حقیقت بھی باعث شرم ہے یارب

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
حقیقت بھی باعث شرم ہے یارب
ام احمد ، لاہور
وسیم پچھلے دو گھنٹوں سے طارق کو Cool Down کرنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا مگر طارق تھا کہ اس کا اضطراب ختم ہی نہیں ہو رہا تھا وسیم تنگ آکر بولاTake it easy طارق بس کرو بھئی اتنی ٹینشن لوگے تو کر کیا لو گے حالات سے سمجھوتہ کرلو ناں۔ یہ سننے کی دیر تھی کہ طارق پھٹ ہی تو پڑا کتنے آرام سے بے غیرت بن کر زندہ رہوں آنکھیں ہوتے ہوئے اندھا بن کر جاؤں یا دماغ ہوتے ہوئے بے حس ہوجاؤں کیا کرو ں بتاؤ؟ کتنے آرام سے تم کہہ دیا Take it easy حالات سے سمجھوتہ کرلو۔ کن حالات سے ؟
یار میری غیرت یہ سب کچھ گوارا نہیں کرسکتی میں کٹھ پتلی بن کر نہیں جی سکتا۔ میں یہ سب کچھ کیوں برداشت کروں ؟ مجھے میرا قصور بھی تو بتاؤ ؟ اتنا سب کچھ کہہ کر اب طارق ہانپنے لگ گیا تھا اس کا سانس دھونکنی کی مانند چل رہا تھا اور آنکھیں انگاروں کی طرح لال ہو رہی تھیں۔ کچھ دیر کے لیے کمرے میں بالکل خاموشی چھا گئی وسیم کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اب وہ کیا کہے اپنے بچپن کے دوست کو اپنے جگری یار کو کس طرح نارمل کرے۔ اس کا دکھ کیسے کم کرے بالآخر کچھ الفاظ اپنے ذہن میں ترتیب دے کر بولنے ہی لگا تھا کہ طارق کی زبان پھر زہر اگلنے لگی مگر اب اس کے لہجے میں بے بسی اور آنکھوں میں آنسو بھی تھے۔وسیم تمہیں تو علم ہے کہ میں دو بہنوں کا اکلوتا بھائی ہوں ابو نے ساری زندگی صرف رزق حلال پر ہی زور دیا الحمد للہ بچپن سے ہی میرے ذہن میں تھا کہ میں نے ابو کا بازور بننا ہے۔
مجھے آج بھی اپنا اسکول کا پہلا دن اچھی طرح یاد ہے۔ جب امی نے مجھے اسکول کے لیے تیار کیا تھا اور میرے ماتھے پر بوسہ دے کر کہا تھا بیٹا خوب دل لگا کر اور ایمانداری سے پڑھنا۔ کل کو اس گھر کا اپنے ماں باپ کا اور بہنوں کا سہارا تم نے اور خدا نے ہی تو بننا ہے وہ دن اور M.B.A کا آخری دن ہر روز مجھے اپنے کانوں میں امی کی وہ نصیحت سنائی دیتی تھی مگر اب تو سب کچھ ہی بدل گیا ہے۔
یار وسیم میں نے اور میرے گھر والوں نے اس دن کے خواب تو نہیں دیکھے تھے اتنا زیادہ بول کر اب طارق گہرے گہرے سانس لینے لگا تھا اس کی حالت دیکھ کر وسیم کو خطرہ محسوس ہو رہا تھا کہ کہیں طارق بیمار ہی نہ پڑ جائے دل ہی دل میں وسیم خود کو کوس رہا تھا کہ کیوں اس نے کل طارق کو اس کے گھر جانے پر مجبور کیا تھا نہ طارق اپنے گھر جاتا نہ ہی اسے تازہ ترین حالات کا علم ہوتا اور نہ ہی اس کی یہ حالت ہوتی۔
دراصل طارق پچھلے تین سالوں سے وسیم کے گھر کی بیٹھک میں گیسٹ کے طور پر رہ رہا تھا کیونکہ بقول طارق کے اب اس کا اپنے گھر میں رہنے سے مر جانا ہی بہتر تھا مگر یہ وسیم ہی تھا کہ جس کی دلجوئی وہمت کی وجہ سے وہ اب تک زندہ تھا مگر اب طارق یہ نیا زخم کیسے سہہ پائے گا وسیم کا ذہن یہی سوچے جا رہا تھا جب کہ طارق اپنی ہی سوچوں میں گم تھا۔
کل جب وہ اپنے گھر گیا تو اسے علم ہواکہ اس کی بڑی بہن کرن کی طرح اب چھوٹی بہن ارم بھی نوکری کرنے لگی ہے۔ طارق کے دل پر ایک نیا تازیانہ لگا کہ وہ اس قابل بھی نہیں اپنی بہنوں کی کفالت کر سکے اور ساتھ ہی اس کے ذہن میں تین سال پہلے کا واقعہ گھومنے لگا جب وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کے لیے انٹرویو دینے گیا تھا اس کا انٹرویو بہت اچھا ہوا تھا انٹرویو لینے والے تمام افسران اس کی ذہانت اور Aڈگری سے بہت متاثر بھی ہوئے تھے۔
طارق کو بہت امید تھی کہ یہاں اسے اچھی سیٹ مل جائے گی مگر جب کافی عرصہ ان کی طرف سے جواب نہیں آیا تو طارق خود ہی حالات کا پتہ کرنے چلا گیا وہاں جا کر طارق کو علم ہوا کہ وہ سیٹ تو اگلے ہی دن پر ہوگئی تھی نئی آنے والی اسامی کو جب طارق ملا تو اسے حیرت کے ساتھ ساتھ افسوس بھی ہواکیونکہ وہ اس اسامی کو اچھی طرح جانتا تھا وہ اس کی اپنی ایک کلاس فیلو تھی جو نہ بہت زیادہ لائق تھی اور نہ ہی بہت زیادہ ذہین تھی۔
اس کے ساتھ ہی طارق کے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا اس نے مڑ کر دیکھا تو انٹرویولینے والوں میں سے ایک افسر اس کے سامنے کھڑا تھا جس نے اتنے دن گزرنے کے بعد بھی طارق کو پہچان لیا تھا۔ طارق نے بغیر سلام دعا بڑے ہی طنزیہ لہجے میں اس سے پوچھا کیوں جناب! ان محترمہ نے کتنی بھاری رشوت دی تھی یا بہت بڑی سفارش لائی تھیں ساتھ میں کیونکہ ان محترمہ کو میں بھی جانتا ہوں یہ اس سیٹ کے لیے اتنی بھی موزوں نہیں تھیں۔
جواب میں اس افسر نے جو حقیقت اسے بتائی وہ اس کے پیروں کے نیچے سے زمین سرکا نے کے لیے کافی تھی یار سمجھا کرو ناں ملٹی نیشنل کمپنی ہے باہر کے ملکوں سے بھی مہمانوں نے آنا ہوتا ہے ان کو انٹرٹینمنٹ کے لیے کچھ تو حق میزبانی ادا کرنے ہوتے ہیں ناں؟ طارق کو اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہو رہا تھا وہ بار بار یہی سوچے جا رہا تھا کہ کیا اس کی دونوں بہنیں بھی غیر مردوں کو انٹرٹین کر رہی ہوں گی اور یہی چیز اس کی اذیت کا باعث بن رہی تھی۔ جب اس کے لیے بوجھ برداشت کرنا مشکل ہو گیا تو پھر سے وسیم کا ہی سہارا لیا۔ یار وسیم !سوچو تو سہی یہ ہم تاریخ کے کس موڑ پر کھڑے ہیں کیا اب وہ زمانہ آنے والا ہے جب ماں باپ لڑکوں کی بجائے لڑکیوں کی پیدائش پہ خوش ہوں گے۔ جب تک معاملہ رشوت اور سفارش کا تھا تو وہ سب کے پاس یکساں تھیں لیکن یار ہوس کے اس عفریت کا سامنا کیسے کریں۔