پارہ نمبر: 14

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
پارہ نمبر: 14
سورۃ الحجر
کفار کی تمنا:
﴿ رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ کَانُوۡا مُسۡلِمِیۡنَ ﴿۲﴾﴾
موت اور حشر کے بعد جب مسلمان کو جنت میں مقامات ملیں گے اور کافر کو جہنم میں عذاب ملے گا اور ہر آئے دن اس کے کسی خاص کفر کی وجہ سے عذاب میں ترقی ہو گی تو پھر ہر موقع پر کافر یہ تمنا کریں گے کہ اے کاش! ہم بھی مسلمان ہوتے۔
حفاظتِ قرآن:
﴿اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ﴿۹﴾﴾
اللہ رب العزت نے فرمایا کہ قرآن مجید ہم نے ہی نازل کیا ہے اور اس قرآن کریم کی حفاظت بھی ہم ہی کریں گے۔ قرآن کریم کے علاوہ دیگر کتب کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے نہیں لی بلکہ علماء توراۃ وانجیل کو دی تو وہ کتب محفوظ نہ رہ سکیں۔ قرآن کے الفاظ ومعانی دونوں کے اللہ تعالیٰ خود محافظ ہیں۔ اس لیے قرآن کے الفاظ ومعانی قیامت تک محفوظ رہیں گے۔
حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق:
﴿وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ ﴿ۚ۲۶﴾ ﴾
یہاں تخلیقِ آدم علیہ السلام کا قصہ ذکر کیا جارہا ہے کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو اپنے دست قدرت سے پیدا فرمایا پھر ان میں روح کو ڈالا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے شیطان کے غرور اور گمراہی کو بیان فرمانے کے بعد شیطان اور ان کے پیروکاروں کے انجام بد کو بیان فرمایا۔
اہل جنت کا ذکر:
﴿اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوۡنٍ ﴿ؕ۴۵﴾ ﴾
گذشتہ آیات میں اہل جہنم کاذکر تھا اب یہاں سے اہل جنت اور ان کے لیے انعامات کا ذکرفرمایا کہ وہ جنت میں باغات اور چشموں میں رہیں گے۔ اہل جنت کے سینوں میں باہم جو کچھ رنجش ہوگی وہ نکال دی جائے گی اور وہ بھائی بھائی بن کر رہیں گے۔ پھر آگے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ان مہمان فرشتوں کاذکر فرمایا جو انہیں بیٹے کی خوشخبری دینے اور قوم لوط علیہ السلام کو برباد کرنے کےلیے انسانی شکل میں تشریف لائے تھے۔
اصحاب حجر:
﴿وَ لَقَدۡ کَذَّبَ اَصۡحٰبُ الۡحِجۡرِ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿ۙ۸۰﴾﴾
وادی حجر میں قوم ثمود آباد تھی۔ ان کی طرف حضرت صالح علیہ السلام کو پیغمبر بنا کر بھیجا گیا تھا۔ انہوں نے اپنی قوم کو دعوت دی لیکن قوم نے آپ کو جھٹلایا جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو ایک ہیبت ناک آواز کے ذریعے ہلاک کر دیا۔
فاتحہ کو" قرآن عظیم "کہنے کی وجہ:
﴿وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنٰکَ سَبۡعًا مِّنَ الۡمَثَانِیۡ وَ الۡقُرۡاٰنَ الۡعَظِیۡمَ ﴿۸۷﴾﴾
اے پیغمبر! ہم نے آپ کو ایسی سورۃ عطا کی جو بار بار پڑھی جاتی ہے۔ "قرآن عظیم" سے مراد سورۃ الفاتحہ ہے۔ گویا ایک طرح سے فاتحہ بھی پورا قرآن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو اہم اور بنیادی مضامین پورے قرآن میں بیان فرمائے ہیں ان کا خلاصہ اور نچوڑ سورۃ الفاتحہ میں ذکر کردیا ہے۔ توحید، رسالت، قیامت، احکامات، ماننےوالے اور نہ ماننے والے۔
علی الاعلان تبلیغ کا حکم:
﴿فَاصۡدَعۡ بِمَا تُؤۡمَرُ وَ اَعۡرِضۡ عَنِ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۹۴﴾ ﴾
اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام پوشیدہ طور پر عبادت کیا کرتے تھے۔ اسی طرح تبلیغ کا سلسلہ بھی پوشیدہ ہوا کرتاتھا۔ اس آیت میں اعلانیہ طور پر عبادات اور تبلیغ کرنے کا حکم دیاگیاہے۔
پوری زندگی عبادت کرنےکا حکم:
﴿وَ اعۡبُدۡ رَبَّکَ حَتّٰی یَاۡتِیَکَ الۡیَقِیۡنُ ﴿٪۹۹﴾ ﴾
یہاں" الۡیَقِیۡنُ " سے مراد موت ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اے پیغمبر! آپ اللہ تعالیٰ کی پوری زندگی عبادت کریں یہاں تک اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے پاس بلالیں۔ اس عبادت سے مراد تکلیفی عبادت ہے جس کے کرنے پر اجر وثواب ملتاہے۔ ایک عبادت قبر والی ہے جس کا ذکر حدیث پاک میں ہے۔ یہ تلذذی عبادت ہےاس پر اجروثواب نہیں۔ توقرآن کریم کی یہ آیت؛ حدیث پاک اور قبر والی عبادت کے خلاف نہیں ہے۔
سورۃالنحل
"نحل" شہد کی مکھی کو کہتے ہیں۔ اس سورة میں شہد کی مکھی کا ذکر ہے اس لیے اس سورة کا نام ہی سورة النحل رکھ دیا گیا ہے۔
اس سورت میں بنیادی طور پر دوچیزیں بیان کی گئی ہیں: انسان کے فائدے کےلیے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کاذکرکرکے مشرکین کو توحید کی دعوت دی گئی ہے۔ اور شریعت ِاسلامیہ کے چند ایک احکامات بیان کیےگئے ہیں۔
انسان کی تخلیق اور ناشکری:
﴿خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ فَاِذَا ہُوَ خَصِیۡمٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۴﴾ ﴾
انسان کی اصل کو بیان کیا کہ انسان کو ایک حقیر وذلیل اور بے قدر نطفے سے پیدا کیا گیا۔ لیکن جب اسے قوتِ گویائی اور دیگر صلاحتیں دے دی گئیں تو جس ذات نے اسے ایک ناپاک اور بے وقعت قطرے سے پیدا کیا؛ اسی کی ذات اور مخصوص صفات میں شریک ٹھہرا کر جھگڑا کرنے لگا۔
انعامات ِخداوندی:
﴿وَ الۡاَنۡعَامَ خَلَقَہَا لَکُمۡ فِیۡہَا دِفۡءٌ وَّ مَنَافِعُ وَ مِنۡہَا تَاۡکُلُوۡنَ ﴿۪۵﴾﴾
یہاں سے اللہ تعالیٰ ان نعمتوں کوبیان فرمارہے ہیں جو انسانوں کے فائدے کےلیے پیدا کی گئی ہیں۔ جیسے جانور؛ ان کی اون سے کپڑے بنائے جاتے ہیں، کھال سے پوستین وغیرہ بناتے ہیں جو انسان کو سردی سے محفوظ رکھتے ہیں۔ مزید یہ کہ جانور انسان کے لیے بطور غذا بھی کام آتے ہیں، ذبح کرکے گوشت کھایاجاتاہے، دودھ پیاجاتاہے۔ ان پر بوجھ لاداجاتاہے جسے وہ ایسے مقام تک لے جاتے ہیں جہاں تک انسان بغیر سخت مشقت کے نہیں لے جاسکتا۔
﴿وَّ الۡخَیۡلَ وَ الۡبِغَالَ وَ الۡحَمِیۡرَ لِتَرۡکَبُوۡہَا وَ زِیۡنَۃً وَ یَخۡلُقُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿۸﴾﴾
اسی طرح انسان ہی کے فائدے کےلیے گھوڑے، خچر اور گدھے پیدا فرمائے تاکہ یہ انسان کی سواری کے کام آئیں اور انسان کے لیے زینت کاسامان بھی بن جائیں۔
﴿وَ یَخۡلُقُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴾
یعنی نزول قرآن کے بعد بھی مزید اللہ تعالیٰ ایسی چیزیں پیدافرمائیں گے جن کا انسان کو علم بھی نہیں۔ موجودہ دور کی نوایجاد گاڑیاں جیسے بسیں، ریل، اور جہاز وغیرہ۔ ترقی کے ساتھ ساتھ جتنی بھی جدید اور نئی گاڑیاں قیامت تک دریافت/ایجاد ہوتی جائیں گی وہ سب اس آیت کے مفہوم میں داخل رہیں گی۔
