پارہ نمبر: 15

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
پارہ نمبر: 15
سورۃ الاسراء
" اسراء" کا معنی رات کو لے جانا ہے۔ چونکہ اس سورت کے شروع میں اسراء کا ذکر ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سفر رات کے وقت ہوا تھا؛ اسی مناسبت سے اس سورت کا نام "الاسراء "رکھا گیاہے۔
واقعہ معراج کاذکر :
﴿سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ﴿۱﴾﴾
یہاں واقعہ معراج کو بیان کیا ہے جو نبوت کے گیارھویں سال پیش آیا۔ معراج کا سفر دو حصوں پر مشتمل ہے ؛ ایک مکہ مکرمہ سے بیت المقدس تک کاہے، دوسرا بیت المقدس سے عرش معلیٰ تک کاہے۔ مکہ مکرمہ سے بیت المقدس کے اس سفر کو ”اسراء“ کہتے ہیں جس کاذکر یہاں پرہے۔ اور بیت المقدس سے عرش معلیٰ تک کے سفر کو ”معراج“ کہتے ہیں جس کا ذکر سورۃ النجم کی آیات اور احادیث متواترہ میں ہے۔ عموماً پورے واقعہ کو لفظ معراج سے تعبیر کردیتے ہیں۔
معراج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خصوصی اور امتیازی معجزہ ہےجو روحانی نہیں جسمانی تھا۔ حالت نوم میں نہیں بلکہ حالت بیداری میں تھا۔ اسی سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی زیارت بھی ہوئی اور آپ کو اللہ تعالیٰ سے براہ راست ہم کلامی کا شرف بھی حاصل ہوا۔ اسی سفر میں آپ کی امت پر پانچ نمازیں فرض ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ نے معراج سے واپسی پر تین چیزیں بطورِ خاص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیے میں عطا فرمائیں:

سورۃ البقرۃ کی آخری آیتیں۔

جو شخص شرک نہ کرے اگرچہ کبیرہ گناہ بھی کرے تو ایک وقت آئے گا کہ اللہ اس کو معاف فرما دیں گے۔

پچاس نمازیں جوکہ پانچ رہ گئیں تھی۔
بنی اسرائیل کا ذکر:
﴿وَ قَضَیۡنَاۤ اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ فِی الۡکِتٰبِ لَتُفۡسِدُنَّ فِی الۡاَرۡضِ مَرَّتَیۡنِ وَ لَتَعۡلُنَّ عُلُوًّا کَبِیۡرًا ﴿۴﴾﴾
یہاں کچھ آیات میں بنی اسرائیل کا تذکرہ ہورہا ہے جنہیں آگاہ کردیا گیا تھا کہ تم بڑی سرکشی کرتے ہوئے دو مرتبہ زمین میں فساد مچاؤ گےتو دونوں مرتبہ تمہاری بھی تباہی ہوگی۔ پہلی مرتبہ جب انہوں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کی مخالفت کی، انبیاء علیہم السلام کو ناحق قتل کیا، تورات میں تحریف کی، شرک کیا وغیرہ۔
بخت نصر کا حملہ:
﴿فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ اُوۡلٰىہُمَا بَعَثۡنَا عَلَیۡکُمۡ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیۡ بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ فَجَاسُوۡا خِلٰلَ الدِّیَارِ ؕ وَ کَانَ وَعۡدًا مَّفۡعُوۡلًا ﴿۵﴾ ﴾
