سوال 25:امکان کذب اور اہل السنۃ کا موقف

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
سوال 25:امکان کذب اور اہل السنۃ کا موقف

اَلسُّؤَالُ الْخَامِسُ وَ الْعِشْرُوْنَ:
هَلْ نَسَبْتُمْ فِيْ تَألِيْفِكُمْ إِلٰى بَعْضِ الْأَشَاعِرَةِ الْقَوْلَ بِإِمْكَانِ الْكِذْب؟ وَ عَلٰى تَقْدِيْرِهَا فَمَا الْمُرَادُ بِذٰلِكَ؟ وَ هَلْ عِنْدَکُمْ نَصٌّ عَلٰى هٰذَا الْمَذْهَبِ مِنَ الْمُعْتَمَدِيْنَ؟ بَيِّنُوا الْأَمْرَ لَنَا عَلٰى وَجْهِهٖ؟
پچیسواں سوال:
کیا آپ نے اپنی کسی کتاب میں یہ بات لکھی ہے کہ بعض اشاعرہ امکانِ کذب کے قائل ہیں؟ اگر لکھی ہے تو اس سے مراد کیا ہے؟ اور کیا آپ کے پاس اس نظریہ پر معتبر علماء کی تصریحات ہیں؟ ہمیں صحیح صورتحال سے آگاہ کریں۔
اَلْجَوَابُ:
اَلْأَصْلُ فِيْهِ أَنَّهٗ وَقَعَ النِّزَاعُ بَيْنَنَا وَ بَيْنَ الْمَنْطِقِيِّيْنَ مِنْ أَهْلِ الْهِنْدِ وَ الْمُبْتَدِعَةِ مِنْهُمْ فِيْ مَقْدُوْرِيَّةِ خِلَافِ مَا وَعَدَ بِهِ الْبَارِيئُ سُبْحَانَهٗ وَ تَعَالٰى أَوْ أَخْبَرَ بِهٖ أَوْ أَرَادَهٗ وَ أَمْثَالِهَا فَقَالُوْا اِنَّ خِلَافَ هٰذِهِ الْأَشْيآءِ خَارِجٌ عَنِ الْقُدْرَةِ الْقَدِيْمَةِ مُسْتَحِيْلٌ عَقْلًا لَّا يُمْكِنُ أَن يَّكُوْنَ مَقْدُوْرًا لَّهٗ تَعَالٰى وَ وَاجِبٌ عَلَيْهِ مَا يُطَابِقُ الْوَعْدَ وَ الْخَبَرَ وَ الْإِرَادَةَ وَ الْعِلْمَ وَ قُلْنَا: إِنَّ أَمْثَالَ هٰذِهِ الْأَشْيآءِ مَقْدُوْرٌ قَطْعًا لٰكِنَّهٗ غَيْرُ جَائِزِ الْوُقُوْعِ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ وَ الْجَمَاعَةِ مِنَ الْأَشَاعِرَةِ وَ الْمَاتُرِيْدِيَّةِ شَرْعًا وَّ عَقْلًا عِنْدَ الْمَاتُرِيْدِيَّةِ، وَ شَرْعًا فَقَطْ عِنْدَ الْأَشَاعِرَةِ ۔
جواب:
اصل بات یہ ہے کہ اس مسئلہ میں ہمارے اور ہندی منطقیوں و بدعتیوں کے درمیان اختلاف ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ فرمایایا خبر دی یا ارادہ فرمایا تو اس کے خلاف پر اللہ تعالیٰ کو قدرت ہے یا نہیں؟ چنانچہ ان لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ ان باتوں کا خلاف اس کی قدرتِ قدیمہ سے خارج اور عقلاً محال ہے، ان کا اللہ تعالیٰ کی قدرت کے تحت ہونا ممکن ہی نہیں اور اللہ تعالیٰ پر واجب ہے کہ وعدہ، خبر، ارادہ اور علم کے مطابق کرے جبکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اس طرح کے افعال یقیناً قدرت میں داخل ہیں البتہ اہل السنۃ والجماعۃ اشاعرہ اور ماتریدیہ سب کے نزدیک ان کا وقوع جائز نہیں؛ ماتریدیہ کے نزدیک شرعاً و عقلاً جائز نہیں اور اشاعرہ کے نزدیک فقط شرعاً جائز نہیں۔
فَاعْتَرَضُوْا عَلَيْنَا بِأَنَّهٗ إِنْ أَمْكَنَ مَقْدُوْرِيَّةُ هٰذِهِ الْأَشْيَاءِ لَزِمَ إِمْكَانُ الْكِذْبِ وَ هُوَ غَيْرُ مَقْدُوْرٍ قَطْعًا وَ مُسْتَحِيْلٌ ذَاتًا فَأَجَبْنَاهُمْ بِأَجْوِبَةٍ شَتّٰى مِمَّا ذَکَرَهٗ عُلَمَاءُ الْكَلَامِ مِنْهَا: لَوْ سُلِّمَ اسْتِلْزَامُ إِمْكَانِ الْكِذْبِ لِمَقْدُوْرِہٖ خِلَافَ الْوَعْدِ وَ الْاِخْبَارِ وَ أَمْثَالِهِمَا فَهُوَ أَيْضًا غَيْرُ مُسْتَحِيْلٍ بِالذَّاتِ بَلْ هُوَ مِثْلُ السَّفْهِ وَ الظُّلْمِ مَقْدُوْرٌ ذَاتًا مُّمْتَنِعٌ عَقْلًا وَّ شَرْعًا أَوْ شَرْعًا فَقَطْ کَمَا صَرَّحَ بِهٖ غَيْرُ وَاحِدٍ مِّنَ الْأَئِمَّةِ فَلَمَّا رَأَوْا هٰذِهِ الْأَجْوِبَةَ عَثَوْا فِي الْأَرْضِ وَ نَسَبُوْا إِلَيْنَا تَجْوِيْزَ النَّقْصِ بِالنِّسْبَةِ إِلٰى جَنَابِهٖ تَبَارَكَ وَ تَعَالٰى۔
