تحصیل علم کا 6 نکاتی فارمولہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تحصیل علم کا 6 نکاتی فارمولہ
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ سرپرست مرکز اصلاح النساء 87 جنوبی سرگودھا نےمورخہ 31- اگست 2012 بروز ہفتہ کو دوسالہ عالمہ فاضلہ کورس کی افتتاحی تقریب سے پرحکمت بیان کیا اور مرکز اصلاح النساءمیں تشریف لانے والی بچیوں کو چند قیمتی نصائح ارشاد فرمائیں افادہ عام کی غرض سے ماہنامہ بنات اہل السنت میں اس کو پیش کیا جارہا ہے۔ ادارہ
خطبہ مسنونہ: قال اللہ تعالیٰ: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا۔
[سورۃ الاحزاب: 40]
مرکز اصلا ح النساء87جنوبی سرگودھا میں دو سالہ فاضلہ کورس کا آج افتتاح ہےمیں نےگزشتہ ”صراطِ مستقیم کورس “ اور” دورہ تحقیق المسائل“ کی بچیوں سے چند گزارشات کی تھی اور آپ سے سامنے بھی چند معروضات پیش کرنی ہیں ، کامل توجہ اور انہماک سے سماعت فرمائیں اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق دے۔ آمین
پہلا نکتہ :
آپ اس کورس کی طالبات ہیں، یہ پہلا کورس ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً فَعُمِلَ بِهَا كَانَ لَهُ أَجْرُهَا وَمِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا لَا يَنْقُصُ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا۔
[سنن ابن ماجۃ: رقم الحدیث 199]
کہ جو شخص ایک نیک کام شروع کرے، اس نیک کام کا اجر اسے بھی ملتا ہےاور جو اس پرعمل کرے اس کا اجر بھی اس کو ملتا ہے اور ان کے ثواب میں کچھ کمی نہیں آتی۔ اس لئے آپ نہایت ہی سعادت مند اور خوش قسمت بچیاں ہیں کہ آپ فاضلہ کورس کی پہلی طالبات ہیں۔ لہٰذا قیامت تک جتنی طالبات یہ کورس کریں گی ان سب کا اجر ان شاء اللہ آپ کو بھی ملے گا۔چونکہ آپ پہلی طالبات ہیں اس لیے یہ ذہن میں رکھیں کہ کسی بھی عمارت کی بنیاد جس قدر مضبوط اور اچھی ہو عمارت بھی اسی قدر اچھی اور مضبوط بنتی ہے۔ اگر بنیادیں کمزور ہوں تو عمارت کمزور ہوتی ہے۔ تو ہمارے عالمہ فاضلہ کورس کی آپ پہلی بچیاں ہیں جو بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں۔
دوسرا نکتہ :
استادیا استانی اس کی حیثیت ماں باپ کی ہوتی ہے طالبات اور طالب بیٹی اور بیٹے کی حیثیت ہوتی ہے۔ آپ اس ادارے میں ایک بات ذہن میں رکھ کر پڑھیں کہ جو استانیاں ہیں وہ ہماری مائیں ہیں اور جو اساتذہ ہیں وہ ہمارے باپ ہیں ،تو استاد کا ادب باپ کی طرح کریں،اور استانی کا ادب ماں کی طرح کریں۔ استانی اور استاد کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنی شاگردوں اور پڑھنے والی طالبات کو بیٹیوں کی طرح رکھیں۔بیٹی کی طرح خیال کریں تو تب فائدہ ہوتاہے۔ اگر بیٹیوں کی طرح نہ رکھیں تو فائدہ کم ہوتا ہے۔استاد اورشاگرد کے درمیان تعلق باپ اور بیٹے کا ہوتا ہے۔ والدین کے ذمہ اولاد کی تربیت ہوتی ہے اور اولاد کے ذمہ اپنے باپ کی خدمت اور گھر کو سنبھالنا ہوتا ہے۔
