ارہاصات حصہ دوم

User Rating: 1 / 5

Star ActiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ارہاصات )حصہ دوم (
اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سے پہلے بعض ایسے واقعات کو ظاہر فرمایا جو آپ کی نبوت کی دلیل ہیں۔ چند ایک کا تذکرہ پہلے ہوا تھا ، اسی سلسلہ میں مزید پیش خدمت ہے ۔
موبذان کا خواب:
وَرَأَى الْمُوبَذَانُ إِبِلًا صِعَابًا تَقُودُ خَيْلًا عِرَابًا قَدْ قَطَعَتْ دِجْلَةَ وَانْتَشَرَتْ فِي بِلَادِهِ فَلَمَّا أَصْبَحَ كِسْرَى أَفْزَعَهُ مَا رَأَى فَتَصَبَّرَ عَلَيْهِ تَشَجُّعًا ثُمَّ رَأَى لَا يَكْتُمُ ذَلِكَ عَنْ وُزَرَائِهِ وَمَرَازِبَتِهِ فَلَبِسَ تَاجَهُ وَقَعَدَ عَلَى سَرِيرِهِ وَأَرْسَلَ إِلَى الْمُوبَذَانِ فَقَالَ: يَا مُوبَذَانُ إِنَّهُ قَدْ سَقَطَ مِنْ إِيَوانِي أَرْبَعَ عَشْرَةَ شُرَّافَةً وَخَمَدَتْ نَارُ فَارِسَ وَلَمْ تَخْمَدْ قَبْلَ ذَلِكَ بِأَلْفِ عَامٍ فَقَال وَأَنَا أَيُّهَا الْمَلِكُ قَدْ رَأَيْتُ كَاَنَّ إِبِلًا صِعَابًا تَقُودُ خَيْلًا عِرَابًا حَتَّى عَبَرَتْ دِجْلَةَ وانْتَشَرَتْ فِي بِلَادِ فَارِسَ قَالَ: فَمَا تَرَى ذَلِكَ يَا مُوبَذَانُ؟ قَالَ: وَكَانَ رَأْسَهُمْ فِي الْعِلْمِ فَقَالَ: حَدَثٌ يَكُونُ مِنْ قِبَلِ الْعَرَبِ فَكَتَبَ حِينَئِذٍ كِسْرَى: مِنْ كِسْرَى مَلِكِ الْمُلُوكِ إِلَى النُّعْمَانِ بْنِ الْمُنْذِرِابْعَثْ إِلَيَّ رَجُلًا مِنَ الْعَرَبِ يُخْبِرُنِي بِمَا أَسْأَلُهُ عَنْهُ فَبَعَثَ إِلَيْهِ عَبْدَ الْمَسِيحِ بْنَ حَيَّانَ بْنِ نُفَيْلَةَ فَقَالَ لَهُ: يَا عَبْدَ الْمَسِيحِ! هَلْ لَكَ عِلْمٌ بِمَا أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ عَنْهُ؟ فَقَالَ: يَسْأَلُنِي الْمَلِكُ فَإِنْ كَانَ عِنْدِي مِنْهُ عِلْمٌ أَعْلَمْتُهُ وَإِلَّا أَعْلَمْتُهُ بِمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُهُ فَأَخْبَرَهُ بِهِ الْمَلِكُ فَقَالَ عِلْمُهُ عِنْدَ خَالٍ لِي يَسْكُنُ فِي مَشَارِفِ الشَّامِ يُقَالُ لَهُ سَطِيحٌ قَالَ: فَاذْهَبْ إِلَيْهِ وَاسْأَلْهُ وأَخْبِرْنِي بِمَا يُخْبِرُكَ بِهِ فَخَرَجَ عَبْدُ الْمَسِيحِ حَتَّى قَدِمَ عَلَى سَطِيحٍ وَهُوَ مُشْرِفٌ عَلَى الْمَوْتِ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ وَحَيَّاهُ بِتَحِيَّةِ الْمَلِكِ، فَلَمْ يُجِبْهُ سَطِيحٌ فَأَقْبَلَ يَقُولُ: أَصَمُّ أَمْ يَسْمَعُ غِطْرِيفُ الْيَمَنْ۔قَالَ: فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَيْهِ فَقَالَ: عَبْدُ الْمَسِيحِ يَهْوِي إِلَى سَطِيحٍ وَقَدْ أَوْفَى عَلَى الضَّرِيحِ بَعَثَكَ مَلِكُ بَنِي سَاسَانَ لِارْتِجَاسِ الْإِيَوَانِ وَخُمُودِ النِّيرَانِ وَرُؤْيَا الْمُوبَذَانِ رَأَى إِبِلًا صِعَابًا تَقُودُ خَيْلًا عِرَابًا قَدْ قَطَعَتْ دِجْلَةَ وَانْتَشَرَتْ فِي بِلَادِ فَارِسَ۔ يَا عَبْدَ الْمَسِيحِ إِذَا ظَهَرَتِ التِّلَاوَةُ وَغَارَتْ بُحَيْرَةُ سَاوَةُ وخَرَجَ صَاحِبُ الْهَرَاوَةُ وَفَاضَ وَادِي السَّمَاوَةِ فَلَيْسَتِ الشَّامُ لِسَطِيحٍ بِشَامٍ يَمْلِكُ مِنْهُمْ مُلُوكٌ وَمَلِكَاتٌ عَلَى عَدَدِ الشُّرَّافَاتِ وَكُلُّ مَا هُوَ آتٍ آتٍ: ثُمَّ مَاتَ سَطِيحٌ وَقَامَ عَبْدُ الْمَسِيحِ فَرَجَعَ إِلَى كِسْرَى فَأَخْبَرَهُ فَقَالَ: إِلَى أَنْ يَمْلِكَ مِنَّا أَرْبَعَةَ عَشَرَ مَلِكًا يَكُونُ أُمُورٌ وَأُمُورٌ قَالَ: فَمَلَكَ مِنْهُمْ عَشَرَةٌ فِي أَرْبَعِ سِنِينَ وَمَلَكَ الْبَاقُونَ بَعْدَهُ
دلائل النبوۃ للاصبہانی، فصل فی ذکر حمل امہ ، الرقم: 82
ترجمہ: اس رات آتش کدے کے نگران موبذان نے خواب دیکھا کہ عربی اونٹ اور گھوڑے دریائے دجلہ کو عبور کر کے عجم کے شہروں میں پھیل چکے ہیں۔ بادشاہ کسریٰ نوشیروان نے موبذان سے پوچھا کہ تجھے اپنے خواب کی تعبیر کیا سمجھ آتی ہے ؟ موبذان نے کہا کہ بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ عرب میں کوئی بڑا واقعہ رونما ہونے والا ہے ۔ ساتھ ہی یہ کہا کہ آپ حیرہ کے کسی عالم سے اس کے بارے میں دریافت کر لیں چنانچہ نوشیروان کے حکم پر نعمان بن المنذر نے عبدالمسیح غسانی کو بھیجا۔
عجیب الخلقت بوڑھا :
عبدالمسیح کی عمر اس وقت لگ بھگ 150 برس ہوگی اس کے سامنے خواب اور حیران کن واقعات بیان کیے گئے تو اس نے کہا کہ شام کے شہر جابیہ میں میرا ماموں سطیح رہتا ہے اس سے معلوم کرنا پڑے گاسطیح کی عمر اس وقت 300 برس کے قریب تھی اس کے بدن میں سوائے کھوپڑی کے کوئی ہڈی نہیں تھی اس وجہ سے وہ بیٹھ نہیں سکتا تھا ہاں جب اسے غصہ آتا تو اس کا بدن پھول جاتا جس کی وجہ سے وہ کچھ لمحے کے لیے بیٹھ پاتا۔ اس کا چہرہ سینے میں تھا ، گردن بالکل نہ تھی ، جب اس سے کچھ پوچھنا ہوتا تو اسے زور زور سے ہلاتے جس کی وجہ سے اس کا سانس پھول جاتا اور وہ جواب دینے کے قابل ہوتا۔
عبدالمسیح چند لوگوں کےہمراہ اپنے ماموں سطیح کے پاس پہنچا اور بلند آواز میں کہا یمن کاسردار سنتا ہے یا بہرہ ہو گیا ہے ؟سطیح نے جواب دیا کہ اے عبدالمسیح !تم میرے پاس ایسے وقت میں آئے ہو جب میں قبر کے قریب ہو چکا ہوں ۔ شاہ فارس نے تمہیں میرے پاس بھیجا ہے کہ تم مجھ سے یہ معلوم کر سکو کہ آتش کدے کیوں بجھ گئے؟ 14کنگرے کیوں گر پڑے؟ موبذان کے خواب کی تعبیر کیا ہے؟ اے عبدالمسیح ! جب کلام اللہ کی تلاوت بکثرت ہونے لگے ، نبی آخر الزمان )صلی اللہ علیہ وسلم (اعلان نبوت فرما دیں ، بحیرہ ساوہ کا پانی خشک ہو جائے ، فارس کے آتش کدے بجھ جائیں تو سمجھ لینا کہ بابل اہل فارس کی جائے قیام نہیں رہا اور نہ ہی شام سطیح کا ملک رہا ۔ 14 کنگرے گرنے کا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ فارس کے کل 14 بادشاہ ہوں گے یہ کہنا تھا کہ سطیح کا دم ہَوا ہُوا۔
3164 سالہ سلطنت کا خاتمہ:
عبدالمسیح وہاں سےفوراً واپس ایران آیا۔ کسریٰ نوشیروان کو سارا ماجرا سنایا اس نے تعجب سے کہا ”14 بادشاہوں کےلیے تو لمبا زمانہ درکار ہے۔ “
