تعلیم کتاب و حکمت

User Rating: 1 / 5

Star ActiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تعلیم کتاب و حکمت
اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سب سے قیمتی اور انمول خزانہ اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود مسعود ہے ۔اس امت کی خوش قسمتی کے کیا کہنے کہ اللہ کریم نے اسے اپنا محب اورمحبوب عطا فرمایااور اس بلند مرتبہ ذات کے فیوضات و برکات کو وقت کی قیودات سے بالاترقرار دیتے ہوئے ہمیشہ کےلیے عام تام فرمادیا۔
برکت ،ہدایت اور نجات:
گویا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت جہاں ہمارے لیے برکت کا باعث ہے وہاں پر ہماری ہدایت کا ذریعہ بھی ہے اور نجات کا سامان بھی۔
تیسرا مقصد؛تعلیم کتاب:
لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ إِذْ بَعَثَ فِيْهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُوْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلَالٍ مُّبِيْنٍ۔
سورۃ آل عمران ، رقم الآیۃ: 164
ترجمہ: یقیناًہم نے ایمان والوں پر بہت بڑا احسان کیا کہ ان کے اندر انہی میں سے ایک رسول کو بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیات )قرآن کریم(کی تلاوت کرے، ان کی نیتوں میں اخلاص اور اخلاق میں پاکیزگی کے فرائض انجام دے، انہیں کتاب )قرآن کریم(اور حکمت سکھلائے۔یقیناً اس احسان عظیم سے پہلے یہ لوگ کھلی گمراہی میں مبتلا تھے ۔
قرآن سیکھنے سکھانے والے:
اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد میں یہ بات بھی ذکر فرمائی ہے کہ میرا پیغمبر تمہیں کتاب اللہ کی تعلیم دے گا ۔ اس لیے پوری دنیا میں بسنے والا وہ طبقہ جو قرآن کریم کے سیکھنے سکھانے میں مصروف عمل ہے وہ انتہائی خوش قسمت ہے کہ انہوں نے مقصدِ بعثت نبوت کو ابھی تک زندہ رکھا ہوا ہے اور ایسا عظیم الشان مقام ہے کہ اس مقام پر سب سے اوپر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اخلاص کی بدولت درجہ بدرجہ اس امت کے خوش قسمت انسان ہیں۔
عَنْ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهٗ.
صحیح البخاری، باب خيركم من تعلم القرآن وعلمہ، الرقم: 5027
ترجمہ: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں زیادہ بہتر شخص وہ ہے جو خودقرآن کریم سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔
امت کا بہترین طبقہ:
قرآن سیکھنے سکھانے والوں کو تو اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کا بہترین طبقہ قرار دے رہے ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ خود پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اسی لشکر کے سالار کے طور پر سب سے آگے آگے ہیں ۔ جسے یہ یقین حاصل ہو جائے کہ میں نبی کے نقش قدم پر چل رہا ہوں اللہ کے نازل کردہ کلام کو سیکھ اور سکھا رہا ہوں بلکہ مخلوق کو خالق کا پیغام یاد کرا رہا ہوں بھلا ایسے شخص کو دنیاداروں کے طعن کے نشتر کہاں تکلیف دیتے ہیں ؟ بلکہ ان کے سہنے میں تو قدرت نے مزہ رکھا ہے ۔
چوتھا مقصد؛تعلیم حکمت:
مفتی بغداد علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے والحکمۃ کی پانچ تفسیریں نقل کی ہیں ۔
پہلی تفسیر:
حقائق الکتاب ودقائقہ۔
حکمت کی پہلی تفسیر یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کتاب اللہ کے حقائق و معارف اور اسرار و حکمتوں کو سکھلائیں گے ۔
عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمْ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنْ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنْ الْفَجْرِ قَالَ لَهُ عَدِيٌّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَجْعَلُ تَحْتَ وِسَادَتِي عِقَالَيْنِ عِقَالًا أَبْيَضَ وَعِقَالًا أَسْوَدَ أَعْرِفُ اللَّيْلَ مِنْ النَّهَارِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ وِسَادَتَكَ لَعَرِيضٌ إِنَّمَا هُوَ سَوَادُ اللَّيْلِ وَبَيَاضُ النَّهَارِ•
صحیح مسلم،باب بيان ان الدخول فی الصوم يحصل بطلوع الفجر
ترجمہ: حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب قرآن کی یہ آیت اتری: ح
َتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمْ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ
( رمضان میں کھایا پیا کروجب تک کہ سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے جدا نہ ہو) تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میں نے اونٹ کی ایک سیاہ اور دوسری سفید رسی اپنے تکیے کے نیچے رکھی تاکہ اس کے ذریعے رات اور دن میں امتیاز کر لوں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپ کا تکیہ تو بہت لمبا چوڑا ہے۔ (یعنی اے میرے صحابی آپ نے سمجھا نہیں، قرآن کا مطلب سیاہ اور سفید ڈورے سے رات کی سیاہی اور دن کی سفیدی ہے)
دوسری تفسیر:
طریق السنۃ۔
حکمت کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ اس سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ۔
فہم کتاب اللہ اور سنت:
جتنی کتاب اللہ کو سمجھنے کے لیے سنت کی ضرورت پڑتی ہے اتنی سنت کو سمجھنے کے لیے کتاب کی ضرورت نہیں پڑتی۔
قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ رَحِمَہُ اللہُ اَلْكِتَابُ أَحْوَجُ إِلَى السُّنَّةِ مِنَ السُّنَّةِ إِلَى الْكِتَابِ۔
جامع بیان العلم وفضلہ، باب موضع السنۃ من الکتاب وبیانہا، 2351
ترجمہ: امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کتاب )قرآن کریم ( کے مفہوم اور مراد کی وضاحت کے لیے سنت کی زیادہ ضرورت پیش آتی ہے جبکہ سنت کے مفہوم کو سمجھنے اور سنت کی مراد تک رسائی کے لیے کتاب کی اتنی ضرورت پیش نہیں آتی۔
وَأَنْزَلْنَآ إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ.
سورۃ النحل، رقم الآیۃ: 44
ترجمہ: ہم نے آپ پرقرآن نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے سامنے وہ باتیں وضاحت سے بیان فرما دیں جو ان کی طرف نازل کی گئی ہیں۔
شبہات دور کرنے کا ذریعہ:
بعض لوگ قرآن کریم کی آیات پڑھ کر لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں جیسا کہ وہ طبقہ جو خود کو” اہل قرآن“ کہتا ہے اور قرآن کریم کی وضاحت کرنے والی چیز ”سنت رسول “ کا انکار کرتا ہے ۔ یا اسی طرح وہ لوگ جو دین اسلام کی بنیادیں ہلانے کی کوشش میں سرگرم ہیں ان کا سارا زور اسی بات پر ہے کہ پہلے لوگوں کو صرف اور صرف قرآن تک لے آؤ جب لوگ صرف قرآن تک محدود ہو جائیں اور سنت رسول سے ہاتھ دھو بیٹھیں اب ان کو قرآن سے بھی دور کرنے کے لیے کچھ شبہات ذکر کر دو نتیجہ یہ نکلے گا کہ لوگ دین اسلام سے ہی پھر جائیں گے ۔
عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشجِّ رَحِمَہُ اللہُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: سَيَأْتِي قَوْمٌ يُجَادِلُوْنَكُمْ بِشُبُهَاتِ الْقُرْآنِ فَخُذُوْهُمْ بِالسُّنَنِ فَإِنَّ أَصْحَابَ السُّنَنِ أَعْلَمُ بِكِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
جامع بیان العلم وفضلہ، باب ذکر من ذم الاکثار من الحدیث، 1927
ترجمہ: حضرت بکیر بن اشج رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کچھ عرصہ بعد ایک ایسی قوم بھی آنے والی ہے جو قرآنی شبہات )جو انہوں نے از خود پپدا کیے ہوں گے (کے ساتھ تم سے اصولی اور علمی بحث و مباحثہ کے بجائے جاہلانہ طرز اور بے اصولے پن سے جھگڑا کریں گے تو ایسے موقع پر تم سنتوں کے ذریعہ ان کی گرفت کرو ۔ اس لیے کہ سنت کو جاننے اور ماننے والا ہی کتاب اللہ کی مراد کو صحیح سمجھنے کے لائق ہے ۔
امام ابوحنیفہ کی سخت ڈانٹ:
فَكَانَ الِامَامُ اَبُوْحَنِيْفَةَ يَقُوْلُ اِيَّاكُمْ وَالْقَوْلَ فِي دِيْنِ اللهِ تَعَالَى بِالرَّأْيِ عَلَيْكُم بِاتِّبَاع السُّنَةِ فَمَنْ خَرَجَ عَنْهَا ضَلَّ وَدَخَلَ عَلَيْهِ مَرَّةً رَجُلٌ مِّنْ أَهْلِ الْكُوْفَةِ وَالْحَدِيْثُ يُقْرَأ عِنْدَه فَقَالَ الرَّجُلُ دَعَوْنَا مِنْ هَذِهِ الْاَحَادِيث فَزَجَرَه أَبُوحَنِيْفَةَ أَشَدَّ الزَّجْرِ وَقَالَ لَهُ لَوْلَا السُّنَةُ مَا فَهِمَ اَحَدٌ مِّنَا الْقرَانَ۔
المستخرج علی المستدرک، فصل طالب العلم
ترجمہ: امام اعظم نعمان بن ثابت ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :دین میں )غیر اجتہادی (رائے مت دو بلکہ سنت ہی کی پیروی کرو اس لیے کہ جو شخص اتباع سنت نہیں کرے گا وہ گمراہ ہو جائے گا ۔ ایک مرتبہ آپ حدیث مبارک کا درس دے رہے تھے کہ اسی دوران ایک کوفی شخص آیا اور اس نے کہا : ہمارے سامنے یہ حدیثیں بیان نہ کرو ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اس کی یہ بات سنی تو اسے خوب ڈانٹ پلائی اور فرمایا کہ اگر سنت نہ ہوتی تو ہم سے کوئی شخص بھی قرآن کریم کو نہ سمجھ سکتا ۔
امام شافعی کی اصولی بات:
جَمِيعُ مَا تَقُولُهُ الْأَئِمَّةُ شَرْحٌ لِلسُّنَّةِ وَجَمِيعُ السُّنَّةِ شَرْحٌ لِلْقُرْآنِ۔
مرقاہ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ
ترجمہ: دین کی ہر ایسی بات جو ائمہ کرام )اپنے اجتہاد سے( فرماتے ہیں وہ سنت ہی کی ایک تشریح ہوتی ہے اور خود سنت قرآن کریم کی تشریح کانام ہے ۔
تیسری تفسیر:
الفقہ فی الدین۔
حکمت کی تیسری تفسیر یہ ہے کہ اس سے مراد فقہ ہے۔ ایمان کے بعد سب سے بڑی دولت فہم ہے اور پھر جب فہم بھی دین کا ہو تو اس کا درجہ کہیں زیادہ ہو جائے گا اس سے معلوم ہوا کہ فقہاء کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین ہیں کیونکہ فقہ بھی مقصد بعثت نبوت میں شامل ہے۔
فقہ اور فقہاء کی عظمت:
یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں یہ بات ارشاد فرمائی گئی کہ چند لوگوں کی ایک جماعت تم میں ایسی ہونی چاہیے جو دین کی فقہ میں مصروف عمل رہے ۔ تاکہ باقی لوگوں کو دینی احکامات سے صحیح طور پر آگاہ کر سکے۔ مزید یہ کہ قرآن کریم ہی میں اولی الامر جس کا ایک معنیٰ فقہاء کا کیا گیا ہے ان کی اطاعت کو لازمی قرار دیا گیا ہے ۔ احادیث مبارکہ میں بکثرت ایسی روایات موجود ہیں جن سے فقہاء کی عظمت بیان کی گئی ہے اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ فقہاء کی عظمت کی وجہ یہی فقہ ہے ۔