تیسرا نکتہ :
تیسری بات یہ ذہن نشین کرلیں جس مدرسہ میں پڑھیں اس مدرسہ کی حیثیت اپنے گھر کی ہوتی ہے جتنا آپ اپنے گھر کا خیال رکھتی ہیں اس سے بڑھ کر آپ مدرسہ کا خیال رکھیں۔ اس لئے کہ گھر صرف گھر ہوتا ہے وہاں انسان کی جسمانی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔ مدرسہ انسان کی روحانی ضرورتیں پور ی کرتا ہے۔ گھر صرف دُنیوی امور کے لئے ہے اورمدرسہ دُنیوی بلکہ دُنیوی سے بڑھ کر اخروی امور کے لئے ہے۔ اس سےدنیا بھی بنتی ہے اور آخرت بھی بنتی ہے اور جس سے دنیا اور آخرت دونوں بنیں پھر اس کا حق زیادہ بنتاہے ،اس لئے مدرسہ کا خیال گھر سے زیادہ رکھیں۔ مدرسہ کو صاف رکھنا ،مدرسہ کے دروازوں کا کھڑکیوں کا دیواروں کا ،فرش کا خیال رکھنا یہ با لکل طالبہ اور بچی کے ذمہ ضروری ہوتا ہے۔ یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں مجھے اس بات پر شدید دکھ ہوتا ہے جب یہ پتہ چلے فلاں بچی مدرسہ کا،چیزوں کا ، صفائی کا خیال نہیں کرتی۔ مجھے امید ہے آپ لوگ میری توقع پر پورا اتریں گی۔بعض خواتین کا مزاج ہوتا ہے وہ ہمیں فرماتیں بھی رہتی ہیں کہ مدرسے میں صفائی کے لئے عورتیں رکھ لیں، لیکن ہم سمجھتے ہیں عورتیں رکھنے کی بجائے پڑھنے والی بچیوں کو مدرسےکی صفائی کا خیال رکھنا چاہیے۔
چوتھا نکتہ:
یہ ذہن نشین فرمالیں کہ آپ آئی ہیں یہاں پڑھنے کے لئے اور پڑھنے کا اصل مقصد عمل ہے۔ اگر انسان کے پاس علم اور عمل نہ ہو یہ آدمی کی بہت بڑی نالائقی ہے اور بہت بڑی کمزوری ہے۔ابھی سے نیت کریں کہ جو ہم پڑھیں گی ان شاء اللہ اس پر عمل کریں گی اور جوپڑھیں گی اس کو پھیلانےکا اہتمام بھی کریں گی ان شاءاللہ۔ان دوباتوں کا خیال رکھنا ہے: :(1)اپنے علم کو اپنے عمل میں لانا ہے۔
(2): اپنے علم کو آگے پھیلانا ہے اور پھیلانا بھی شریعت کےمطابق حدود کے اندر، مستورات کی ترتیب کےمطابق ہے۔
پانچواں نکتہ:
آپ تشریف لائی ہیں علم سیکھنے کے لئے اور علم سیکھنے والوں کا معاملہ جاہلوں سے الگ ہوتا ہے۔ آپ کا اٹھنا،بیٹھنا ،چلنا پھرنا ،آنا جانا تمام بچیوں سے الگ ہونا چاہیے۔صاف طور پر پتہ چلے کہ یہ بچی ”مرکز اصلاح النساء“ سے پڑھ کر آئی ہے۔ چادریں ہیں تو ان کو ختم کریں اوربرقعے کا اہتمام کریں۔ ٹوپی والا برقعہ ہو توبہت اچھی بات ہے۔ ٹوپی والا نہ ہو توکالا برقعہ پہنیں لیکن پردےکا بھر پور اہتمام کریں۔