سورۃ الذٰریات

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ الذٰریات
بِسۡمِ اللہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
﴿وَالذّٰرِیٰتِ ذَرۡوًا ۙ﴿۱﴾ فَالۡحٰمِلٰتِ وِقۡرًا ۙ﴿۲﴾ فَالۡجٰرِیٰتِ یُسۡرًا ۙ﴿۳﴾ فَالۡمُقَسِّمٰتِ اَمۡرًا ۙ﴿۴﴾﴾
تین قسم کی مخلوق کی قسم:
اللہ رب العزت نے اس سورت کے شروع میں تین قسم کی مخلوقات کی قسمیں کھائی ہیں: ایک مخلوق ہے ارضی، ایک مخلوق ہے فضائی اور ایک مخلوق ہے سماوی۔ فرمایا:
﴿وَالذّٰرِیٰتِ ذَرۡوًا ۙ﴿۱﴾ فَالۡحٰمِلٰتِ وِقۡرًا ۙ﴿۲﴾ فَالۡجٰرِیٰتِ یُسۡرًا ۙ﴿۳﴾ فَالۡمُقَسِّمٰتِ اَمۡرًا ۙ﴿۴﴾﴾
قسم ہے ان ہواؤں کی جو گر د وغبار کو اڑاتی ہیں، اور پھر ان بادلوں کی جو بوجھ اٹھاتے ہیں اور پھر ان کشتیوں کی جو آسانی سے چلتی ہیں اور فرشتوں کی جو اللہ کے حکم سے چیزیں تقسیم کرتے ہیں۔
فرشتے یہ سماوی مخلوق ہیں۔ ہوائیں اور کشتیاں یہ ارضی مخلوق ہیں اور درمیان میں بادل یہ فضائی مخلوق ہیں۔ تو اللہ نے ان تینوں کی قسم کھائی ہے۔ پھر فرمایا:
﴿اِنَّمَا تُوۡعَدُوۡنَ لَصَادِقٌ ۙ﴿۵﴾ وَّ اِنَّ الدِّیۡنَ لَوَاقِعٌ ؕ﴿۶﴾﴾
اور جو وعدہ تمہارے ساتھ ہے وہ سچاہے، اور جزا اور سزا کا دن یہ واقع ہو کر رہنا ہے۔
آسمان کی خوبصورتی:
﴿وَ السَّمَآءِ ذَاتِ الۡحُبُکِ ۙ﴿۷﴾﴾
پھر آسمان کی قسم کھائی۔ یہاں
”حُبُکِ“
یہ جمع ہے
”حبیکہ “
کی۔
حبیکہ
ان دھاریوں کو کہتے ہیں جو کپڑے میں بن جاتی ہیں، راستے بھی چونکہ دھاریوں کی طرح سیدھے ہوتےہیں اس لیے راستوں کو بھی
”حُبُکِ“
کہہ دیتے ہیں۔ اس لیے بعض نے یہ ترجمہ کیا ہے کہ قسم ہے آسمان کی جو راستوں والا ہے۔ راستوں سے وہ راستے مراد ہو سکتے ہیں جن میں ملائکہ چلتے ہیں۔
اور ایک کپڑے میں کئی دھاریا ں ہوں تو اس سے کپڑا خوبصورت بن جاتا ہے۔ اس لیے بعض نے یہ ترجمہ کیا ہے کہ قسم ہے آسمان کی جو خوبصورت اور حسن و زینت والا ہے، کیونکہ اس میں جب راستے ہوں گے تو خوب صورت بنے گا۔
تردیدِ منکرین:
﴿اِنَّکُمۡ لَفِیۡ قَوۡلٍ مُّخۡتَلِفٍ ۙ﴿۸﴾﴾
یہ مضمونِ قسم ہے کہ تم لوگ مختلف اور متضاد باتوں میں پڑ گئے ہو!
﴿یُّؤۡفَکُ عَنۡہُ مَنۡ اُفِکَ ﴿ؕ۹﴾﴾
اس قیامت سے یا اس قرآن سے وہی شخص محروم ہوتا ہے جس کے مقدر میں محروم ہونا لکھا ہے۔دلائل موجود ہیں تو آدمی کو مان لینا چاہیے لیکن جس کی قسمت میں محرومی ہو وہ محروم ہو کر رہے گا۔
﴿قُتِلَ الۡخَرّٰصُوۡنَ ﴿ۙ۱۰﴾﴾
تباہ ہو جائیں وہ لوگ جو اٹکل کی باتیں کرتے ہیں، ظن اور گمان سے چلتے ہیں۔
﴿الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ غَمۡرَۃٍ سَاہُوۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾ یَسۡـَٔلُوۡنَ اَیَّانَ یَوۡمُ الدِّیۡنِ ﴿ؕ۱۲﴾﴾
جو ایسی غفلت اور بے خبری میں پڑے ہوئے ہیں کہ سب بھول گئے ہیں۔ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ قیامت کا دن کب ہو گا؟
﴿یَوۡمَ ہُمۡ عَلَی النَّارِ یُفۡتَنُوۡنَ ﴿۱۳﴾﴾
فرمایا کہ ان کو بتاؤ کہ جب تمہیں آگ پر تپایا جائے گا تو وہ دن قیامت کا ہو گا۔
تو دن متعین نہیں کیا بلکہ ان کی تہدید اور عذاب ان کو سنا دیا گیا۔ جیسے کوئی شخص سزائے موت کا قیدی ہو اور اس کو پتا تو ہے کہ سزا ہونی ہے۔ وہ مذاق میں کہتا ہے کہ کب ہے ہماری تاریخ؟ کب پھانسی چڑھیں گے؟ تو اس کو بتایا جائے کہ جب تم سولی پہ چڑھو گے تو وہی تمہارا دن ہے سزاکا۔ تو تعیین نہیں بتائی جا رہی دن کی بلکہ سزا بتائی جا رہی ہے۔
﴿ذُوۡقُوۡا فِتۡنَتَکُمۡ ؕ ہٰذَا الَّذِیۡ کُنۡتُمۡ بِہٖ تَسۡتَعۡجِلُوۡنَ ﴿۱۴﴾﴾
قیامت کے دن کہا جائے گا کہ اپنے کرتوتوں کے مزے اب چکھو، یہی وہ عذاب ہے جس کو تم جلدی مانگتے تھے۔
متقین کا انعام:
﴿اِنَّ الۡمُتَّقِیۡنَ فِیۡ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوۡنٍ ﴿ۙ۱۵﴾﴾
متقین کے بارے میں فرمایا کہ بے شک متقین باغات میں ہوں گے اور چشموں میں ہوں گے۔
﴿اٰخِذِیۡنَ مَاۤ اٰتٰہُمۡ رَبُّہُمۡ ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا قَبۡلَ ذٰلِکَ مُحۡسِنِیۡنَ ﴿ؕ۱۶﴾﴾
جو نعمتیں ان کا پروردگار ان کو دے گا وہ اس کو لے رہے ہوں گے، یہ متقین اس سے پہلے دنیا میں نیکیاں کرتے تھے۔
رات کے قیام کی فضیلت:
﴿کَانُوۡا قَلِیۡلًا مِّنَ الَّیۡلِ مَا یَہۡجَعُوۡنَ ﴿۱۷﴾ وَ بِالۡاَسۡحَارِ ہُمۡ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ ﴿۱۸﴾﴾
وہ رات کو بہت کم سوتے تھے اور سحری کے وقت اٹھ کر پھر اللہ سے استغفار بھی کرتے تھے کہ شاید ہم آپ کی عبادت نہیں کر سکے۔
یہ جو
﴿کَانُوۡا قَلِیۡلًا مِّنَ الَّیۡلِ مَا یَہۡجَعُوۡنَ﴾
ہے اس میں لفظ
”یَہۡجَعُوۡنَ“
یہ ہجوع سے بنا ہے جس کا معنی ہے رات کو سونا۔ اس سے پہلے جو ”مَا“ ہے اس میں دو احتمال ہیں:
[1]: اگر
”مَا“
کو موصولہ بنائیں تو معنی یہ ہو گا کہ ”وہ رات کو بہت کم سوتے تھے۔“ یعنی جاگتے زیادہ تھے۔
[2]: اور اگر
”مَا“
کو نافیہ بنائیں تو معنی ہو گا کہ ”وہ بہت کم بیدار ہوتے تھے۔“ یعنی رات کا زیادہ حصہ سوتے تھے اور بہت کم حصہ جاگ کر گزارتے تھے۔
اب ترجمے دونوں ٹھیک ہیں۔
”مَا“
موصولہ بنائیں یا نافیہ بنائیں۔
حضرت حسن بصری، حافظ ابن جریر طبری اور بہت سے مفسرین نے اپنے ذوق پر
”مَا“
کو موصولہ قرار دیا ہے کہ یہ لوگ ایسے تھے جو کم سوتے تھےیعنی جاگتے زیادہ تھے۔ راتوں کو عبادت کرتے تھے، نماز میں مشغول رہتے تھے۔
حضرت ابن عباس، امام قتادہ، امام مجاہد وغیرہ نے”مَا“ کو نافیہ قرار دیا ہے کہ یہ لوگ ایسے تھے جو سوتے زیادہ تھے۔ اس مفہوم کے اعتبار سے اس صفت میں وہ تمام لوگ شامل ہو جاتے ہیں جو رات کے کسی حصہ میں اٹھ کر عبادت کر لیتے ہیں، چاہے شروع رات میں چاہے آخر رات میں، یہ فضیلت سب کو حاصل ہو جاتی ہے۔ جب یہ تفسیر کریں گے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو رات کا کچھ حصہ جاگتے ہیں تو بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو مغرب اور عشاء کے درمیان نماز پڑھتے ہیں۔ بعض مفسرین نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جو لوگ عشاء کی نماز سے پہلے نہیں سوتے وہ بھی اس فضیلت میں شامل ہیں۔
محتاج کی امداد کا حکم:
﴿وَ فِیۡۤ اَمۡوَالِہِمۡ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَ الۡمَحۡرُوۡمِ ﴿۱۹﴾﴾
اور یہ وہ لوگ ہیں جن کے مال میں سوال کرنے والوں اور محروم لوگوں کا حق ہوتا ہے۔
دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں؛ بعض وہ جو محتاج ہوتے ہیں اور مانگتے ہیں، بعض ایسے ہوتے ہیں جو محتاج تو ہوتے ہیں لیکن مانگتے نہیں ہے۔ تو مؤمنین متقین کی صفت یہ ہے کہ اگر محتاج مانگے تو اس کو بھی دیتے ہیں اور جو محتاج ہو اور نہ مانگے تو اس کو بھی دیتے ہیں۔ یہاں لفظ ”محروم“فرمایا کیونکہ بندہ محتاج ہو اور نہ مانگے تو محروم رہ جاتا ہے۔ تو فرمایا کہ متقین وہ لوگ ہیں کہ جو شخص نہ مانگنے کی وجہ سے عام طور پر محروم رہ جاتا ہے یہ اسے بھی دیتےہیں، تو یہ لوگ صرف مانگنے والے کو نہیں دیکھتے بلکہ تلاش کرتے ہیں کہ مستحق کون ہے؟ تو یہ کسی کو بھی ضائع نہیں ہونے دیتے۔
اور لفظ کیسا استعمال کیا
﴿وَ فِیۡۤ اَمۡوَالِہِمۡ حَقٌّ﴾
یہ لوگ صدقات اس طرح دیتے ہیں کہ جیسا ان کے مال میں حق ہے اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اس حق کو ادا کرتے ہیں۔ مطلب کہ یہ لوگ انتظار نہیں کرتے کہ جب کوئی مانگے گا تو پھر دیں گے بلکہ کوئی نہ مانگے اور محتاج ہو تو یہ تب بھی دیتے ہیں۔
﴿وَ فِی الۡاَرۡضِ اٰیٰتٌ لِّلۡمُوۡقِنِیۡنَ ﴿ۙ۲۰﴾﴾
اور جو اللہ کی ذات پر یقین رکھتے ہیں ان کے لیے زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں۔
اب دیکھو! کبھی پانی ہے، کبھی سبزیاں ہیں، کبھی نہریں ہیں.... کتنی چیزیں خدا نے زمین میں پیداکیں۔ بندہ ایک چیز پر غور کرے تو پتا چلتا ہے کہ اس کو پیدا کرنا ہمارے اختیار میں نہیں تھا، اس کو نکالنا ہمارے اختیار میں نہیں تھا لیکن اللہ کی ذات ایسی ہے جو ان چیزوں کو نکالتی ہے۔ یوں ایک قسم کی زمین سے مختلف قسم کی نباتات نکلتی ہیں۔ میں دلائل میں تفصیل بیان نہیں کرتا، میں صرف اشارہ کر رہا ہوں۔
انسان میں قدرت کی نشانیاں:
﴿وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ اَفَلَا تُبۡصِرُوۡنَ ﴿۲۱﴾﴾
اور خود تمہاری ذات میں بھی اللہ کی نشانیاں موجود ہیں۔ تم غور وفکر کیوں نہیں کرتے؟
﴿وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ﴾
کا تعلق پیچھے
﴿وَ فِی الۡاَرۡضِ﴾
کے ساتھ ہے کہ جس طرح زمین میں دلائل موجود ہیں اسی طرح کتنے دلائل ہیں جو خود تمہاری ذات میں موجود ہیں۔ آدمی اپنی ذات کو دیکھ لے کہ آنکھ کتنی چھوٹی سی ہے اور دیکھتی کتنا زیادہ ہے۔ یہ اللہ کریم کے علاوہ کون ہے جو اس کو سنبھالتا ہے؟ ایک چھوٹی سی نعمت کو لے لو تو بندے کو خدا کی ذات پریقین ہوتا ہے۔ دنیا میں چھوٹی سی چیز انسان بناتا ہے تو وہ تھوڑی دیر بعد خراب ہو جاتی ہے لیکن اللہ کی پیدا کردہ چیز کے فوائد بہت زیادہ ہوتے ہیں اور اتنا استعمال ہوتی ہے لیکن تھکتی نہیں ہے، استعمال ہو کر گھستی نہیں ہے، اس کو مزید کسی خوراک کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ اللہ نے عجیب نظام بنایا ہے۔
﴿وَ فِی السَّمَآءِ رِزۡقُکُمۡ وَ مَا تُوۡعَدُوۡنَ ﴿۲۲﴾﴾
آسمان کےا ندر تمہارا رزق ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آسمان میں لوحِ مخفوظ ہے جہاں تمہارا مقدر لکھ دیا گیا ہے۔
﴿وَ مَا تُوۡعَدُوۡنَ﴾ ...