تو اہلِ بدعت نے ہم پر اعتراض کیا کہ ان امور کا تحت القدرۃ ہونا جائز ہو تو کذب کا امکان لازم آتا ہے اور وہ یقیناً تحت القدرۃ نہیں بلکہ ذاتاً محال ہے۔ تو ہم نے ان کو علماء کلام کے ذکر کردہ چند جوابات دیے۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ اگر وعدہ و خبر وغیرہ کا خلاف تحت قدرت ماننے سے امکانِ کذب تسلیم بھی کر لیا جائے تو وہ بھی تو بالذات محال نہیں بلکہ سفہ اور ظلم کی طرح ذاتاً تحت قدرت ہے البتہ عقلاً و شرعاً یا صرف شرعاً ممتنع ہے جیسا کہ بہت سارے علماء اس کی تصریح کر چکے ہیں۔ جب انہوں نے یہ جوابات دیکھے تو ملک میں فساد پھیلانے کے لیے ہماری طرف یہ نظریہ منسوب کردیا کہ جناب باری تعالیٰ کی طرف نقص کی نسبت کو جائز سمجھتے ہیں۔
وَ أَشَاعُوْا هٰذَا الْكَلَامَ بَيْنَ السُّفَهَآءِ وَ الْجُهَلَاءِ، تَنْفِيْرًا لِّلْعَوَامِ وَ ابْتِغَاءً لِّلشَّهْوَاتِ وَ الشُّهْرَةِ بَيْنَ الْأَنَامِ وَ بَلَغُوْا أَسْبَابَ سَمَاوَاتِ الْاِفْتِرَاءِ فَوَضَعُوْا تِمْثَالًا مِّنْ عِنْدِهِمْ لِفِعْلِيَّةِ الْكِذْبِ بِلَا مَخَافَةٍ مِّنَ الْمَلِكِ الْعَلَّامِ وَ لَمَّا اطَّلَعَ أَهْلُ الْهِنْدِ عَلٰى مَكَائِدِهِمُ اسْتَنْصَرُوْا بِعُلَمآءِ الْحَرَمَيْنِ الْكِرَامِ لِعِلْمِهِمْ بِأَنَّهُمْ غَافِلُوْنَ عَنْ خَبَاثَاتِهِمْ وَ عَنْ حَقِيْقَةِ أَقْوَالِ عُلَمآئِنَا وَ مَا مِثْلُهُمْ فِيْ ذٰلِكَ إِلَّا کَمِثْلِ الْمُعْتَزِلَةِ مَعَ أَهْلِ السُّنَّةِ وَ الْجَمَاعَةِ فَإِنَّهُمْ أَخْرَجُوْا إِثَابَةَ الْعَاصِيْ وَ عِقَابَ الْمُطِيْعِ عَنِ الْقُدْرَةِ الْقَدِيْمَةِ وَ أَوْجَبُوا الْعَدْلَ عَلٰى ذَاتِهٖ تَعَالٰى فَسَمُّوْا أَنْفُسَهُمْ "أَصْحَابَ الْعَدْلِ وَ التَّنْزِيْهِ" وَ نَسَبُوْا عُلَمَاءَ أَهْلِ السُّنَّةِ وَ الْجَمَاعَةِ إِلَى الْجَوْرِ وَ الْاِعْتِسَافِ وَ التَّشْوِيْهِ فَكَمَا أَنَّ قُدَمَاءَ أَهْلِ السُّنَّةِ وَ الْجَمَاعَةِ لَمْ يُبَالُوْا بِجَهَالَاتِهِمْ وَ لَمْ يُجَوِّزُوا الْعِجْزَ بِالنِّسْبَةِ إِلَيْهِ سُبْحَانَهٗ وَ تَعَالٰى فِي الظُّلْمِ الْمَذْکُوْرِ وَ عَمَّمُوا الْقُدْرَةَ الْقَدِيْمَةَ مَعَ إِزَالَةِ النَّقَائِصِ عَنْ ذَاتِهِ الْكَامِلَةِ الشَّرِيْفَةِ وَ إِتْمَامِ التَّنْزِيْهِ وَ التَّقْدِيْسِ لِجَنَابِهِ الْعَالِيْ قَائِلِيْنَ: إِنَّ ظَنَّكُمُ الْمُنَقِّصَةَ فِيْ جَوَازِ مَقْدُوْرِيَّةِ الْعِقَابِ لِلطَّائِعِ وَ الثَّوَابِ لِلْعَاصِيْ إِنَّمَا هُوَ وَخَامَةُ الْفَلَاسِفَةِ الشَّنِيْعَةِ ۔