اللہ رب العزت نے ان پر بخت نصر کو مسلط کیا۔ اس نے فلسطین میں بنی اسرائیل پر حملہ کیا بیت المقدس کو تباہ کیا اور یہودیوں کا قتل عام کیا۔ زندہ بچ جانے والوں کی تعداد بھی ہزاروں تھی جن کو قیدی بناکر اپنے ساتھ بابل لے گیا جہاں انہوں نے تقریباً ستر سال تک ذلت اور غلامی کی زندگی گزاری۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ خوشحالی کا موقع دیا۔ کثیر تعداد میں مال واولاد سے نوازا تو ایک عرصہ تک فلسطین میں آباد رہے۔ پھر وہی کرتوت کرنے شروع کردیے، نافرمانیاں شروع ہوگئیں۔
طیطوس رومی کا حملہ:
﴿ فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ لِیَسُوۡٓءٗا وُجُوۡہَکُمۡ وَ لِیَدۡخُلُوا الۡمَسۡجِدَ کَمَا دَخَلُوۡہُ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّ لِیُتَبِّرُوۡا مَا عَلَوۡا تَتۡبِیۡرًا ﴿۷﴾﴾
پھردوبارہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں یہودیو ں کی سرکشی اور بداعمالیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر طیطوس رومی کو مسلط کیا اس نے بھی بخت نصر کی طرح انہیں نیست ونابود کرکے رکھ دیا اوربیت المقدس کو ویران کردیا۔
﴿وَ اِنۡ عُدۡتُّمۡ عُدۡنَا ۘ وَ جَعَلۡنَا جَہَنَّمَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ حَصِیۡرًا ﴿۸﴾﴾
یہاں بھی یہودیوں کو خطاب کیا کہ اگر تم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی تو تمہارے ساتھ وہی سلوک کیاکیاجائے گا جس طرح پہلے ہوچکا ہے۔ لیکن پھر بھی یہود اپنے کرتوت اور سرکشی سے بعض نہ آئے تو پہلے مدینہ سے خیبر نکالا گیا پھر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں خیبر سے بھی انہیں نکال دیا گیا۔
قرآن سیدھے راستہ کی ہدایت کرتا ہے :
﴿اِنَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ یَہۡدِیۡ لِلَّتِیۡ ہِیَ اَقۡوَمُ وَ یُبَشِّرُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ الصّٰلِحٰتِۙ﴿۹﴾﴾
قرآن کریم ایک جامع اور مانع کتاب ہے جو ایسے راستے کی طرف رہنمائی کرتی ہے جو بالکل سیدھا ہے۔ اس راستے کو
"اَقۡوَمُ"
کہا گہا ہے۔
اَقۡوَمُ
ایسے راستے کو کہتے ہیں جو آسان اور محفوظ بھی ہواور منزل مقصود تک پہنچادینے والابھی ہو۔ قرآن کریم کی صفات بھی ایسی ہی ہیں۔
حقوق اللہ اور حقوق العباد:
﴿وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا﴿۲۳﴾﴾
یہاں دوچیزیں بیان کی گئی ہیں: پہلی حقوق اللہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حق یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی خالص اور ریاسے پاک عبادت کرے۔ دوسری والدین کے حقوق ہیں۔ ان کو ”اف“ بھی نہیں کہنا۔ ماں باپ سے بڑے سے بڑا نقصان ہو جائے تو اس زندگی والے اس نقصان پر آپ نے یہ نہیں کہنا: ابا جی! یہ کیا کیا ہے؟ اور ماں باپ کو ڈانٹنا بھی نہیں ہے، ان کے ساتھ نرمی سے بات کرنی ہے، والدین کے لیے ہمیشہ اپنے بازؤوں کو بچھاکر رکھناہے، جی جی کرتے رہنا ہے! اور ساتھ اللہ سے دعائیں بھی مانگنی ہیں کہ اے اللہ! میرے ابا جی اور امی جی پر رحم فرما! میں تو خدمت کرتا ہوں، آپ بھی رحم فرمادیں۔