اور جوتمہارے ساتھ وعدہ کیا جاتا ہے کہ آئندہ جنت بھی ملے گی، یہ سب آسمان میں لکھا ہوا ہے۔
قیامت کا وقوع یقینی ہے:
﴿فَوَ رَبِّ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ اِنَّہٗ لَحَقٌّ مِّثۡلَ مَاۤ اَنَّکُمۡ تَنۡطِقُوۡنَ ﴿٪۲۳﴾﴾
قسم ہے آسمان اور زمین کی کہ قیامت ایسے ہی برحق اور سچی ہے جیسے تم آپس میں باتیں کرتے ہو! یعنی جس طرح تمہیں اپنی گفتگو پر یقین ہے کہ تم بول رہے ہو اسی طرح یہ بات یقینی ہے کہ قیامت نے آ کر رہنا ہے۔
ابراہیم علیہ السلام کا قصہ:
﴿ہَلۡ اَتٰىکَ حَدِیۡثُ ضَیۡفِ اِبۡرٰہِیۡمَ الۡمُکۡرَمِیۡنَ ﴿ۘ۲۴﴾﴾
کیا آپ کے پاس ابراہیم علیہ السلام کے مہمانوں کا قصہ نہیں پہنچا جو بہت عزت والے تھے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتے آئے۔
﴿الۡمُکۡرَمِیۡنَ﴾
سے مراد فرشتے ہیں اور فرشتے ہوتے ہی معزز ہیں یا یہ کہ ابراہیم علیہ السلام نے ان کا اکرام کیا تھا اس لیے انہیں معزز کہا گیا ہے۔
مہمان کا اکرام کیسے کیا جائے؟
یہاں مہمان کے حوالے سے چند ایک باتیں ذہن نشین فرما لیں۔ مہمان مہمان ہوتا ہے بڑا ہو یا چھوٹا ہو، مسلمان ہو یا کافر ہو، اھل السنۃ ہو یا اھل بدعت ہو، مہمان کا اکرام مہمان سمجھ کر کرنا چاہیے۔ حدیث مبارک میں ہے:
مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ.
السنن الکبریٰ للبیہقی: ج8 ص164 رقم 17106
جو شخص اللہ اور آخر کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اپنی مہمان کا اکرام کرے۔
تو مہمان میں تخصیص نہیں ہوتی۔ ہاں یہ بات الگ ہے کہ آنے والا آپ کا رشتہ دار ہے تو اس کی نوعیت الگ ہو گی، آنے والا صاحبِ علم ہے تو نوعیت الگ ہو گی لیکن مہمان بحیثیتِ مہمان اس کی حیثیت الگ ہوتی ہے، اس کا تعلق مفادات سے نہیں ہے۔ میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اگر ہم شریعت کا حکم سمجھتے ہو ئے اپنے مہمان کا اکرام کریں گے تو اللہ راضی ہو گا، اجر ملے گا اور اگر ہم اپنی ذاتی غرض کے لیے اس کی عزت واکرام کریں گے تو اللہ ناراض ہو گا اور عذاب بھی ہو گا۔ اس لیے نیت ٹھیک کرنا بہت ضروری ہے۔
1: ایک تو معمول بنا لیں کہ مہمان کا اکرام کرنا ہے چاہے وہ چھوٹا ہے یا بڑا۔
2: دو سرا کوشش یہ کریں کہ مہمان کا اکرام گھر سے کریں، گھر والوں کا مزاج بنائیں، گھر والوں کو شریک کریں، گھر والوں کو ساتھ چلائیں اور ان کو یہ بات سمجھائیں کہ مہمان کے آنے پر اللہ کتنے خوش ہوتے ہیں !
3: تیسرا یہ کوشش کریں کہ مہمان کی پسند کا کھانا ہو۔ اس سے پوچھ لینےمیں کوئی حرج نہیں ہے۔ مہمان بسا اوقات نہیں بتاتا تو جو میسر ہے وہ لے کر آ جائیں۔
4: چوتھا یہ کہ اگر آپ کھانا لے آئے اور مہمان نہ کھانا چاہے تو مہمان پر کھانے کو مسلط نہ کریں، مہمان کو کھانے کے لیے مجبور نہ کریں اور اس طرح مہمان جب کھانا چاہے اس وقت کھلائیں۔
بہرحال میں گزارش کرتا ہوں کہ مہمان کا اکرام کرنا سیکھیں! بطورِ خاص جس بندے نے دین کا کام کرنا ہے اس کے دستر خوان کو وسیع ہونا بہت ضروری ہے۔ دستر خوان میں وسعت نہ ہو تو کام میں وسعت کبھی نہیں ہو سکتی۔ کام کی وسعت کے لیے دستر خوان کی وسعت بہت ضروری ہے، جتنے اسباب ہیں اتنا انتظام کریں، جس حد تک ممکن ہے اتنا کریں لیکن اپنے دستر خوان کو وسیع رکھنا بہت ضروری ہے۔ اس کے بہت زیادہ فوائد ہیں؛ دنیاوی فوائد بھی ہیں اور اخروی فوائد بھی ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی:
یہاں پر بعض مفسرین نے ابراہیم علیہ السلام سے مہمانی کے آداب لکھے ہیں۔ ایک ادب یہ تھا:
﴿فَرَاغَ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ فَجَآءَ بِعِجۡلٍ سَمِیۡنٍ﴾
”راغ “ ایسے موقع پر استعمال کرتے ہیں کہ جب کوئی بندہ جائے اور کسی کو محسوس نہ ہونے دے کہ چلا گیا ہے۔ اسے ”راغ“ کہتے ہیں۔ ایک ہے ویسے چلا جانا اور ایک ہے چپکے سے چلا جانا۔ تو ابراہیم علیہ السلام نے ان کو بتایا نہیں کہ میں تمہارے لیے کچھ لینے جا رہا ہوں بلکہ مہمان سمجھ کر بغیر بتائے لینے کے لیے چلے گئے۔ ان کا خیال تھا کہ جب مہمان آئے ہیں تو کوئی چیز کھائیں گے نا۔
