کہیں چڑیاں چگ نہ جائیں کھیت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
کہیں چڑیاں چگ نہ جائیں کھیت
حافظ محسن شریف ،شیخوپورہ
ان سب والدین کے نام جو اپنے بچوں کی غلطیوں کو ہمیشہ نظر انداز ہی کرتے ہیں۔
میں اسے دیکھ کر دنگ رہ گیا وہ میرے سامنے شرمندگی سے سر جھکائے کھڑا تھا۔ ”کاٹو تو بدن میں لہو نہیں “ کا مصداق نظر آرہا تھا۔ سردی کی شدت کے باوجود اس کے ماتھے سے پسینہ قطروں کی صورت میں نیچے گر کر اس کی قمیض میں جذب ہو رہا تھا۔ رو رو کر اس کی آنکھیں سرخ انگاروں کا منظر پیش کر رہی تھیں۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے اسے اپنی غلطی کا احساس ہو چکا ہے ایسی غلطی جو ہمارے معاشرے کی بے شمار برائیوں میں سے ایک خطرناک برائی کی صورت اختیار کر چکی ہے۔اورمعاشرے میں بے پناہ جرائم کا اضافہ ہو رہا ہے اس کے چہرے کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ جیسے وہ کچھ کہنا چاہتا ہے،اپنا پیغام دوسرے لوگوں تک پہنچانا چاہتا ہے۔تاکہ لوگ اس کی طرح غلطی نہ کریں اور ایسے انجام سے بچ جائیں جو آج اس کے ساتھ ہونے والا تھا اس کے ہاتھ میں لگی ہتھکڑی دیکھ کر میں بھونچکا سا رہ گیا یہ وہی ہاتھ تھے جن سے وہ بے شمار روپے خرچ کیا کرتا تھا مجھے اسے اس حالت میں دیکھ کر رونا آگیا اچانک میں ماضی میں کھو گیا۔
”یار فرحان کم از کم سکول تو ٹائم سے آیا کرو! روز لیٹ آتے ہو ٹیچر تم کو مارتی بھی ہیں لیکن تم پر تو مار کا ذرا برابر بھی اثر نہیں ہوتا پتہ نہیں کس مٹی کے بنے ہو ؟“ میں نے فرحان کو کلاس میں داخل ہو تے ہی کہا کیونکہ وہ میرا بہت اچھا دوست تھا اور میری کسی بات کا غصہ نہیں کرتا تھا۔
چھوڑ یار!رات کو لیٹ سویا تھا فلم دیکھتا رہا صبح آٹھ بجے آنکھ کھلی تو سکول چلا آیا۔ فرحان نے کندھے اُچکاتے ہوئے اپنے مخصوص لہجے میں کہا اور سیٹ پر بیٹھ گیا اسی دوران مس روبینہ کلاس میں داخل ہوئیں اور سب بچوں پر ایک نگاہ ڈال کر سبق پڑھانے میں مصروف ہو گئیں۔اچانک پیچھے سے کاغذ کی گولی تیر کی طرح آئی اور مس روبینہ کے کان پر زور سے پڑی۔
اف!!!! مس نے اپنا کان سہلاتے ہوئے کہا اور غصے سے لال پیلے ہوتے ہوئے کاغذ کی گولی پکڑ کر ایک ترچھی نگاہ پوری کلاس پر ڈالی: ”کس بد تمیز نے یہ حرکت کی ہے۔ پوری کلاس میں مس کی آواز گونجی ،سب بچے یکدم گھبرا گئے اور کلاس میں مکمل سناٹا چھا گیا ، میں پوچھتی ہوں کس نے یہ حرکت کی ہے ؟مس کی آواز ایک دفعہ پھر کلاس میں گونجی۔ جلدی بتاؤ ورنہ سب کی پٹائی کروں گی۔“
اچانک پیچھے سے ایک لڑکا کھڑا ہوااور کہا :” مس! فرحان نے یہ کاغذ کی گولی ربڑ میں رکھ کر ماری ہے۔ مس روبینہ ہوا کی تیزی سے فرحان کے پاس گئیں اور تین زناٹے دار تھپڑ اس کے منہ پر رسید کر دیے۔ بد تمیز تم سمجھتے کیا ہو اپنے آپ کو نہ سبق یاد کرتے ہو نہ پڑھتے ہو ،کلاس میں کبھی ٹائم سے نہیں آئے ،کلاس میں بیٹھ کر شرارتیں کرتے رہتے ہو۔ دفع ہو جاؤ کلاس سے!“