اوامر اور نواہی کا بیان:
﴿وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَوۡلَادَکُمۡ خَشۡیَۃَ اِمۡلَاقٍ ؕ نَحۡنُ نَرۡزُقُہُمۡ وَ اِیَّاکُمۡ ؕ اِنَّ قَتۡلَہُمۡ کَانَ خِطۡاً کَبِیۡرًا ﴿۳۱﴾﴾
دین کا خلاصہ دو چیزیں ہیں۔ اوامر اور نواہی۔ اوامر پر عمل کرنا ہے اور نواہی (یعنی جن کاموں کے کرنے سے منع کیا گیا ہے) سے اجتناب کرنا ہے۔ اس رکوع میں چند ایک اوامر اور نواہی بیان کیے گئے ہیں۔
مشرکین مکہ کی بری عادت تھی کہ وہ اپنی اولاد کو غربت کے خوف سے قتل کردیا کرتے تھے تو انہیں سمجھایا گیا کہ روزی کے مالک تو ہم ہیں تمہیں بھی ہم ہی روزی دیتے ہیں اور انہیں بھی۔ توپھر تم انہیں قتل کیوں کرتے ہو ؟ اس کے علاوہ زنا، قتل اور یتیم کا مال کھانے کی ممانعت، وعدہ پورا کرنے کا حکم، ماپ تول میں احتیاط، جس چیز کا علم نہ ہو اس میں بحث و تمحیص سے پرہیز اور زمین پر اکڑ کر نہ چلنے کا حکم دیا گیا ہے۔
بعث بعد الموت:
﴿وَ قَالُوۡۤاءَ اِذَا کُنَّا عِظَامًا وَّ رُفَاتًاءَ اِنَّا لَمَبۡعُوۡثُوۡنَ خَلۡقًا جَدِیۡدًا﴿۴۹﴾﴾
منکرین کہتے تھے کہ مرنے کے بعد جب ہماری ہڈیاں ریزہ ریزہ ہو جائیں گی تو کیا اس وقت ہمیں نئے سرے سے پیدا کرکے اٹھایاجائے گا ؟تو یہاں انہیں جواب دیاگیا کہ تم پتھر ، لوہا یا اس سے بھی کوئی بڑی مخلوق بن جاؤجو تمہارے ذہن میں ہو کہ اس کا زندہ ہونا اور بھی مشکل ہے، تب بھی اللہ تعالیٰ تمہیں دوبارہ اٹھائیں گے جس طرح پہلی بار اللہ تعالیٰ تمہیں عدم سے وجود میں لائے تھے۔
مشرک کی حالت:
﴿وَ اِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ فِی الۡبَحۡرِ ضَلَّ مَنۡ تَدۡعُوۡنَ اِلَّاۤ اِیَّاہُ ۚ فَلَمَّا نَجّٰىکُمۡ اِلَی الۡبَرِّ اَعۡرَضۡتُمۡ ؕ وَ کَانَ الۡاِنۡسَانُ کَفُوۡرًا ﴿۶۷﴾﴾
مشرک جب سمندر میں بغرض تجارت سفر کرتاہے تو بسااوقات طوفان یا ہوا میں اس کی کشتی پھنس جاتی ہے وہ اس وقت خالص اللہ تعالیٰ کو پکارتاہے۔ جنہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہراتاتھااس وقت انہیں بھی بھول جاتاہے۔ جب اللہ تعالیٰ نجات دیتے ہیں تو ناشکری کرتے ہوئے پھر وہی کرتوت کرتاہے۔ تو جس اللہ تعالیٰ نے سمندر سے نجات دی ہے وہی خدا خشکی پر بھی زمین میں دھنساسکتاہے۔
نماز پنجگانہ:
﴿اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوۡکِ الشَّمۡسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیۡلِ وَ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ ﴿۷۸﴾﴾
اس آیت میں اللہ رب العزت نے پانچوں نمازوں کا ذکر فرمایا ہے۔ سورج کے زوال سے سورج کے چھپ جانے تک، رات کے چھا جانے تک۔ زوالِ شمس کے بعد ہے ”ظہر“ ا س کے بعد ہے ”عصر“، اس کے بعد ہے ”مغرب“ اور اس کے بعد ہے ”عشاء“۔ کب تک؟ رات کے چھا جانے تک۔ تو سورج کے زوال کے بعد سے رات کے چھا جانے تک چار نمازوں کا بیان ہے۔
قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ
میں قرآن سے مراد صلوٰۃ ہے یعنی نمازِ فجر ۔ اللہ نے یہاں صلوۃ کے بجائے قرآن فرمایا۔ فجر کی نماز میں عام نمازوں کی بنسبت قرآن اتنا زیادہ پڑھا جاتا ہے کہ نماز کا نام ہی قرآن رکھ دیا گیا ہے۔
نماز تہجد کا اہتمام:
﴿وَ مِنَ الَّیۡلِ فَتَہَجَّدۡ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ٭ۖ عَسٰۤی اَنۡ یَّبۡعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحۡمُوۡدًا﴿۷۹﴾﴾
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے میرے پیغمبر! )صلی اللہ علیہ وسلم(آپ تہجد کی نماز پڑھیں۔ تہجد کے نوافل کا افضل وقت یہ ہے کہ آدمی سو جائے اور صبح اٹھ کر آٹھ رکعات پڑھے اور اگر کسی کو اندیشہ ہو کہ صبح نہیں اٹھ سکتا تو وہ عشاء کی نماز کے بعد تہجد کی نیت سے آٹھ رکعات پڑھ کر سو جائے۔
روح کے متعلق سوال:
﴿وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الرُّوۡحِ ؕ قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ﴾
مشرکین نے یہود کے بتائے ہوئے سوالات میں سے ایک سوال روح کے متعلق کیاکہ روح کیاہے ؟روح کی تفصیل بتانے کے بجائے اللہ تعالیٰ نے فرمایااے پیغمبر! ان کو یہ نہیں بتانا کہ روح کیا چیز ہے، انہیں یہ بتانا کہ روح امر ربی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا دماغ اتنا نہیں تھا کہ وہ روح کو سمجھ سکیں۔
خاتم الانبیاء سے مختار کل ہونے کی نفی:
﴿وَ قَالُوۡا لَنۡ نُّؤۡمِنَ لَکَ حَتّٰی تَفۡجُرَ لَنَا مِنَ الۡاَرۡضِ یَنۡۢبُوۡعًا ﴿ۙ۹۰﴾﴾
مشرکین مکہ بہت سارے بے جا قسم کے مطالبات کرتے تھے: مثلاً آپ زمین سے پانی کے چشمے نکالیں اور کھجوروں اور انگوروں کے باغات لائیں۔ آپ آسمان پر چڑھیں اور وہاں سے سنہری ٹکڑے لائیں۔ آپ آسمان سے کتاب لے کر آئیں اور بتائیں کہ یہ کتاب لایا ہوں تب ہم آپ پر ایمان لائیں گے۔ اللہ پاک نے فرمایا: اے پیغمبر! )صلی اللہ علیہ وسلم(آپ ان کو بتائیں کہ میرا اللہ پاک ہے، یہ کام میرے بس میں نہیں،میں انسان بھی ہوں اور رسول بھی ہوں، مجھ سے مطالبہ وہ کرو جو انسان کے بس میں ہو، وہ مطالبات مجھ سے نہ کرو جو انسان کے بس میں نہیں ہیں۔
موسیٰ علیہ السلام کی نو واضح نشانیاں:
﴿وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسٰی تِسۡعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ ﴿۱۰۱﴾ ﴾
یہاں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جواللہ تعالیٰ نے نوواضح نشانیاں عطا فرمائی تھیں ان کاذکر ہے۔ ان نشانیوں سے مراد یا تو معجزات ہیں یا احکام خداوندی۔ معجزات یہ ہیں: عصا، ید بیضاء، زبان میں لکنت تھی دور کردی، سمندر کے دوحصے کردیے گئے، فرعونیوں پر ٹڈی دل کا عذاب، طوفان کا عذاب، کپڑوں میں جوئیں پڑ گئیں، مینڈکوں کاعذاب اور خون کا عذاب۔ اگر اس سے مراد احکام خداوندی ہوں تویہ ہیں:شرک نہ کریں، چوری نہ کریں، زنانہ کریں، ناحق قتل نہ کریں، کسی بے گناہ پر جھوٹاالزام لگاکر اسے قتل یاسزاکےلیے پیش نہ کریں، جادونہ کریں، سودنہ کھائیں، پاکدامن عورت پر بدکاری کا بہتان نہ لگائیں اور میدان جہادسے پیٹھ پھیر کر نہ بھاگیں۔
