”مس جینی“ کے قبول اسلام کی آپ بیتی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
”مس جینی“ کے قبول اسلام کی آپ بیتی
محمد ہارون معاویہ ، کراچی
حضرت مولانا سید عزیر گل رحمہ اللہ ،گاؤں کاکا خیل صوبہ خیبر پختونخواہ )پاکستان (کے رہنے والے تھے۔شیخ العالم حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ ) وفات 1339 ھ 1920ء(کے شاگردِ رشید اور ان کی شہرہ آفاق تحریک انقلاب )تحریک ریشمی رومال ( کے رکن تھے تحریک کے لیے آپ نے نہایت جاں گسل خدمات انجام دی ہیں۔جنہیں تاریخ کبھی بھی فراموش نہیں کر سکتی۔ آپ کو اپنے استاد کے ساٹھ مالٹا کے قید خانے میں اسارت کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔واپس لوٹے تو دیوبند ہی کے ہو رہے۔ مختلف چھوٹے چھوٹے کاروبار کر کے اپنی معاش کا انتظام فرماتے تھے ۔مزاج میں حد درجہ سادگی اور طبیعت میں استقامت تھی۔ مولانا محمود حسن رحمہ اللہ کی وفات کے کئی سال بعد ان کے جانشین شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ )وفات 1377ھ1957ء (کے مشورہ سے آپ” رڑکی“ منتقل ہو گئے۔
اسی زمانہ میں ایک انگریز خاتون”مس جینی“ جو روحانیت کی تلاش میں کئی مذاہب کا مطالعہ بلکہ عملی تجربہ کر چکی تھیں اور بالآخر قرآن کریم کے مطالعہ نے ان پر ہدایت کی راہیں کھول دیں تھیں۔حضرت مدنی رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اسلام کی قبولیت کاشرف حاصل کیا۔ان کا قیام چونکہ رڑکی میں تھا اس لیے حضرت مدنی رحمہ اللہ نے مولانا عزیر گل رحمہ اللہ سے فرمایا کہ وہ موصوفہ کو اسلامی تعلیمات سے برابر روشناس کراتے رہیں۔ کچھ عرصہ بعد موصوفہ کی خواہش پر مولانا عزیر گل نے ان کو اپنے حرم میں داخل کر لیا۔ رشتہ ازواج میں منسلک ہونے کے بعد ان کی دنیا ہی بدل گئی اور پورے طور پر شریعت کی پابند ہو کر انہوں نے سچا سکون حاصل کر لیا۔ آزادی ہند کے موقعہ پر جب مولانا عزیر گل نے وطن مراجعت کا قصد فرمایا تو موصوفہ بھی ساتھ آگئیں اور شہروں کی پر رونق عمارتوں میں رہنے والی اس خاتون نے حق کی خاطر ایک دورافتادہ معمولی سے گاؤں میں اپنے بلند پایہ شوہر کے ساتھ پوری زندگی گزار دی۔وہیں وفات ہوئی۔ گاؤں کے قریب ایک ٹیلہ پر ان کا مزار ہے۔وہاں کے لوگ شفقت ومحبت سے انہیں ”مدر صاحبہ“کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ افسوس کچھ عرصہ قبل تحریک ریشمی رومال کی آخری نشانی حضرت مولانا عزیزگل رحمہ اللہ نے بھی اس عالم فانی سے پردہ فرما لیا۔مدر صاحبہ نے اپنی آپ بیتی” صراط مستقیم “کے نام سے انگریزی میں لکھی تھی ذیل میں اس کی تلخیص پیش کی جارہی ہے۔ لکھتی ہیں:
”میں اپنے والدچارلس ایڈورڈاسٹیفورڈاسٹیل کی ساتویں لڑکی ہوں میں 1885ءمیں حیدرآباد سندھ میں پیداہوئی ،میرے والدصاحب بڑے انصاف پسند اور بات کے پکے انسان تھے۔ انہیں ہندوستان میں ہندوستانی لوگوں سے بڑا لگاؤ تھا کبھی کبھی تو وہ خود کو بھی” سندھی “ کہہ دیا کرتے تھے۔ہماری خاندانی نسبتیں بڑی عظیم تھیں مگر ہمارے والد کا کہنا تھا کہ شرافت کا معیار کردار ہے نہ خون۔بہر حال میں چھ سال کی ہو رہی تھی مجھے پڑھائی کے لیے انگلستان بھیج دیا گیا۔مجھے سچی بات سے ہمیشہ پیار رہا۔ میں ہر بات کا سبب کھوجنے کی کوشش کیا کرتی تھی۔ میرے دوست و احباب مجھے شفقت کی نگاہ سے” ککو“ کہا کرتے تھے کیوں کہ میں ہر بات میں ،کیا ؟کیوں؟اور کیسے؟ جیسے سوال کرنے کی عادی تھی۔
