تلاوت آیات اور تزکیہ نفس

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تلاوت آیات اور تزکیہ نفس
اللہ تعالیٰ نے اس امت پر سب سے بڑا احسان یہ فرمایا کہ اس میں اپنے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا۔ایک ایسے وقت میں کہ جب ہر طرف سے جہالت کی تاریکیاں ،ظلم کی آندھیاں اوربےحیائی کی طوفان خیزیاں انسان کو چاروں اطراف سے اپنے شکنجے میں کَس چکی تھیں بلکہ سادہ سے الفاظ میں آپ اسے یوں کہہ لیں کہ انسان اپنے خالق اور مالک سے دور ہو چکا تھا ۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو مبعوث فرمایا اور ساتھ ہی اس بعثت کے مقاصد کو بھی قرآن کریم میں تین مقامات پر جامعیت کے ساتھ ذکر فرما دیا۔
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
سورۃ البقرۃ رقم الآیۃ: 129
ترجمہ: اے وہ ذات جو ہماری ضرورت کے مطابق ہماری ضروریات کو پورا فرمانے والے ہیں مکہ والوں کی نسل سے اسی شہر میں ایک ایسا رسول بھیج جو ان کے سامنے تیری آیات کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کے باطن کو خوب پاک کرے ۔ یقیناً تیری ہی ذات اقتدار کے اعتبار سے بھی کامل ہے اور حکمت کے اعتبار سے بھی کامل ہے۔
یہ دعائے ابراہیمی ہے، اللہ کریم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل مبارک پر یہ دعا القاء فرمائی جس میں بعثت نبوت کے تمام مقاصدمذکور ہیں ۔
لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ ۔
سورۃ آل عمران ، رقم الآیۃ: 164
ترجمہ: یقیناًہم نے ایمان والوں پر بہت بڑا احسان کیا کہ ان کے اندر انہی میں سے ایک رسول کو بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیات )قرآن کریم(کی تلاوت کرے ، ان کی نیتوں میں اخلاص اور اخلاق میں پاکیزگی کے فرائض انجام دے ، انہیں کتاب )قرآن کریم(اور حکمت سکھلائے ۔یقیناً اس احسان عظیم سے پہلے یہ لوگ کھلی گمراہی میں مبتلا تھے ۔
هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُوْلًا مِنْهُمْ يَتْلُوْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلَالٍ مُّبِيْنٍ
سورۃ الجمعۃ ، رقم الآیۃ: 2
ترجمہ: وہ )اللہ ) وہی ذات ہے جس نے اَن پڑھوں میں عظیم الشان رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیات کی تلاوت کرتا ہے ، انہیں روحانی بالیدگی عطا کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھلاتا ہے اور ان لوگوں کی حالت یہ ہے کہ وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں بھٹک رہے تھے۔
پہلا مقصد ؛تلاوتِ آیات:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا پہلا مقصد قرآن کریم کی تلاوت ہے یعنی مراد خداوندی کو اپنی زبان مبارک سے ادا فرماتے ہیں جس میں اس بات کی طرف ایک لطیف اشارہ ملتا ہے کہ شرعی معاملات میں نبی اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کرتا بلکہ خدائے لم یزل کا پیغام سناتا ہے ۔
مکاتبِ قرآنیہ کا قیام:
جب یہ بات معلوم ہو گئی کہ قرآن کریم کی تلاوت کرنا نبوت کے مقاصد میں سے ہے تو مقصد نبوت کی حفاظت کرنا خود مقصود کہلائے گا اس مقصد کے لیے مکاتب قرآنیہ کے قیام کا ثبوت ملتا ہے جہاں الفاظ قرآن کی ادائیگی کا صحیح طریقہ سیکھا اور سکھایا جاتا ہے، ناظرہ ، حفظ ، تجوید اور قراءت کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ اس لیے ایسے مراکز و مکاتب کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کرنا اہل اسلام پر ضروری ہے تاکہ مقصد نبوت کی حفاظت اور بقاء ماند نہ پڑے ۔
مکاتب سے تعاون :