لیکن اسے یہ خبر نہ تھی کہ خدائی وعدہ بہت جلد پورا ہونے جا رہا ہے 4 سال کی مختصر مدت میں 10 بادشاہ) جن میں سے بعض قتل ہو گئے اور بعض معزول کر دیے گئے ( ختم ہوگئے۔ باقی 4 بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ابتدائے زمانہ خلافت تک ختم ہو گئے۔ آخری بادشاہ یزدجرد پہلے لوگوں کے گھروں میں چُھپا رہا اور آخر کار قتل ہوا ، یوں 3164 سالہ سلطنت کا خاتمہ ہوا ۔
دعا، بشارت اور خواب:
عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ الْفَزَارِيِّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:إِنِّي عِنْدَ اللَّهِ مَكْتُوبٌ بِخَاتَمِ النَّبِيِّينَ وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِينَتِهِ وَسَأُخْبِرُكُمْ بِأَوَّلِ ذَلِكَ: دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيمَ وَبِشَارَةُ عِيسٰى وَرُؤْيَا أُمِّيَ الَّتِي رَأَتْ حِينَ وَضَعَتْنِي أَنَّهُ خَرَجَ مِنْهَا نُورٌ أَضَاءَتْ لَهَا مِنْهُ قُصُورُ الشَّامِ
صحیح ابن حبان ، ذکر کتبۃ اللہ ، الرقم: 6404
ترجمہ: حضرت عرباض بن ساریہ الفزاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اللہ رب العزت کے ہاں میں اس وقت خاتم النبیین تھا جبکہ سیدنا آدم علیہ السلام اپنے خمیر میں تھے ۔ مزید فرمایا کہ میں تمہیں اپنے بارے مزید باخبر کیے دیتا ہوں کہ میں اپنے باپ )جد امجد (حضرت ابراہیم کی دعا )کا ثمرہ(ہوں اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کی بشارت کا نتیجہ ہوں اور اپنی والدہ کے اس خواب کی حقیقی تعبیر ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا تھا کہ ان سے ایک عظیم الشان روشنی نکلی جس سے ملک شام کے محلات روشن ہوگئے ۔
نوٹ: حدیث مبارک کے ابتدائی حصے کی تشریح ان شاء اللہ کبھی تفصیلاً لکھوں گا جس سے عقیدہ ختم نبوت اور عقیدہ بشریت انبیاء علیہم السلام کا اثبات اور اہل بدعت کے شبہات کا جواب مل جائے گا ۔
دعائے ابراہیمی کا مطلب:
مذکورہ بالا حدیث مبارک میں ہے کہ میں اپنے باپ )جد امجد(حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ثمرہ ہوں ۔ حدیث کے الفاظ درحقیقت اس واقعے کی طرف اشارہ کر رہے جس کا تذکرہ قرآن کریم میں ملتا ہے اور حدیث مبارک میں بھی ۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کی تعمیر کے وقت دعا مانگی کہ اے اللہ !اس وادی بے آب و گیاہ مکہ مکرمہ کو روئے زمین پر پُرامن خطہ بنا ، دنیا بھر کے لوگوں کے دلوں کو اس کی طرف مائل فرما اور ان لوگوں کو پاکیزہ رزق عطا فرما۔مزید بھی چند دعائیں مانگیں ، اس کے بعد بطور خاص بیت اللہ کو بسانے کے لیے یوں دعا مانگی :
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ۔
سورۃ البقرۃ، رقم الآیۃ: 129