اللہ تعالیٰ کے سارے نام اچھے ہیں:
﴿قُلِ ادۡعُوا اللہَ اَوِ ادۡعُوا الرَّحۡمٰنَ اَیًّامَّا تَدۡعُوۡا فَلَہُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی﴿۱۱۰﴾﴾
ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم دعا مانگ رہے تھے اور دعا میں یوں فرما رہے تھے: یااللہ! یارحمن! تو مشرکین کہنے لگے کہ ہمیں کہتے ہیں کہ ایک خدا کو پکارو اور خود دو کو پکار رہے ہیں۔ انہیں جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ تو ایک اور یکتا ہیں لیکن اللہ تعالی کانام ایک نہیں بلکہ کئی ہیں جس نام سے بھی پکارو سب اچھے ہیں۔ اس طرح مشرکین کی کم عقلی اور کم علمی کی تردید کی گئی۔
قراءت میں اعتدال:
﴿وَ لَا تَجۡہَرۡ بِصَلَاتِکَ وَ لَا تُخَافِتۡ بِہَا وَ ابۡتَغِ بَیۡنَ ذٰلِکَ سَبِیۡلًا ﴿۱۱۰﴾ ﴾
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں بآواز بلند قرآن کریم کی تلاوت فرماتے تھے تو مشرکین مکہ قرآن کریم سن کر مذاق اڑاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ نہ تو بہت زیادہ زور سے پڑھیں اور نہ بالکل آہستہ پڑھیں بلکہ درمیانی آواز میں پڑھیں۔ اسلام اعتدال کا دین ہے، اس میں ہر ہر معاملے میں اعتدال اور میانہ روی کا خیال رکھا گیا ہے۔
توحید باری تعالیٰ:
﴿وَ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلہِ الَّذِیۡ لَمۡ یَتَّخِذۡ وَلَدًا وَّ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ شَرِیۡکٌ فِی الۡمُلۡکِ وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَ کَبِّرۡہُ تَکۡبِیۡرًا ﴿۱۱۱﴾٪﴾
سورۃ اسراء کے آخر میں یہود ونصاری، مشرکین وغیرہ کی تردید کی گئی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کےلیے بیٹااور شریک ثابت کرتے تھے۔ نہ اللہ تعالیٰ کا کوئی بیٹا ہے اور نہ ہی کوئی شریک ہے۔ اللہ تعالیٰ شریکوں سے پاک اور بلند وبالاہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کمزور بھی نہیں کہ انہیں کسی مددگار کی ضرورت ہو۔
سورۃ الکہف
"کہف" کہتے ہیں غار کو چونکہ اس سورت میں اصحاب کہف یعنی غاروالوں کا ذکر ہے۔ اس لیے اس سورت کا نام بھی سورۃ الکہف رکھ دیا گیا ہے۔
یہود مدینہ نے یا مشرکین مکہ نے یہود مدینہ سے پوچھ کر اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تین سوال کیے تھے:

روح کیا ہے؟

اصحاب کہف کون تھے؟

ذوالقرنین کا قصہ کیا ہے ؟
اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کل بتاؤں گا اور ان شاء اللہ فرمانا بھول گئے۔ کل وہ پھر آگئے پھر فرمایا کہ کل بتاؤں گا۔ کچھ دن تک وحی بند رہی۔ پھر پندرہ دن کے بعدیہ سورۃ نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