دوسرا ادب یہ تھا
﴿فَقَرَّبَہٗۤ اِلَیۡہِمۡ ﴾
کہ جب کھانا تیار ہوا تو مہمانوں کو کھانے پر نہیں بلایا گیا بلکہ کھانا مہمانوں کے پاس لے کر گئے، مہمانوں کو تکلیف نہیں دی۔
تیسرا
﴿قَالَ اَلَا تَاۡکُلُوۡنَ﴾
کہ ان کو یہ نہیں کہا کہ آپ کھاؤ بلکہ یہ پوچھا کہ آپ کھاتے کیوں نہیں ہو؟ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ مہمان کے لیے جو کچھ موجود ہو مہیا کر دو اور مہمان کو کھانے پر مجبور نہ کرو کہ ضرور کھائے۔ اس لیے ابراہیم علیہ السلام نے پہلے پوچھا کہ تم کھاتے کیوں نہیں ہو؟ تو یہ مہمانی کے آداب بیان کیے ہیں۔
﴿اِذۡ دَخَلُوۡا عَلَیۡہِ فَقَالُوۡا سَلٰمًا ؕ قَالَ سَلٰمٌ ۚ قَوۡمٌ مُّنۡکَرُوۡنَ ﴿ۚ۲۵﴾﴾
ملائکہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے، سلام کیا، آپ علیہ السلام نے جواب دیا اور ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ یہ اجنبی لوگ ہیں۔
یہ بات آپ نے دل میں کہی یا یہ بھی احتمال ہے کہ ان سے پوچھنے کے لیے زبان سے کہی کہ تم کون لوگ ہو؟ میں نے تمہیں پہچانا نہیں۔
﴿فَرَاغَ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ فَجَآءَ بِعِجۡلٍ سَمِیۡنٍ ﴿ۙ۲۶﴾ فَقَرَّبَہٗۤ اِلَیۡہِمۡ قَالَ اَلَا تَاۡکُلُوۡنَ ﴿۫۲۷﴾﴾
اتنی بات کی اور ابراہیم علیہ السلام گھر چلے گئے اور بھنا ہوا بچھڑا ان کی خدمت میں پیش کیا۔ وہ چونکہ فرشتے تھے اس لیے انہوں کھایا نہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے انہیں کہا کہ آپ کھانا کیوں نہیں کھاتے؟ لیکن انہوں نے نہ کھایا۔
ابراہیم علیہ السلام کا خوف اور فرشتوں کی بشارت:
﴿فَاَوۡجَسَ مِنۡہُمۡ خِیۡفَۃً ؕ قَالُوۡا لَا تَخَفۡ ؕ وَ بَشَّرُوۡہُ بِغُلٰمٍ عَلِیۡمٍ ﴿۲۸﴾﴾
ابراہیم علیہ السلام نے خوف محسوس کیا۔ تو انہوں نے کہا کہ ہم تو ملائکہ ہیں، فرشتےہیں، آپ نہ ڈریں! انہوں نے ابراہیم علیہ السلام کو بشارت دی کہ اللہ آپ کو بیٹا عطا فرمائے گا جو علم والا ہو گا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خوف کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت شرفاء کا معمول یہ ہوتا تھا کہ وہ جب کسی کے ہاں مہمان بنتے تو میزبان سے کچھ نہ کچھ کھا لیا کرتے تھے جو اس بات کی علامت ہوتی کہ اس مہمان سے کوئی خطرہ نہیں لیکن اگر کوئی مہمان نہ کھاتا تو خطرہ ہوتا کہ یہ کہیں کوئی دشمن نہ ہو جو نقصان نہ پہنچا دے۔ اس لیے ابراہیم علیہ السلام نے خوف محسوس کیا۔
﴿فَاَقۡبَلَتِ امۡرَاَتُہٗ فِیۡ صَرَّۃٍ فَصَکَّتۡ وَجۡہَہَا وَ قَالَتۡ عَجُوۡزٌ عَقِیۡمٌ ﴿۲۹﴾ قَالُوۡا کَذٰلِکِ ۙ قَالَ رَبُّکِ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡحَکِیۡمُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۳۰﴾﴾
ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ پردے کے پیچھے تھیں یا قریب تھیں، بات سن رہی تھیں تو ان کو بہت تعجب ہوا انہوں نے اپنی پیشانی پر ہاتھ مارا اور کہا کہ میں بانجھ بھی ہوں اور بوڑھی بھی ہوں تو مجھے اولاد کیسے ہو گی؟ انہوں نے کہا کہ اللہ کا فیصلہ ہے اس لیے اولاد آپ کی ہو کر رہے گی، اللہ حکمت والا بھی ہے، اللہ علم والابھی ہے۔ اللہ جانتا ہے کہ کس کو دینا ہےاور حکمت والےہیں کہ کب دینا ہے؟ اس لیے اللہ کی جیسے حکمت ہوتی ہے ویسے ہی فرماتے ہیں۔
ابراہیم علیہ السلام کی عمر جو مفسرین نے لکھی ہے اس وقت سو سال تھی اور حضرت سارہ کی عمر ننانوے سال تھی۔ تو فرشتوں نے کہا کہ ہم تو آپ کو خوشخبری دیتے ہیں۔
قومِ لوط کی طرف سفر:
﴿قَالَ فَمَا خَطۡبُکُمۡ اَیُّہَا الۡمُرۡسَلُوۡنَ ﴿۳۱﴾ قَالُوۡۤا اِنَّاۤ اُرۡسِلۡنَاۤ اِلٰی قَوۡمٍ مُّجۡرِمِیۡنَ ﴿ۙ۳۲﴾ لِنُرۡسِلَ عَلَیۡہِمۡ حِجَارَۃً مِّنۡ طِیۡنٍ ﴿ۙ۳۳﴾ مُّسَوَّمَۃً عِنۡدَ رَبِّکَ لِلۡمُسۡرِفِیۡنَ ﴿۳۴﴾﴾