برقعے میں اس بات کا بہت خیال کریں کہ برقعہ ایسا پہنیں جسے دیکھ کر نامحرم اجنبی شخص مائل نہ ہو،مطلب بر قعہ پرکڑھائی ،موتیوں اورنگوں کا کام نہ ہو ،برقعے کا مطلب سادگی اور پردہ ہے۔ برقعہ ایسا ہو یہ اندازہ نہ ہو کہ کس عمر کی خاتون ہے، لہٰذا اس کا بہت اہتمام کریں کہ برقعے سادے ہوں۔ اس کا خیال رکھیں کہ گھر سے مدرسہ اور مدرسہ سے گھر آتے جاتے راستہ کے ایک طرف چلیں، دائیں بائیں قطعاً نہ دیکھیں ، راستے میں کھڑی نہ ہوں ،ہاتھ دستانوں میں رکھیں، اگر دستانے نہیں ہیں توچادر میں ہاتھ چھپالیں کوشش پوری کریں کہ پاؤں کے ناخن سے لے کر سر کے بال تک کوئی حصہ نظر نہ آئے اس کا بھر پور خیال کریں۔ کیونکہ آپ علم سیکھنے کے لئے آئی ہیں اورعلم سیکھنے والوں کا اندا ز عام لوگوں سے مختلف ہوتا ہے اس کا آپ نے خیال کرنا ہے۔
چھٹا نکتہ:
یہ ذہن نشین فر ما لیں کہ آپ یہا ں پڑھنے کے لئے آتی ہیں۔ جبر کے ساتھ نہیں آئیں بلکہ اپنی رضا کے ساتھ آئی ہیں۔ آپ خوشی سے آئیں ہیں اب خوشی سے پڑھیں۔ مدرسہ کے نظام کی، مدرسے کے نصاب کی غرض ہر چیز کی پابندی کریں،مدرسے میں بندہ اپنی خوشی سے آتا ہے اس پر مدرسہ کے قوانین پر عمل کرنا ضروری ہو جاتا ہے ،مدرسہ کے قوانین کا خیال کرنا چاہیے۔یہ بات بڑی خصوصیت سے سمجھیں کہ اسلام میں داخل ہونے کے لئے شریعت کوئی جبر و اکراہ نہیں کرتی۔ قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
”لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ“
[البقرۃ:256]
دین کو قبول کرنے میں کوئی جبر نہیں مگر جس بندے نےدین قبول کر لیا اس بندہ پر شریعت پر عمل کرنے کے لئے جبراور پابندی ہوتی ہے۔ آدمی کلمہ نہ پڑھے شریعت مجبور نہیں کرتی لیکن قبول کرنے کے بعد مرتد ہوجائے تو شریعت کہتی ہے اس کی گردن اڑا دو ،اس نے کیوں ارتداد اختیار کیا ہے؟!
مسلمان وزیر کی حکمت عملی :
تاریخ میں لکھا ہے ایک وزیر تھا اس کا ایک عیسائی دوست تھا اس وزیر نے کہا تم کلمہ پڑھو اور مسلمان ہوجاؤ عیسائی نے کہا میں کلمہ اس لئے نہیں پڑھتا کہ میں شراب نہیں چھوڑ سکتا وزیر نے کہا یار ہم تمہارے دوست ہیں اسلام قبول کرو کوئی بہتر حل نکال لیں گے عیسائی نےکلمہ پڑھ لیا اور مسلمان ہو گیا ،وزیر نےکہا پہلے تم صرف دوست تھے اب ہمارے مسلمان بھائی ہو اب تم شراب دوبارہ نہیں پی سکتے۔ اس نےکہا کیوں؟ اس نے کہا اب ہم کوڑے ماریں گے وہ بولا اس جبر سے ڈرتا تھا تم نے مجھے ایسے کیوں کہا۔ اب وزیر کا جواب سنو ،وزیر نے کہا اسلام قبول کرنے کے بعد تم مرتد ہو گئے تو تمہارا سر قلم کر دیں گے اور اگر تم نے مسلمان رہتے ہوئے شراب پی تو کوڑے ماریں گے،تمہاری مرضی کوڑے کھاؤتمہاری مرضی قتل ہو ،تمہاری مرضی اسلام پر چلو اور جنت میں چلے جاؤ۔خیر اس عیسائی نے جو مسلمان ہوا تھا شراب بھی چھوڑ دی،اور اسلام پر بھی رہا۔بڑی حکمت عملی کے ساتھ پہلےوزیر نے اس کو کلمہ پر لایا ،پھر اس سے شراب چھرائی اور پھر اس کو پکامسلمان بنا دیا۔