چوتھی تفسیر:
ماتُکْمَلُ بہ النفوس۔
حکمت کی چوتھی تفسیر یہ ہے کہ اس سے مراد وہ علوم ہیں جن کی وجہ سے انسانوں کے نفس اللہ والے بن جائیں ۔ انسانوں کے نفس کب اللہ والے بنیں گے جب اللہ کے احکام کو عظمت کے ساتھ بیان کیا جائے تاکہ اللہ کی معرفت اور پہچان حاصل ہو اور جس وقت معرفت مل جاتی ہے تو اس سے محبت پیدا ہوتی ہے اسی محبت کا اثر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسان اپنے رب کا فرمان بردار بن جاتا ہے ۔ معلوم ہوا کہ احکام دین کو سلیقہ مندی سے بیان کرنا یہ حکمت ہے پھر اللہ کے رسول سے بڑھ کر بھلا کون سلیقہ مند ہو سکتا ہے ۔
موقع شناسی اور سلیقہ مندی:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ فِي الْمَسْجِدِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَقَامَ يَبُولُ فِي الْمَسْجِدِ فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَهْ مَهْ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُزْرِمُوهُ دَعُوهُ فَتَرَكُوهُ حَتَّى بَالَ ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَاهُ فَقَالَ لَهُ إِنَّ هَذِهِ الْمَسَاجِدَ لَا تَصْلُحُ لِشَيْءٍ مِنْ هَذَا الْبَوْلِ وَلَا الْقَذَرِ إِنَّمَا هِيَ لِذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَالصَّلَاةِ وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ
صحیح مسلم ، باب وجوب غسل البول وغیرہ من النجاسات، الرقم: 429
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں موجود تھے ایک دیہاتی شخص آیا اور وہ مسجد میں کھڑے ہو کر پیشاب کر نے لگا ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے روکا کہ ایسا مت کرو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے مت روکو بلکہ اپنی حالت پر چھوڑ دو صحابہ کرام نے اسے اسی حالت پر چھوڑ دیا وہ پیشاب کر کے فارغ ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلایا اور فرمایا کہ یہ مسجدیں پیشاب اور گندگی پھیلانے کی جگہیں نہیں ہیں بلکہ یہ تو اس لیے ہیں کہ اس میں اللہ کا ذکر کیا جائے ، نمازیں ادا کی جائیں اور قرآن کریم کی تلاوت کی جائے۔
پانچویں تفسیر:
وضع الشئی فی محالہا۔
حکمت کی پانچویں تفسیر یہ ہے کہ ہر چیز کے بارے میں اس کی اہمیت اور حیثیت کے مطابق معاملہ کرو۔ انسان اپنے پورے بدن کے ایک ایک جزو کو وہاں استعمال کرے جہاں استعمال کرنے کی شرعا اجازت ہے اور جو چیزیں شرعا حرام ہیں اس جگہ استعمال کیا گیا تو یہ درست نہیں، حکمت کے خلاف ہے ۔ بلکہ ظلم میں شامل ہے کیونکہ اہل علم نے ظلم کی تعریف یہی کی ہے : وضع الشئی فی غیر محلہ مثلاً :زبان کو تلاوت ، ذکر ، درود ، نعت ،اور باہمی خوش کلامی میں حسن آداب کے ساتھ استعمال کرنا حکمت ہے جبکہ اسی زبان کو گالی ، غیبت ، چغلی ، بہتان اور دیگر گناہوں میں استعمال کرنا ظلم ہے ۔اسی طرح دیگر تمام امور ہیں اگر ان کو شریعت کے مطابق بجا لایا جائے تو حکمت اور اگر شریعت سے ہٹ کر کیا جائے تو ظلم بن جاتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں مقاصد نبوت کو سمجھنے اور ان سے رہنمائی لینے کی توفیق نصیب فرمائے ۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمدالیاس گھمن
خانقاہ حنفیہ، مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا
جمعرات ،7 نومبر ، 2019ء