تعاون کا مطلب محض مالی وسائل کی فراہمی تک محدود نہیں جیسا کہ عام طور پر اس کو سمجھ لیا گیا ہے بلکہ تعاون کا اعلی ترین درجہ یہ ہے کہ ایسے مکاتب و مراکز میں خود قرآن کی تعلیم حاصل کرنی چاہیے ، اپنی اولادوں کو اس میں بھیجنا چاہیے تاکہ وہ بھی قرآن کریم کو صحیح طور پر پڑھ کر مقصد نبوت کی آبیاری کر سکیں ۔ باقی رہا انتظامی طور پر اس کے لیے مالی وسائل مہیا کرنا تو اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر یہ کام چھوڑ دیا گیا تو اس حوالے سے امت اجتماعی فوائد سے محروم ہو جائے گی ۔
دوسرا مقصد؛تزکیۂ نفس:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا دوسرا بڑا مقصد نیتوں میں اخلاص اور اخلاق میں پاکیزگی کے فرائض انجام دینا ہے یعنی باطن کو ہر طرح کے عیوب سے پاک کرنا ہے۔ یعنی امت کے قلوب میں سے غیر اللہ کی محبت اور غیر اللہ کا خوف ختم کرنا اور اللہ وحدہ لاشریک کی محبت اور اللہ ذوالجلال کا خوف پیدا کرنا ان کے قلب و روح سے بری خصلتیں ختم کرنا ساتھ ہی ساتھ نیک اوصاف اور عمدہ اخلاق پیدا کرنا کیونکہ جب تک دل غیراللہ اور گندے اوصاف کی آلائشوں سے پاک نہیں ہوتے اس وقت تک اس میں محبت الہیہ، معرفت خداوندی، رضائے باری عز وجل، اطاعت رسول، عقیدت نبوت اور عمدہ اوصاف و اعلی اخلاق کبھی بھی پیدا نہیں ہو سکتے۔
خانقاہوں کا قیام:
جب یہ بات معلوم ہو گئی کہ تزکیہ نفس کرنا نبوت کے مقاصد میں سے ہے تو مقصد نبوت کی حفاظت کرنا خود مقصود کہلائے گا اس مقصد کے لیے خانقاہوں کے قیام کا ثبوت ملتا ہے ۔ جہاں نیتوں میں اخلاص )یعنی محض اللہ رب العزت ہی کو راضی کرنے کی غرض سے کام کرنا (اور اخلاق و احوال اور اعمال میں پاکیزگی اور روحانی بالیدگی نصیب ہوتی ہے۔ اس لیے اہل حق کی خانقاہوں میں ظاہری و باطنی اصلاح کےلیے جانا منشاء نبوت میں داخل ہے ۔
خانقاہوں کا وجود کب سے ہے؟:
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ قرآن کریم کی سورۃ نور رقم الآیۃ: 36 فی بیوت اذن اللہ کے تحت فرماتے ہیں : یہ آیت ذکر اللہ کے لیے بنائی گئی خانقاہوں کی فضیلت اور ذکر ومراقبہ کے جس مقصد کے لیے یہ خانقاہیں بنائی گئی ہیں ان کے پورا کرنے کی عظمت پر دلالت کرتی ہے۔
شیخ التفسیر مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ اسی آیت کے تحت تفسیر معارف القرآن میں فرماتے ہیں : روشنی مسجدوں اور خانقاہوں سے ملتی ہے جہاں صبح و شام اللہ کا ذکر ہوتا ہے … ان گھروں میں اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے اس میں تسبیح و تہلیل اور تلاوت قرآن پاک اور دیگر اذکار سب داخل ہیں ان گھروں سے مراد مسجدیں اور خانقاہیں مراد ہیں ۔
جعلی خانقاہوں سے بچیں:
آج بہت سے جعلی پیروں نے خانقاہوں کے نام سے جہالت اور فحاشی کے اڈے کھول رکھے ہیں ۔ اصلی پیر کی پہچان کا سب سے آسان طریقہ وہ ہے جو حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی تھانوی نوراللہ مرقدہ نے فرمایا ہے : اگر تم کو بھی حرم کا کوئی کبوتر مل جائے جس کا جسم یہاں رہتا ہو اور دل کعبہ میں رہتا ہو جو سراپا سنت و شریعت کا پابند ہوکوئی اللہ والا ایسا مل جائے تو اس سے چمٹ جاؤ ۔
ملفوظ تھانوی کاآسان مفہوم:
حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی بات کا آسان کا مفہوم یہ ہے کہ اصلی پیر وہ ہے جس کے عقائد اھل السنۃ والجماعۃ والے ہوں اور اعمال بھی اھل السنۃ والجماعۃ جیسے ہوں مزید یہ کہ وہ کسی اللہ والےکی صحبت میں وقت گزار کر اپنے ظاہر و باطن کی اصلاح کرچکا ہو اپنی خواہشات نفس پر شرعی احکام کو غالب رکھتا ہو ۔
اللہ تعالیٰ مقاصد نبوت کو سمجھنے اور ان سے رہنمائی لینے کی توفیق نصیب فرمائے ۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمدالیاس گھمن
خانقاہ حنفیہ، مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا
جمعرات ،31اکتوبر ، 2019ء