میں یہ مثال اس لیے دے رہاتھا کہ مدرسے میں آنے پر جبر نہیں لیکن جب آ جائیں مدرسے میں رہیں تو پھر قوانین پر عمل کرنا ضروری ہے۔ آپ اس کو اپنے اوپر بوجھ محسوس نہ کریں۔ ایک مثال دیتا ہوں۔ دیکھیں شریعت میں نکاح کرنے پر جبر نہیں، کسی خاتون پر کوئی جبر نہیں کہ ضرور نکاح کرے،والد کےلئے اس کی رضا مندی شرط ہوتی ہے ،بغیر رضا مندی کے والدین بھی نکاح نہیں کرسکتے ،لیکن اگر وہ رضا مندی سے نکاح میں آجائے،اب نکاح میں آنے کےبعدشوہر کی اطاعت ،اس کی خدمت، اس کے بعد بچے یہ سب اس کی ذمہ داری ہے۔ اب وہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ میں کام نہیں کرتی۔ آنے سےپہلے یہ خیال کرنا چاہیے تھا۔
علم؛ نبی کی میراث ہے :
ایک بات عرض کرتا ہوں آپ یہاں چونکہ علم حاصل کرنے کے لئے آئیں ہیں،اوریہ علم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وارثت ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آپ وارث بننے آئیں ہیں۔ جو دین کا علم حاصل کرتا ہے وہ خاتم الانبیاء کا وارث ہے انسان کتنا فخر کرتا ہے کہ میرا باپ زمین دار تھا، میرے باپ کی فیکٹری تھی، اب یہ مجھے وراثت میں ملی ہے۔آپ کل فخر کریں گی اور اس پر اللہ کا شکر ادا کریں گی کہ مجھےوراثت میں اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا علم ملا ہے ،اپنے نبی کی وراثت علم والی لینی ہے۔علم کا ہر انسان محتاج ہوتا ہے ،جوں جوں علم پڑھتے جائیں ویسے ہی انسان پر علم کی حکمتیں کھلتی جاتی ہیں۔
آخری گزارش:
آپ سے آخری گزارش کرتا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”
أَنَّ أَحَبَّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ أَدْوَمُهَا وَإِنْ قَلَّ “
[صحیح البخاری: 6464]
اللہ تعالیٰ کے ہاں محبوب عمل وہ ہوتا ہے جو ہمیشہ کے لئے کیا جاتا ہے اگرچہ وہ تھوڑا ہو۔ آپ نے اہتمام کرنا ہےکہ سال بھر میں کوئی غیر حاضری نہ ہو، ہم نے ان شاء اللہ اس کا اہتمام کرنا ہےکہ جس بچی کی پورے سال میں ایک بھی غیر حاضری نہ ہوئی ہم اس کو مستقل انعام دیں گے۔ اول ،دوم ،سوم کا انعام الگ ہوگا چھٹی نہ کی اس کا الگ ہوگا ان شا ءاللہ۔ اور اگر کوئی بچی اخلاق اور مدرسہ کے خدمت کے حوالے سے اچھی کار کردگی پیش کرے گی ہم اس کا انعام الگ دیں گے۔ مجھے امید ہے میں نے آپ کے سامنے جو چند گزارشات رکھی ہیں آپ نیک نیتی سے اس پر عمل کریں گی۔