﴿ وَ لَا تَقُوۡلَنَّ لِشَایۡءٍ اِنِّیۡ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا ﴿ۙ۲۳﴾ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللہُ ﴾
کہ میرے پیغمبر! آپ " ان شاءاللہ"فرمایا کریں۔ اس سورۃ میں ان کے آخری دوسوالوں کا تفصیل سے جواب دیا گیا ہے اورروح کے بارے سورۃ بنی اسرائیل میں بات ہوچکی ہے۔
اصحاب کہف کا قصہ:
ایک ظالم اور مشرک بادشاہ دقیانوس کے زمانے میں چند نوجوان توحید کے قائل تھے اور یہ بادشاہ انہیں پریشان کرتاتھا۔ اس نے ان کو طلب کیا تو یہ نوجوان اپنا ایما ن بچانے کےلیے ایک غار میں چھپ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے وہاں انہیں گہر ی نیند سُلادیا۔ یہ اس غار میں تین سونوسال تک سوتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے بدن کو اپنی قدرت سے صحیح سالم اور محفوظ رکھا۔ تین سو نوسال کے بعدجب بیدار ہوئے تو بھوک محسوس ہوئی، ایک کو بھیجا کہ جاؤ کھانا لے کر آؤ مگر احتیاط سے جانا کہ کہیں کسی کو پتہ نہ چل جائے۔ جب دکاندار کو سکہ پیش کیاوہ تو تین سو سال پرانا سکہ تھا۔ پھر آہستہ آہستہ سب کو پتہ چل گیا۔ دقیانوس تو مرکھپ گیا تھا، موجودہ بادشاہ توحید پرست تھا اس نے اصحاب کہف کا اعزاز و اکرام کیا۔ جب ان نوجوانوں کا انتقال ہوا تو بادشاہ نے ان کی یاد گار میں ایک مسجد تعمیر کرائی۔
اصحابِ کہف اور اصحابِ رقیم:
﴿اَمۡ حَسِبۡتَ اَنَّ اَصۡحٰبَ الۡکَہۡفِ وَ الرَّقِیۡمِ ۙ کَانُوۡا مِنۡ اٰیٰتِنَا عَجَبًا ﴿۹﴾﴾
اصحابِ کہف کا واقعہ بھی عجیب ہے۔ مگر قرآن کریم میں اس کے علاوہ بھی عجیب تر واقعات موجود ہیں۔ ان کو اصحاب کہف بھی کہا اور اصحاب رقیم بھی کہا۔ "کہف" تو غار کو کہتے ہیں اور"رقیم" تختی کو کہتے ہیں۔ یہ جس غار میں بعد میں وفات پا گئے تھے؛ مسلمان بادشاہ نے باہر تختی لکھ کر لگا دی تھی کہ فلاں فلاں ولی وفات پا گئے تھے جو اس غارمیں موجود ہیں۔ اس لیے ان کو ”اصحاب رقیم“ بھی کہتے ہیں۔
اجسام کی حفاظت کا انتظام:
﴿وَ تَرَی الشَّمۡسَ اِذَا طَلَعَتۡ تَّزٰوَرُ عَنۡ کَہۡفِہِمۡ ذَاتَ الۡیَمِیۡنِ وَ اِذَا غَرَبَتۡ تَّقۡرِضُہُمۡ ذَاتَ الشِّمَالِ وَ ہُمۡ فِیۡ فَجۡوَۃٍ مِّنۡہُ ؕ ذٰلِکَ مِنۡ اٰیٰتِ اللہِ﴿٪۱۷﴾ ﴾
وہ غار ایسی ہے کہ جب سورج نکلتا ہےتو دھوپ دائیں جانب ہوتی ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو بائیں جانب ہوتی ہے یعنی غار کا نقشہ اس طرح ہے کہ براہِ راست دھوپ ان پر نہیں پڑتی۔ غار کھلی ہے، ہوا آتی جاتی ہے لیکن براہِ راست ان کے جسم پر دھوپ نہیں پڑتی۔ اللہ تعالیٰ ان کے جسموں کو دھوپ سے بچا لیتے ہیں اور ہوا کا سلسلہ بھی رہتا ہے تاکہ سانس نہ گھٹے۔
بیداری کے بعد باہمی گفتگو:
﴿وَ کَذٰلِکَ بَعَثۡنٰہُمۡ لِیَتَسَآءَلُوۡا بَیۡنَہُمۡ ؕ قَالَ قَآئِلٌ مِّنۡہُمۡ کَمۡ لَبِثۡتُمۡ ؕ قَالُوۡا لَبِثۡنَا یَوۡمًا اَوۡ بَعۡضَ یَوۡمٍ ﴿۱۹﴾ ﴾