<div class="mainheading">تعلیم کتاب و حکمت</div>

 

 

<div class="text">اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سب سے قیمتی اور انمول خزانہ اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود مسعود ہے ۔اس امت کی خوش قسمتی کے کیا کہنے کہ اللہ کریم نے اسے اپنا محب اورمحبوب عطا فرمایااور اس بلند مرتبہ ذات کے فیوضات و برکات کو وقت کی قیودات سے بالاترقرار دیتے ہوئے ہمیشہ کےلیے عام تام فرمادیا۔ </div>

<div class="subheading">برکت ،ہدایت اور نجات:</div>

<div class="text">گویا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت جہاں ہمارے لیے برکت کا باعث ہے وہاں پر ہماری ہدایت کا ذریعہ بھی ہے اور نجات کا سامان بھی۔ </div>

<div class="subheading">تیسرا مقصد؛تعلیم کتاب:</div>

<div class="btext">لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ إِذْ بَعَثَ فِيْهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُوْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلَالٍ مُّبِيْنٍ۔</div>

<div class="reference">سورۃ آل عمران ، رقم الآیۃ: 164</div>

<div class="text">ترجمہ:            یقیناًہم نے ایمان والوں پر بہت بڑا احسان کیا کہ ان کے اندر انہی میں سے ایک رسول کو بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیات )قرآن کریم(کی تلاوت کرے، ان کی نیتوں میں اخلاص اور اخلاق میں پاکیزگی کے فرائض انجام دے، انہیں کتاب )قرآن کریم(اور حکمت سکھلائے۔یقیناً  اس احسان عظیم سے پہلے یہ لوگ کھلی گمراہی میں مبتلا تھے ۔ </div>

<div class="subheading">قرآن سیکھنے سکھانے والے:</div>

<div class="text">اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد میں یہ بات بھی ذکر فرمائی ہے کہ میرا پیغمبر تمہیں کتاب اللہ کی تعلیم دے گا ۔ اس لیے پوری دنیا میں بسنے والا وہ طبقہ جو قرآن کریم کے سیکھنے سکھانے میں مصروف عمل ہے وہ انتہائی خوش قسمت ہے کہ انہوں نے مقصدِ بعثت نبوت کو ابھی تک زندہ رکھا ہوا ہے اور ایسا عظیم الشان مقام ہے کہ اس مقام پر سب سے اوپر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں  پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  اور اخلاص کی بدولت درجہ بدرجہ اس امت کے خوش قسمت انسان ہیں۔ </div>

<div class="btext">عَنْ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهٗ.</div>

<div class="reference">صحیح البخاری، باب خيركم من تعلم القرآن وعلمہ، الرقم: 5027</div>

<div class="text">ترجمہ:            حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں زیادہ بہتر شخص وہ ہے جو خودقرآن کریم سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔</div>

<div class="subheading">امت کا بہترین طبقہ:</div>

<div class="text">قرآن سیکھنے سکھانے والوں کو تو اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کا بہترین طبقہ قرار دے رہے ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ خود پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اسی لشکر کے سالار کے طور پر سب سے آگے آگے ہیں ۔ جسے یہ یقین حاصل ہو جائے کہ میں نبی کے نقش قدم پر چل رہا ہوں اللہ کے نازل کردہ کلام کو سیکھ اور سکھا رہا ہوں بلکہ مخلوق کو خالق کا پیغام یاد کرا رہا ہوں بھلا ایسے شخص کو دنیاداروں کے طعن کے نشتر کہاں تکلیف دیتے ہیں ؟ بلکہ ان کے سہنے میں تو قدرت نے مزہ رکھا ہے ۔ </div>

<div class="subheading">چوتھا مقصد؛تعلیم حکمت:</div>

<div class="text">مفتی بغداد علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے والحکمۃ کی پانچ تفسیریں نقل کی ہیں ۔ </div>

<div class="subheading">پہلی تفسیر:</div>

<div class="text"><div class="inlinearabic"> حقائق الکتاب ودقائقہ۔ </div> حکمت کی پہلی تفسیر یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کتاب اللہ کے حقائق و معارف اور اسرار و حکمتوں کو سکھلائیں گے ۔ </div>

<div class="btext">عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمْ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنْ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنْ الْفَجْرِ قَالَ لَهُ عَدِيٌّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَجْعَلُ تَحْتَ وِسَادَتِي عِقَالَيْنِ عِقَالًا أَبْيَضَ وَعِقَالًا أَسْوَدَ أَعْرِفُ اللَّيْلَ مِنْ النَّهَارِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ وِسَادَتَكَ لَعَرِيضٌ إِنَّمَا هُوَ سَوَادُ اللَّيْلِ وَبَيَاضُ النَّهَارِ•</div>

<div class="reference">صحیح مسلم،باب بيان ان الدخول فی الصوم يحصل بطلوع الفجر</div>

<div class="text">ترجمہ: حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب قرآن کی یہ آیت اتری: ح<div class="inlinearabic">َتَّی یَتَبَیَّنَ لَکُمْ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ</div> </div>