ترجمہ: اے وہ ذات جو ہماری ضرورت کے مطابق ہماری ضروریات کو پورا فرمانے والے ہیں مکہ والوں کی نسل سے اسی شہر میں ایک ایسا رسول بھیج جو ان کے سامنے تیری آیات کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کے باطن کو خوب پاک کرے ۔ یقیناً تیری ہی ذات اقتدار کے اعتبار سے بھی کامل ہے اور حکمت کے اعتبار سے بھی کامل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو قبول فرما کر نبی آخرالزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین کے طور پر مبعوث فرمایا۔ آپ ہی وہ رسول بن کر تشریف لائے جن کا تذکرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا میں ہے۔ یہ ہے
دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيمَ
کا مطلب ۔
حضرت ابراہیم کی مخصوص شان:
اولوالعزم انبیاء کرام علیہم السلام کے حالات و واقعات، مرتبہ و مقامات اور ان کے کمالات و معجزات کو دیکھا جائے تو ہر ہر نبی کے اپنے جداگانہ امتیازات نظر آتے ہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام میں حق تعالیٰ جل شانہ کی صفت قدوس و سلام ظہور فرما ہے مطلب یہ ہے کہ آفات ظاہر و باطن اور عیوب و نقائص سے پاک رہنا ہے ۔
آپ کی ذات گرامی میں تقدس و سلامتی کا یہ عالم ہے کہ باطنی طور پر تو آپ عیب و شر اور آفت و مصیبت سے پاک تھے ہی ظاہری اعتبار سے بھی کوئی آفت آپ کے وجود مبارک تک آنا چاہے، تو نہیں آسکتی۔ آجائے تو باقی نہیں رہ سکتی اور اگر باقی رہ جائے تو اس سے ہزارہا برکات جنم لیتی ہیں جس سے ذات اقدس کے حق میں آفت کا کوئی معمولی شائبہ کارگر نہیں ہوتا یعنی بجائے اس کے کہ وہ آفت ذات اقدس پر غالب ہو اسے آپ کے وجود کی برکات مغلوب کر دیتی ہیں ۔
سراپا سلامتی:
آتش نمرود میں آپ کو ڈالا جاتا ہے تو آگ کی آفت آپ کے وجود مبارک کے قریب پہنچ کر بھی ضرر و نقصان نہیں دیتی بلکہ یہی آتشیں آفت آپ کے حق میں سراپا سلامتی بن جاتی ہے ۔
صفاو مروہ اور زمزم :
مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں اپنی بیوی اور نوزائیدہ بیٹے کو تنہا چھوڑ کر آنے کا حکم ملتا ہے۔ مصیبت کی شدت آزمائش کے دورانیے کو مزید طول دیتی ہے لیکن باوجود اس کےیہی مصیبت شرعی وتکوینی انعامات کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔ حضرت ہاجرہ کی مضطرب ممتا پانی کی تلاش میں صفا و مروہ پردوڑتی ہے تو قیامت تک کےلیے سعی بین الصفا والمروہ حکم خداوندی کا روپ دھار لیتی ہے ۔ بے مونس میدان میں آپ کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کی تشنہ لبی زمزم جیسے بابرکت پانی کا ذریعہ بن جاتی ہے ۔
حکم قربانی:
یہی بیٹا جب عمر عزیز کی ابھی کچھ بہاریں ہی دیکھ پاتا ہے کہ اسی کو اللہ کے نام پر ذبح کردینے کا حکم خداوندی نازل ہوجاتا ہے ۔پدرانہ شفقت سے واقفِ حال لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ اپنی جان قربان کر دینے سےبھی زیادہ مشکل ہوتا ہے ۔ آپ چھری ہاتھ میں لیے اپنے جگر کے ٹکڑے کو زمین پر لٹا دیتے ہیں اور اس کی نرم گردن پر اپنے پورے زور سے چھری چلا دیتے ہیں اسے دیکھ کر قدرت مسکرا پڑتی ہے اور آپ کے سچا ہونے کو دنیا پر آشکارا فرما کر حضرت اسماعیل کی جگہ جنتی مینڈھا آپ کے ہاتھوں ذبح کرا دیتی ہے ۔ بارگاہ خداوندی میں اس عمل میں اخلاص کا یہ عالم کہ اللہ اسے قیامت تک ”حکم قربانی “ میں تبدیل فرما دیتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ”سنۃ ابیکم ابراہیم “ کا نام دیتے ہیں ۔