پھر ابراہیم علیہ السلام نے ان سے پوچھا کہ تم کہا جا رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں مجرم لوگوں کے پاس بھیجا گیا ہے یعنی ہم لوط علیہ السلام کی بستی کی طرف جا رہے ہیں، تاکہ ان پر ایسے پتھر برسائیں جو پکی مٹی کے بنے ہوتے ہیں جن پر نشان لگے ہوئے ہیں آپ کے رب کے پاس سے۔
اور روایات میں آتا ہے کہ جب پتھر پھینکتے تھے اور بندہ دوڑتا تھا تو پتھر اس کے پیچھے جا کر اس کو لگتا اور تباہ کر دیتا، پھر بعد میں اس کو الٹا کر کے پھینکا گیا تھا۔ تو دو قسم کا عذاب ان پر آیا تھا۔
اب یہاں دیکھیں! آپ کو یاد ہو گا کہ میں نے ایک ضابطہ بیان کیا تھا کہ ”عِنْدَ رَبِّكَ“ یہ قرآنی اصطلاح ہے۔ تمام چیزوں پر حقیقی اور ظاہری حق اللہ تعالیٰ کا ہے لیکن بعض چیزوں پر ظاہری اختیار بھی اللہ اپنے پاس رکھتےہیں اور بسا اوقات ظاہری اختیار بندے کو دے دیتے ہیں۔ جہاں ظاہری اختیار بھی اللہ کے پاس ہوں وہاں نسبت اللہ کی طرف ہوتی ہے اور جہاں ظاہری اختیار بندے کے پاس ہو تو وہاں نسبت بندے کی طر ف ہوتی ہے۔ یہاں
﴿مُّسَوَّمَۃً عِنۡدَ رَبِّکَ﴾
ہے۔ اب ان پتھروں پر جو نشان لگے پڑے ہیں وہ تو ہر کسی کو پتا چل رہا ہے لیکن
﴿عِنۡدَ رَبِّکَ﴾
کیوں فرمایا؟ اس لیے کہ ان پتھروں پر نشانات کا پڑنا اس کے ساتھ بندوں کا کوئی تعلق نہیں ہے، یہ خالص اللہ کا اختیار ہے۔ اس لیے نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی ہے۔
﴿فَاَخۡرَجۡنَا مَنۡ کَانَ فِیۡہَا مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿ۚ۳۵﴾ فَمَا وَجَدۡنَا فِیۡہَا غَیۡرَ بَیۡتٍ مِّنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿ۚ۳۶﴾﴾
اس بستی میں جو بھی ایمان والا تھا ہم نے اس کو وہاں نے نکال لیا۔ ہم نے اس بستی میں ایک گھر کے علاوہ کسی گھر کو مؤمن نہ پایا۔
لوط علیہ السلام کا عجیب معاملہ تھا۔ مسافر نبی ہیں اور کوئی ایک شخص بھی ساتھ کلمہ گو نہیں ہے۔ صرف اپنا ایک گھر تھا۔ بتاؤ! اس پیغمبر کی کتنی حسرت ہو گی! گھر میں بیوی ہے وہ بھی ایمان نہیں لائی۔ جب بستی سے نکلے تو بیوی بھی عذاب میں مبتلا ہو گئی، وہ بھی ساتھ نہیں تھی، کتنی عجیب کیفیت ہو گی حضرت لوط علیہ السلام کی۔ اور جب قوم نے حملہ کرنا چاہا تو لوط علیہ السلام نے فرمایا تھا:
طاقت اور قبیلہ نعمتِ عظمیٰ:
﴿لَوۡ اَنَّ لِیۡ بِکُمۡ قُوَّۃً اَوۡ اٰوِیۡۤ اِلٰی رُکۡنٍ شَدِیۡدٍ ﴿۸۰﴾﴾
سورۃ ھود 11: 80
اے کاش! میرے پاس تمہارے مقابلے میں طاقت ہوتی، اے کاش! میں کسی مضبوط سہارے کی پناہ لے لیتا! یعنی میرا قبیلہ ہوتا تو آج تم مجھے رسوا نہ کرتے۔
اس سے معلوم ہوا کہ کسی عالم کو طاقت کا مل جانا، اچھے قبیلے کا مل جانا، اچھے خاندان کا مل جانا یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ بسا اوقات طاقت بہت سارے مصائب سے روک دیتی ہے اور بسا اوقات اچھے خاندان میں پیدا ہونا یہ آدمی کو بہت سارے مسائل سے بچا لیتا ہے۔ حضرت لوط علیہ السلام چونکہ مسافر تھے۔ وہاں ان کا قبیلہ تھا ہی نہیں اس لیے یہ فرما دیا۔
﴿وَ تَرَکۡنَا فِیۡہَاۤ اٰیَۃً لِّلَّذِیۡنَ یَخَافُوۡنَ الۡعَذَابَ الۡاَلِیۡمَ ﴿ؕ۳۷﴾﴾
ہم نے ان میں ایک نشانی چھوڑی ہے ان لوگوں کے لیے جو سخت عذاب سے ڈرتےہیں۔
حضرت موسیٰ دربارِ فرعون میں:
﴿وَ فِیۡ مُوۡسٰۤی اِذۡ اَرۡسَلۡنٰہُ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ بِسُلۡطٰنٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۳۸﴾﴾
اور دیکھو! موسیٰ علیہ السلام کے واقعے میں بھی ہم نے ایک ایسی ہی نشانی چھوڑی تھی جب ان کو کھلی دلیل دے کر فرعون کی طرف بھیجا۔
﴿فَتَوَلّٰی بِرُکۡنِہٖ وَ قَالَ سٰحِرٌ اَوۡ مَجۡنُوۡنٌ ﴿۳۹﴾﴾
تو فرعون نے اپنے پورے اراکین سمیت انکار کیا اور کہا کہ یہ ساحر ہے بلکہ یہ جادوگر ہے۔
﴿فَاَخَذۡنٰہُ وَ جُنُوۡدَہٗ فَنَبَذۡنٰہُمۡ فِی الۡیَمِّ وَ ہُوَ مُلِیۡمٌ ﴿ؕ۴۰﴾﴾
ہم نے فرعون کو اور اس کے لشکر کو پکڑا اور ان سب کو سمندر میں پھینک دیا اور فرعون تو تھا ہی ملامت کے قابل!