<div class="text">( رمضان میں کھایا پیا کروجب تک کہ سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے جدا نہ ہو) تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میں نے اونٹ کی ایک سیاہ اور دوسری سفید  رسی اپنے تکیے کے نیچے رکھی تاکہ اس کے ذریعے رات اور دن میں امتیاز کر لوں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپ کا تکیہ تو بہت لمبا چوڑا ہے۔ (یعنی اے میرے صحابی آپ نے سمجھا نہیں، قرآن کا مطلب سیاہ اور سفید ڈورے سے رات کی سیاہی اور دن کی سفیدی ہے)</div>

<div class="subheading">دوسری تفسیر:</div>

<div class="text"><div class="inlinearabic"> طریق السنۃ۔  </div> حکمت کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ اس سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ۔ </div>

<div class="subheading"> فہم کتاب اللہ اور سنت:</div>

<div class="text">جتنی کتاب اللہ کو سمجھنے کے لیے سنت کی ضرورت پڑتی ہے اتنی سنت کو سمجھنے کے لیے کتاب کی ضرورت نہیں پڑتی۔</div>

<div class="btext">قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ رَحِمَہُ اللہُ اَلْكِتَابُ أَحْوَجُ إِلَى السُّنَّةِ مِنَ السُّنَّةِ إِلَى الْكِتَابِ۔ </div>

<div class="reference">جامع بیان العلم وفضلہ، باب موضع السنۃ من الکتاب وبیانہا، 2351</div>

<div class="text">ترجمہ:            امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کتاب )قرآن کریم ( کے مفہوم اور مراد کی وضاحت کے لیے سنت کی  زیادہ ضرورت پیش آتی ہے جبکہ سنت کے مفہوم کو سمجھنے اور سنت کی مراد تک رسائی کے لیے کتاب کی اتنی ضرورت پیش نہیں آتی۔</div>

<div class="btext">وَأَنْزَلْنَآ إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ.</div>

<div class="reference">سورۃ النحل، رقم الآیۃ: 44</div>

<div class="text">ترجمہ:            ہم نے آپ پرقرآن نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے سامنے وہ باتیں وضاحت سے بیان فرما دیں جو ان کی طرف نازل کی گئی ہیں۔</div>

<div class="subheading">شبہات دور کرنے کا ذریعہ:</div>

<div class="text">بعض لوگ قرآن کریم کی آیات پڑھ کر لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں جیسا کہ وہ طبقہ جو خود کو” اہل قرآن“  کہتا ہے اور قرآن کریم کی وضاحت کرنے والی چیز ”سنت رسول “ کا انکار کرتا ہے ۔ یا اسی طرح وہ لوگ جو دین اسلام کی بنیادیں ہلانے کی کوشش میں سرگرم ہیں ان کا سارا زور اسی بات پر ہے کہ پہلے لوگوں کو صرف اور صرف قرآن تک لے آؤ جب لوگ صرف قرآن تک محدود ہو جائیں اور سنت رسول سے ہاتھ دھو بیٹھیں اب ان کو قرآن سے بھی دور کرنے کے لیے کچھ شبہات ذکر کر دو نتیجہ یہ نکلے گا کہ لوگ دین اسلام سے ہی پھر جائیں گے ۔ </div>

<div class="btext">عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشجِّ رَحِمَہُ اللہُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: سَيَأْتِي قَوْمٌ يُجَادِلُوْنَكُمْ بِشُبُهَاتِ الْقُرْآنِ فَخُذُوْهُمْ بِالسُّنَنِ فَإِنَّ أَصْحَابَ السُّنَنِ أَعْلَمُ بِكِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ</div>

<div class="reference">جامع بیان العلم وفضلہ، باب ذکر من ذم الاکثار من الحدیث، 1927</div>

<div class="text">ترجمہ:            حضرت بکیر بن اشج رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کچھ عرصہ  بعد ایک ایسی قوم بھی آنے والی ہے جو قرآنی شبہات )جو انہوں نے از خود پپدا کیے ہوں گے (کے ساتھ تم سے اصولی اور علمی بحث و مباحثہ کے بجائے جاہلانہ طرز اور بے اصولے پن سے جھگڑا کریں گے تو ایسے موقع پر تم سنتوں کے ذریعہ ان کی گرفت کرو ۔ اس لیے کہ سنت کو جاننے اور ماننے والا ہی کتاب اللہ کی مراد کو صحیح سمجھنے کے لائق ہے ۔ </div>