میں ایک عیسائی کنبہ میں پیدا ہوئی۔مگر عیسائی کسی ایک عقیدے میں بھی متفق نہیں ہیں۔عیسائیوں کے بہت سے فرقے ہیں جو ایک دوسرے کو ”جہنمی“ کہتے ہیں۔ اس لیے عیسائی مذہب مجھے گورکھ دھندا سا لگا۔میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ حضرت عیسی ٰ علیہ السلام خدا کے بیتے کیسے ہو سکتے ہیں۔؟مگر مجھے دعا سے بڑا شغف تھا اور میں اکثر اَن دیکھے مالک سے لَو لگا کر دعائیں کرتی رہتی تھی۔جب میں جوان ہو گئی تو میں نے بائبل کو تنقیدی نظر سے پڑھنا شروع کیا۔مجھے بائبل کے بہت سے بیانات ایک دوسرے سے متضاد محسوس ہوئے۔مجھے بائبل کے کلام خدا ہونے میں شک ہونے لگا ، کچھ عرصہ کے بعد میری شادی ہو گئی۔ میرے شوہر ایک دنیا دار عیسائی تھے وہ میرے فکر و خیال کے ساتھی نہ بن کسے۔اس لیے میں نے فرصت کے وقت میں فلسفہ کا مطالعہ شروع کر دیا۔ مگر ان خیالی بھول بھلیوں سے مجھے کچھ نہ ملا۔
انہیں دنوں میں اپنے والد کے پاس آئی۔میری بارہ سالی لڑکی اور دس سالہ لڑکا میرے ساتھ تھے ،یہاں مجھے ”ویدانت“ پڑھنے کا موقع ملا۔مجھے اس کے پڑھنے سے بڑی تسکین ملی،۔ مجھے محسوس ہوا کہ وہ چیزیں مل گئیں ہیں جن کی مجھے تلاش تھی ویدانت کے مطالعے نے مجھے” ہندو دھرم“ کے قریب کر دیا۔کچھ عرصہ کے لیے ایک ہندو خانقاہ میں مہمان بن کر رہی۔اور بالآخر ہندو ہو گئی۔مجھے” رانا شنکر“ کے ویدانتی سلسلے میں داخل کر لیا گیا۔مگر مجھے یہ شرک سا محسوس ہوا۔چنانچہ میرا یقین ہل گیا۔مجھے افسوس ہوا کے حقیقت ابھی اور آگے ہے۔
میں اسی زمانے میں بیمار ہو گئی۔مجھے علاج کے لیے فرانس جانا پڑا۔وہاں میرے سات آپریشن ہوئے ہر آپریشن پر موت سامنے کھڑی نظر آتی تھی۔ میں چاہتی تھی کہ موت کے لیے تیاری کر لوں،میں نے سوچا کے دنیا ترک کر دوں اور آخرت کی تیاری میں لگ جاؤں۔لہٰذا میں واپس جب ہندوستان آئی تو میں نے ”سنیاس“لے لیا۔میں نے ایک سو ساٹھ ”اپنشد “پڑھے،لیکن یہ کیا؟یہاں بھی بائبل کی طرح اَن گنت تضاد تھے۔ان میں کون سی بات حق ہے اور کون سی غلط؟یہ کیسے معلوم ہو؟ میں ایک بار پھر الجھ گئی۔مجھے خوف ہو گیا کہ اس ذہنی الجھن میں کہیں میں پاگل نہ ہوجاؤں ،مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ سنیاس سے میری روحانیت نہیں بڑھ رہی بلکہ نفسیاتی کشمش میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اسی زمانہ میں ہندوستان میں عدم تعاون کی تحریک چل پڑی۔ ہندوستانی ہندستانیوں سے لڑپڑے۔ الموڑہ بھی فسادات سے بچا نہ رہا۔اس وقت میرے دل نے کہا کہ یہ خانقاہ میں بیٹھ کر دھیان گیا ن کا وقت نہیں بلکہ نکل کر زخمیوں اور دکھیوں کی مدد کرنے کا وقت ہے۔میں نے اپنے گرو جی سے یہ بات کہی۔ مگر انہوں نے کہا کہ ہم لوگ دنیا دار نہیں ہیں۔تم جن باتوں کے کرنے کو کہہ رہی ہو یہ سیاست کی باتیں ہیں ہم ان باتوں میں نہیں پڑتے۔