ان انعامات کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان ان نعمتوں سے فائدہ حاصل کریں اورپھر ان پر اللہ تعالی کا شکر ادا کریں۔
سمندر کے فوائد:
﴿وَ ہُوَ الَّذِیۡ سَخَّرَ الۡبَحۡرَ لِتَاۡکُلُوۡا مِنۡہُ لَحۡمًا طَرِیًّا وَّ تَسۡتَخۡرِجُوۡا مِنۡہُ حِلۡیَۃً تَلۡبَسُوۡنَہَا﴾
وہی ذات ہے جس نے سمندر تمہارے لیے مسخر کر دیے ہیں یعنی تمہارے کام پر لگا دیے ہیں تاکہ تم اس میں سے تازہ گوشت کھاؤاس سے مراد مچھلی ہے۔ اور اس میں سے زیورات نکالو جنہیں تم پہنتے ہو۔ پھر کشتیوں اور بحری جہازوں کا ذکر کیا جن سے تجارت ہوتی ہے اور دیگر فوائد ملتے ہیں۔ اسی طرح زمین، اس میں راستے، دریا، آسمان کے ستارےاور دیگر نعمتوں کا ذکر فرما کر ان نعمتوں پر شکر کی ترغیب دی۔
متکبرین سے سوال:
﴿وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ مَّا ذَاۤ اَنۡزَلَ رَبُّکُمۡ ۙ قَالُوۡۤا اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿ۙ۲۴﴾﴾
متکبرین سے جب سوال کیا جائے کہ تمہارے پروردگار نے کیا بات نازل کی ہے؟ تو وہ کہتے ہیں کہ یہ پہلے لوگوں کی من گھڑت کہانیاں اور افسانے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ ان باتوں کا نتیجہ یہ ہےکہ قیامت کے دن یہ لوگ خود اپنے گناہوں کے پورے پورے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور ان لوگوں کے بوجھ بھی جن کو یہ بغیر علم کے گمراہ کررہے ہیں، اور یہ بوجھ بہت ہی برا ہے جس کو یہ اٹھارہے ہیں۔
متقین سے سوال:
﴿وَ قِیۡلَ لِلَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا مَاذَاۤ اَنۡزَلَ رَبُّکُمۡ قَالُوۡا خَیۡرًا لِلَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوۡا فِیۡ ہٰذِہِ الدُّنۡیَا حَسَنَۃٌ وَ لَدَارُ الۡاٰخِرَۃِ خَیۡرٌ ؕ وَ لَنِعۡمَ دَارُ الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿ۙ۳۰﴾﴾
گزشتہ آیات میں یہی سوال متکبرین سے کیاگیاتھا۔ اب یہاں سے متقین سے پوچھا جارہاہےکہ تمہارے پروردگار نے کیابات نازل فرمائی ہے؟ تو وہ اپنے تقوی کی روشنی میں یوں جواب دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خیر کی بات اتاری ہے۔ آگے ان کے نتیجے کو بیان کیا کہ ان کےلیے دنیامیں بھی بہتری ہے اور آخرت کا گھر تو ہے ہی سراپابہتری جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
منکرینِ رسالت کے شبہ کا جواب:
﴿وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوۡحِیۡۤ اِلَیۡہِمۡ فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۴۳﴾﴾
منکرین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار اس وجہ سے کررہے تھے کہ آپ بشر اور انسان ہیں۔ ان کے خیال کے مطابق کسی انسان وبشر کو رسول نہیں ہوناچاہیے۔ انہیں بات سمجھائی کہ ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنےبھی انبیاء بھیجے ہیں وہ سب بشر اور انسان ہی تھے۔ اے منکرو! اگر تمہارے پاس علم نہیں ہے تو اہلِ علم سے پوچھ لو۔ اس آیت سے تقلیدثابت ہورہی ہے کہ اگرکسی آدمی کے پاس دلیل نہ ہوتو اہلِ علم سے پوچھ لے۔ اسی کا نام ”تقلید“ ہے۔
بچی کی پیدائش پر مشرکین مکہ کی حالت:
﴿وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمۡ بِالۡاُنۡثٰی ظَلَّ وَجۡہُہٗ مُسۡوَدًّا وَّ ہُوَ کَظِیۡمٌ ﴿ۚ۵۸﴾﴾
گزشتہ آیت میں مشرکین کی بے انصافی بیان کی گئی کہ اللہ تعالیٰ کےلیے اولاد بھی مانتے ہیں لیکن وہ جنس(بیٹیاں) جسے خود قبول کرنے کےلیے تیار نہیں۔ اب یہاں سے ان کی بری عادت کو بیان کیاجارہاہےکہ اگر ان کے ہاں لڑکا پیداہوتوخوش ہوتے ہیں۔ اور جب ان میں سے کسی کے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوتی تو ان کا چہرہ سیاہ ہوجاتااور اسے اتنابرا سمجھتے کہ لوگوں سے منہ چھپاتے پھرتے۔ اور سوچتے رہتے کہ ذلت برداشت کرکے اسے اپنے پاس رکھ لیں یا پھر زمین میں دبادیں۔
﴿ اَلَا سَآءَ مَا یَحۡکُمُوۡنَ ﴾
یہ کتنا برا فیصلہ ہے جو وہ کررہے ہیں۔
انعات خداوندی:
﴿وَ اِنَّ لَکُمۡ فِی الۡاَنۡعَامِ لَعِبۡرَۃً ؕ نُسۡقِیۡکُمۡ مِّمَّا فِیۡ بُطُوۡنِہٖ مِنۡۢ بَیۡنِ فَرۡثٍ وَّ دَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشّٰرِبِیۡنَ ﴿۶۶﴾﴾
یہاں سے کچھ آیات تک اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی نعمتوں کو بیان کیاجارہا ہے۔ ان میں سے دودھ جو گوبر اور خون کے درمیان سے آتاہے اور بالکل صاف شفاف ہوتا ہے نہ تواس کے رنگ میں فرق آتاہے اور نہ ہی اس کے ذائقہ میں، پینے والوں کے لیے خوشگوار ہے۔ پھلوں میں سے بہترین پھل کھجوراور انگورکاذکر کیا جن کو کھایابھی جاتاہے اور ان سے مشروب بھی بنایاجاتاہے۔ اور یہ پاکیزہ رزق ہے۔
﴿وَ اَوۡحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحۡلِ اَنِ اتَّخِذِیۡ مِنَ الۡجِبَالِ بُیُوۡتًا وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعۡرِشُوۡنَ ﴿ۙ۶۸﴾﴾
تیسری نعمت شہد کاذکر کیا جس میں بہت زیادہ فائدے ہیں ان میں سے ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں لوگوں کےلیے شفا رکھی ہے۔ لیکن اس کے استعمال سے پہلے کسی ماہر سے یہ معلوم کرلینا چاہیے کہ اس کو کب استعمال کرنا ہے اور کس چیز کے ساتھ استعمال کرناہے؛ پھر اس کا پورا فائدہ ہوتا ہے۔ اور خاص طور پر شہد کی مکھی کےچھتے بنانے کی ترتیب کو بیان کیا جس میں وہ عجیب وغریب طریقے سے صنعت کاری کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا کہ اپنے چھتے کو زمین کی گندگی سے بچاکر پاک صاف اور بلند جگہ یعنی پہاڑوں یا درختوں پر بنائے۔ اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں میں ان لوگوں کےلیے نشانیاں ہیں جو ان میں غور وفکر کرتے ہیں۔
علم غیب اللہ تعالیٰ کی ذات کا خاصہ ہے:
﴿وَ لِلہِ غَیۡبُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَاۤ اَمۡرُ السَّاعَۃِ اِلَّا کَلَمۡحِ الۡبَصَرِ اَوۡ ہُوَ اَقۡرَبُ اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۷۷﴾ ﴾
آسمان وزمین کی تمام پوشیدہ باتیں صرف اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کےعلم میں نہیں ہیں۔ ان غیوبات میں سے ایک بڑی چیز قیامت کا معاملہ ہے جسے اللہ تعالیٰ آنکھ جھپکنے یا اس سے بھی پہلے پہلے ظاہر فرمادیں گے۔ اس کا علم بھی صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔
عرضِ اعمال:
﴿وَ یَوۡمَ نَبۡعَثُ فِیۡ کُلِّ اُمَّۃٍ شَہِیۡدًا عَلَیۡہِمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ وَ جِئۡنَا بِکَ شَہِیۡدًا عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ ﴿٪۸۹﴾ ﴾
قیامت کے دن ہرامت میں سے ان پر انہی میں سے ایک گواہ کولائیں گے۔ مراد اس سے ہر امت کے نبی ہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی لائیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سابقہ نافرمان امتوں کے خلاف اور سابقہ انبیاءعلیہم السلام کے حق میں گواہی دیں گے۔ اور ایک قول کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے اہل ایمان کے ایمان کی اور اہل کفر کے کفر کی گواہی دیں گے۔ حدیث پاک میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے امت کے اعمال پیش کیےجاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اچھے اعمال پر اللہ تعالیٰ کا شکر اداکرتے ہیں اور برے اعمال پر اللہ تعالیٰ سے ان کےلیےاستغفارکرتے ہیں۔
جامع ترین آیت:
﴿اِنَّ اللہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ وَ اِیۡتَآیِٔ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ یَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ وَ الۡبَغۡیِ یَعِظُکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۹۰﴾ ﴾
یہ قرآن کریم کی جامع ترین آیت ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے تین چیزوں کے کرنےکا حکم دیاہے اور تین چیزوں سے منع فرمایاہے۔
اللہ تعالیٰ انصاف کرنے،بھلائی کرنے اورقریبی رشتے داروں کوان کے حقوق دینے کا حکم دے رہیں۔ اور بے حیائی، بدی اور ظلم وزیادتی کرنے سے منع فرما رہے ہیں۔ گویا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مختصراً پورے دین اسلام کوسمیٹ کر رکھ دیاہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں مذکورہ تینوں اوامر پر عمل کرنے اور تینوں منہیات سے مکمل طور پر بچنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
نسخ پر شبہ اور جوابِ شبہ:
﴿وَ اِذَا بَدَّلۡنَاۤ اٰیَۃً مَّکَانَ اٰیَۃٍ وَّ اللہُ اَعۡلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوۡۤا اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُفۡتَرٍ بَلۡ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۰۱﴾﴾
اللہ تعالیٰ حکیم ذات ہیں اور کبھی کبھی اپنے احکامات میں تبدیلی فرماتے ہیں یعنی ایک حکم تبدیل کرکےاس کی جگہ دوسراحکم نازل فرمادیتے ہیں۔ مشرکین آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے کہ احکامات کو تبدیل کیوں کیا جارہا ہے؟ اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں بلکہ آپ اپنی طرف سے گھڑ کرلاتے ہیں۔ انہیں جواب دیاکہ یہ قرآن گھڑاہوا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف حق اور سچ ہے جسے حضرت جبرائیل امین علیہ السلام کے ذریعے نازل کیاگیاہے۔
اسلام کے سب سے پہلے شہداء:
﴿مَنۡ کَفَرَ بِاللہِ مِنۡۢ بَعۡدِ اِیۡمَانِہٖۤ اِلَّا مَنۡ اُکۡرِہَ وَ قَلۡبُہٗ مُطۡمَئِنٌّۢ بِالۡاِیۡمَانِ ﴿۱۰۶﴾﴾