<div class="subheading">امام ابوحنیفہ کی سخت ڈانٹ:</div>

<div class="btext">فَكَانَ الِامَامُ اَبُوْحَنِيْفَةَ يَقُوْلُ اِيَّاكُمْ وَالْقَوْلَ فِي دِيْنِ اللهِ تَعَالَى بِالرَّأْيِ عَلَيْكُم بِاتِّبَاع السُّنَةِ فَمَنْ خَرَجَ عَنْهَا ضَلَّ وَدَخَلَ عَلَيْهِ مَرَّةً رَجُلٌ مِّنْ أَهْلِ الْكُوْفَةِ وَالْحَدِيْثُ يُقْرَأ عِنْدَه فَقَالَ الرَّجُلُ دَعَوْنَا مِنْ هَذِهِ الْاَحَادِيث فَزَجَرَه أَبُوحَنِيْفَةَ أَشَدَّ الزَّجْرِ وَقَالَ لَهُ لَوْلَا السُّنَةُ مَا فَهِمَ اَحَدٌ مِّنَا الْقرَانَ۔</div>

<div class="reference">المستخرج علی المستدرک، فصل طالب العلم </div>

<div class="text">ترجمہ:            امام اعظم نعمان بن ثابت ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :دین میں )غیر اجتہادی (رائے مت دو بلکہ سنت  ہی کی پیروی کرو اس لیے کہ جو شخص اتباع سنت نہیں کرے گا وہ گمراہ ہو جائے گا ۔ ایک مرتبہ آپ حدیث مبارک کا درس دے رہے تھے کہ اسی دوران  ایک کوفی شخص آیا اور اس نے کہا : ہمارے سامنے یہ حدیثیں بیان نہ کرو ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اس کی یہ بات سنی تو اسے خوب ڈانٹ پلائی اور فرمایا کہ اگر سنت نہ ہوتی تو ہم سے کوئی شخص بھی قرآن کریم کو نہ سمجھ سکتا ۔ </div>

<div class="subheading">امام شافعی کی اصولی بات:</div>

<div class="btext">جَمِيعُ مَا تَقُولُهُ الْأَئِمَّةُ شَرْحٌ لِلسُّنَّةِ وَجَمِيعُ السُّنَّةِ شَرْحٌ لِلْقُرْآنِ۔</div>

<div class="reference">مرقاہ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ</div>

<div class="text">ترجمہ:            دین کی ہر ایسی بات جو ائمہ کرام )اپنے اجتہاد سے( فرماتے ہیں وہ سنت ہی کی ایک تشریح ہوتی ہے اور خود سنت قرآن کریم کی تشریح کانام ہے ۔</div>

<div class="subheading">تیسری تفسیر:</div>

<div class="text"> <div class="inlinearabic"> الفقہ فی الدین۔ </div>حکمت کی تیسری تفسیر یہ ہے کہ اس سے مراد فقہ ہے۔ ایمان کے بعد سب سے بڑی دولت فہم ہے اور پھر جب فہم بھی دین کا ہو تو اس کا درجہ کہیں زیادہ ہو جائے گا اس سے معلوم ہوا کہ فقہاء کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین ہیں کیونکہ فقہ بھی مقصد بعثت نبوت میں شامل ہے۔</div>

<div class="subheading">فقہ اور فقہاء کی عظمت:</div>

<div class="text"> یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں یہ بات ارشاد فرمائی گئی کہ چند لوگوں کی ایک جماعت تم میں ایسی ہونی چاہیے جو دین کی فقہ میں مصروف عمل رہے ۔ تاکہ باقی لوگوں کو دینی احکامات سے صحیح طور پر آگاہ کر سکے۔ مزید یہ کہ قرآن کریم ہی میں اولی الامر جس کا ایک معنیٰ فقہاء کا کیا گیا ہے ان کی اطاعت کو لازمی قرار دیا گیا ہے ۔ احادیث مبارکہ میں بکثرت ایسی روایات موجود ہیں جن سے فقہاء کی عظمت بیان کی گئی ہے اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ فقہاء کی عظمت کی وجہ یہی فقہ ہے ۔ </div>

<div class="subheading">چوتھی تفسیر:</div>

<div class="text"><div class="inlinearabic"> ماتُکْمَلُ بہ النفوس۔ </div> حکمت کی چوتھی تفسیر یہ ہے کہ اس سے مراد وہ علوم ہیں جن کی وجہ سے انسانوں کے نفس اللہ والے بن جائیں ۔ انسانوں کے نفس کب اللہ والے بنیں گے جب اللہ کے احکام کو عظمت کے ساتھ بیان کیا جائے تاکہ اللہ کی معرفت اور پہچان حاصل ہو  اور جس وقت معرفت مل جاتی ہے تو اس سے محبت پیدا ہوتی ہے اسی محبت کا اثر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسان اپنے رب کا فرمان بردار بن جاتا ہے ۔ معلوم ہوا کہ احکام دین کو سلیقہ مندی سے بیان کرنا یہ حکمت ہے پھر اللہ کے رسول سے بڑھ کر بھلا کون سلیقہ مند ہو سکتا ہے ۔ </div>

<div class="subheading">موقع شناسی اور سلیقہ مندی:</div>

<div class="btext">عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ فِي الْمَسْجِدِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَقَامَ يَبُولُ فِي الْمَسْجِدِ فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَهْ مَهْ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُزْرِمُوهُ دَعُوهُ فَتَرَكُوهُ حَتَّى بَالَ ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَاهُ فَقَالَ لَهُ إِنَّ هَذِهِ الْمَسَاجِدَ لَا تَصْلُحُ لِشَيْءٍ مِنْ هَذَا الْبَوْلِ وَلَا الْقَذَرِ إِنَّمَا هِيَ لِذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَالصَّلَاةِ وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ </div>

<div class="reference">صحیح مسلم ، باب وجوب غسل البول وغیرہ من النجاسات، الرقم: 429</div>

<div class="text">ترجمہ:            حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں موجود تھے ایک دیہاتی شخص آیا اور وہ مسجد میں کھڑے ہو کر پیشاب کر نے لگا ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے روکا کہ ایسا مت کرو  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے مت روکو بلکہ اپنی حالت پر چھوڑ دو صحابہ کرام نے اسے اسی حالت پر چھوڑ دیا وہ پیشاب کر کے فارغ ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلایا اور فرمایا کہ یہ مسجدیں پیشاب اور گندگی پھیلانے کی جگہیں نہیں ہیں بلکہ یہ تو اس لیے ہیں کہ اس میں اللہ کا ذکر کیا جائے ، نمازیں ادا کی جائیں اور قرآن کریم کی تلاوت کی جائے۔  </div>

<div class="subheading">پانچویں تفسیر:</div>

<div class="text"><div class="inlinearabic"> وضع الشئی فی محالہا۔ </div> حکمت کی پانچویں تفسیر یہ ہے کہ ہر چیز کے بارے میں اس کی اہمیت اور حیثیت کے مطابق معاملہ کرو۔ انسان اپنے پورے بدن کے ایک ایک جزو کو وہاں استعمال کرے جہاں استعمال کرنے کی شرعا اجازت ہے اور جو چیزیں شرعا حرام ہیں اس جگہ استعمال کیا گیا تو یہ درست نہیں، حکمت کے خلاف ہے ۔ بلکہ ظلم میں شامل ہے کیونکہ اہل علم نے ظلم کی تعریف یہی کی ہے : وضع الشئی فی غیر محلہ مثلاً :زبان کو تلاوت ، ذکر ، درود ، نعت ،اور باہمی خوش کلامی میں حسن آداب کے ساتھ استعمال کرنا حکمت ہے جبکہ اسی زبان کو گالی ، غیبت ، چغلی ، بہتان اور دیگر گناہوں میں استعمال کرنا ظلم ہے ۔اسی طرح دیگر تمام امور ہیں اگر ان کو شریعت کے مطابق بجا لایا جائے تو حکمت اور اگر شریعت سے ہٹ کر کیا جائے تو ظلم بن جاتے ہیں ۔ </div>

<div class="text">اللہ تعالیٰ ہمیں مقاصد نبوت کو سمجھنے اور ان سے رہنمائی لینے کی توفیق نصیب فرمائے ۔<div class="inlinearabic"> آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم</div> </div>

 

 

<div class="text"> والسلام</div>

 

<div class="text">محمدالیاس گھمن </div>

<div class="text">خانقاہ حنفیہ، مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا </div>

<div class="text">جمعرات ،7 نومبر ، 2019ء
</
div>