عاد و ثمود کا انجام:
﴿وَ فِیۡ عَادٍ اِذۡ اَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمُ الرِّیۡحَ الۡعَقِیۡمَ ﴿ۚ۴۱﴾﴾
اور قوم عاد میں بھی ہم نے نشانیاں چھوڑی ہیں جب ہم نے ان پر ایسی ہوا بھیجی جو بانجھ تھی۔ کیا مطلب کہ عام طور پر جب ہوا چلتی ہے تو اس میں خیر وبرکت ہوتی ہے۔ بادل کھینچ لاتی ہے، بارش کا سبب بنتی ہے لیکن یہ ہوا ان تمام خیروں سے خالی تھی کیونکہ یہ عذاب کی آندھی تھی۔
﴿مَا تَذَرُ مِنۡ شَیۡءٍ اَتَتۡ عَلَیۡہِ اِلَّا جَعَلَتۡہُ کَالرَّمِیۡمِ ﴿ؕ۴۲﴾﴾
یہ ہوا جہاں سے بھی گرزتی اس جگہ کی ساری چیزوں کو ریزہ ریزہ کر ڈالی۔
﴿وَ فِیۡ ثَمُوۡدَ اِذۡ قِیۡلَ لَہُمۡ تَمَتَّعُوۡا حَتّٰی حِیۡنٍ ﴿۴۳﴾﴾
اور قومِ ثمود میں بھی ایسی نشانی ہم نے چھوڑی تھی جب ان سے کہا گیا تھا کہ تم چند روز کے مزے اٹھا لو، چند دن من چاہی زندگی گزار لو۔ بندہ عیش و عشرت میں زندگی گزار دے اور اللہ کی فرمانبرداری نہ کرے تو عذاب تو پھر آنا ہی ہے۔
﴿فَعَتَوۡا عَنۡ اَمۡرِ رَبِّہِمۡ فَاَخَذَتۡہُمُ الصّٰعِقَۃُ وَ ہُمۡ یَنۡظُرُوۡنَ ﴿۴۴﴾﴾
اس سمجھانے کے باوجود انہوں نے اپن پروردگار کے حکم کی نافرمانی کی تو انہیں ایک کڑک نے آ پکڑا اور یہ لوگ دیکھتے ہی دیکھتے رہ گئے۔
﴿ فَمَا اسۡتَطَاعُوۡا مِنۡ قِیَامٍ وَّ مَا کَانُوۡا مُنۡتَصِرِیۡنَ ﴿ۙ۴۵﴾﴾
ان کی حالت ایسی ہو گئی کہ نہ تو کھڑے ہو سکتے تھے اور ہی اس عذاب سے بچ سکتے تھے۔
﴿وَ قَوۡمَ نُوۡحٍ مِّنۡ قَبۡلُ ؕ اِنَّہُمۡ کَانُوۡا قَوۡمًا فٰسِقِیۡنَ ﴿٪۴۶﴾﴾
اس سے پہلے نوح علیہ السلام کی قوم میں بھی ہم نے نشانیاں چھوڑی ہیں۔ یہ قوم بڑی نافرمان تھی۔ تو یہ مختلف قوموں کا تذکرہ کیا ہے عبرت کے لیے۔
تخلیقِ باری تعالیٰ کے نمونے:
﴿وَ السَّمَآءَ بَنَیۡنٰہَا بِاَیۡىدٍ وَّ اِنَّا لَمُوۡسِعُوۡنَ ﴿۴۷﴾ وَ الۡاَرۡضَ فَرَشۡنٰہَا فَنِعۡمَ الۡمٰہِدُوۡنَ ﴿۴۸﴾﴾
ہم نے آسمان کو طاقت سے پیدا کیا ہے اور ہم تو وسعت دینے والے ہیں۔ ہم نے زمین کو پھیلا دیا ہے اور ہم کیا ہی بہترین پھیلانے والے ہیں!
﴿وَ مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ خَلَقۡنَا زَوۡجَیۡنِ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۴۹﴾﴾
اور ہرچیز کے ہم نے جوڑے پیدا کیے ہیں تاکہ تم کچھ نصیحت حاصل کرو!
یعنی ہر چیز کی دو دو قسمیں پیدا کی ہیں۔ کالا پیدا کیا تو سفید بھی پیدا کیا، میٹھا پیدا کیا تو کڑوا بھی بنایا، مرد کو بنایا تو عورت کو بھی بنایا، مسلمان کو پیدا کیا تو کافر کو بھی پیدا کیا۔ ہر جگہ پر اللہ نے دو دو قسمیں پیدا کی ہیں۔
﴿فَفِرُّوۡۤا اِلَی اللہِ ؕ اِنِّیۡ لَکُمۡ مِّنۡہُ نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ۚ۵۰﴾﴾
اس لیے تم اللہ کی طرف دوڑو! بے شک میں تمہیں صاف طور پر ڈرانے والا ہوں۔
یہاں یہ بات ارشاد فرمائی کہ دلائل کا تقاضا تو یہ تھا کہ تم شرک کو چھوڑ کر توحید اختیار کرتے، مزید یہ کہ
﴿اِنِّیۡ لَکُمۡ مِّنۡہُ نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ﴾
مجھ جیسا بندہ تم کو ڈرانے والابھی ہے، میں نہ ہوتا تو دلائل کا تقاضا تھا کہ تم اللہ کی طرف متوجہ ہوتے اور اب تو میں خود ڈرانے والا تم میں موجود ہوں اس لیے اب تو تمہیں حق کی راہ اختیا رکر لینی چاہیے۔۔
﴿وَ لَا تَجۡعَلُوۡا مَعَ اللہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ ؕ اِنِّیۡ لَکُمۡ مِّنۡہُ نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿ۚ۵۱﴾﴾
اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ بناؤ، کیونکہ میں اللہ کی طرف سے تمہیں واضح ڈرانے والا ہوں۔
تسلی پیغمبر:
﴿کَذٰلِکَ مَاۤ اَتَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا قَالُوۡا سَاحِرٌ اَوۡ مَجۡنُوۡنٌ ﴿ۚ۵۲﴾﴾
میرے پیغمبر! یہ کام صرف ان لوگوں کا نہیں ہے بلکہ جس طرح آپ سے یہ لوگ آپ سے کہتے ہیں اسی طرح یہ ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے کہ جب بھی کوئی نبی آتا تو لوگ یا تو اسے ساحر کہتے یا مجنون کہتے۔
﴿اَتَوَاصَوۡا بِہٖ ۚ بَلۡ ہُمۡ قَوۡمٌ طَاغُوۡنَ ﴿ۚ۵۳﴾﴾
کیا یہ لوگ ایک دوسرے کو یہ وصیت کرتے چلے آئے ہیں یعنی یہ تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے مرتے وقت ایک دوسرے سے کہتے چلے آئے ہوں کہ جب بھی کوئی رسول آئے تو ایسے کہنا! فرمایا کہ یہ بات نہیں ہے، اصل یہ ہے کہ یہ لوگ سرکش ہیں اور جو بھی سرکش ہو اس کی یہ عادت ہوتی ہے۔
عالم اور مشکلات کا سامنا:
یہاں سے ایک مسئلہ اچھی طرح سمجھیں! کہ ایک معاملہ پیغمبر کے ساتھ تھا اور ایک معاملہ پیغمبر کے وارث کے ساتھ ہے۔ پیغمبر کے ساتھ یہ معاملہ ہوتا تھا کہ انہیں مخالفین معاذ اللہ ساحر اور مجنون کہتے تھے اور جب عالم کام کرے گا تو اس کا مقابلہ دو قسم کے لوگوں سے ہو گا:
1: بعض وہ لوگ ہوں گے جو فکر ی طور پر عالم کے مخالف ہوں گے۔
2: اور بعض وہ ہیں جو فکری طور پر مخالف نہیں ہیں بلکہ حسد کی بیماری کے شکار ہیں اور جو حاسد ہوتا ہے وہ محسود پر الزام لگاتا ہے۔ تو جس عالم نے جب بھی کام کیا ہے اس پر الزام لگے ہیں، آئندہ جب بھی کوئی عالم کام کرے گا اس پر الزام لگیں گے۔ وہ پہلے الزام لگانے والے بعد والوں کو وصیت نہیں کرتے کہ تمہارے اندر عالم ہے تم بھی یہ الزام لگانا۔ کیونکہ جو مرضِ حسد اُن میں تھا وہی مرضِ حسد اِن میں بھی ہے۔ وہ اُن کا کچھ اور کر نہیں سکتے تھے سوائے الزام لگاکر بدنام کرنے کے اور یہ بھی کچھ اور تو کر نہیں سکتے لیکن الزام لگا کر بدنام کرتے ہیں۔