ان لوگوں نے عوام کو متنفر کرنےاور لوگوں میں شہرت پاکر اپنا مقصود حاصل کرنے کے لیے یہ بات جہلاء اور کم عقلوں میں مشہور کردی اور بہتان تراشی کی انتہاء یہاں تک پہنچ گئی کہ اللہ تعالیٰ کا خوف کیے بغیر اپنی طرف سے فعلیتِ کذب کا فوٹو بنا لیا۔ جب اہلِ ہند کو اِن کی مکاریوں کا پتہ چلا تو انہوں نے حرمین کے علماء سے رابطہ کیا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ علماء حرمین اہل بدعت کی خباثت سے اور ہمارے علماء کے اقوال کی حقیقت سے بے خبر ہیں۔ اس نظریہ میں ہماری اور اِن کی مثال اہل السنۃ والجماعۃ اور معتزلہ کی سی ہے کہ معتزلہ نے گنہگار کو ثواب اور فرمانبردار کو سزا دینا قدرتِ قدیمہ سے خارج قرار دیا، ذاتِ باری تعالیٰ پہ عدل کو واجب ٹھہرا کر اپنا نام ”اصحاب العدل والتنزیہ“ رکھا اور علماء اہل السنۃ والجماعۃ کی طرف ظلم و ستم اور حق کو مسخ کرنے کی نسبت کردی۔ تو جس طرح متقدمین علماءِ اھل السنۃ والجماعۃ نے معتزلہ کی جہالت کی پرواہ کیے بغیر ظلم مذکور میں حق تعالیٰ کی طرف عجز کی نسبت کو جائز نہیں سمجھا بلکہ قدرتِ قدیمہ کو عام کہہ کر ذات کاملہ سے نقائص کا ازالہ اور جناب باری تعالیٰ کے کمال تقدیس و تنزیہ کو یوں کہہ کر بیان کیا کہ نیک لوگوں کے لیے عذاب اور گناہگاروں کے لیے ثواب کوتحت قدرت باری تعالیٰ ماننے سے نقص کا گمان کرنا محض فلسفہ شنیعہ کی حماقت ہے۔
کَذٰلِكَ قُلْنَا لَهُمْ: إِنَّ ظَنَّكُمُ النَّقْصَ بِمَقْدُوْرِيَّةِ خِلَافِ الْوَعْدِ وَ الْإِخْبَارِ وَ الصِّدْقِ وَ أَمْثَالِ ذٰلِكَ مَعَ کَوْنِهٖ مُمْتَنِعَ الصُّدُوْرِ عَنْهُ تَعَالٰى شَرْعًا فَقَطْ اَوْ عَقْلًا وَّ شَرْعًا إِنَّمَا هُوَ مِنْ بَلَاءِ الْفَلْسَفَةِ وَ الْمَنْطِقِ وَ جَهْلِكُمُ الْوَخِيْمِ، فَهُمْ فَعَلُوْا مَا فَعَلُوْا لِأَجْلِ التَّنْزِيْهِ لٰكِنَّهُمْ لَمْ يَقْدِرُوْا عَلٰى کَمَالِ الْقُدْرَةِ وَ تَعْمِيْمِهَا. وَ أَمَّا أَسْلَافُنَا أَهْلُ السُّنَّةِ وَ الْجَمَاعَةِ فَجَمَعُوْا بَيْنَ الْأَمْرَيْنِ مِنْ تَعْمِيْمِ الْقُدْرَةِ وَ تَتْمِيْمِ التَّنْزِيْهِ لِلْوَاجِبِ سُبْحَانَهٗ وَ تَعَالٰى وَ هٰذَا الَّذِيْ ذَکَرْنَاهُ فِي الْبَرَاهِيْنِ مُخْتَصَرًا وَّ هَاکُمْ بَعْضُ النُّصُوْصِ عَلَيْهِ مِنَ الْكُتُبِ الْمُعْتَبَرَةِ فِي الْمَذْهَبِ۔
اسی طرح ہم نے بھی اِن لوگوں کو جواب دیا کہ وعدہ، خبر اور صدقِ وعدہ کے خلاف کو صرف تحت قدرت ماننے سے جبکہ یہ صرف شرعاً یا عقلاً و شرعاً دونوں طرح سے ممتنع الوقوع ہے، نقص کا گمان کرنا منطق و فلسفہ کی بلاء اور تمہاری جہالت کا نتیجہ ہے۔ پس اہل بدعت نے تنزیہ کے لیے جو کیا سو کیا لیکن اللہ تعالیٰ کی عام و کمالِ قدرت کا خیال نہ رکھ سکے جبکہ ہمارے اسلاف اھل السنۃ والجماعۃ نے دونوں باتوں یعنی قدرت عام اور تنزیہ تام کو ملحوظ رکھا۔ یہ وہ مختصر مضمون ہے جسے ہم نے ”براہین قاطعہ“ میں ذکر کیاہے۔ آپ کے سامنے اس موقف پر چند معتبر کتب کے حوالہ جات پیش خدمت ہیں:
(1): قَالَ1فِيْ شَرْحِ الْمَوَاقِفِ: أَوْجَبَ جَمِيْعُ الْمُعْتَزِلَةِ وَ الْخَوَارِجِ عِقَابَ صَاحِبِ الْكَبِيْرَةِ إِذَا مَاتَ بِلَا تَوْبَةٍ وَّ لَمْ يُجَوِّزُوْا أَن يَّعْفُوَ اللهُ عَنْهُ بِوَجْهَيْنِ؛ اَلْأَوَّلُ: أَنَّهٗ تَعَالٰى أَوْعَدَ بِالْعِقَابِ عَلَى الْكَبَائِرِ وَ أَخْبَرَ بِهٖ أَيْ بِالْعِقَابِ عَلَيْهَا فَلَوْ لَمْ يُعَاقِبْ عَلَى الْكَبِيْرَةِ وَ عَفَا لَزِمَ الْخُلْفُ فِيْ وَعِيْدِهٖ وَ الْكِذْبُ فِيْ خَبَرِهٖ وَ إِنَّهٗ مُحَالٌ وَ الْجَوَابُ: غَايَتُهٗ وُقُوْعُ الْعِقَابِ فَأَيْنَ وُجُوْبُ الْعِقَابِ الَّذِيْ کَلَامُنَا فِيْهِ؟ إِذْ لَا شُبْهَةَ فِيْ أَنَّ عَدَمَ الْوُجُوْبِ مَعَ الْوُقُوْعِ لَا یُقَالُ اِنَّہٗ يَسْتَلْزِمُ جَوَازُهُمَا وَ هُوَ أَيْضًا مُّحَالٌ لِّأَنَّا نَقُوْلُ: اسْتِحَالَتُهٗ مَمْنُوْعَةٌ کَيْفَ وَ هُمَا مِنَ الْمُمْكِنَاتِ الَّتِيْ تَشْمِلُهُمَا قُدْرَتُهٗ تَعَالٰى اه.2