مس روبینہ غصے میں لال پیلی ہو رہی تھیں۔فرحان روتے ہوئے کلاس سے باہر نکل گیا۔مس روبینہ بھی سبق پڑھا کر دوسری کلاس کا پیریڈلینے چلی گئیں۔ساری کلاس میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔اب تو مس روبینہ اسکول سے ہی خارج ہو جائیں گی۔ فرحان کے ابو ایک سیاسی لیڈر ہیں۔ہو سکتا ہے کہ فرحان گھر جا کر نہ بتائے،اب تو مس کو فرحان سے معافی مانگنی پڑے گی۔کیا پتہ فرحان؛ مس کو خود ہی معاف کر دے ، کیونکہ غلطی تو فرحان کی ہی تھی۔سب بچے ایک دوسرے کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہہ رہے تھے میں چپ کر کے اپنی سیٹ سے اٹھا اور باہر جا کر فرحان کو سمجھانے لگا :”دیکھو فرحان مس روبینہ بہت اچھی ٹیچر ہیں غلطی تمہاری تھی جس کی تمہیں سزا ملی تم گھر جا کر کسی کو کچھ نہ بتانا اورمس روبینہ سے چل کر معافی مانگ لو۔“
نہیں یہ نہیں ہو سکتا ،مس نے مجھ پر ہاتھ اٹھا کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔ فرحان نے روتے ہوئے کہا اور گھر کی جانب چل دیا۔اگلے دن اسکول میں فرحان کی امی آئیں اور اپنا اثررسوخ استعمال کر کے مس روبینہ کو اسکول سے نکلوا دیااور ساتھ ہی مس روبینہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:”یہ ہمارا لاڈلا بیٹا ہے ہم نے آج تک اسے ڈانٹا نہیں اور تم نے صرف چھوٹی سی بات پر اسے تین تھپڑ رسید کر دیے جس کی سزا تمہیں نوکری سے خارج ہونے کی صورت میں ملی۔ “
میڈم جی! آپ کا ہی لاڈلا بیٹا ایک نہ ایک دن آپ کے لیے کوئی مصیبت کھڑی کرے گا آپ بجائے اسے سمجھانے کے اور بگاڑ رہی ہیں ،مس روبینہ یہ کہتے ہوئے اسکول سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلی گئیں ،جس کا ہمیں بہت افسوس ہوا کیونکہ ہم ایک اچھی ٹیچر سے محروم ہو گئے تھے۔ پانچویں جماعت تک فرحان میرے ساتھ پڑھتا رہا اور پھر پانچویں جماعت کے بعد وہ کسی اور اسکول میں چلا گیا وقت اپنی تیز رفتاری سے گزرتا رہا اور فرحان کا کوئی پتہ نہیں چلا۔
آج وہ میرے سامنے ہاتھوں میں ہتھکڑی پہنے کھڑا تھا۔ آخر طویل خاموشی کے بعد وہ مجھ سے مخاطب ہوا”یہ سب میری مما کی وجہ سے ہوا ہے “ کیا مطلب ؟میں نے اس کے چہرے پر نظریں جماتے ہوئے کہا:”مطلب یہ کہ میں نے جو قتل کیا ہے اور آج جس حالت میں تمہارے سامنے ہوں۔ اس مقام تک لانے میں میری ماں کا سارا کردار ہے۔ “
نہیں ،نہیں یہ نہیں ہوسکتا بھلا ماں اپنی اولاد کا برا کیسے سوچ سکتی ہے؟لیکن میری ماں نے میرا برا سوچا ،اس نے سنجیدہ لہجے میں کہا ،اگر میری ماں میری غلطیوں کو نظر انداز نہ کرتی تو آج میری حالت یہ نہ ہوتی ،ایک تو مس روبینہ کی بات بھی میری ماں اس وقت نہ سمجھ پائی اور پھر ……..