مجھے ان کے سوچنے کے انداز پر حیرت ہوئی۔میں انہیں تو خانقاہ چھوڑ کر زخمیوں کی مدد پر آمادہ نہ کر سکی مگر میں خود خانقاہ سے نکل آئی اور میں نے زخمیوں، مریضوں اور دکھیوں کی مدد شروع کر دی جس سے دل کا چین ملا اور میں نے احساس کیا کہ روحانی ترقی انسانیت کی خدمت کے ذریعے حاصل ہوتی ہے،خانقاہوں کی زندگی سے نہیں۔چنانچہ میں نے ایک ”آشرم“ کھولنے کا فیصلہ کیا جس میں نوجوان کی اخلاقی تربیت کی جائے اس ”آشرم“ میں نے ہندومسلم کی قید نہیں رکھی۔
وہاں ایک مسلمان لڑکا داخلے کے لیے لایا گیا۔ یہ لڑکا اپنے والدین کے لیے مسئلہ بن گیا تھا۔میں نے سوچا کہ جب تک میں مسلمانوں کے نظامِ حیات کے بارے میں معلومات حاصل نہ کر لوں میں اس لڑکے کی تربیت کا حق ادا نہیں کر سکوں گی۔ اس نیت سے قرآن شریف پڑھنا شروع کیا۔
اب تک میں مسلمانوں سے ڈرتی تھی۔ میں سمجھتی تھی کہ مسلمان ایک قسم کے ڈاکو ہوتے ہیں جو ہر قسم کا ظلم کر سکتے ہیں۔لیکن اس کتاب نے میری آنکھیں کھول دیں۔یہ تو سراسر حق تھا اور دل میں اترتا چلا جاتا تھا۔آہ !میں اب تک کن اندھیروں میں تھی۔ افسوس کہ یورپی متشرقوں نے اسلام کی کتنی غلط تصویر پیش کی ہے۔وہ مذہب جسے میں خوامخواہ بھیڑیوں کا مذہب سمجھتی تھی مکمل سچائی کا مذہب تھا۔
میرے اللہ اب میں کیا کروں؟میں نے تو ساری زندگی اکارت کر دی ، میں نے سوچا میں ہندو ہی رہوں یا ہندو مت چھوڑ دوں۔۔۔ میں نے راہبانہ زندگی اختیار کر لی۔ یہ ایک طرح کی موت تھی۔
قرآن مجید مجھے زندگی کی طرف بلا رہا تھا۔ایسی زندگی کی طرف ،جوآخرت کی زندگی کی بنیاد بنتی ہے۔مگر مشکل یہ تھی کہ میں ایک مقدس خانقاہ کی راہبہ تھی۔لوگ مجھے پیار سے ماں کہتے تھے ،میں مسلمان ہو جاؤں گی تو دنیا کیا کہے گی؟
مگر میں اپنی روح خلجان سے بچانا چاہتی تھی میں نے لوگوں کے کہنے کی پرواہ نہ کی میں نے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔میرے گرو بھائی بڑے دہشت زدہ ہوئے، مگر میں نے انہیں بڑے خلوص سے بتایاکہ اصل ویدانت یہ ہے۔کہ جو میں قبول کر رہی ہوں۔میرے گرو بھائی نے کہا کہ یہ کام مسلمان ہوئے بغیر بھی جاری رہ سکتا ہے۔ویدانتی رہ کر بھی قرآن کی راہ اختیار کر سکتی ہو۔ یہ بھی ایک ویدانت کا ہی ایک سلسلہ ہو گا۔
لیکن یہ بات میرے دل میں نہ اتر سکی ،میں سمجھ گئی تھی کہ ”راما کرشن“ نے حقیقت کا راستہ اختیار نہیں کیا تھا بلکہ وہ خود ان کے ذہن کی اپج اور ایک بھرم تھا۔ہو سکتا ہے کہ کسی نام نہاد صوفی نے یہ بھرم دلا دیا ہو،میرے ہندو دوستوں نے مجھ سے کہا کہ میں اپنے آپ کو مسلمان نہ کہوں تو وہ مجھے آگرہ میں راما کرشن مشن کا ”مہنت“ بنا دیں گے۔
مگر مجھے دنیاوی لالچ نہ تھامجھے روح کے آرام کی ضرورت تھی اس لیے میں نے ان کی بات کو رد کر دیا۔مگر اب ایک اورمشکل پیش آئی،مسلمانوں نے مجھے ماننے سے انکار کر دیا۔وہ یہ کہتے تھے کہ یہ ہمیں ہندوبنانے کے لیے نیا روپ اختیار کر رہی ہے۔میں خود شبہ میں پڑگئی۔ میں قرآن کو اپنا ہادی اور رہنما مان رہی تھی تو کیا یہ بات مسلمان ہونے کے لیے کافی نہ تھی۔
اپنے دل کی بے قراری کو دور کرنے کے لیے میں ”دیوبند “ گئی۔میری لڑکی میرے ساتھ تھی ہم دونوں بے پردہ تھیں۔ہم نے مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ سے ملاقات کی۔کہ اپنی بات ان کے سامنے رکھی اور پوچھا کیا ہم مسلمان نہیں ہیں۔؟