(۱): شرح مواقف میں علامہ سید الشریف الجرجانی فرماتے ہیں: تمام معتزلہ اور خوارج کا کہنا ہے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب اگر بغیر توبہ کیے مر جائے تو اللہ تعالیٰ پر واجب ہے کہ اسے ضرور عذاب دے، اللہ تعالیٰ کا ایسے شخص کو معاف کرنا ان کے نزدیک جائز نہیں۔ یہ لوگ اپنے اس موقف پر دو دلیلیں بیان کرتے ہیں؛ پہلی یہ کہ اللہ تعالیٰ نے کبیرہ گناہوں پر عذاب و سزا کی خبر دی ہے۔ اگر خدا تعالیٰ مرتکب ِکبیرہ کو سزا نہ دے اور معاف کر دے تو وعید کے خلاف اور خبر میں کذب لازم آئے گا اور یہ محال ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ خبرِ وعید سے زیادہ سے زیادہ عذاب کا وقوع لازم آتا ہے نہ کہ وجوب جس میں ہماری گفتگو ہے کیونکہ بغیر وجوب کے محض وقوعِ عذاب ماننے میں نہ خُلف ہے نہ کذب۔ کوئی یہ نہ کہے کہ اس موقف سے خُلف اور کذب کا جواز لازم آئے گا اور یہ بھی محال ہے کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ ہم اس کا محال ہونا نہیں مانتے اور یہ محال ہو گا کیسے؟ کیونکہ یہ خلف اور کذب ان ممکنات میں داخل ہیں جن کو قدرت باری تعالیٰ شامل ہے۔
(2): وَ فِيْ شَرْحِ الْمَقَاصِدِ لِلْعَلَّامَةِ التَّفْتَازَانِيِّ رَحِمَهُ اللهُ تَعَالٰى3فِيْ خَاتِمَةِ بَحْثِ الْقُدْرَةِ: اَلْمُنْكِرُوْنَ لِشُمُوْلِ قُدْرَتِهٖ طَوَائِفُ مِنْهُمُ النِّظَامُ 4وَ أَتْبَاعُهُ الْقَائِلُوْنَ بِأَنَّهٗ لَا يَقْدِرُ عَلَى الْجَهْلِ وَ الْكِذْبِ وَ الظُّلْمِ وَ سَائِرِ الْقَبَائِحِ اِذْ لَوْ کَانَ خَلْقُهَا مَقْدُوْرًا لَّهٗ لَجَازَ صُدُوْرُهٗ عَنْهُ وَ اللَّازِمُ بَاطِلٌ لِّاِفْضَائِهٖ إِلَى السَّفْهِ إِنْ کَانَ عَالِمًا بِقُبْحِ ذٰلِكَ وَ بِاسْتِغْنَآئِهٖ عَنْهُ وَ إِلَى الْجَهْلِ إِن لَّمْ يَكُنْ عَالِمًا وَّ الْجَوَابُ: لَا نُسَلِّمُ قُبْحَ الشَّيْءِ بِالنِّسْبَةِ إِلَيْهِ کَيْفَ وَ هُوَ تَصَرُّفٌ فِيْ مِلْكِهٖ وَ لَوْ سُلِّمَ فَالْقُدْرَةُ لَا تُنَافِي امْتِنَاعَ صُدُوْرِهٖ نَظْرًا إِلٰى وُجُوْدِ الصَّارِفِ وَ عَدْمِ الدَّاعِيْ وَ إِنْ کَانَ مُمْكِنًا اه. مُلَخَّصًا5
(۲): علامہ تفتازانی نے شرح المقاصد کی قدرت کی بحث کے آخر میں یوں لکھا ہے: اللہ رب العزت کی قدرت کے منکر چند گروہ ہیں، ان میں سے ایک گروہ نظام اور اس کے متبعین کا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ جہل، کذب، ظلم اور اس طرح کے دیگر قبیح افعال پر قادر نہیں، کیونکہ ان افعال کا پیدا کرنا اگر اس کی قدرت میں داخل ہو تو حق تعالیٰ سے ان کا صدور بھی جائز ہو گا جبکہ ان کا صدور جائز نہیں کیونکہ اگر باوجود علمِ قبیح کے بے پروائی کے سبب صدور ہو گا تو ”سفہ“ لازم آئے گا اور علم نہ ہو گا تو ”جہل“ لازم آئے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہم اس بات کو تسلیم ہی نہیں کرتے کہ کسی چیز کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو اور وہ قبیح ہو۔ اس لیے کہ اپنی ملک میں تصرف کرنا قبیح نہیں ہوتا۔ بالفرض اگر اس بات کو تسلیم کر بھی لیا جائے کہ قبیح کی نسبت قبیح ہے تو قدرت حق؛ امتناعِ صدور کے منافی نہیں کیونکہ ممکن ہے کہ ایک چیز قدرتِ کے تحت داخل ہو لیکن کسی مانع کے وجود یا باعثِ صدور کے مفقود ہونے کی وجہ سے اس کا وقوع ممتنع ہو۔
