حُبِّ حدیث یا بُغضِ فقہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

حُبِّ حدیث یا بُغضِ فقہ ؟

محمدمبشر بدر ، لاہور
خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ سے جہان رنگ وبو میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل پایا جس کی رگوں میں امن وآشتی ،بھائی چارا ،مساوات،محبت ومودت کی چاشنی بھر دی گئی اور بکھری امت کو وحدت کی مالا میں پرو دی گئی۔
یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہوا جب ہر طرف ظلم وجہل کے گھٹا ٹوپ اندھیرے چھائے ہوئے تھے، انسانیت اپنی ہی ہاتھوں ذلت کی پستی میں اوندھے میں گرتی ہی چلی جا رہی تھی اور عصبیت ،قومیت و مذہب کے نام سے کئی فرقوں میں بٹی ہوئی تھی۔ یوں تو اس دور میں خلاق عالم کی طرف سے پیغمبر و رسول اصلاح عقیدہ، تہذیب واخلاق اور معاشرہ کے لیے مبعوث ہوتے رہے لیکن ان کے چلے جانے کے بعد امت کے سینوں سے آسمانی تعلیمات کااثر وقت گزرنے کے ساتھ ہی کمزور پڑجاتا اور جہالت عام ہو جاتی جس کی وجہ سے ہر شخص بجائے اپنی خواہشات کو دین کے تابع بنانے کے الٹا دین کو اپنی خواہشات کا تابع بنا لیتا اور اس کے جواز کے لیے تعلیمات انبیاء علیہم السلام میں تحریف و تبدیلی کر کے اپنی خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچاتا یوں شریعت کا حلیہ بگڑتا اور کئی فرقے وجود میں آتے اور ” كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ “ کا مصداق بنتے اور آپس میں دست وگریباں ہوتے رہتے۔
چونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری رسول اور اسلام آخری دین ہے اس لیے شریعت نے قرآن و سنت ،اجماع و قیاس کو معیار شرعی قرار دیا اور فتنہ و فساد کے زمانہ میں سواد اعظم ) مسلمانوں کی بڑی جماعت ( کے ساتھ ملے رہنے بلکہ چمٹے رہنے کی تاکید فرمائی۔
جب تک ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم دنیامیں موجود رہے شریعت اترتی رہی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نئے آمدہ مسائل کا حل دربار رسالت سے ملتا رہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرما جانے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف رجوع کیا جانے لگا اور یوں سلسلہ چلا اور شریعت کی حفاظت کے لیے دو گروہ میدان میں آئے۔ ایک محدثین کا گروہ جو احادیث مبارکہ کی ترتیب و تدوین میں مصروف عمل تھا اور دوسری طرف فقہاء کرام کی جماعت تھی جو قرآن و سنت سے امت کے مسائل حل کرنے میں مصروف تھی اور یوں مسائل کا ایک بہت بڑا حل شدہ ذخیرہ جمع ہو گیا اس طرح ائمہ اربعہ اور ان کے شاگردوں کی انتھک محنت کے نتیجہ میں چار فقہوں کو شہرت اور تلقی بالقبول حاصل ہوئی یوں یہ فقہاء اور ان کے شاگرد پوری دنیا میں پھیل گئے اور اس مجموعہ کو بھی ساتھ لے گئے ان چار مذاہب پر امت کا اجماع ہو گیا جو قرآن سنت ہی سے ماخوذ ہیں اور کسی ایک امام کی فقہ و رہنمائی میں عمل لازم قرار پایا تاکہ چاروں پر بیک وقت عمل کرنے سے اتباع خواہش لازم نہ آئے ایک امام کا بتایا ہوا مسئلہ نفس پر گراں گزرا تو دوسرے امام کی تحقیق پڑھنی شروع کر دی کہ شاید اس میں آسانی مل جائے یہ دین پر عمل تو نہ ہوا خواہش پر عمل ہوا جیسا کہ آج کل بہت سےآزاد خیال شتربے مہار لوگوں نے یہ شیوااپنایا ہوا ہے ظاہرا ً تو ان ائمہ مجتہدین کی مخالفت کرتے اور اجتہادی مسائل میں ان کی تقلید کو شرک قرار دیتے ہیں درپردہ انہیں کی کتابوں کا مطالعہ کر کے من پسند مسائل چن کرعمل کر دیتے ہیں
احادیث کی صحت و ضعف کا اپنا الگ معیار بنایا ہو اہے جو موافق ہو اسے صحیح اور جو مخالف نظر آئے تو اس میں عیوب وسقم تلاش کر کے ضعیف قرار دیتے ہیں اور پوری امت مسلمہ سے اختلاف کر کے ایک نئے فرقہ کی بنیاد ڈال کر اختلافات کو ہوا دینی شروع کر دی جو طریقہ امت میں خیر القرون سے متوارث چلا آرہا ہے اس سے ہٹ کر شکوک وشبہات پیدا کرنے شروع کر دیے اوروَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَآءَتْ مَصِيراً کا مصداق بن گئے۔ یہ ہے وہ خواہش نفس کی اتباع اور امت کے متوارث طریق کی نفی جس کا ارتکاب کر کے اور بیسیوں اجماعی مسائل توڑ کر امت میں انتشاروافتراق پیدا کر کے فخریہ انداز میں عمل بالحدیث کی رٹ لگاتے ہیں۔ انگریز کے دور تسلط میں سرزمین ہند میں پیدا ہونے والاگروہ آج خود کئی گروہ میں بٹ گیا ہے۔ وہ جو فقہاء وائمہ کو اختلاف کا سبب بتاتے تھے آج صرف سو سال میں بھی اپنی وحدت بر قرار نہ رکھ سکے۔