تم حقیقتاً مسلمان ہومولانا نے ایک زور دار قہقہہ لگا کر کہا کہ تمہیں اس میں شک کیوں ہے؟مولانا مدنی رحمہ اللہ کی عظمت ہم دونوں کے دل میں بیٹھ گئی۔ انہوں نے ہماری بہت خاطر کی۔بعد کو وہ مجھ سے ملنے منگلور بھی آئے تھے۔انہی کے ساتھ مولاناعزیر گل بھی تھے مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ انہیں بہت چاہتے تھے ایسا لگتا جیسے وہ دو دوست لڑکے ہوں۔وہ ایک دوسرے سے معصوم مذاق کرتے،ایک دوسرے کی ہنسی اڑاتے، وہ کبھی کبھی ایک دوسرے کو چڑاتے بھی تھے۔مجھے ان کی محبت پر رشک ہوتا تھا۔وہ دن بھر ہمارے پاس رہے۔جب وہ چلے گئے تو میں نے مولانا مدنی رحمہ اللہ سے کہا کہ وہ پھر تشریف لائیں۔اس پر انہوں نے کہا کہ میں تو زیادہ نہ آسکوں گامگر مولانا عزیر گل کبھی کبھی آیا کریں گے۔چنانچہ مولانا عزیزگل آتے رہے۔میں ان سے پردہ اور دوسرے مسائل پر بے جھجک بات چیت کرتی رہی۔
شروع میں میں یہ سمجھتی تھی کہ یہ مولوی بڑے تنگ نظر ہوتے ہیں۔مگر بعد کو پردہ کی حقیقت مجھ پر کھلی تو ان کی وسعت نظر کی قائل ہو گئی۔
یہاں میں اسلام کے مطالعہ میں لگی ہوئی تھی کہ اچانک میرے شوہر کا خط آیا کہ اگر فورا ًانگلستان نہ لوٹی تو وہ مجھے خرچ دینا بند کر دیں گے۔بچوں کی تعلیم کا خرچ مجھ سے وصول کریں گےاور مجھ سے تعلق توڑ لیں گے۔اس پر مجھے تعجب ہوا نہ افسوس، میں مسلمان ہو چکی تھی۔اب میں کسی عیسائی کی بیوی کیسے رہ سکتی تھی۔رہا رزق تو یہ اللہ کی دَین ہے۔کم یا زیادہ ملے گا ہی۔
مولانا عزیر گل کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے میرا ہاتھ تھامنے کی پیشکش کی۔میں نے بڑے احترام سے اس پیشکش کو قبول کیا۔میں جانتی تھی کہ ان کے ہاں غربت ہے،افلاس ہے ،پردہ ہے،مگر میرے لیے تو یہی اللہ کی پسندیدہ جگہ تھی۔ عزیر گل کے گھر میں سیکھا کہ خود بھوکے رہ کر مہمان کی تواضع کرنے میں کیا لذت ہے۔؟ عزیر گل کے گھر میں مجھے زندگی کی حقیقی راحت ملی۔وہ نہایت شریف شوہر ثابت ہوئے۔
یوں بھی وہ سید ہیں اور انہوں نے سیادت کی لاج رکھی ہے۔ان کے اجداد عرب سے افغانستان اور افغانستان سے ہندوستان آگئے تھے اب ہم دونوں راہ حق کے مسافر تھے اورراہ حق کی مسافرت میں مشرق و مغرب کیسے۔ہماری راہ ایک تھی،ہماری منزل ایک تھی،ہماری روحیں ہم آہنگ تھیں۔ہم دونوں اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کا ارادہ لے کراٹھے تھے۔مجھے خوشی ہے کہ اس راہ میں میری بیٹی اور میرا بیٹا اور میرا بھائی سب مجھ سے ہمدردی کرتے تھے۔ انہوں نے مجھے حق کی راہ میں قدم بڑھانے سے نہیں روکا۔
میری زندگی ایک سفر ہےجو برسوں کی محرومیوں سےگزر کر اسلام کی حسین وادی میں ختم ہو رہا ہے۔زندگی تو موت کے بعد بھی چلتی رہے گی۔میری راہ اسلام کی راہ ہے۔یہی ایک سیدھی راہ ہے۔اس کے علاوہ ہر راہ کج ہےاور انسان کو اللہ کی راہ سے بہتر راہ نہیں مل سکتی۔خدا کرے کے میں جب تک زندہ ہوں اسی راہ پر چلتی رہوں۔پھر اس راہ سے بھاگوں بھی تو بھاگ کر کہاں جاؤں گی۔ مجھے اللہ نے پیدا کیا ہےمجھے لوٹ کر اسی کی طرف جانا ہے۔لاالہ الاللہ محمد رسول اللہ“