بشارت عیسیٰ کا مطلب:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور خوشخبری کا نتیجہ ہوں۔ حدیث کے الفاظ درحقیقت قرآن کریم میں مذکورواقعے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں:
وَإِذْ قالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يٰبَنِي إِسْرائِيْلَ إِنِّي رَسُوْلُ اللّهِ إِلَيْكُمْ مُصَدِّقاً لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّراً بِرَسُوْلٍ يَّأْتِيْ مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ۔
سورۃ الصف ، رقم الآیۃ: 6
ترجمہ: اور اس وقت کو بھی یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہارے پاس اللہ رب العزت کا ایسا رسول بن کر آیا ہوں کہ اپنے سے پہلی نازل شدہ کتاب یعنی توارت کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے رسول )حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ( کی تشریف آوری کی خوشخبری دیتا ہوں جن کا ایک نام احمد )بھی( ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت کو پورا فرمایا اور اس کے حقیقی مصداق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ۔آپ ہی وہ رسول بن کر تشریف لائے جس کا تذکرہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت میں موجود ہے۔ یہ ہے بِشَارَةُ عِيسٰی کا مطلب ۔
حضرت عیسیٰ کی مخصوص شان:
ابھی یہ بات عرض کی ہے کہ ہر نبی کی جداگانہ شان ہے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں اللہ رب العزت کی شان مصوری اور صفت احیاء جلوہ گر ہے۔ پرندوں کی ہیئت بنانا اور باذن اللہ ان کو ہوا میں اڑانا، قبروں میں مدفون مُردوں کو ان کے نام سے پکار کر قبر سے زندہ اٹھانا ، زندگی سے مایوس مریضوں پر دست مسیحائی پھیرنا اور انہیں بھلا چنگا کر دینا ، پیدائشی اندھوں پر نظر مسیحائی کرنا اور انہیں ”بینا“ کر دینا ، برص کے مرض سے جِلدی امراض کے شکار افراد پر دست شفا لگانا اور انہیں صحت یاب کر دینا ۔
غور فرمائیے! حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پرندوں کی مصوری کی اور ان کو حیات مل گئی ۔ کہیں بنی ہوئی صورتوں میں حیات آفرینی کا منظر دیکھنے کو ملتا ہے اور کہیں صورتوں کے بگاڑ کو تزئین زیبائی عطا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔
بدعقیدگی کا ازالہ:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے جتنی باتیں ذکر کی گئی ہیں ان کا تعلق معجزات سے ہے اور معجزہ اسے کہتے ہیں کہ جس میں اختیار اللہ کا ہوتا ہے اور وہ نبی سے ظاہر ہو رہا ہوتا ہے۔ اس سے یہ سمجھا جائے کہ العیاذ باللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدائی اختیارات رکھتے ہیں۔ یہ وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ بعض بدعقیدہ لوگ اس سے انبیاء کو خدائی اختیارات کا حامل سمجھ بیٹھتے ہیں ۔
حضرت آمنہ کا خواب:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں اپنی والدہ کے اس خواب کی تعبیر ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھاتھا کہ ان سے ایک عظیم الشان روشنی نکلی جس سے ملک شام کے محلات روشن ہوگئے )روشن ہو کر نظر آنے لگے(۔
فائدہ: ہم نے نور کا ترجمہ ”روشنی“ کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض روایات میں نور کی جگہ چراغ جبکہ بعض دیگر روایات میں شہاب ) آگ کی چمک یا ستارہ ( کے الفاظ ملتے ہیں ۔ اس لیے نور کا لفظ دیکھ کر یہ عقیدہ نہیں بنا لینا چاہیے کہ نبی کا مادۂِ تخلیق ”نور “ ہے مٹی نہیں ۔
شام بابرکت ملک ہے :
اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عراق سے شام ہی کی طرف ہجرت فرمائی ۔
سفر معراج میں آپ کو پہلے مکہ مکرمہ سے شام یعنی مسجد اقصیٰ تک سیر کرائی گئی اور مسجد اقصیٰ کے بارے میں قرآن کریم میں ہے کہ اس کے اردگرد اللہ نے برکتیں پھیلا رکھی ہیں ۔
شام وہ ملک ہےجہاں کل چالیس میں سےتیس ابدال بیک وقت اسی میں رہتے ہیں اس لیے اس میں انوارو برکات زیادہ ہوتے ہیں ۔
ایک حدیث مبارک میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کے قریبی زمانے میں شام کی طرف ہجرت کرنے کی ترغیب ذکر کی ہے ۔
قرب قیامت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نزول بھی ملک شام ہی میں ہوگا آپ شام کے علاقے دمشق کی جامع مسجد کے مشرقی مینارہ پر نازل ہوں گے ۔
ملک شام نظر آنے کی حکمتیں:
اس سلسلے میں بعض اور روایات دیکھی جائیں تو ان میں ملک شام کے شہر” بُصریٰ“ کا ذکر ملتا ہے ۔یہ ملک شام کا وہ پہلا شہر ہے جو سب سے فتح ہوا ، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں یہاں اسلام کا پرچم لہرایا گیا ۔اسی علاقے میں حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ مدفون ہیں ۔
جبکہ بعض روایات میں دو مرتبہ شام کی طرف روشنی کے نکل کا تذکرہ بھی ملتا ہے جس کی حکمت بظاہر یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ دو بار شام کی طرف سفر کرنا تھا اس لیے دو مرتبہ اس طرف روشنی دکھلائی گئی۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا ابوطالب کے ساتھ گئے جبکہ دوسری مرتبہ حضرت خدیجہ کا سامان تجارت لے کر ان کے غلام میسرہ کے ساتھ تشریف لے گئے تھے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت پر عمل کی توفیق نصیب فرمائے ۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمدالیاس گھمن
خانقاہ حنفیہ، مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا
جمعرات ،24 اکتوبر ، 2019ء