اصحاف کہف جب بیدار ہوئے تو آپس میں ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ غار میں کتنا عرصہ ٹھہرے ؟کچھ نے کہا کہ ایک دن یا دن کا کچھ حصہ۔ اور کچھ نے کہااللہ تعالیٰ زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ پھر کہنے لگے کہ کھانے کا انتظام کرنا چاہیے تو اپنے میں سے ایک کو سکے دیکر بھیجا کہ کھانے کا انتظام کرو لیکن دوباتوں کا خیال رکھنا: ایک تو یہ کہ کھانا پاکیزہ یعنی حلال لانا۔ ان کا خیال تھا کہ بت پرستوں کے شہر میں حلال کھانا ملنا مشکل ہے۔ دوسرا ہوشیاری سے جانا اور دکاندار سے نرمی سے بات کرنا کہ کہیں کسی کو ہمارے بارے پتہ نہ چل جائے۔
آگے ان کی وفات کاذکر ہے۔ جب اصحابِ کہف وفات پا گئے تو اب مشورہ ہوا کہ ان کی یادگار کے طور پر کوئی عمارت بنائیں۔ بالآخر فیصلہ یہ ہوا کہ یہاں بطورِ یادگار کے مسجد بنا لیں۔
اصحاب کہف کی تعداد:
﴿قُلۡ رَّبِّیۡۤ اَعۡلَمُ بِعِدَّتِہِمۡ مَّا یَعۡلَمُہُمۡ اِلَّا قَلِیۡلٌ ﴿٪۲۲﴾﴾
اصحاب کہف کی صحیح تعداد تو اللہ تعالیٰ کو ہی معلوم ہے۔ البتہ چند ایک حضرات کوبھی معلوم ہے ان میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی ہیں۔ تو ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مطابق اصحاب کہف سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔
دو آدمیوں کا قصہ:
﴿وَ اضۡرِبۡ لَہُمۡ مَّثَلًا رَّجُلَیۡنِ جَعَلۡنَا لِاَحَدِہِمَا جَنَّتَیۡنِ مِنۡ اَعۡنَابٍ وَّ حَفَفۡنٰہُمَا بِنَخۡلٍ وَّ جَعَلۡنَا بَیۡنَہُمَا زَرۡعًا ﴿ؕ۳۲﴾﴾
یہاں ان دوآدمیوں کا قصہ بیان کیاجارہاہے جن میں سے ایک نے مال ودولت سے دل لگاکر کفر اختیار کرلیا تھا اور دوسرے نے اپنا مال اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کیا تھا۔ تو اس مؤمن نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ اللہ نے تجھے ایک نطفے سے پیدا فرمایا، اللہ نے تجھے دولت عطا فرمائی، اس پر تجھے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اس پر
”ما شاء اللہ لا قوۃ الا باللہ “
کہنا چاہیے۔ لیکن اس کے دماغ میں یہ تھا کہ میرے پاس دولت موجود ہے اور یہ ہمیشہ رہے گی۔ اس کو احساس اس وقت ہوا جب اللہ رب العزت نے ان نعمتوں کو چھین لیا اور یہ خالی ہاتھ رہ گیا۔
مال واولاد دنیا کی زینت ہیں:
﴿اَلۡمَالُ وَ الۡبَنُوۡنَ زِیۡنَۃُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ الۡبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیۡرٌ عِنۡدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّ خَیۡرٌ اَمَلًا ﴿۴۶﴾﴾
گزشتہ آیات میں دوشخصوں کا قصہ بیان کیاگیا تھا جن میں سے ایک نے دنیا کے مال واسباب سے دل لگایا تھا اور اللہ تعالیٰ کو بھلادیا تھا۔ اب یہاں سے مال واسباب اور اولاد کی بے ثباتی کو بیان کیا جارہا ہے کہ یہ چیزیں صرف دنیا کی زیب وزینت ہیں۔ ان سے محبت اور دل لگی کے بجائے ان نیک اعمال کو اختیار کرنا چاہیے جنہیں بقا حاصل ہے۔ باقی رہنے والے کلمات سے اعمال صالحہ مراد ہیں جیسے پنج وقتہ نمازیں اور اس کے علاوہ بھی نیک اعمال اور ذکر اذکار مثلاً