(3): قَالَ فِي الْمُسَايَرَةِ وَ شَرْحِهِ الْمُسَامَرَةِ 6لِلْعَلَّامَةِ الْمُحَقِّقِ کَمَالِ ابْنِ الْهُمَامِ الْحَنَفِیِّ وَتَلْمِيْذِهِ ابْنِ أَبِي الشَّرِيْفِ الْمَقْدِسِيِّ الشَّافِعِيِّ7رَحِمَهُمَا اللهُ تَعَالٰى مَا نَصُّهٗ: ثُمَّ قَالَ أَيْ صَاحِبُ الْعُمْدَةِ8وَ لَا يُوْصَفُ اللهُ تَعَالٰى بِالْقُدْرَةِ عَلَى الظُّلْمِ وَ السَّفْهِ وَ الْكِذْبِ لِأَنَّ الْمُحَالَ لَا يَدْخُلُ تَحْتَ الْقُدْرَةِ أَيْ لَا يَصِحُّ مُتَعَلِّقًا لَّهَا وَ عِنْدَ الْمُعْتَزِلَةِ يَقْدِرُ تَعَالٰى عَلٰى کُلِّ ذٰلِكَ وَ لَا يَفْعَلُ. اِنْتَهٰى کَلَامُ صَاحِبِ الْعُمْدَةِ وَ کَأَنَّهٗ انْقَلَبَ عَلَيْهِ مَا نَقَلَهٗ عَنِ الْمُعْتَزِلَةِ إِذْ لَا شَكَّ أَنَّ سَلْبَ الْقُدْرَةِ عَمَّا ذُکِرَ هُوَ مَذْهَبُ الْمُعْتَزِلَةِ وَ أَمَّا ثُبُوْتُهَا أَيِ الْقُدْرَةِ عَلٰى مَا ذُکِرَ ثُمَّ الْاِمْتِنَاعُ عَنْ مُتَعَلِّقِهَا اخْتِيَارًا فَھُوَ بِمَذْهَبٍ أَيْ فَهُوَ بِمَذْهَبِ الْأَشَاعِرَةِ اَلْيَقُ مِنْهُ بِمَذْهَبِ الْمُعْتَزِلَةِ وَ لَا يَخْفٰى أَنَّ هٰذَا الْاَلْيَقَ أَدْخَلُ فِي التَّنْزِيْهِ أَيْضًا إِذْ لَا شَكَّ فِي أَنَّ الْاِمْتِنَاعَ عَنْهَا اَيْ عَنِ الْمَذْکُوْرَاتِ مِنَ الظُّلْمِ وَ السَّفْهِ وَ الْكِذْبِ مِنْ بَابِ التَّنْزِيْهَاتِ عَمَّا لَا يَلِيْقُ بِجَنَابِ قُدْسِهٖ تَعَالٰى فَلْيُسْبَرْ- بِالْبِنَاءِ لِلْمَفْعُوْلِ- أَيْ يُخْتَبَرُ الْعَقْلُ فِيْ أَنَّ أَيَّ الْفَصْلَيْنِ أَبْلَغُ فِي التَّنْزِيْهِ عَنِ الْفَحْشَاءِ أَ هُوَ الْقُدْرَةُ عَلَيْهِ أَيْ عَلٰى مَا ذُکِرَ مِنَ الْأُمُوْرِ الثَّلَاثَةِ مَعَ الْاِمْتِنَاعِ أَيِ امْتِنَاعِهٖ تَعَالٰى عَنْهُ مُخْتَارًا لِّذٰلِكَ الْاِمْتِنَاعِ أَوِ امْتِنَاعُهٗ عَنْهُ لِعَدْمِ الْقُدْرِةِ عَلَيْهِ فَيَجِبُ الْعَوْلُ بِأَدْخَلِ الْقَوْلَيْنِ فِي التَّنْزِيْهِ وَ هُوَ الْقَوْلُ الْأَلْيَقُ بِمَذْهَبِ الْأَشَاعِرَةِ اه.9
(۳): ”المسایرہ“ اور اس کی شرح ”المسامرہ“ میں علامہ ابن الہمام الحنفی اور ان کے شاگرد علامہ ابن شریف المقدسی الشافعی فرماتے ہیں: صاحب العمدۃ نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں یوں نہیں کہہ سکتے کہ ”وہ ظلم، سفہ اور کذب پر قادر ہے“ کیونکہ محال چیزیں قدرت کے تحت داخل نہیں ہوتیں یعنی قدرت کا تعلق ان چیزوں کے ساتھ جوڑنا صحیح نہیں ہے۔ ہاں معتزلہ کے نزدیک اللہ تعالیٰ افعال مذکورہ پر قادر تو ہے مگر کرے گا نہیں۔ صاحب العمدۃ کا کلام ختم ہوا۔ (اب علامہ کمال الدین فرماتے ہیں) صاحب العمدۃ نے جو معتزلہ کا موقف نقل کیا ہے وہ الٹ پلٹ ہو گیا ہے، اس لیے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ افعالِ مذکورہ سے قدرت کا سلب کرنا یہ عین مذہبِ معتزلہ ہے اور یہ موقف کہ افعالِ مذکورہ پر قدرت تو ہو لیکن باختیار خود ان کا وقوع نہ کیا جائے یہ موقف حضرات اشاعرہ کے زیادہ مناسب ہے بنسبت معتزلہ کےاور ظاہر بات ہے کہ اسی قول مناسب (یعنی مذہبِ اشاعرہ) سےاللہ تعالیٰ کی پاکی اور تقدیس کا اظہار زیادہ ہوتا ہے۔ یہ بات تو طے شدہ ہے کہ ظلم، سفہ، کذب جیسے قبیح افعال جو ذاتِ باری تعالیٰ کی شایانِ شان نہیں ان کا ارتکاب نہ کرنا ہی اصل پاکی اور تقدیس ہے۔ اب عقل کا امتحان ہے کہ یہ فیصلہ کرے کہ دونوں صورتوں میں سے کس صورت کو اللہ تعالیٰ کی پاکی اور تقدیس میں زیادہ دخل ہے؟ آیا اس صورت کو کہ مذکورہ تینوں افعال پر قدرت کو تو مانا جائے لیکن اپنے ارادے سے اور احتیاط کے پیشِ نظر ان کو ممتنع الوقوع مانا جائے، یا اس صورت کو کہ ان تینوں افعال پر خدا کی قدرت ہی کا انکار کر دیا جائے۔ تو ان دونوں صورتوں میں سے جس صورت کو اللہ تعالیٰ کی پاکی اور تقدیس میں زیادہ دخل ہو اسی کا قائل ہو جانا چاہیے اور وہ صورت حضرات اشاعرہ کا مذہب ہے یعنی امکان بالذات اور امتناع بالاختیار۔
(4): وَ فِيْ حَوَاشِي الْكَلَنْبَوِيِّ عَلٰى شَرْحِ الْعَقَائِدِ الْعَضُدِيَّةِ لِلْمُحَقِّقِ الدَّوَانِيِّ10رَحِمَهُمَا اللهُ تَعَالٰى مَا نَصُّهٗ: وَ بِالْجُمْلَةِ کَوْنُ الْكِذْبِ فِي الْكَلَامِ اللَّفْظِيِّ قَبِيْحًا بِمَعْنٰى صِفَةِ نَقْصٍ مَمْنُوْعٌ عِنْدَ الْأَشَاعِرَةِ وَ لِذَا قَالَ الشَّرِيْفُ الْمُحَقِّقُ: إِنَّهٗ مِنْ جُمْلَةِ الْمُمْكِنَاتِ، وَ حُصُوْلُ الْعِلْمِ الْقَطْعِيِّ لِعَدْمِ وُقُوْعِهٖ فِيْ کَلَامِهٖ تَعَالٰى بِإِجْمَاعِ الْعُلَمآءِ وَ الْأَنْبِيآءِ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ لَا يُنَافِيْ إِمْكَانَهٗ فِيْ ذَاتِهٖ کَسَائِرِ الْعُلُوْمِ الْعَادِيَةِ الْقَطْعِيَّةِ وَ هُوَ لَا يُنَافِيْ مَا ذَکَرَهٗ الْإِمَامُ الرَّازِيُّ إلخ.11
(۴): علامہ دوانی کی شرح عقائد عضدیہ کے حاشیہ کلنبوی میں اس مسئلہ کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ کہنا کہ کلام لفظی میں امکان کذب سے نقص وعیب لازم آتا ہے جو کہ قبیح ہے یہ بات اشاعرہ کے ہاں مسلم نہیں اس لیے محقق شریف نے کہا کہ امکان کذب ممکنات میں سے ہے اور انبیاءعلیہم السلام علماءکرام کے اجماع کی وجہ سے اس بات کا یقینی طور پر علم ہونا کہ اس کے کلام میں جھوٹ کا وقوع نہیں ہوا یہ بالذات امکان کذ ب کے منافی نہیں جس طرح باقی تمام علوم عادیہ بالذات امکان کذب کے باوجود حاصل ہوا کرتے ہیں یہ تصریح اما م رازی کے قول کے خلاف نہیں۔ الخ
(5): وَ فِيْ تَحْرِيْرِ الْأُصُوْلِ لِصَاحِبِ فَتْحِ الْقَدِيْرِ الْإِمَامِ ابْنِ الْهُمَامِ وَ شَرْحِهٖ11لِابْنِ أَمِيْرِ الْحَاجِ13رَحِمَهُمَا اللهُ تَعَالٰى مَا نَصُّهٗ: (وَ حِيْنَئِذٍ) أَيْ وَ حِيْنَ کَانَ مُسْتَحِيْلًا عَلَيْهِ مَا أَدْرَكَ فِيْهِ نقْصٌ (ظَهَرَ الْقَطْعُ بِاسْتِحَالَةِ اتِّصَافِهٖ) أَيِ اللهِ تَعَالٰى (بِالْكِذْبِ وَ نَحْوِهٖ تَعَالٰى عَنْ ذٰلِكَ وَ أَيْضًا) لَوْ لَمْ يَمْتَنِعِ اتِّصَافُ فِعْلِهٖ بِالْقُبْحِ (يرْتَفِعُ الْأَمَانُ عَنْ صِدْقِ وَعْدِهٖ وَ) صِدْقِ (خَبَرِ غَيْرِهٖ) أَيِ الْوَعْدِ مِنْهُ تَعَالٰى(وَ) صِدْقِ (النُّبُوَّةِ) أَيْ لَمْ يُجْزَمْ بِصِدْقِهٖ أَصْلًا... (وَ عِنْدَ الْاَشَاعِرَةِ کَسَائِرِ الْخَلْقِ الْقَطْعُ بِعَدْمِ اتِّصَافِهٖ) تَعَالٰى بِشَيْءٍ مِّنَ الْقَبَائِحِ (دُوْنَ الْاِسْتِحَالَةِ الْعَقْلِيَّةِ کَسَائِرِ الْعُلُوْمِ الَّتِيْ يُقْطَعُ فِيْهَا بِأَنَّ الْوَاقِعَ أَحَدُ النَّقِيْضَيْنِ مَعَ عَدْمِ اسْتِحَالَةِ الْآخَرِ لَوْ قُدِّرَ) أَنَّهُ الْوَاقِعُ (کَالْقَطْعِ بِمَكَّةَ وَ بَغْدَادَ) أَيْ بِوُجُوْدِهِمَا فَإِنَّهٗ لَا يُحِيْلُ عَدَمُهُمَا عَقْلًا (وَ حِيْنَئِذٍ) أَيْ وَ حِيْنَ کَانَ الْأَمْرُ عَلٰى هٰذَا (لَایَلْزَمُ ارْتِفَاعُ الْأَمَانِ) لِأَنَّهٗ لَا يَلْزَمُ مِنْ جَوَازِ الشَّيْءِ عَقْلًا عَدَمُ الْجَزْمِ بِعَدَمِہٖ (وَالْخِلَافُ) الْجَارِيْ فِي الْاِسْتِحَالَةِ وَ الْإِمْكَانِ الْعَقْلِيِّ لِهٰذَا (جَارٍ فِيْ کُلِّ نَقِيْضَةٍ اَ قُدْرَتُهٗ) تَعَالٰى (عَلَيْهَا مَسْلُوْبَةٌ أَمْ هِيَ) أَيِ النَّقِيْضَةُ (بِهَا) أَيْ بِقُدْرَتِهٖ (مَشْمُوْلَةٌ وَ الْقَطْعُ بِأَنَّهٗ لَا يَفْعَلُ) أَيْ وَ الْحَالُ الْقَطْعُ بِعَدْمِ فِعْلِ تِلْكَ النَّقِيْصَةِ إلخ. 14
(۵): فتح القدیر کے مصنف امام ابن الہمام نے تحریر الاصول میں اور ابن امیر الحاج نے اس کی شرح میں جو کچھ لکھا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب یہ بات واضح ہوگئی کہ جن افعال میں نقص پایا جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے لیے محال ہیں تو یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا کذب وغیرہ کے ساتھ متصف ہونا یقینا محال ہے کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کا صفات قبیحہ سے متصف ہونا محال نہ ہو تو خدا کے وعدہ اوراس کی خبر پر اعتماد نہ رہے گا اور نبوت کی صداقت یقینی نہ رہے گی۔ اور اشاعرہ کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا کسی قبیح فعل کے ساتھ متصف نہ ہونا باقی مخلوق کی طرح عقلا محال نہیں چنانچہ وہ تمام علوم جن کے متعلق یقین ہے کہ ایک نقیض کا وقوع ہے وہاں دوسری نقیض بالذات ایسی محال نہیں کہ اس کا وقوع ہو ہی نہ سکے جیسے مکہ اور بغداد کا موجود ہونا یقینی ہے مگر ان کا موجود نہ ہونا عقلا محال نہیں ہے ایسی صورت میں امکان کذب کے سبب اعتماد کا اٹھ جانا لازم نہیں آئے گا اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی شی کے وجود کو عقلا مان لینے سے اس کے عدم پر یقین لازم نہیں آتا۔ (کیونکہ جہاں نقیضین میں سے ایک نقیض کا وقوع ہو وہاں دوسری نقیض کے وقوع کا ماننا محال ذاتی نہیں ہے) اور یہی اختلاف جاری ہے (اہل السنت اور معتزلہ کے درمیان) محال اور امکان عقلی کے ہر نقیض میں واقع ہونے میں کہ حق تعالیٰ کو ان پر قدرت ہی نہیں ہے، یا اس کی نقیض ہے یعنی اللہ تعالیٰ کو قدرت حاصل ہے۔ مگر اس کا یقین ہے کہ حق تعالیٰ ایسا کرےگا نہیں یعنی اس نقیض کے عدم کا یقین ہے۔
وَ مِثْلُ مَا ذَکَرْنَاهُ عَنْ مَذْهَبِ الْأَشَاعِرَةِ ذَکَرَهُ الْقَاضِي الْعَضُدُ فِيْ شَرْحِ مُخْتَصَرِ الْأُصُوْلِ15وَ أَصْحَابُ الْحَوَاشِيِّ عَلَيْهِ وَ مِثْلُهٗ فِيْ شَرْحِ الْمَقَاصِدِ15وَ حَوَاشِي الْمَوَاقِفِ لِلْجَلْبِيِّ17وَ غَيْرِهٖ وَ کَذٰلِكَ صَرَّحَ بِهِ الْعَلَّامَةُ الْقَوْشَجِيُّ فِيْ شَرْحِ التَّجْرِيْدِ18وَ الْقَوْنَوِيُّ وَ غَيْرُهُمْ أَعْرَضْنَا عَنْ ذِکْرِ نُصُوْصِهِمْ مَخَافَةَ الْإِطْنَابِ وَ السَّآمَّةِ و اللهُ الْمُتَوَلِّيْ لِلرَّشَادِ وَ الْهِدَايَةِ.