پھر کیا۔۔ ؟ میں نے سوال کیا؟پھر آہستہ آہستہ میں نے گھر کی چیزیں چرانا شروع کر دیں۔ سب سے پہلے میں نے اپنی امی کے پرس سے دس روپے چرائے۔ انہوں نے کچھ نہ کہا ،اگلے دن میں نے پچاس چرالیے۔ میری ماں نے کچھ نہ کہا۔ ایک دفعہ میں نے ابو کے پرس سے پانچ ہزا رچرالیے ،ابو نے دیکھ لیا اور ڈانٹنا شروع کر دیا۔ ابو کی آواز سن کر میری امی آگئیں اور مجھے سائیڈ پر کرتے ہوئے ابو سے جھگڑ نے لگی ، پھر کیا ہوا؟ اگر آپ کے بٹو ے سے پیسے لے لیے ہیں ،اتنا روپیہ آپ کے پاس ہے اگر کچھ لے لیے تو اس میں کون سی آفت آگئی؟ ابو نے بھی امی کو بہت سمجھایا لیکن مما نے ابو کی بھی بات نہ مانی ،پھر آہستہ آہستہ میں نے چوری کرنا شروع کر دی،دوست بھی مجھے برے ملے۔ ایک دو دفعہ پکڑا بھی گیا میرے ابو دل کا دورہ پڑنے سے اس جہاں سے چل بسے۔
لیکن امی نے کبھی مجھے میرے برے کاموں سے نہ روکا۔ میں آہستہ آہستہ عادی چور بن گیا ،کل رات چوری کرتے ہوئے لوگوں نے پیچھا کیا میں نے پکڑے جانے کے خوف سے فائر کر دیا جس سے ایک آدمی مر گیا۔ لوگوں نے گھیرا ڈال کر مجھے پکڑ لیا اور پولس کے حوالے کر دیا۔ اگر میری ماں نے مجھے اس وقت ہی ڈانٹا ہوتا جب میں نے مس روبینہ کو کاغذ کی گولی ماری تھی تو آج یہ نوبت نہ آتی نہ میں چور ہوتا نہ مجھ سے قتل ہوتا۔
میں جب گرفتار ہوا اور میری ماں کو پتہ چلا کہ میں نے قتل کیا ہے اور مجھے پھانسی کی سزا ملی ہے تو وہ یہ خبر سنتے ہی فوت ہو گئیں۔ میں اپنا پیغام سب والدین کو پہنچانا چاہتا ہوں کہ آپ سارے اپنی اولاد کی تربیت اچھے طریقے سے کریں ان پر کڑی نظر رکھیں ،میری ماں کی طرح غلطیوں کو نظر انداز نہ کریں،چھوٹی چھوٹی غلطیاں انسان کو چور قاتل ،ڈکیت تک بنا دیتی ہیں۔
میں اپنی بھیانک غلطیوں کی وجہ سے آج اپنا انجام دیکھ رہا ہوں ،یہ کہتے ہوئے فرحان پولس کی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہو گیا۔ اور میں وہیں مبہوت ہو کر رہ گیا کافی دیر بعد خود کو سنبھالا اور فرحان کی ایک ایک بات آج تک میرے کانوں میں گونج رہی ہے کہ ماں باپ کی بے انتہاء شفقت اور ہمیشہ غلطیوں سے نظر انداز کرنا اولاد کے لیے بے راہ روی کے رستے کھول دیتی ہے۔