سُبْحَانَ الله، وَالْحَمْدُ لِلهِ، وَلَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ
وغیرہ سب اس میں شامل ہیں۔
حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام کا قصہ:
﴿وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِفَتٰىہُ لَاۤ اَبۡرَحُ حَتّٰۤی اَبۡلُغَ مَجۡمَعَ الۡبَحۡرَیۡنِ اَوۡ اَمۡضِیَ حُقُبًا﴿۶۰﴾﴾
حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ روئے زمین پر اس وقت سب بڑا عالم کون ہے ؟حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا فرمایا اور یہ واقع کے مطابق بھی تھا کیونکہ نبی کے پاس سب سے زیادہ علم ہوتاہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہ آئی۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے تھا کہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں کہ سب سے بڑا عالم کون ہے۔ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ حضرت خضر علیہ السلام کے پاس علم سیکھنے کےلیے جائیں، جہاں دودریا ملتے ہیں اس جگہ ان سے ملاقات ہوگی۔ یہ قصہ آیت نمبر 60سے لے کر سولھویں پارہ میں آیت نمبر 82 تک بیان کیا گیا۔
جو مقام ملاقات بتایا گیا تھا وہاں پر حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ملاقات کی غرض بیان فرمائی۔ حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ میں جو بھی کام کروں مجھ سے اس کے متعلق نہ پوچھنا جب تک میں از خود نہ بتاؤں۔ سفر شروع ہوا۔ حضرت خضر علیہ السلام نے تین کام کیے۔ کشتی کا تختہ اکھاڑا، بچے کو قتل کیا، بغیر اجرت دیوار ٹھیک کی۔ چونکہ پہلے دونوں کام شریعت کے خلاف تھے اس لیےموسیٰ علیہ السلام سے خاموش نہ رہا گیا۔ جدائی ہوئی تو خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ میں آپ کو ان واقعات کا مقصد بتائے دیتاہوں جن پر آپ صبر نہ کرسکے۔
1: کشتی والے غریب تھے آگے ظالم بادشاہ تھا وہ ہر صحیح سالم کشتی کو زبر دستی چھین لیتا تھا تو میں نے چاہا کہ اس میں کوئی عیب پیدا کردوں۔ تا کہ وہ عیب کی وجہ سے نہ لے سکے۔
2: بچے کے والدین مؤمن تھے اگر یہ زندہ رہتاتو ممکن تھا کہ انہیں سرکشی اور کفر میں مبتلا کردیتا۔ ہم نے چاہا کہ اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ میں انہیں ایسی اولاد دے جو پاکیزگی اور حسن سلوک میں اس سے بہتر ہو۔
3: دیوار دو یتیم بچوں کی تھی اس کے نیچے ان کے والد نے خزانہ دفن کیا ہواتھا ان کا باپ نیک آدمی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے چاہاکہ یہ اپنی جوانی کی عمر کو پہنچ کر اپنا خزانہ نکال لیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس تشریعی علم تھا۔ جبکہ حضرت خضر علیہ السلام کے پاس تکوینی علم تھا۔ ہم شریعت کے پابند ہیں۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