاتے تو یہ پھر بھی ایمان نہ لاتے۔
تسلی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم :
﴿وَ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَسۡتَ مُرۡسَلًاقُلۡ کَفٰی بِاللہِ شَہِیۡدًۢا بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَکُمۡ وَمَنْ عِنْدَہٗ عِلْمُ الْکِتَابِۙ﴿٪۴۳﴾﴾
سورت کے آخر میں ہے کفار اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوکہتے تھے کہ آپ رسول نہیں ہیں تو اللہ تعالیٰ تسلی دے رہے ہیں کہ آپ ان کی پرواہ نہ کریں اللہ تعالیٰ بذات خود آپ کی رسالت کے گواہ ہیں اور اہلِ علم بھی گواہ ہیں۔
سورۃ ابراہیم
اس سورۃ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ بیان کیا گیا ہے اس لیے اس سورۃ کا نام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام پر رکھا گیاہے۔
نزولِ قرآن کریم کی حکمت:
﴿الٓرٰ ۟ کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَیۡکَ لِتُخۡرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ بِاِذۡنِ رَبِّہِمۡ اِلٰی صِرَاطِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَمِیۡدِ ۙ﴿۱﴾ ﴾
سورة کی ابتداء میں قرآن کریم کو نازل کرنے کی حکمت کو بیان کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم سے اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لے آئیں یعنی اس ذات کے راستے کی طرف جس کا اقتدار سب پر غالب ہے۔
قرآن کریم عربی میں کیوں نازل ہوا؟
﴿وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوۡمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَہُمۡ ؕ﴾
کفار مکہ کو اعتراض تھا کہ قرآن کریم عربی زبان میں کیوں نازل کیا گیاہے کسی اور زبان میں ہوتا تو اس کا معجزہ ہونا بھی ظاہرہوجاتا۔ اللہ رب العزت نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے جب بھی کسی قوم میں نبی بھیجا تواس قوم کی زبان دے کر بھیجاتاکہ وہ انہیں ان کی زبان میں بات سمجھا سکے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم قریش کی زبان عربی تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو عربی زبان میں نازل فرمایا تاکہ ان کےلیے سمجھناآسان ہوجائے۔
شکر کرنے سے نعمتوں میں اضافہ:
﴿وَ اِذۡ تَاَذَّنَ رَبُّکُمۡ لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ وَ لَئِنۡ کَفَرۡتُمۡ اِنَّ عَذَابِیۡ لَشَدِیۡدٌ ﴿۷﴾﴾
اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی نعمتوں پر شکر اداکرنے سے نعمتوں میں اضافہ ہوتاہے ۔یا تو مقدار میں اضافہ ہوتاہے یا نعمتوں کے باقی رہنے میں ہوتاہے۔ شکر کرنے کے بجائے ناشکری کی جائے تو یا دنیامیں نعمتیں چھین لی جائیں گی یا آخرت میں عذاب ہوگا۔
کلمہ طیبہ اور کلمہ خبیثہ کی مثال:
﴿اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ ضَرَبَ اللہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصۡلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ ﴿ۙ۲۴﴾﴾
کلمہ طیبہ سے مراد کلمہ ایمان اور توحید ہے۔ کلمہ خبیثہ سے مراد کفر اور شرک کا کلمہ ہے۔ فرمایا: کلمہ طیبہ اس پاک درخت کی طرح ہے جس کی جڑیں مضبوط ہوں اور اس کی شاخیں آسمان کی طرف بلند ہوں اور وہ پھل بھی خوب لاتا ہے۔ اس سے مراد کھجور کا درخت ہے۔ اور کلمہ خبیثہ اس پودےکی طرح ہے جو زمین کے اوپر سے ہی اکھاڑ لیا جاتا ہے، اس کو زمین میں کوئی استحکام اور جماؤ نہیں ہوتا یعنی اسے اکھاڑیں تو فوراً اکھڑ آتا ہے۔ اس سے مراد حنظل یعنی اندرائن کی بیل ہے جس کا پھل سخت کڑوا ہوتا ہے۔
اس کی مزید تفصیل میری کتاب" دروس القرآن " میں اسی آیت کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعائیں:
﴿وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہِیۡمُ رَبِّ اجۡعَلۡ ہٰذَا الۡبَلَدَ اٰمِنًا وَّ اجۡنُبۡنِیۡ وَ بَنِیَّ اَنۡ نَّعۡبُدَ الۡاَصۡنَامَ ﴿ؕ۳۵﴾﴾
آخر میں اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ذکر کیا جب آپ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام اور اپنی بیوی حضرت ہاجرہ علیہا السلام کو کعبہ میں چھوڑ کر گئے تو دعافرمائی:
اے اللہ! شہر مکہ کو امن کا گہوارہ بنا، مجھے اور میری اولاد کو ہمیشہ بت پرستی سے بچانا، انہیں پھلوں کا رزق عطافرمانا۔ اللہ نے دعا قبول فرمائی اور آج کعبہ پوری دنیا میں امن کی جگہ ہے۔ جب موسم نہیں ہوتا پھر بھی سارے پھل وہاں پر الحمدللہ میسر ہوتے ہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ اپنی اولاد کے لیے رزق، امن اور برکت کی دعا مانگنا انبیاء کرام علیہم السلام کا شیوہ ہے۔ اور ہمیں بھی اس کا اہتمام کرنا چاہیے کہ اپنی اولاد کے لیے اور تعلق والوں کے لیے دعاؤں کا اہتمام کریں۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