اور اشاعرہ کا جو مذہب ہم نے بیان کیا ہے ایسا ہی قاضی عضد الدین نے شرح مختصر الاصول میں اور اصحاب حواشی نے حاشیہ پر اور اسی قسم کا مضمون شرح المقاصد اور چلپی کے حواشی مواقف وغیرہ میں موجود ہے اور ایسی ہی وضاحت علامہ قوشجی نے تجرید کی شرح میں اور قونوی وغیرہ نے کی ہے۔ ہم نے اس کے دلائل کو ذکر نہیں کیا تاکہ بات لمبی نہ ہو جائے۔ ہدایت اور رہنمائی صرف خدا تعالیٰ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے۔
---
حاشیہ:
1: شارح کا نام علامہ سید الشریف علی بن محمد الجرجانی ہے۔ 840 ہجری میں شہر جرجان میں پیدا ہوئے۔ آپ کی تصانیف پچاس سے زیادہ ہیں جن میں سے مشہور تفسیر زہراوین، شرح مواقف، شرح کافیہ، حاشیہ بیضاوی، حاشیہ ہدایہ، حاشیہ تلویح، رسالہ تعریفات وغیرہ ہیں۔ آپ 816 ہجری میں شیراز میں فوت ہوئے۔
2: شرح المواقف: ج8 ص331 المرصد الثانی- المقصد الخامس. النظر فی الثواب و العقاب. ط دار الکتب العلمیۃ
3: شارح کا نام علامہ مسعود بن عمر بن عبد اللہ المعروف تفتازانی ہے۔ لقب سعد الدین تھا۔ 712 ہجری میں خرسان کے شہر تفتازان میں پیدا ہوئے۔ کئی ایک تصانیف فرمائیں۔ شرح عقائد نسفی، تلخیص المفتاح، شرح ا لمقاصد، تلویح حاشیہ توضیح، مختصر المعانی، حاشیہ شرح مختصر الاصول، مقاصد الکلام اور اس کی شرح، تہذیب المنطق و الکلام وغیرہ مشہور تصانیف ہیں۔ 793 ہجری میں فوت ہوئے۔
4: ابواسحاق النظام 'ابراہیم بن سیاربن ہانی-مشہورمعتزلی امام تھے-231ھ میں وفات پاِئی-
5: شرح المقاصد: ج4 ص102، ص103 خاتمہ فی قدرۃ اللہ. ط عالم الکتب بیروت لبنان
6: متن کا نام المسایرۃ فی العقائد المنجیۃ فی الآخرۃ اور اس کے مؤلف مشہور حنفی محقق علامہ ابن الہمام متوفیٰ 861ھ ہیں۔اس کی شرح المسامرۃ ہے جو کہ ابن الہمام علیہ الرحمۃ کے شاگرد ابن ابی شریف المقدسی الشافعی کی تالیف ہے۔
7: آپ کا نام علامہ محمد بن محمد بن ابی بکر بن علی بن ابی شریف المقدسی الشافعی ہے۔ 822 ہجری میں شام میں پیدا ہوئے۔ آپ کی تصانیف میں الدرر اللوامع بتحریر جمع الجوامع،الفرائد فی حل شرح العقائد، اور المسامرة على المسايرة شامل ہیں۔ آپ نے 905 ہجری میں شام ہی میں وفات پائی۔
8: کتاب کا نام عمدۃ العقائد ہے اور اس کے مصنف علامہ حافظ الدین ابو البرکات عبد اللہ بن احمد بنمحمود النسفی الحنفی ہیں۔ آپ خوزستان اور اصبہان کے درمیان ایذج نامی ایک شہر میں پیدا ہوئے۔ علم الکلام میں عمدة العقائد ، تفسیر میں مدارك التنزيل وحقائق التاويل، اصولِ فقہ میں منار الانوار اور فقہ میں الكافی فی شرح الوافی اور كنز الدقائق آپ کی یادگار تصانیف ہیں۔ 710 ہجری میں وفات پائی۔
9: المسامرۃ شرح المسایرۃ: ص178، ص179 الرکن الثالث- الاصل الخامس فی الحسن القبح العقلیین
10: اصل متن کا نام ”العقائد العضدیۃ“ ہے جو کہ مشہور متکلم اور اصولی علامہ قاضی عضد الدین عبدالرحمٰن بن احمد بن عبدا لغفار الایجی م756ھ کی تصنیف ہے۔ اس کی شرح علامہ جلال الدين محمد بن اسعد الصدیقی الدوانی م918ھ نے
”شرح العقائد العضدية“
کے نام سے لکھی ہے۔ اس پر حاشیہ علامہ ابو الفتح اسماعیل بن مصطفىٰ بن محمود كلنبوی عثمانی حنفی المعروف شیخ زادہ م1205ھ کا ہے۔ یہ عبارت اسی حاشیہ میں موجود ہے۔
11: حاشیہ الکلنبوی علی شرح العقائد العضدیۃ
12: کتاب کا نام ”تحریر الاصول“ ہے جو کہ علامہ ابن الہمام م861ھ کی تالیف ہے اس کی شرح علامہ ابن امیر الحاج الحلبی نے ”التقریر و التحبیر“ کے نام سے لکھی ہے۔
13: آپ کا نام قاضی شمس الدین ابو عبد اللہ محمد بن محمد بن محمد بن حسن المعروف ابن امیر الحاج الحنفی ہے۔ 825 ہجری میں حلب میں پیدا ہوئے۔ اپنے دور کے فقہاء احناف میں ایک عظیم مرتبہ کے حامل تھے اور کئی علوم و فنون میں مہارت رکھتے تھے۔ آپ کی تصنیفات میں التقریر التحبیر، حلیۃ المحلی، داعی منار البیان، ذخیرۃ الفقر فی تفسیر سورۃ العصر، شرح المختار الموصلی، منیۃ الناسک فی خلاصۃ المناسک شامل ہیں۔ آپ سن879 ہجری میں فوت ہوئے۔
14: التقریر و التحبیر: ج2 ص123، ص124 باب فی الاحکام
15: شرح مختصرالاصول: یہ علامہ قاضی عضدالدین عبداللرحمان بن احمد بن عبدالغفار الایجی م756ھ کی تصنیف ہے جو مشہور متکلم ؛ اصولی اور عربیت کے ماہر تھے-
16: شرح المقاصد: علامہ سعدالدین مسعود بن عمر بن عبداللہ المعروف تفتازانی م 793 ھ کی تالیف ہے-
17: حواشی مواقف از علامہ بدر الدین حسن چلپی بن محمد شاہ الرومی الفناری الحنفی م886ھ یہ حواشی شرح الموقف مطبوع کے حاشیہ پر موجود ہیں۔
18: یہ علامہ نصیر الدین الطوسی م672ھ کی کتاب ”تجرید العقائد“ کی شرح ہے جو علاء الدین علی بن محمد الکوشجی الحنفی م879ھ نے تالیف کی ہے۔