تو جس طرح پیغمبر کو حکم دیا جا رہا ہے کہ یہ پرانی بات ہے لوگ آپ کو ایسا ایسا کہیں گے تو اس سے علماء کو بھی سمجھنا چاہیے کہ یہ پرانی باتیں ہے جو ایسے الزامات لگاتےہیں۔ جو بندہ یہ سہہ سکتا ہے تو وہ دین کا کام کرے، جو یہ نہیں سہہ سکتا وہ عقائد یا کسی عنوان پر تحریکات کو شروع ہی نہ کرے اور جب شروع کرنا ہو پھر اللہ کے لیے لگے رہو! لگے رہو اللہ کے لیے! ایک وقت آئے گا ان شاء اللہ کہ اللہ بہت زیادہ قبولیت عطا فرمائے گا۔
﴿فَتَوَلَّ عَنۡہُمۡ فَمَاۤ اَنۡتَ بِمَلُوۡمٍ ﴿٭۫۵۴﴾﴾
اے پیغمبر! آپ ان سے رخ پھیر لیں، آپ پر کوئی الزام نہیں ہو گا۔
﴿وَّ ذَکِّرۡ فَاِنَّ الذِّکۡرٰی تَنۡفَعُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۵۵﴾﴾
آپ نصیحت کرتے رہیں کیونکہ نصیحت ایمان والوں کو فائدہ دے گی۔
آپ کے حاسدین کو نہیں تو اپنوں کو تو فائدہ دے گی، اس لیے آپ اپنا کام جاری رکھیں۔
تخلیقِ جن و انس کا مقصد:
﴿وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾﴾
ہم نے جن وانس کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔
اس میں یہ بتانا مقصود ہے کہ دنیا میں بعض لوگ کام کرتے ہیں توا س میں اپنے فوائد مقصود ہوتے ہیں اور اللہ نے جو بندوں کو پیدا فرمایا ہے تو اس میں اللہ کا کوئی فائد ہ نہیں ہے، اپنا کوئی مقصد نہیں ہے، کسی اپنے فائدے کے لیے بندے کو پیدانہیں فرمایا۔
یہاں دو تین باتیں سمجھیں:
[۱]: ایک بات یہ سمجھیں کہ جب جن وانس کو اللہ نے پیدا ہی عبادت کے لیے کیا ہے تو پھر کتنے جن وانس ہیں جو عبادت نہیں کرتے۔ تو ایک کام کے لیے اللہ پیدا فرمائے، پھر وہ بندہ کام نہ کرے تو کیا یہ ہو سکتا ہے؟ اللہ تو فرماتے ہیں:
﴿اِنَّمَاۤ اَمۡرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیۡئًا اَنۡ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ﴿۸۲﴾﴾
یٰس 36: 82
اللہ کسی چیز کا ارادہ فرمائیں اور وہ نہ ہو تو یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ جب اللہ نے انسان اور جنات کو پیدا ہی عبادت کے لیے کیا ہے تو پھر یہ عبادت کیوں نہیں کرتے؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ارادۂ خدا سے تخلف ہو جائے؟
ارادۂ تکوینی اور ارادۂ تشریعی:
اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ ایک ہے اللہ کا ارادۂ تکوینیہ اور ایک ہے ارادۂ تشریعیہ۔
﴿وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ﴾
میں ارادۂ تشریعیہ ہے، ارادۂ تکوینیہ نہیں ہے۔ ارادۂ تکوینیہ میں جس کا ارادہ فرماتے ہیں تو وہ مجبور ہوتا ہے اور اس نے کرنا ہی کرنا ہوتا ہے اور اس میں ابتلاء نہیں ہوتا ہے کہ کرے گا تو ثواب اور نہیں کرے گا تو گناہ،اس میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا اور اس میں بندے کا اختیار بھی نہیں ہوتا۔ تو ارادۂ تکوینیہ میں نہ اختیار ہوتاہے نہ ابتلاء ہوتا ہے۔ مثلاً اللہ نے ہواؤ ں کو حکم دیا کہ تم نے چلنا ہے، وہ چلیں گی، اب ہوا کا اختیار نہیں ہے کہ اس کا جی چاہے تو چلے، جی چاہے تو نہ چلے، اور یہ بھی نہیں کہ چلیں گی تو جنت میں جائیں گی اور نہیں چلیں گی تو جہنم میں جائیں گی۔ جونہی قیامت آئے گی ہر ہوا نے ختم ہو جانا ہے۔ یہ سب ارادۂ تکوینیہ ہے۔ سورج نے مشرق سے نکلنا ہے، اسے خداکا حکم ہے کہ نکلو! اب ایسا نہیں ہے کہ اس کا جی چاہے تو نکلے، جی چاہے تو نہ نکلے، ایسا نہیں ہو سکتا۔ اور سورج نکلے گا تو جنت میں جائے گا اور نہیں نکلے گا تو جہنم میں جائے گا ایسا بھی نہیں ہے۔ تو ارادۂ تکوینیہ میں ابتلاء اور اختیار نہیں ہوتا۔
اور ارادۂ تشریعیہ میں ابتلاء بھی ہوتا ہے اور اختیار بھی ہوتا ہے۔ کیا مطلب کہ اللہ رب العزت بندے کو ایک حکم دیتے ہیں اور ساتھ اختیار بھی دے دیتے ہیں کہ چاہے تو کرے اور چاہے تو نہ کرے۔ یہ ہے ارادۂ تشریعیہ۔ اختیار بھی دیتے ہیں اور ساتھ ابتلاء بھی ہوتا ہے، اچھا کام کرے گا تو نجات پائے گا اور نہیں کرے گا تو نقصان اٹھائے گا۔ تو ارادۂ تشریعیہ میں نقصان بھی ہوتا ہے اور ابتلاء بھی ہوتا ہے۔
تو یہاں ارادہ سے مراد ارادۂ تشریعیہ ہے، ارادۂ تکوینیہ نہیں ہے۔
دوسرا جواب قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ نے ”تفسیر مظہری“ میں دیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اصل میں اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ہم نے جن و انس کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ ان میں استعداد اور صلاحیت رکھی ہے کہ اگر عبادت کرنا چاہیں تو کر سکیں اور نہ کرنا چاہیں تو نہ کریں۔ تو فرمایا کہ ہم نے ان کی تخلیق اس طرز پر کی ہے کہ ان میں عبادت کی استعداد رکھی ہے۔ اب چاہیں تو استعداد کا صحیح استعمال کریں اور چاہیں تو استعداد کا غلط استعمال کریں، ہم نے ان کو اختیار دے دیا ہے۔
وجہِ تخلیقِ کائنات:
[۲]: دوسری بات یہاں یہ سمجھیں کہ جب ہم یہ حدیث پاک پیش کرتے ہیں مستدرک علی الصحیحین کی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کائنات کی تخلیق کے سبب ہیں:
وَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُكَ.