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت وہ مقدس جماعت ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے جنت کا وعدہ کیا ہےاور ان پر آزمائشیں بھی بہت آئی ہیں۔ یہ آیت حضرت عمار، حضرت یاسر اور حضرت سمیہ وغیرہ رضی اللہ عنہم کے متعلق ہے۔ کفار نے انہیں گرفتارکرکے کہا یا تو کفر اختیار کرویا پھر قتل کر دیے جاؤ گے۔ حضرت یاسررضی اللہ عنہ نے کلمہ کفر نہ کہا یعنی رخصت چھوڑ کر عزیمت پر عمل کرکے جامِ شہادت نوش فرمالیا۔ حضرت سمیہ رضی اللہ عنہا نے بھی عزیمت پر عمل کیا تو دواونٹوں کے ذریعہ ان کے جسم کے دوحصے کر دیے گئے۔ یہ دونوں بزرگ اسلام کے سب سے پہلے شہید ہیں۔ جبکہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے رخصت پر عمل کیا۔ دل ایمان پر مطمئن تھا صرف زبان سے کلمہ کفر کہہ دیا تھا۔ اور خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں جاکر اپنا واقعہ سنایا تو اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ دل ایمان پر مطمئن ہو تو زبان سے مجبوراً کلمہ کفر کہہ لینا کفر نہیں۔
امام الموحدین پر دنیاوآخرت کی نعمتیں:
﴿اِنَّ اِبۡرٰہِیۡمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلہِ حَنِیۡفًا وَ لَمۡ یَکُ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿۱۲۰﴾ۙ﴾
حضرت ابراہیم علیہ السلام پیشوا تھے۔ آپ علیہ السلام نے ہر طرف سے یکسو ہو کر اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری اختیار کرلی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں جو نعمتیں دی رکھی تھیں ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے تھے۔ دنیا میں نعمتیں یہ کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مقتداء اور پیشوا بنادیا اور دنیاوی نعمتیں بھی عطا فرمائیں۔ امت کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تنہا ایک فرد تھے لیکن پوری امت اور قوم کے کمالات و فضائل کے جامع تھے۔ اللہ تعالی نے آپ علیہ السلام کی نسل سے انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ جاری فرمایا۔ آپ علیہ السلام کے صاحبزادے حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد سے تقریباً چارہزار انبیاء علیہم السلام مبعوث ہوئے۔ دوسرے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے آپ علیہ السلام کی دعا کا ثمرہ امام الانبیاء، خاتم الانبیاء،سیدالاولین والآخرین حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔ آخرت کی نعمت یہ کہ آپ علیہ السلام صالحین میں سے ہوں گے۔ آگے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو ملت ابراہیمی کی اتباع کا حکم دیا۔
دعوتِ دین کے طریقے:
﴿اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ﴾
اس آیت میں اللہ پاک نے دعوت کی ترتیب بتائی ہے کہ جب دعوت دینی ہو تو تین طریقے استعمال کریں:
1- دلیل سے بات کریں۔
2- فضائل اور تر غیب سے بات کریں۔
3- اگر شبہات پیش کیے جائیں توان کو اچھے انداز سے رد بھی کریں۔
ان تین طریقوں کو میں اپنی زبان میں سمجھانے کے لیے دو جملے کہتا ہوں کہ ہمارے ذمے دو کام ہیں:

امت کو ایمان واعمال پر لانا

امت کے ایمان واعمال کو بچانا۔
امت ایمان واعمال پر آتی ہے فضائل سے اور امت کاایمان واعمال بچتا ہے دلائل سے، شبہات کا رد کرنے سے؛ تبلیغ والوں کے ذمے لانا ہے اور ہمارے ذمے بچانا ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