المستدرک علی الصحیحین للحاکم: ج3 ص517 رقم الحدیث 4286
کہ اے آدم! اگر میں نے محمد کو پیدا نہ کرنا ہوتا تو میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔ اور حضرت آدم علیہ السلام پیدا نہ ہوتے تو ہم بھی پیدا نہ ہوتے۔ تو اس سے معلوم ہوا ہے کہ ہماری پیدائش کا سبب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
اب اس حدیث کے خلاف بعض لوگ ایک تو قرآن کی آیت کو پیش کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں ہے:
﴿وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ﴾
اور حدیث پاک میں ہے:
”وَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُكَ“
چونکہ حدیث آیت کے خلاف ہے لہذا حدیث قابلِ قبول نہیں ہے۔
اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ ایک ہوتا ہے ”پیدائش کا مقصد“ اور ایک ہوتا ہے ”پیدائش کا سبب“۔ پیدائش کا مقصد
﴿وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ﴾
ہے اور پیدائش کا سبب
”وَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُكَ“
ہے۔ مقصد اور ہوتا ہے اور سبب اور ہوتا ہے۔
میں ایک مثال دیتا ہوں بات سمجھانےکے لیے کہ آپ سے پوچھا جائے کہ یہاں کیوں آئے ہیں؟ تو آپ کہیں گے تخصص کرنے، عقائد سیکھنے، مسائل سیکھنے، شریعت کو سیکھنے۔ تو یہ آپ کا مقصد ہے۔اب پوچھا جائے کہ یہاں کیوں آئے؟ تو ایک متخصص کہتا ہے کہ استاد جی! میرے ساتھ ایک طالب علم پڑھتا تھا، اس نے یہاں مرکز میں دورہ تحقیق المسائل کیا تھا، اس نے مجھے دعوت دی اس لیے میں یہاں پر آیا ہوں۔تو یہ آپ نے آنے کا سبب بتایا ہے۔ تو تخصص کا مقصد عقائد کو سیکھنا ہے اور سبب وہ طالب علم ساتھی ہے۔ تو مقصد الگ ہے اور سبب الگ ہے۔
تصحیح ِحدیثِ عمر در بارۂ توسلِ آدم:
دوسرا پھر اس حدیث پر سوال آتا ہے کہ اس کو محدثین نے موضوع اور من گھڑت کہا ہے، لہذاموضوع حدیث قبول نہیں کرنی چاہیے۔ میں آپ کی خدمت میں گزارش کرتا ہوں کہ بات کرنے والے کو بات ادھوری نہیں بلکہ پوری کرنی چاہے۔ اگر اس حدیث کو بعض محدثین موضوع کہتے ہیں تو بعض صحیح بھی تو کہتے ہیں۔ خود امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے مستدرک علی الصحیحین کی کتاب التاریخ میں اس روایت کو نقل کیا ہےاور فرمایا ہے:
"هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ."
المستدرک علی الصحیحین للحاکم: ج3 ص517 تحت الحدیث 4286
کہ اس حدیث کی اسناد صحیح ہے۔
علامہ تاج الدین سبکی رحمۃ اللہ علیہ نے ”شفاء السقام“میں لکھا ہے:
قَدِ اعْتَمَدْنَا فِیْ تَصْحِیْحِہٖ عَلَی الْحَاکِمِ.
شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام للسبکی: ص361
کہ ہم حاکم کی تصحیح پر اعتماد کرتے ہیں۔
علامہ تاج الدین سبکی رحمۃ اللہ علیہ اس پر اعتماد فرما رہے ہیں۔ خود حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے حکم سے جو ”امداد الفتاویٰ“ لکھا ہے علامہ ظفر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:
حدیثِ توسل ِآدم علیہ السلام بسیدنا النبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم صحیح سند سے ثابت ہے جو مرفوع ہے۔
امداد الاحکام: ج1 ص133
تو اس لیے یہ کہنا کہ یہ حدیث موضوع ہے درست نہیں۔ کسی حدیث کو موضوع کہنا اجتہادی چیز ہے۔ تو باقی جو اس کو صحیح فرما رہے ہیں وہ بھی اجتہادی چیز ہے۔ اس لیے فوراً رد کر دینا کہ فلاں نے اس کے بارے میں یہ کہہ دیا ہے، یہ بات ٹھیک نہیں ہے۔
تو یہ حدیث قرآن کریم کی اس آیت کے خلاف نہیں ہے۔
﴿مَاۤ اُرِیۡدُ مِنۡہُمۡ مِّنۡ رِّزۡقٍ وَّ مَاۤ اُرِیۡدُ اَنۡ یُّطۡعِمُوۡنِ ﴿۵۷﴾﴾
میں ان سے رزق کا مطالبہ نہیں کرتا اور نہ ہی یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں۔
﴿اِنَّ اللہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الۡقُوَّۃِ الۡمَتِیۡنُ ﴿۵۸﴾﴾
بے شک اللہ رزاق بھی ہے، قوت والابھی ہے۔
تنبیہ کفار:
﴿فَاِنَّ لِلَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ذَنُوۡبًا مِّثۡلَ ذَنُوۡبِ اَصۡحٰبِہِمۡ فَلَا یَسۡتَعۡجِلُوۡنِ ﴿۵۹﴾﴾
اصل میں ”ذَنوب“ کہتے ہیں بڑے ڈول کو جس کی مدد سے پانی نکالا جاتا ہے۔ عام طور پر دیہاتی علاقے جہاں یہ کنویں موجود ہوں وہاں پانی بھرنے والے جب ڈول سے پانی بھرتے ہیں تو باری باری بھرتے ہیں۔ اس لیے ”ذَنوب“ کا معنی باری اور حصہ بھی آتا ہے۔
فرمایا: جن لوگوں نے ظلم کیا ان کی بھی باری ایسے آئے جس طرح ان جیسا کام کرنے والوں کی باری آئی تھی۔ اس لیے یہ لوگ جلدی عذاب کا مطالبہ نہ کریں۔
﴿فَوَیۡلٌ لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ یَّوۡمِہِمُ الَّذِیۡ یُوۡعَدُوۡنَ ﴿٪۶۰﴾﴾
جس دن کا ان لوگوں سے وعدہ کیا جا رہا ہے ان دن ان کافروں کے لیے تباہی یقینی ہو گی۔
اللہ ہمیں نیک عمل کرنے کی توفیق عطا فرما دیں۔ (آمین)
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ․